Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ملن نائی

اشرف صبوحی

ملن نائی

اشرف صبوحی

MORE BYاشرف صبوحی

    ملّن نائی بچارے کی روح نہ شرمائے بڑے مزے کا آدمی تھا۔ اوزاروں سے زیادہ اس کی زبان چلتی تھی۔ یوں تو سارے نائی باتون ہوتے ہیں۔ شیخ سعدی نے بھی گلستان میں ان کی تعریف میں ایک حکایت لکھ ڈالی ہے۔ الف لیلہ میں بوبک حجام کا قصہ پڑھا ہوگا۔ مگر اس کے انداز سب سے نرالے تھے۔ پیشے کے لحاظ سے اس میں کوئی خوبی نہ تھی۔ مگر اس کے سوا شاید اسے کچھ نہیں آتا تھا۔ دادا کے وقت کی کِسوت۔ دقیانوسی استرے، کسی کا دستہ گھُن کھایا ہوا، کسی کا پھل زنگ آلود۔ وہ بھی آدھا۔ قینچیاں بھی ایسی ہی کُھنڈی بال کاٹنے کی مشین دیکھو تو اِنجر پنجر ڈھیلے۔ پیتل کی کٹوری کے بدلے بال پڑی کنارے ٹوٹی ایک چھوٹی سی چینی کی پیالی۔ صابن اوّل تو کون رکھے اور رکھا بھی تو کپڑا دھونے کے صابن کی کرچ۔ کنگھے میں گنتی کے دانتے۔ میل سے اٹا ہوا۔ صورت پر نحوست برستی۔ ایسی حالت میں بھلا کوئی شریف اِس کے آگے سرجھکانا یا کسی اجلے پوش کی شامت آئی تھی کہ اپنے کلّوں پر ہاتھ پھرواتا۔

    لیکن ہم نےمَلّن کی جوانی بھی دیکھی ہے۔ باپ کے مرنےکے بعد یہ ایسا گھس کھُدانہ تھا۔ سیتارام کے بازار میں مرغوں والی گلی کے سامنے آپ نے بڑے ٹھاٹ کی دُکان کھولی تھی۔ میں نے پہلے پہل وہیں ان کی زیارت کی۔ خط بڑھ گیا تھا۔ صاف سُتھری دکان دیکھی، ٹھوڑی میں کھجلی ہونے لگی۔ آہستہ آہستہ قریب پہنچا۔ ‘‘آئیے بابو صاحب شیو بنائیے گا۔ آپ کے لائق جگہ ہے۔ تشریف لائیے۔’’

    میں: بھئی تم تو ابھی لالہ کو مونڈ رہے ہو۔

    مَلّن: اب دو ہاتھ میں انھیں مونڈا۔ آپ اتنے آرام کریں۔

    میں بیٹھ کر سیر دیکھنے لگا۔

    مَلّن: لالہ ہوشیار ہوجاؤ میں اب ہاتھ چلاتا ہوں۔ میاں بیٹھے ہیں۔ پہلے ہی دہلے میں لالہ کے کلےّ پر چرکا دیا۔

    لالہ: (جھجک کر) رام رام۔ ارے یار یہ کیا کیا۔

    ملّن: کیا ہوا؟ سیدھے کیوں نہیں بیٹھتے۔ (اتنے میں دوسرا چرکا تھوڑی پر لگا)

    لالہ: خلیفہ تم تو کوئی بڑے اناڑی ہو۔ بھلی حجامت بنائی۔

    ملّن: تمھیں بھی تو اچک دم کی بیماری ہے۔ استرا ہی تو ہے بہک گیا۔

    مجھے اس کی باتوں پر ہنسی آگئی۔ فرمانے لگے، میاں نائی کے سامنے بڑے ادب قاعدے سے بیٹھنا چاہیے۔ جب تک بنّوٹ کے دانو یا نہ ہوں استرے کی زد سے بچنا آسان نہیں۔ بچارے بادشاہی بال بروں (باربر) سے اصلاح بنوائی کیا جانیں۔

    میں: کیا حجامت بنوانے کےبھی قاعدے ہیں۔

    ملّن: جی قاعدے ہی نہیں بلکہ چہرہ مہرہ بھی ہونا چاہیے۔

    میں: اچھا!

    اتنے میں لالہ اپنے زخمی چہرے پر ہاتھ پھیرتے اور مَلّن کو بُرا بھلا کہتے چلے جاتے ہیں۔

    مَلّن: جی ہاں نہیں تو استرا کاٹ کھاتا ہے۔

    میں: یہ تو جو اس غریب کو تم نےزخمی کردیا۔ تمھارا اناڑی پن نہیں؟

    ملّن: (استرے کو پتھری پر لگاتے ہوئے) میرا اناڑی پن تو جب ہوتا کہ اس کی چیشٹا درست ہوتی۔ خپ چوں ٹھوڑی کلے پھولے ہوئے۔ کہیں سے اونچا کہیں سے نیچا۔ استرے نے دو چار جگہ ٹھوکر کھائی۔ اچھا آپ آئیے بسم اللہ۔ اوزار تیار ہیں۔

    میں: (ہچکچاتا ہوا آگے بڑھ کر) یار میری صورت دیکھ لو۔ ٹھیک ہے نا۔ کیںا تمھارا استرا ٹھوکر کی نہ لینے لگے۔

    مَلّن: توبہ توبہ۔ استرے کو توڑدوں۔ دیکھیے تو سہی۔ نیند آجائے تو کہیے (ٹھوڑی کو پانی لگاتے ہوئے) میاں ڈاڑھی بنانا تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ خط کی اصلاح بڑی استادی کا کام تھا۔ سو میاں میرے، اصلاح تو شہر آبادی کے ساتھ گئی۔ اصلاح بنوانے والے نہ رہے تو بنانے والے کہاں رہتے۔ انگریزی راج نےبڑے بڑے مردوں کو زنانوں میں ملا دیا۔ جسے دیکھو انگریزوں کی ریس میں کلّا سوفَ تعلمون۔

    میں: (بات کاٹ کر) ارے بھئی یہ تو بتاؤ دلّی والوں نے ڈاڑھی کب سے منڈانی شروع کی؟

    مَلّن: بابو جی۔ یہ تو آپ نے بڑی ٹیڑھی بات پوچھی۔ یہاں میں نے بھی کان پکڑے۔

    میں: اپنے بڑوں سے سنا تو ہوگا۔

    مَلّن: بڑے اپنے حسابوں دیکھے کس نے ہیں۔

    میں: کیوں کیا یتیم پیدا ہوئے تھے؟

    مَلّن: واہ سرکار واہ! یتیم کیوں پیدا ہونے لگا تھا۔ مگر بڑوں کو بڑا کس نے سمجھا۔ باوا دادا کی سنی کس نے؟ خدا کی شان ہے مَلّن اور کِسوَت سنبھالے!

    میں: تو بھئی تم بگڑے ہوئے حجام ہو؟

    مَلّن: ہاں میاں اب تو حجام ہوں۔ مگر بگڑا ہوا نہ کہیے۔ تھوڑے دنوں ہوا لگ گئی تھی۔ بات یہ ہے کہ نوابی بھی کرکے دیکھ لی۔

    میں: بھئی بگڑا ہوا حجام میرے منہ سے غلط نکل گیا۔ بگڑے ہوئے نواب کہنا چاہتا تھا۔

    مَلّن اجی نواب کیا شہزادہ۔ بلکن جو میں نے اس شہر میں مزے اڑائے ہیں۔ شہزادے کیا کھاکر اڑائیں گے۔ ساری چاوڑی میں مَلّن ہی مَلّن کے گیت گائے جاتے تھے۔

    میں: کیا کہنا! پھر یہ دُکان کب کھولی؟

    مَلّن: جب جیب خالی ہوگئی۔ جوانی کا نشہ اترتے ہی۔

    میں: اچھا کسی پر عاشق بھی ہوئے۔

    مَلّن: حضّت عاشق ہونے کی نہ پوچھیے (ٹھنڈا سانس لے کر) آپ کہیں گے مَلّن بڑا شیخی خورا ہے۔ مگر ۔۔۔بس یہ سمجھ لیجیے کہ اس عاشق مزاجی نے دنیا بھر کی خاک چھنوائی۔

    میں: کیا مطلب؟

    مَلّن: اجی ہزاروں روپے خاک میں ملادیے۔ دکن گیا۔ بنگالے میں گاؤں گاؤں پھرا۔ کامروپ دیس کی ٹھوکریں کھائیں۔

    میں: بڑی بڑی سیریں کیں! معشوقوں کے پیچھے پیچھے گئے ہوگے؟

    مَلّن: وہ تو دلّی سے کہاں جاتی؟ یہیں رہی۔

    میں: پھر تم کس فراق میں دیس دیس پھرے۔

    مَلّن: سرکار آپ بھی ماشاء اللہ بڑے بھولے ہیں۔ وہ ایک لکھ پتی لالہ کی نوکر تھی۔ مَلّن ٹھہرا نائی۔ وہاں دال کیا گلتی۔ لیکن دل آیا ہوا برا ہوتا ہے۔ دوسرے مجھے جھونجل آگئی کہ جسے مَلّن چاہے وہ اور کے ساتھ عیش اڑائے۔ پہلے تو اپنی ہٹویتوں سے کام لیا۔ جب وہ سامان ہی میں نہ آئی اور معاملہ بکٹ ہوتا چلا گیا، تو حضّت مرتا کیا نہ کرتا سفلی گروں کی تلاش ہوئی۔ شہر کا چپہ چپہ کھوند ڈالا۔ بیسویں جادوٹونے کرنے والے ملے پر جس کی دم اٹھائی مادہ۔ جسے پایا ٹھگ۔ آخر لگی بُری ہوتی ہے۔ اسے اور اس کے لالہ کو نیچا دکھانا تھا گھر سے نکل کھڑا ہوا۔

    میں: ٹھوڑی گھسے کب تک جاؤگے کلوں کو رگڑتے رگڑتے تم نے تو جھانواں بنادیا!

    مَلّن: سرکار کھونٹیوں کے اندر پانی اتار رہا ہوں۔

    میں: صابن نہیں لگاتے!

    مَلّن: صاحب لگانے کے وقت پر صابن بھی لگاؤں گا۔ مگر آج تو مَلّن کا کمال دیکھیے۔بغیر صابن کے آئینہ کردوں گا۔

    میں: اچھا پھر گھر سے چل پڑے۔ جادوں گروں کی تلاش میں پہلے کہاں گئے؟

    مَلّن: قصہ تو بہت لمبا ہے۔ ایک برس کی ٹھوکریں کھائیں۔ پورے ایک برس روپے کا کھلیان ہوگیا۔ کلکتہ میں پتا لگاکہ کامروپ دیس میں بڑے بڑے جادوگر بستے ہیں۔ ایسے ایسے کہ آدمی کو مکھی بنادیں۔ جو بیماری کہو لگ جائے۔ جس کو چاہیں مار ڈالیں۔ یہاں بیٹھے بیٹھے ایسی موٹھ ماریں کہ انسان پڑا رنجھا کرے۔

    میں: کیا یہ سچ ہے تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

    مَلّن: واہ حضّت دیکھنے کی ایک ہی کہی۔ اجی اپنے ہاتھوں سے یہ سارے کام کیے لیکن محنتیں بھی وہ کیں کہ خُدا یاد آگیا۔ لونا چماری اگیا بیر، بھوت ناتھ کالی مائی سب کی بھینٹیں چڑھائیں۔ پھر پھل بھی ملا۔ استاد کی دعا سے توبہ ہے، اس وقت آپ کے شہر میں مَلّن ہی مَلّن ہے۔

    میں: تو دو چار۔ انچھر تمھیں بھی آتے ہیں۔

    مَلّن: (کانوں کو ہاتھ لگاکر) دوچار انچھر! توبہ کرکے کہتا ہوں۔ میرا کاٹا پانی نہیں مانگتا۔ کسی کے پاس ایک چیز ہوگی۔ یہاں بیسیوں اور سب ایسی تیز جیسے استرے کی دھار (استرا چلانا شروع کردیا تھا۔ ہاتھ چلانے میں دھیان جو بہکا تو کان کی لو میں چر کا لگ گیا۔)

    میں: ارے کان کاٹ دیا (کان کی لو کو ہاتھ جو لگایا تو خون، عجب اناڑی آدمی ہو۔

    مَلّن: کچھ نہیں ہوا بابو جی۔ آپ کے کان کی لو ذرا زیادہ لٹک آئی ہے۔ بری معلوم ہوتی تھی۔ میں نے سوچا اس کا سکڑ جانا ہی اچھا ہے۔ غصہ تو بہت آیا۔ مگر کیا کرتا۔ ضبط کیا اور ہنسی میں ٹال دیا۔

    مَلّن: میاں نائیوں کو لوگوں نے ذلیل سمجھ لیا ہے۔ ہم تو اگلے وقتوں میں حکیموں کے داہنے ہاتھ تھے۔ حکیموں کے برابر ہماری عزت تھی۔ بادشاہوں نے ہمارے آگے سر جھکائے ہیں۔

    میں: (ہنس کر) کیوں نہیں۔ اچھا تو وہ قصہ پورا کرو۔

    مَلّن: بس سرکار قصہ وصہ کیا جو ہونا تھا ہوگیا۔

    میں: لالہ کو نیچا دکھادیا۔

    مَلّن: اجی ایک لالہ کیا نہ جانے کتنے چکر بھنّی بن گئے۔ جادو میں بڑی طاقت ہے۔

    میں: جادو واقعی کوئی چیز ہے؟

    مَلّن: آپ نے خوب کہی۔ سرکار نے سنا نہیں، جادو برحق ،کرنے والا کافر ہے۔

    میں: اب بھی کچھ کرتے کراتے ہو یا چھوڑ چھاڑ دیا۔

    مَلّن: یہ چسکا کہیں چھوٹتا ہے۔ اور پھر میں تو کبھی کا چھوڑ دیتا۔ لوگ بھی چھوڑنے دیں۔ رات ہی کو ایک صاحب آکر سر ہوگئے مرگھٹ جانا پڑا۔ لینا ایک نہ دینا دو۔

    میں: کیوں؟ کچھ ملا نہیں۔ کوئی مفتیوں کے خاندان سے تھے۔

    مَلّن: اجی واہ، مَلّن کو آپ نےکیا سمجھا ہے۔ مفتی ہو یا قاضی۔ چھوڑنا کام چڑی مار کا ہے۔ بیس روپے کی مزدوری کی۔ مگر بابو جی کام اچھا نہیں۔ ذرا دھیان بہکا اور جہنم واصل۔ آپ جانیں کیسی کیسی ظلمی روحوں سے بھینٹا ہوتا ہے۔

    پچھلی دیوالی کوبھیروں نے چپڑ غٹّو کر ہی دیا تھا۔ اس نے خون مانگا خون کی کٹوری کنڈلی کے باہر رہ گئی تھی۔ اٹھتا ہوں تو خرابی، نہیں اٹھتا تو وہ منہ پھاڑے چلا آتا ہے۔

    میں: پھر کیا کیا؟

    مَلّن: کیا کیا؟ اوسانوں کی بات ہے۔ جھٹ اپنی چھنگلیاں کاٹ اس کے منہ میں دے دی۔ اللہ نےخیر کرلی۔ لیا دیا سامنے آگیا۔ ورنہ آج مَلّن کو آپ نہ دیکھتے۔

    میں: واقعی غضب ہوتا۔ دنیا سونی ہوجاتی۔

    مَلّن: (دانت نکوس کر) دنیا تو سنی وونی کیا ہوتی۔ میرے جیسے بلکن مجھ سے بھی بڑے چڑھے نہ جانے کتنے پڑے ہوں گے۔ لیکن شہر میں جادو کی جوت جگانے والا کوئی نہ رہتا۔ یہ بات جاتی رہتی کہ جس نے جادو کو جھٹلایا اور مَلّن خم ٹھوک کر سامنے آیا۔

    (اتنے میں کھُنڈے استرے نے میرے رُخسار سے ٹکر کھائی، چھوٹا سا دانہ تھا وہ چھل گیا اور خون نکل آیا۔)

    میں: ارے کیا زخمی کردیا۔ آئینہ اٹھا ذرا دیکھوں تو۔

    مَلّن: آئینہ دیکھ کر کیا کیجیے گا۔ دانہ تھا بڑھ جاتا تو برا ہوتا۔ میں نے صاف کریا۔ اب کچھ ڈر نہیں۔ گندا خون نکل جائے گا۔ آپ ذرا ٹِک کر بیٹھے رہیے۔ ہچکولے نہ کھائیے۔

    میں: میرے ساتھ بھی تم نے لالہ کی سی حرکتیں شروع کیں (کسی قدر غصے سے) دھیان سے کام کرو۔

    مَلّن: ناراض نہ ہوں۔ کیا مجال جو اب کھڑینچ آئے۔ بابو جی اگر فرمائیں تو اس طرح استرا چلے کہ نیند آنے لگے۔

    میں: زیادہ باتیں نہ بناؤ (کھونٹی لینے میں ٹھوڑی پر خراش لگتی ہوئی محسوس کرکے) ارے ظالم ہاتھ سنبھال کر۔ تو نے تو چھیل ڈالا۔ بڑا کھنڈا استرا ہے۔

    مَلّن: سرکار استرے کو الاہنا نہ دو۔ یہ استرا توبالوں کی کھال نکال کر رکھ دے۔ بال ذرا سخت ہیں۔ آپ ولایتی صابن لگاتے ہوں گے؟

    میں: ولایتی صابن بالوں کو سخت کردیتا ہے؟ تمھاری بھی وہی مثل ہوئی کہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔

    مَلّن: حضّت ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھے کی تو یہ بات ہے کہ شبنم کا رومال منہ پر ڈال کر شیو بناتا ہوں۔ ان ہی ہاتھوں سے اور یہی میرٹھ کا بنا ہوا استرا ہوگا۔ رہاصابن تو میاں میرے مَلّن ولایتی کا قائل نہیں۔ اس سے کھال روڑی اور بال روکھے ہوں۔ اور اپنے ہاں کا بنا ہوا صابن لگائیے پھر دیکھیے۔ مخمل پر ہاتھ رکے اور چہرے پر نہ رکے۔

    خدا خدا کرکے ڈاڑھی مونڈنے کا کام ختم ہوا۔ اس عرصے میں مَلّن ہزاروں رنگ برنگ کی باتیں کرگیا۔ اپنا جادوگر ہونا بھی ثابت کردیا۔ میرا گھر بھی دریافت کرلیا۔ گھر پر آنے کی اجازت بھی لے لی۔ ڈاڑھی تو

    کیا مونڈی تھی۔ سارا منہ چھیل ڈالا تھا۔ میں شیو کی غرض سے کیوں اسےبلاتا۔ لیکن تنتر منتر دیکھنے کی جیٹک میں میں نے چلتے وقت اسے کہہ دیا کہ ضرور آنا۔ چنانچہ تیسرے ہی دن علی الصبح جناب

    مَلّن صاحب آدھمکے۔

    میں: خلیفہ اوزار درست ہیں؟

    مَلّن: فَروَٹ بالکل فَروَٹ۔

    میں: بھائی میں پہلے ہی دبلا پتلا آدمی ہوں۔ جہاں گندا خون پاؤ، وہیں رہنے دینا، مہربانی ہوگی۔

    مَلّن: (کھی کھی کرکے ہنستے ہوئے) سرکار! اب تو مجھے سرکار کی ڈھاڑی کے رخ معلوم ہوگئے ہیں۔

    ڈاڑھی منڈاتے منڈاتے میں نے پھر جادو کا ذکر چھیڑ دیا۔ اور میاں ملّن ایران توران کی ہانکنے لگے۔ جوانی دیوانی کازمانہ تھا۔ مجھ پر اس کا جادو اثر کرگیا۔ مہینوں الجھا رہا۔ جب وہ آتا طرح طرح کے سبز باغ دکھاکر دو چار روپے لے جاتا۔ کیسے کیسے اس نے مجھے چکر دیے۔ اور کیا کیا میرے ساتھ داؤں کھیلے۔ اب کیا کہوں۔ حماقت تھی ہوگئی۔ جس کا نام جادو ہے وہ تو جیسی ٹھگ بدّیا تھی ویسی ہی رہی۔ ہاں یہ منتر اس کا ضرور چل گیا کہ میں نےاسے اپنے ہاں باقاعدہ لگالیا۔ جب تک وہ زندہ رہا میں نےاس کے سوا کسی سے حجامت نہیں بنوائی۔ حالانکہ غریب کو نہ بال کاٹنے آتے تھے نہ ڈاڑھی مونڈنی۔ اس کا کمال صرف باتیں بنانا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے