منٹو
دبلا ڈیل، سوکھے سوکھے ہاتھ پاؤں، میانہ قد، چمپئی رنگ، بےقرار آنکھوں پر سنہرے فریم کی عینک، کریم کلر کا سوٹ، سرخ چہچہاتی ٹائی، ایک دھان پان سا نوجوان مجھ سے ملنے آیا۔
یہ کوئی چوبیس پچیس سال ادھر کا ذکر ہے۔ بڑا بے تکلف، تیز، طرار، چرب زبان۔ بولا:
‘‘میں منٹوؔ ہوں سعادت حسن۔ آپ نے ‘‘ہمایوں’’ کا روسی ادب نمبر دیکھا ہوگا۔ اب میں ‘‘ساقی’’ کا فرانسیسی ادب نمبر نکالنا چالتا ہوں۔’’
پہلی ہی ملاقات میں اس کی یہ ضرورت سے بڑھی ہوئی بےتکلفی طبیعت کو کچھ ناگوار گزری۔ میں نے اس کا پانی اتارنے کے لیے پوچھا: ‘’آپ کو فرانسیسی آتی ہے؟’’
بولا: ‘‘نہیں!’’
میں نے کہا ‘‘تو پھر آپ کیا کر سکیں گے۔’’
منٹو نے کہا، ‘‘انگریزی سے ترجمہ کرکے میں آپ کا یہ خاص نمبر ایڈٹ کروں گا۔’’
میں نے کہا: ‘‘اپنا پرچہ تومیں خود ہی ایڈٹ کرتا ہوں۔ پھر ‘‘ساقی’’ کے چار خاص نمبر مقرر ہیں۔ ان کے علاوہ اور کوئی نمبر فی الحال شائع نہیں ہو سکتا۔’’
منٹو نے دال گلتی نہ دیکھی تو فوراً اس موضوع ہی کو ٹال گیا اور رخصت ہونے سے پہلے مجھ پر واضح کر گیا کہ اگر کسی مضمون کی ضرورت ہو تو معاوضہ بھیج کر اس سے منگایا جا سکتا ہے۔
اس زمانے میں منٹوؔ ترجمے ہی کیا کرتا تھا۔ اس کی کتاب ‘’سرگزشت اسیر’’ چھپ کر آئی تھی۔ منٹو سے کبھی کبھی خط و کتابت ہوتی رہی اور اسکے چند مضامین ‘‘ساقی’’ میں چھپے بھی۔ مگر قلبی تعلقات اس سے قائم نہ ہوسکے۔ مجھے یہی گمان رہا کہ یہ شخص بہت بہکا ہوا ہے۔ شیخی خور اور چھچھورا سا آدمی ہے۔ اس میں ‘‘میں’’ سما گئی ہے۔ زمانے کی چھری تلے آئےگا تو سب ٹھیک ہو جائےگا۔
معلوم ہوا کہ بڑا کٹر کمیونسٹ ہے اور مسلم یونیورسٹی سے اسے یہ کہہ کر نکال دیا گیا ہے کہ اس کو دق ہے۔ علی گڑھ سے نکالے جانے کے بعد وہ اپنے گھر امرت سر چلا گیا۔ گھر والے بھی اس کے باغیانہ خیالات سے نالاں تھے۔ اس لیے ان سے بھی بگاڑ ہو گیا تھا۔ امرت سر میں اپنے چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ اس نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ان کے لیڈر کمپنی کی حکومت والے باری (علیگ) تھے۔ مگر یہ سب لوگ تو کچھ دبے دبے سے رہے۔ اس لیے حکومت کی قید و بند سے بچے رہے۔ پھر باری رنگون چلے گئے۔ اور منٹو بمبئی جاکر اخبار ‘‘مصور’’ میں نوکر ہو گیا۔
کئی سال گزر گئے۔ منٹو سے ایک آدھ ملاقات اور ہوئی۔ مگر دل کی جواری ان سے اب بھی نہ کھلی۔ جیسا اور بہت سے مضمون نگاروں سے تعلق تھا ان سے بھی رہا یہاں تک کہ پچھلی بڑی جنگ کے زمانے میں وہ دلی ریڈیو میں آگئے۔ اور اب جوان سے پہلی ملاقات ہوئی تو انہوں نے چھوٹتے ہی کہا:
‘‘اب میں آپ سے معاوضہ نہیں لوں گا۔’’
میں نے پوچھا، کیوں؟
بولے، معاوضہ میں اس لیے لیتا تھا کہ مجھے پیسوں کی ضرورت رہتی تھی۔
دلی، ریڈیو اسٹیشن پر جنگ کے زمانے میں ادیبوں اور شاعروں کا بڑا اچھا جمگھٹا ہو گیا تھا۔ احمد شاہ بخاری (پطرس) کنٹرولر تھے، خبروں کے شعبے میں چراغ حسن حسرت اور ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری، پروگرام کے شعبے میں ن- م- راشد۔ انصار ناصری، محمود نظامی اور کرشن چندر۔ ہندی کے مسودہ نویس اوپیندر ناتھ اشک اور اردو کے منٹو اور میراجی تھے۔ اس زمانے میں منٹو کو بہت قریب سے دیکھنے کا مجھے موقع ملا۔
منٹو نے کچھ روپے جمع کرکے دوٹائپ رائٹر خرید لیے، ایک انگریزی کا اور ایک اردو کا۔ اردو کا ٹائپ رائٹر وہ اپنے ساتھ ریڈیو اسٹیشن روزانہ لاتے تھے۔ منٹو کے ذمہ جتنا کام تھا اس سے وہ کہیں زیادہ کرنے کے خواہش مند رہتے تھے۔ روزانہ دوتین ڈرامے اور فیچر لکھ دیتے۔ لکھنا تو انہوں نے بالکل چھوڑ ہی دیا تھا۔ کاغذ ٹائپ رائٹر پر چڑھایا اور کھٹا کھٹ ٹائپ کرتے چلے جاتے۔ فیچر لکھنا اس زمانے میں بڑا کمال سمجھا جاتا تھا، مگر منٹو کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔
ذرا سی دیر میں فیچر ٹائپ کرکے بڑی حقارت سے پھینک دیا جاتا کہ۔۔۔
‘‘لو، یہ رہا تمہارا فیچر!’’
منٹو کی اس تیز رفتاری پر سب حیران ہوتے تھے۔ چیز بھی ایسی جچی تلی ہوتی کہ کہیں انگلی دھرنے کی اس میں گنجائش نہ ہوتی۔
دلی آنے کے بعد منٹو کی افسانہ نگاری کا دور جدید شروع ہوا۔ انہوں نے طبع زاد افسانے ایک اچھوتے انداز میں لکھنے شروع کیے۔ ‘‘ساقی’’ کے لیے ہر مہینے ایک افسانہ بغیر مانگے مل جاتا۔ ‘‘دھواں’’ اس ریلے میں لکھا گیا اور اس کی اشاعت پر دلّی کے پریس ایڈوائزر نے مجھے اپنے دفتر بلوایا۔ وہ پڑھا لکھا اور بھلا آدمی تھا۔ انگریزی ادبیات میں میرا ہم جماعت بھی رہ چکا تھا۔ بولا ‘‘بھائی، ذرا احتیاط رکھو۔ زمانہ برا ہے۔’’ بات آئی گئی ہوئی۔ میں نے منٹو سے اس کا ذکر کیا۔ حسبِ عادت بہت بگڑا مگر ساقی کے باب میں کچھ احتیاط برتنے لگا۔
لیکن یہ ناسور دلی میں بند ہوا تو لاہور میں پھوٹا اور ‘‘بو’’ پر حکومت پنجاب نے منٹو کو دھر لیا۔ صفائی کے گواہوں میں منٹو نے مجھے بھی دلی سے بلوالیا تھا۔ عدالت ماتحت تو قائل نہ ہو سکی۔ لیکن اپیل میں غالباً منٹو بری ہو گئے تھے۔ اس کے بعد رہا سہا خوف بھی منٹو کے دل سے نکل گیا اور انہوں نے دھڑلے سے ‘’فحش’’ مضامین لکھنے شروع کر دیے۔ حکومت پنجاب کے پریس ایڈوائزر چودھری محمد حسین ایک عجیب و غریب بزرگ تھے۔ تھے تو علامہ اقبال کے حاشیہ نشینوں میں سے۔ مگر انہیں یہ زعم تھا کہ اقبال کو اقبال میں نے بنایا ہے۔ یہ صاحب ہاتھ دھو کر منٹو کے پیچھے پڑگئے اور یکے بعد دیگرے انہوں نے منٹو پر کئی مقدمات قائم کرا دیے۔ پھر ان کا نشۂ اقتدار اتنا بڑھ گیا کہ انہوں نے مضمون نگاروں کے ساتھ ناشروں اور کتب فروشوں کو بھی لپیٹنا شروع کر دیا۔ مقدمات کے سلسلے میں منٹو کو بمبئی سے لاہور آنا پڑتا تھا۔ ادھر ہم بھی دلی سے ملزموں کی برات لے کر پہنچے تھے۔ چند روز لاہور کے ادبی حلقوں میں خاصی چہل پہل رہتی۔ شاید ایک آدھ ہی افسانے میں جرمانہ قائم رہا، ورنہ اپیل میں سب بری ہوتے رہے اور چودھری صاحب کلستے رہے۔ منٹو نے اپنے مقدمات کی روداد کسی کتاب کے دیباچے میں لکھی ہے اور اس کتاب کو چودھری صاحب کے نام سے معنون کیا ہے۔
منٹو کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی تھیں۔ انہیں ہمیشہ یہ احساس رہتا تھا کہ میں ہی سب سے اچھا لکھنے والا ہوں، اس لیے وہ اپنے آگے کسی کو گردانتے نہ تھے۔ ذرا کسی نے دون کی لی اور منٹو نے اڑنگا لگایا۔ خرابیٔ صحت کی وجہ سے منٹو کی طبیعت کچھ چڑ چڑی ہو گئی تھی۔ مزاج میں سہار بالکل نہیں رہی تھی۔ بات بات پر اڑنے اور لڑنے لگتے تھے۔ جو لوگ ان کے مزاج کو سمجھ گئے تھے وہ ان سے بات کرنے میں احتیاط برتا کرتے تھے۔ ان کا مرض بقول ان کے کسی ڈاکٹر سے تشخیص نہ ہوسکا۔ کوئی کہتا دق ہے۔ کوئی کہتا معدے کی خرابی ہے، کوئی کہتا جگر کا فعل کم ہو گیا ہے۔ اور ایک ستم ظریف نے کہا کہ تمہارا پیٹ چھوٹا ہے اور انتڑیاں بڑی ہیں۔ مگر منٹو ان سب بیماریوں سے بے پروا ہوکر ساری بدپرہیزیاں کرتا رہا۔
منٹو کی زبان پر ‘‘فراڈ’’ کا لفظ بہت چڑھا ہوا تھا۔ میراجی کے ہاتھ میں دو لوہے کے گولے رہتے تھے، میں نے ان سے پوچھا، ان کا مصرف کیا ہے؟ منٹو نے کہا، ‘‘فراڈ’’ ہے۔ میراجی نے سیویوں کے مزعفر میں سالن ڈال کر کھانا شروع کر دیا۔ میں نے کہا، یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ منٹو نے کہا ‘‘فراڈ’’۔ اوپندر ناتھ اشک نے کوئی چیز لکھی، منٹو نے کہا فراڈ ہے۔ اس نے کچھ چیں چیں کی تو کہا ‘‘تو خود ایک فراڈ ہے۔’’
یادش بخیر! ایک صاحب تھے دیوندر ستیار تھی۔ تھے کیا، اب بھی ہیں اور اردو اور ہندی کے بہت بڑے ادیب ہیں۔ لوک گیتوں پر انگریزی میں بھی ایک کتاب چھپوا چکے ہیں۔ اسی زمانے میں وہ دلی آئے تو انہیں بھی افسانہ نگاری کا شوق چرایا۔ خاصے جہاں دیدہ آدمی تھے مگر باتیں بڑی بھولی بھولی کرتے تھے۔ بھاری بھرکم۔ قد آور آدمی، چہرے پر بہت زبردست داڑھی۔ دراصل انہوں نے اپنی وضع قطع ٹیگور سے ملانے کی کوشش کی تھی۔ ٹیگور کے ساتھ انہوں نے ایک تصویر بھی کھنچوائی تھی جس کے نیچے لکھا ہوا تھا ‘‘گرو اور چیلا’’۔ ایک طرف سفید بگلا استاد اور دوسری طرف کالا بھجنگ شاگرد۔
ہاں تو ستیارتھی صاحب نے افسانے لکھنے اور سنانے شروع کیے۔ ابتدا میں تو سب نے لحاظ مروّت میں چند افسانے سنے پھر کنّی کاٹنے لگے، پھر انہیں دور ہی سے دیکھ کر بھاگنے لگے۔ مگر منٹو بھاگنے والے آدمی نہیں تھے۔ منٹو نے ایک آدھ افسانہ تو سنا۔ اس کے بعد ستیارتھی صاحب کو گالیوں پر دھر لیا۔ منٹو نے برملا کہنا شروع کر دیا ‘‘تو بہت بڑا فراڈ ہے۔ تیری ڈاڑھی ڈاڑھی نہیں ہے، پروپیگنڈہ ہے۔ تو افسانے ہم سے ٹھیک کراتا ہے اور جاکر اپنے نام سے چھپوا لیتا ہے۔’’ اور اس کے بعد مغلظات سنانا شروع کر دیں۔ مگر صاحب، مجال ہے کہ ستیارتھی کی تیوری پر بل بھی آیا ہو! اسی طرح مسکراتے اور بھولی بھالی باتیں کرتے رہے۔ میں کہتا تھا کہ اس شخص میں ولیوں کی سی صفات ہیں۔
منٹو کہتا تھا۔ ‘‘یہ راسپوٹین ہے، ابلیس ہے!’’
دراصل منٹو کو بناوٹ سے چڑتھی۔ خود منٹو کا ظاہر و باطن ایک تھا۔ اس لے لگی لپٹی نہ رکھتا تھا۔ جو کچھ کہنا ہوتا صاف کہہ دیتا، بلکہ منٹو بدتمیزی کی حدتک منہ پھٹ تھا۔
ایک دفعہ احمد شاہ بخاری نے بڑے سرپرستانہ انداز میں کہا۔ ‘‘دیکھو منٹو میں تمہیں اپنے بیٹے کے برابر سمجھتا ہوں۔’’
منٹو نے جھلاکر کہا: ‘‘میں آپ کو اپنا باپ نہیں سمجھتا!’’
مزہ تو اس وقت آیا جب چراغ حسن حسرت سے منٹو کی ٹکر ہوئی۔ واقعہ دلی ریڈیو کا ہے جہاں اتفاق سے سبھی موجود تھے اور چائے کا دَور چل رہا تھا۔ حسرت اپنی علمیت کا رعب سب پر گانٹھتے تھے۔ ذکر تھا سو مرسٹ ماہم کا جو منٹو کا محبوب افسانہ نگار تھا اور مولانا جھٹ بات کاٹ کر اپنی عربی فارسی کو بیچ میں لے آئے اور لگے اپنے چڑاؤ نےانداز میں کہنے ‘‘مقامات حریری میں لکھا ۔۔۔ آپ نے تو کیا پڑھی ہوگی، عربی میں ہےیہ کتاب۔’’ دیوانِ حماسہ اگر آپ نے پڑھا ہوتا۔۔۔ مگر عربی آپ کو کہاں آتی ہے اور حسرت نے تابڑ توڑ کئی عربی فارسی کتابوں کے نام گنوا دیے۔
منٹو خاموش بیٹھا بیچ و تاب کھاتا رہا۔ بولا تو صرف اتنا بولا۔ ‘‘مولانا ہم نے عربی فارسی اتنی نہیں پڑھی تو کیا ہے؟ ہم نے اور بہت کچھ پڑھا ہے۔’’
بات شاید کچھ بڑھ جاتی مگر کرشن چندر وغیرہ نے بیچ میں پڑ کر موضوع ہی بدل دیا۔ اگلے دن جب پھر سب جمع ہوئے تو حسرت کے آتے ہی بھونچال سا آ گیا۔ منٹو کا جوابی حملہ شروع ہو گیا ‘‘کیوں مولانا’’ آپ نے فلاں کتاب پڑھی ہے؟ مگر آپ نے کیا پڑھی ہوگی، وہ تو انگریزی میں ہے اور فلاں کتاب؟ شاید آپ نے اس جدید ترین مصنف کا نام بھی نہیں سنا ہوگا اور منٹو نے جتنے نام کتابوں کے لیے ان میں شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جس کا نام مشہور ہو۔ منٹو نے کوئی پچاس نام ایک ہی سانس میں گنوا دیے اور مولانا سے کہلوا لیا کہ ان میں سے ایک بھی کتاب نہیں پڑھی۔ ہم چشموں اور ہم نشینوں میں یوں سُبکی ہوتے دیکھ کر مولانا کو پسینے آ گئے۔
منٹو نے کہا ‘‘مولانا اگر آپ نے عربی فارسی پڑھی ہے تو ہم نے انگریزی پڑھی ہے۔ آپ میں کوئی سُرخاب کا پر لگا ہوا نہیں ہے۔ آئندہ ہم پر رعب جمانے کی کوشش نہ کیجیے۔’’
مولانا کے جانے کے بعد کسی نے پوچھا ‘‘یار تو نے یہ اتنے سارے نام کہاں سے یاد کر لیے؟’’
منٹو نے مسکراکر کہا: ‘‘کل شام یہاں سے اٹھ کر سیدھا انگریزی کتب فروش جینا کے ہاں گیا تھا۔ جدید ترین مطبوعات کی فہرست اس سے لے کر میں نے رٹ ڈالی۔’’
حسرت نے کہا ‘‘نہیں تم ماہم ہو۔’’
منٹو نے کہا ‘‘تم ابنِ خلدون ہو۔’’
اور دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔
منٹو بڑا ذہین آدمی تھا۔ اگر ذرا کوئی اپنی حد سے بڑھتا تو وہ سمجھتا کہ یہ شخص میری توہین کر رہا ہے، مجھے احمق سمجھ رہا ہے۔ دل میں بات رکھنے کا وہ قائل نہیں تھا۔ اس کام کے لیے اوپندر ناتھ اشک بنا تھا۔ بری گٹھل طبیعت کا آدمی تھا۔ منٹو مہینے میں تیس چالیس ڈرامے اور فیچر لکھ دیتا تھا اور اشک صرف دو ڈرامے لکھتا تھا، اور وہ بھی رو روکر۔ پھر بڑی ڈھٹائی سے کہتا پھرتا تھا کہ جتنی تنخواہ مجھے ملتی ہے اس سے زیادہ کے یہ دو ڈرامے میں نے لکھے ہیں۔ منٹو اس کی بڑی درگت بناتا تھا۔ سب کے سامنے اسے فراڈ اور حرام زادہ تک کہہ دیتا تھا۔ اشک اس وقت تو رونکھا ہو جاتا لیکن منٹو کی باتیں دل میں رکھتا گیا اور بعد میں بمبئی کی فلم انڈسٹری میں منٹو کی جڑ کاٹتا پھرا۔
شیخی کی باتیں منٹو کو سخت ناپسند تھیں۔ اور شیخی کرکری کرنے میں اسے لطف آتا تھا۔ ن- م- راشد سے میں نے کہا۔ ‘‘یہ آپ کی چھوٹی بڑی شاعری ہمیں تو اچھی نہیں لگتی۔ آخر اس میں کیا بات ہے؟’’
راشد نے RHYME اور RYTHYM پر ایک مختصر لیکچر ر جھاڑنے کے بعد اپنی نظم ‘‘اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے’’ مجھے سنانی شروع کی اور کہا ‘‘دیکھیے! میں نے اس نظم میں ڈانس کا روم رکھا ہے۔’’
میں بڑی سعادت مندی سے سنتا رہا مگر منٹو بھلا کب تاب لاسکتے تھے۔ چٹخ کر بولے ‘‘کون سا ڈانس؟ والز، رمبا، سمبا، کتھاکلی، کتھک، منی پوری؟۔۔۔ فراڈ کہیں کا۔’’
بچارے راشد کھسیانی ہنسی ہنس کر رہ گئے۔
منٹو کے دماغ میں نئی سے نئی بات آتی تھی۔ ایسی اپج کسی اور میں دیکھی ہی نہیں۔ ایک میم صاحب کی حسین ٹانگوں کو دیکھ کر کہنے لگے، ‘‘اگر مجھے ایسی چار ٹانگیں مل جائیں تو انہیں کٹواکر اپنے پلنگ کے پائے بنوا لوں۔’’
ریڈیو اسٹیشن پر منٹو ایک دن بڑے بےزار بٹھے تھے۔ میں نے کہا ‘‘خیریت تو ہے؟’’ بولے سخت بدتمیز اور جاہل ہیں یہاں کے لوگ۔فییس فون receive کرکے کہتا ہوں ‘‘منٹو’’ تو ادھر سے وہ حیر ان ہوکر پوچھتا ہے ‘‘ون ٹو؟’’ میں کہتا ہوں ‘‘ون ٹو نہیں ، منٹو’’ تو وہ کہتا ہے ‘‘بھنٹو؟’’
منٹو کو اپنی زبان دانی پر بڑا ناز تھا اور واقعی میں منٹو بہت صحیح اور عمدہ زبان لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی کسی افسانے میں ایک عورت کا حلیہ لکھنے کے سلسلے میں یہ بھی لکھا تھا کہ بچہ ہونے کے بعد اس کے پیٹ پر شکنیں پڑ گئی تھیں۔ میں نے شکنیں بدل کر چرسیں کر دیا۔ جب افسانہ ‘‘ساقی’’ میں چھپ کر آیا تو منٹو اس لفظ پر اچھل پڑے۔ بولے ‘‘میں نے جس وقت شکنیں لکھا تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ لفظ ٹھیک نہیں ہے۔ مگر میری سمجھ میں اور کوئی لفظ نہیں آیا۔ اصل لفظ یہی ہے جو میں لکھنا چاہتا تھا’’ اس کے بعد کھلے دل سے انہوں نے سب کے سامنے کہا کہ ‘‘میں صرف دو ایڈیٹروں کی اصلاح قبول کرتا ہوں، ایک آپ اور دوسرے حامد علی خاں۔ آپ دونوں کے علاوہ کسی اور کو میرا ایک لفظ بھی بدلنے کی اجازت نہیں ہے۔’’
منٹو بظاہر بڑا اکھڑ، اور بدتمیز آدمی نظر آتا تھا مگر دراصل اس کے پہلو مں ایک بڑا حساس دل تھا۔ دنیا نے اسے بڑے دکھ پہنچائے تھے۔ امیر گھرانے کا لاڈلا بچہ تھا۔ بگڑ گیا اور خوب پٹم بھر کے بگڑا۔ دوست احباب، کنبہ دار، رشتہ دار، سب سے اسے تکلیف پہنچی تھی۔ اس لیے اس میں نفرت کا جذبہ بہت بڑھ گیا تھا، مگر اس کی انسانیت مرتے دم تک قائم رہی، منٹو کا گل گوتھنا سا بچہ اچھا خاصا کھیلتا کھالتا ذرا سی بیماری میں چٹ پٹ ہوگیا۔ مجھے معلوم ہوا تو میں بھی اس کے گھر پہنچا، احتیاطاً سو روپے ساتھ لیتا گیا کہ شاید منٹو کو روپے کی ضرورت ہو۔ صفیہ کا روتے روتے برا حال ہو گیا تھا۔ موتا کا گھر تھا۔ اس لیے میری بیوی کھانا لے کر پہنچیں، انہوں نے صفیہ کو سنبھالا۔ منٹو کی آنکھوں میں پہلی اور آخری بار میں نے آنسو دیکھے۔ بچہ دفنایا جا چکا تھا۔ میں نے منٹو کو رسمی دلاسا دیا اور چپکے سے روپے ان کی طرف بڑھا دیے۔ منٹو نے روپے نہیں لیے۔ مگر تھوڑی دیر کے لیے وہ اپنا غم بھول گیا اور حیرت سے میرا منہ تکتا رہا۔ بعد میں اس واقعہ کا تذکرہ اس نے اکثر احباب سےکیا، اور مُتعجب ہوتا رہا کہ بےمانگے کوئی روپے کسی کو کیسے دے سکتا ہے۔
منٹو کو شراب پینے کی لت خداجانےکب سے تھی۔ جب تک وہ دلی رہے ان کی شراب بڑھنے نہیں پائی تھی۔ بمبئی جانے کے بعد انہوں نے پیسہ بھی خوب کمایا اور شراب بھی خوب پی۔ جب پاکستان بنا تو وہ لاہور آ گئے۔ یہاں فلموں کا کام نہیں تھا، اس لیے انہیں قلم کا سہارا لینا پڑا۔ ہمارے ادبی جرید و ں کی بنجر زمین سے روزی پیدا کرنا منٹو ہی کا کام تھا۔ صحت پہلے ہی کون سی اچھی تھی۔ رہی سہی شراب نے غارت کردی۔ کئی دفعہ مرتے مرتے بچے۔ روٹی ملے یا نہ ملے بیس روپے روز انہیں شراب کے لیے ملنے چاہئیں۔ اس کے لیے انہوں نے اچھا برا سب کچھ لکھ ڈالا۔ روزانہ دو ایک افسانے لکھنا ان کا معمول ہو گیا تھا۔ انہیں لے کر وہ کسی ناشر کے پاس پہنچ جاتے۔ ناشروں نے پہلے ضرورت سے انہیں خریدا۔ پھر بے ضرورت۔ پھر کترانے اور منہ چھپانے لگے۔ دور سے دیکھتے کہ منٹو آرہا ہے تو دکان سے ٹل جاتے۔ منٹو کی اب بالکل وہی حالت ہو گئی تھی جو آخر آخر میں اختر شیرانی، اور میراجی کی۔ بےتکلف لوگوں کی جیب میں ہاتھ ڈال دیتے اور جو کچھ جیب میں ہوتا نکال لیتے۔ اس میں سے گھر کچھ نہیں پہنچتا تھا۔ شراب سے بچانے کی بہت کوشش کی گئی۔ خود منٹو نے اس سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو پاگل خانے میں داخل کرا لیا۔ منہ سے یہ کافرلگی چھوٹ بھی گئی تھی مگر اللہ بھلا کرے دوستوں کا ایک دن پھر پلا لائے۔ نتیجہ یہ کہ رات کو خون کی قے ہوئی۔ اسپتال پہنچایا گیا۔ مہینوں پڑے رہے اور جینے کا ایک موقع اور مل گیا۔
اگست ۱۹۵۴ء میں کئی سال بعد لاہور گیا تھا۔ لاہور کے ادیب، شاعر، اڈیٹر اور پبلشر ایک بڑی پارٹی میں جمع تھے کہ غیرمتوقع طور پر منٹو بھی وہاں آ گئے۔ اور سیدھے میرے پاس چلے آئے۔ ان کی حالت غیر تھی۔ میں نے کہا ‘‘آپ تو بہت بیمار ہیں۔ آپ کیوں آئے؟ میں یہاں سے اٹھ کر خود آپ کے پاس آنے والا تھا۔’’
اتنے میں ایک شامت کا مارا پبلشر ادھر آنکلا۔ منٹو نے آواز دی ‘‘اوئے ادھر آ۔’’ وہ رکتا جھجکتا آ گیا۔ ‘‘کیا ہے تیری جیب میں؟ نکال۔’’ اس نے جیب میں سے پانچ روپے نکال کر پیش کیے۔ مگر منٹو پانچ روپے کب قبول کرنے والے تھے۔ ‘‘حرام زادے دس روپے تو دے۔’’ یہ کہہ کر اس کی اندر کی جیب میں ہاتھ ڈال دیا اور دس روپے کانوٹ نکال کر پھر مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ پبلشر نے بھی سوچا کہ چلو سستے چھوٹے، وہاں سے رفوچکر ہو گیا۔ منٹو پندہ بیس منٹ تک بیٹھے باتیں کرتے رہے مگر ان کی بےچینی بڑھ گئی اور عذر کرکے رخصت ہو گئے۔ مجھ سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔
پانچ مہینے بعد اخباروں سے معلوم ہوا کہ منٹو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہوں نے پھر چپکے سے شراب پی لی تھی، خون ڈالتے ڈالتے مر گئے۔ ہمیں تو منٹو کی عظمت کا اعتراف ہے ہی، خود کو بھی احساس تھا، چنانچہ جو کتبہ انہوں نے اپنی لوحِ مزار کے لیے خود لکھا تھا اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا۔
‘‘یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے۔ اس کے سینے میں فنِ افسانہ نگاری کے سارے اسرار و رموز دفن ہیں۔ وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا؟’’
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.