مرزا عظیم بیگ چغتائی
اللہ بخشے مرزا عظیم بیگ چغتائی بھی عجب خوبیوں کے آدمی تھے۔ سدا کے مرجیوڑے۔ پیدا ہوئے تو اتنے نحیف و کمزور کہ روئی کے پہلو پر رکھے گئے۔ بڑے ہوئے تو روگی مرجین۔ اللہ کا دیا گھر میں سب کچھ موجود تھا۔ ددھیال بھی جاندار تھی اور ننھیال بھی ساونٹی۔ ان کے والد قسیم بیگ چغتائی یوپی میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ آبائی وطن آگرہ تھا۔ یہیں ان کی جدی جائداد بھی تھی۔ مرزا عظیم بیگ چغتائی کے نانا مُنشی امراؤ علی تھے۔ جو اب سے نصف صدی پہلے کے مشہور ناول نگار تھے۔ ان کی تصانیف ’’رزمِ بزم‘‘اور ’’البرٹ مل‘‘ ایک زمانے میں بہت مقبول تھیں۔ مرزا صاحب کے والد بڑے ٹھاٹ کے آدمی تھے۔ سرسید کی آنکھیں دیکھے ہوئے علی گڑھ کے ابتدائی گریجویٹس میں سے تھے۔ اپنے زمانے کے اچھے کھلاڑیوں میں شمار ہوتے تھے۔ ورزش کا بھی شوق تھا۔ سواری کے لیے منہ زور سے منہ زور گھوڑے تلاش کرکے رکھتے تھے۔ بڑے طاقت ور آدمی تھے۔ ایک بلی نے گھر والوں کو بہت عاجز کر رکھا تھا۔ ایک دن وہ ان کے ہاتھ آگئی۔ ہاتھ اس کی کمر پر پڑا۔ چاہتے تھے کہ اسے گھر سے باہر اچھال دیں مگر وہ کم بخت کلائی میں لپٹ گئی۔ انہیں بھی تاؤ آگیا۔ اسنے اپنے پنجوں اور دانتوں سے ان کی کلائی ادھیڑ دی مگر انہوں نے بھی اپنے پنجے کی گرفت اتنی سخت کی کہ اس کی ہڈی پسلی ایک ہوگئی اور اسے اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کا دم نہ نکل گیا۔ ویسے وہ بڑے خوش مزاج آدمی تھے اور چھوٹے بڑے سب سے اچھی طرح پیش آتے تھے۔
چغتائی صاحب چونکہ پیدا ہی کمزور ہوئے تھے اس لیے اور بچوں کے مقابلے میں ان کی طرف والدین کی توجہ زیادہ رہتی تھی۔ لاڈ پیار میں پلے۔ کچھ گھر پر پڑھا، کچھ اٹاوہ کے اسکول میں۔ اس کے بعد علی گڑھ سے بی اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کیے۔ کالج ہی کے زمانے میں نواب مزمل اللہ خاں کے ہاں ملازمت بھی کرلی تھی۔ کیونکہ شادی ہوگئی تھی اور اخراجات پورے نہ ہوتے تھے۔ اسی زمانے میں مضمون نگاری بھی شروع کردی تھی، بلکہ بچوں کی کہانی ’’قصرِ صحرا‘‘ کا پہلا حصہ میٹرک پاس کرنے سے پہلے ہی لکھ چکے تھے۔ اس کے باقی دو حصے بعد میں لکھے۔ محنتی اور ذہین بہت تھے۔ جسمانی کمزوری کی تلافی دماغی قوت سے ہوگئی تھی۔ کالج کے زمانے میں اسلامی تاریخ کے سلسلے میں مذہب کا بھی مطالعہ کرڈالا۔ اور حدیث و فقہ سب چاٹ گئے۔ علی گڑھ والوں کی طرح یہ بھی آزاد خیالی اور مغربیت کے دلدادہ تھے۔ قدامت پسندوں اور اور مذہبی خیال والوں سے ان کے مباحثے رہنے لگے۔ انہیں اس میں بھی مزہ آتا تھا کہ دوسروں کو چھیڑیں، ستائیں، جلائیں۔ حدیثیں ازبر تھیں۔ مُستند کتابوں کے حوالے یاد تھے۔ بڑے دھڑلّے سے قائل کردیتے تھے۔ اس کے بعد یہ نوبت آگئی کہ شرط لگاکر بحث کرتے تھے۔ مثلاً اگر تم جیت گئے تو ہم ڈاڑھی رکھ لیں گے اور اگر ہم جیت گئے تو تمہاری ڈاڑھی مونڈ لیں گے۔ بہت سے تو شرط کی نوعیت ہی سے گھبراکر بھاگ جاتے اور اگر کوئی ہمت کرکے جم گیاتو سمجھو کہ اس کی شامت آگئی۔ سب لڑکوں کو نیوتا دے دیا جاتا۔ شام کو ایک جم غفیر کی موجودگی میں بحث شروع ہوتی۔ کتابیں کھولی جاتیں، دلیل کی تصدیق یا تردیدکی جاتی۔ آخر میں نہ جانے کیا ہوتا کہ چغتائی ہی ہمیشہ جیت جاتے۔ پھر کسی منچلے کے ہاں سے شیو کا سامان منگایا جاتا اور نہایت احتیاط سے ڈاڑھی مونڈ کر محفوظ کرلی جاتی۔ اس طرح انہوں نے کئی ڈاڑھیاں جیتی تھیں۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ جیتی ہوئی ڈاڑھی بیچ دی جاتی تھی۔ وہ اس طرح کہ ہارے ہوئے مولانا سے اس کی مناسب قیمت لے لی جاتی اور ان کی ڈاڑھی بخش دی جاتی۔ اس ’’قصاص‘‘ سے یار لوگ مٹھائی منگاتے اور سب کو شیرینی تقسیم کی جاتی۔ ایسے ہی ایک مباحثے میں چغتائی صاحب ایک دفعہ ہار گئے۔ انہیں ڈاڑھی رکھنی پڑی۔ اس وقت کی ایک تصویر بھی تھی جسے میں نے ’’کامران‘‘ کے سرورق پر چھاپا تھا۔ خدا جانے پھر کیا کفارہ ادا کرکے اس سے نجات پائی۔
چغتائی صاحب کی شادی رام پور کے ایک پٹھان گھرانے میں ہوئی تھی جو مذہب کا بڑا سختی سے پابند تھا۔ چغتائی صاحب نے شادی کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ بیوی کا برقعہ اتروادیا اور انہیں اپنے ساتھ کھلے بندو ں لانا لے جانا شروع کردیا۔ اسی وضع سے انہیں اپنی سسرال رام پور بھی لے کر پہنچے تو وہ لوگ بہت بگڑے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کی اور سسرال والوں کی تناتنی ہوگئی۔ مصیبت بے چاری بیگم چغتائی کی! باپ بھائیوں کو یہ زعم کہ ہماری لڑکی بھلا ہمارے کہنے سے باہر کیسے ہوسکتی ہے۔ اِدھر بگڑے دل مرزا کہ چاہے جان چلی جائے آن نہ جانے پائے۔ اَڑ گئے کہ صاحب وہی ہوگا جو ہم کہتے ہیں۔ سر پھرے پٹھانوں نے کہا، ایسا ہرگز ہو ہی نہیں سکتا۔ کنبے برادری کے سب بڑے بوڑھے جمع ہوئے۔ صلاح ہوئی کہ لڑکی کو گھر بٹھالیا جائے اور داماد صاحب کو بیک بینی و دوگوش روانہ کردیا جائے۔ چنانچہ مرزا صاحب سے کہہ دیا گیا کہ ٹھنڈے ٹھنڈے چلتے پھرتے نظر آئیے۔ مرزا کھول گئے مگر کیا کرتے، بولے، ’’میری بیوی سے اور پوچھ لیجیے۔ اگر وہ بھی یہاں رہنا چاہتی ہیں تو خوشی سے رہیں میں چلا جاؤں گا، اور اگر وہ میرے ساتھ چلنا چاہتی ہیں تو آپ تو آپ دُنیا کی کوئی طاقت انہیں نہیں روک سکتی۔‘‘ بات معقول تھی۔ سمجھ میں آگئی۔ لڑکی سے پوچھا تو وہ نیک بخت چادر اوڑھ کر کھڑی ہوگئی۔ اس غریب کو تو مرنا بھرنا تھا۔ ماں باپ کے پکھوے سے لگی کب تک بیٹھی رہتی؟ گھر والوں نے کہا، ’’بی بی! ہماری بات نیچی کرکے جارہی ہو تو پھر کبھی اس دہلیز پر نہ آنا۔ آج سے تم ہمارے لیے اور ہم تمہارے لیے مرگئے۔‘‘ وہ بیچاری دھاروں روتی میاں کے ساتھ ہولی اور مدتوں میکے نہ گئی۔
تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد چغتائی صاحب نے کتاب ’’قرآن اور پردہ‘‘ لکھی، پھر چند سال بعد ’’حدیث اور پردہ‘‘ اور اس کے کچھ عرصہ بعد ’’رقص و سرود۔‘‘ اسی عرصے میں کچھ لوگوں کے سمجھانے اور کچھ اپنے تلخ تجربات کی وجہ سے انہوں نے مذہب کی طرف سے اپنی توجہ ہٹاکر ادب کی طرف کرلی اور ۱۹۲۹ء سے ان کے ادبی مضامین اور افسانے شائع ہونے لگے۔
جنوری ۳۰ء میں ان کاافسانہ ’’انگوٹھی کی مصیبت‘‘ نیرنگِ خیال کے سالنامہ میں شائع ہوا۔ اس افسانے کے چھپتے ہی ہمارے ادبی حلقوں میں ایک بھونچال سا آگیا۔ جس کو دیکھو اس کی زبان پر اسی کا ذکر۔ بعد میں چغتائی صاحب نے وہ بے شمار خطوط مجھے دکھائے جو اس افسانے کے بارے میں ان کے پاس آئے تھے۔ بیشتر خطوط توصیفی تھے لیکن بعض خطوط میں نفسیاتی کیفیات کی روشنی میں افسانے کے بعض مقامات کی توضیح چاہی تھی۔ بعض میں شعور اور لاشعور کی بحث کی گئی تھی۔ ایک خاتون نے پوچھا کہ ہرتو جب ہرووئن سے پوچھتا ہے، ’’بھولو گی تو نہں۔۔۔۔ بھولو گی تو نہں۔۔۔۔ بھولوگی تو نہں ش۔۔۔؟‘‘ تو اس مں جو قفے ہں ا کا آپ بتائں گے کہ یہ لذّتِ التشام سے مغلوب ہونے کے ہں ں؟ چغتائی صاحب بولے، ’’ہمیں آج تک ییک معلوم نہں۔ کہ لذّتِ التشام کاھ ہوتی ہے۔‘‘ چنانچہ ہم دونوں نے لُغت مں ک اس کے معنی دیکھے اور چغتائی صاحب ہنسے کہ مر ے تو وہم مں ج بھی یہ بات نہ آئی تھی۔ لوگ بھی کیئن کیان توضیحیں کرلیتے ہیں۔
اس افسانے کے بعد چغتائی صاحب کے چند اور افسانے دوسرے رسالوں میں چھپے مگر وہ اس طرز کے نہیں تھے۔ اس سال اس سے بہتر اور کوئی افسانہ چھپا ہی نہیں حالانکہ اس زمانے میں بڑے بڑے افسانہ نگار تقریباً سبھی زندہ تھے اور لکھ رہے تھے۔ اس کے کوئی ایک سال بعد میرے پاس ایک خط علی گڑھ سے آیا۔ اس میں چغتائی صاحب کا خط اور دو افسانے تھے۔ خط میں بڑا خلوص تھا اور کسر نفسی بھی۔ ساقیؔ دیکھنے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔ ان کا خط پاکر بے حد خوشی ہوئی اور اسی دن سے ان سے ملنے کو جی چاہنے لگا۔ یہ افسانے تھے، ’’ٹکٹ چیکر‘‘ اور ’’کولتار۔‘‘ دوسرا افسانہ بہت مشہور ہوا، اور جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو ہم نے منصوبہ بنایا کہ ’’کولتار‘‘ کا پورا ناول کیسے مرتب کیا جائے۔
مرزا صاحب کا پہلا خط ملنے کے بعد ان سے دس سال تک خط و کتابت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ شاید ہی کوئی ہفتہ ناغہ ہوتا ہو۔ ان خطوں میں دُنیا زمانے کی باتیں ہوتی تھیں۔ اور جب خطوں سے جی نہ بھرتا تو وہ دلّی چلے آتے یا مجھے ان کے پاس جانا پڑتا۔
پہلا خط بھیجنے کے دو تین مہینے بعد ان کا خط آیا کہ میں دلّی آرہا ہوں اور رات کی فلاں گاڑی سے، بیوی بھی ساتھ ہوگی۔ مرزا صاحب کی تصویر ہم سب دیکھ چکے تھے۔ رات کو میں، انصار ناصری اور فضل حق قریشی انہیں لینے اسٹیشن پہنچے۔ ریل آئی، ایک ایک ڈبّہ چھان مارا۔ چغتائی صاحب کا کہیں پتہ نہ چلا۔ جب گاڑی بلکل خالی ہوگئی تو ہم اسٹیشن سے باہر نکل آئے۔ سامنے سڑک پر سے ایک تانگہ گزرا۔ اس میں ایک خاتون اور ایک صاحب دکھائی دئے۔ فضل حق نے کہا، ’’وہ جارہے ہیں چغتائی صاحب!‘‘ میں نے اور انصار نے چونک کر انہیں دیکھا۔ کوئی بڈھا چُرمرایا سا آدمی تھا۔ موٹی سی عینک لگائے، پھر ہم سب ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس پڑے۔ اگلے دن صبح میں گھر ہی میں تھا کہ اطلاع پہنچی، ’’چغتائی صاحب مردانے میں آئے بیٹھے ہیں۔‘‘ میں لپک کر پہنچا تو دیکھا کہ بیٹھک میں وہی تانگے والا بڈھا بیٹھا ہے۔ غور سے دیکھا تو اسے تصویر سے کچھ مشابہ پایا۔ اس نے کہا، ’’آپ ہیں شاہد صاحب؟‘‘ میں نے کہا، ’’جی ہاں۔‘‘ اور وہ مجھ سے چمٹ گئے۔ بولے اماں میں تو سمجھا تھا کوئی خوفناک شکل کا مولوی ہوگا۔ مولوی شاہد احمد، تم تو اچھے خاصے آدمی ہو۔ ’’پھر خوب ہنسے تو میں نے دیکھا کہ نیچے کے چار دانت غائب۔ زرد چہرہ، آنکھوں کے کونوں پر بے شمار چھریاں، کلے پچکے ہوئے۔ ہونٹوں کے دونوں طرف قوسیں۔ لبوں پر لاکھا سا جما ہوا۔ چھوٹی چھوٹی کتری ہوئی مونچھیں، ڈاڑھی صاف، دُبلا پتلا سا شخص عینک کے موٹے موٹے شیشوں میں سے مجھے جھانک رہا ہے۔ میں نے کہا، ’’مرزا صاحب! آپ اپنی تصویر سے بالکل نہیں ملتے۔ کل رات کو آپ کو تانگے میں جاتے دیکھا مگر ہم نے آپ کو نہ پہچانا۔ کہاں ٹھہرے؟ بھابی کہاں ہیں؟ میرے گھر کا پتہ تو آپ کو معلوم ہی تھا۔ یہاں سیدھے کیوں نہ چلے آئے؟‘‘ بولے، ’’میں نے بھی تمہیں اسٹیشن پر دیکھا تھا مگر تمہیں جانتا نہ تھا۔ طبیہ کالج میں میری ایک بہن ہیں، ان کے ہاں چلا گیا۔ اب تمہارا گھر دیکھ لیا، شام کو آجاؤں گا بیوی کو لے کر۔‘‘ اس کے بعد ان سے رسالوں اور مضمون نگاروں اور مضمونوں کی باتیں ہوتی رہیں۔ اندازہ ہوا کہ مرزا صاحب کی قوتِ گویائی بھی بہت بڑھی ہوئی ہے۔ دوسرے کو ہاں ہوں سے آگے بڑھنے کی زحمت نہیں دیتے۔ مگر باتیں اتنی دلچسپ کہ گھنٹوں سُنو اور جی نہ بھرے۔
شام کو مرزا صاحب حسبِ وعدہ مع بیگم کے آگئے۔ رات کو سب احباب جمع ہوئے اور خوب قہقہے چہچہے رہے۔ رات گئے احباب رخصت ہوئے تو ہم سونے کے لیے لیٹے، مرزا صاحب، میں اور میرے منجھلے بھائی۔ مرزا صاحب بولتے رہے۔ میں سنتا رہا۔ وہ بولتے رہے، میں سو گیا۔ صبح اذانوں کے وقت انہوں نے آپ ہی آپ پھر بولنا شروع کردیا۔ دیکھا کہ ہوں ہاں بھی غائب ہے تو میرا شانہ ہلاکر بولے، ’’ارے بھئی تو بتہ النصوح کا پوتا آخر کب تک خواب دیکھتا رہے گا؟‘‘ ناچار جاگ کر ان کی باتیں سننے لگا۔ بولے، ’’سنتے ہو، میں ابھی بیت الخلا گیا تو ایک افسانے کا پلاٹ سمجھ میں آگیا۔ آج جانے سے پہلے تمہیں ہم وہ افسانہ لکھ کر دے جائیں گے۔ لو بس اب اٹھ بیٹھو۔ منہ ہاتھ دھو ڈالو۔‘‘
اتنے میں کہ میں تیار ہوں اور ناشتہ آئے چغتائی صاحب نے آدھا افسانہ لکھ ڈالا۔ ناشتے کے بعد کوئی صاحب ان سے ملنے آگئے۔ میں ٹل گیا۔ کوئی گھنٹہ بھر کے بعد آیا تو ان کے پاس افسانہ مکمل تھا اور وہ میرے منجھلے بھائی سے بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ وہ پولیس کے آدمی، ادب کے جھمیلوں سے اللہ نے انہیں محفوظ رکھا تھا۔ بولے، ’’لو میاں سنبھالو انہیں۔ خوب آدمی ہیں تمہارے چغتائی صاحب بھی۔ میاں غضب خدا کا ساری رات باتیں کرتے رہے تم دونوں!‘‘ وہ جب سوئے تھے تو ہم باتیں کر رہے تھے، جب جاگے تو ہم باتیں کر رہے تھے۔ سمجھے کہ ہم ساری رات ہی باتیں کرتے رہے۔ مرزا صاحب اس لطیفے سے بہت محظوظ ہوئے۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے افسانے کی شانِ نزول بتائی کہ ’’کل جو تم نے مجھے اسٹیشن پر نہیں پہچانا تو خاصی پریشانی ہوئی۔ مگر واقعی میری تصویر مجھ سے نہیں ملتی اور بھئی وہ تصویر کس کام کی جو اصل سے مل جائے؟‘‘ یہ افسانہ اپنی تصویر پر لکھا ہے۔ اس کا عنوان ہے، ’’یہ کس کی تصویر ہے؟‘‘ اس کے بعد انہوں نے افسانہ سنایا۔ حیرانی ہوئی کہ قلم برداشتہ ایسا شگفتہ افسانہ! اور اس کے بعد تو میں نے ان کی یہ کیفیت دیکھی کہ باتیں بھی کرتے جارہے ہیں اور افسانہ بھی لکھ رہے ہیں۔ عدالت میں مقدمہ بھی پیش کر رہے ہیں اور افسانہ بھی لکھاجارہا ہے اور بعد میں معلوم ہوا کہ اس افسانے کے کچھ ورق تو گھر آگئے اور کچھ ملزم کی مسل میں لگ کر عدالت کے فائل میں چلے گئے۔
ایک دفعہ اپنی وکالت کے زمانے میں مجھے جودھ پور بلایا۔ میں نے لکھا، ’’اگلے ہفتے آؤں گا۔ کچھ دلّی سے منگانا ہو تو لکھیے۔‘‘ خط آیا ’’اور کچھ لاؤ نہ لاؤ، پائے ضرور لانا۔ مدتیں ہوگئیں کھائے ہوئے۔‘‘ دلّی سے جودھپور کوئی چوبیس گھنٹے کا راستہ تھا۔ میں نے سوچا کے پائے لے جاؤں گا، جاڑے کے دن ہیں، خراب نہیں ہوں گے۔ ’’اتفاق سے ایک عزیز جے پور کے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا، ’’اسٹیشن ہی پر دھر لیے جاؤگے۔ جے پور، جودھ پور، کسی ہندو ریاست میں گائے نہیں ہوتی۔ اور لینے کے دینے پڑجائیں گے۔‘‘اس لیے ارادہ ملتوی کردیا۔ مگر جودھ پور پہنچتے ہی مرزا صاحب نے پہلا سوال یہی کیا، ’’پائے لائے ہمارے لیے؟‘‘ میں نے نہ لانے کی وجہ بتائی تو بولے، ’’ارے بھئی ہم وکیل ہیں، اگر تم پکڑے جاتے تو ہم تمہیں جرمانہ دے کر چھڑا لاتے، ابھی ہمارے ایک موّکل کی کار کی ٹکر ایک گئوماتا سے ہوگئی تھی۔ ان محترمہ کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ عدالت نے بارہ روپے جرمانہ کیا۔‘‘ میں نے کہا، ’’آپ کی وکالت یہاں کچھ چل بھی رہی ہے؟‘‘ کہنے لگے، ’’کیوں نہیں؟ہمارا رجسٹر دیکھو۔‘‘ یہ کہہ کر اپنا رجسٹر نکال کر دکھانے لگے۔ کسی سے پیشگی پانچ، کسی سے دس وصول ہوئے تھے۔ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ باقی میں ڈال رکھے تھے۔ بہت چمک کر بولے، ’’پچھلے مہینے چالیس روپے کی آمدنی ہوئی، چھ سو بقایا میں ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’ماشاء اللہ خوب چل رہی ہے۔‘‘ بولے، ’’میاں تم یافت کودیکھتے ہو، بقایا کو دیکھو۔ ہزاروں پہ نوبت ہے، ہزاروں پر۔‘‘ کوئی موکل آگیا تو جودھ پوری منشی کو بُلاکر کہا، ’’اس سے کہہ دو کہ وکیل صاحب کے پاس کام بہت ہے۔ کل کچہری میں ملے۔ ارے تم دیکھتے نہیں ہمارے دوست دلّی سے آئے ہوئے ہیں، موکل تو اور بھی آجائے گا۔ یہ کب کب ہاتھ آتے ہیں۔‘‘ اور پھر مرزا صاحب کی دلچسپ باتیں شروع ہوجاتیں اور باتیں ختم ہونے نہ پاتیں کہ وہ اپنے کسی ناول کا مسودہ سنانا شروع کردیتے۔ اس زمانے میں انہوں نے اپنا ناولٹ ’’ویمپائر‘‘ لکھا تھا۔ بولے، ’’میں پڑھتا ہوں، تم اس کی زبان ٹھیک کرتے جاؤ۔‘‘ میں نے کہا، ’’آپ کی زبان ایسی نہیں ہوتی کہ میں اسے ٹھیک کروں‘‘ کہنے لگے، ’’نہیں، مجھے اپنی کمزوری معلوم ہے۔ میں زبان کا بالکل خیال نہیں رکھتا، بس لکھے چلا جاتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا، ’’توآپ یہ مسودہ مجھے دیجیے، میں اس کی نظرثانی کردوں گا۔‘‘ کہنے لگے، ’’اچھا سن تو لو۔ ابھی مکمل کہاں ہوا ہے، پلاٹ آکر ایک جگہ اَڑ گیا ہے۔ آگے نہیں چلتا۔‘‘ پھر دو گھنٹے تک وہ سناتے رہے اور مسودہ ختم ہوگیا۔ پوچھنے لگے، ’’بتاؤ اب اسے ختم کیسے کریں؟‘‘ میں نے کچھ بتایا، ان کی سمجھ میں آگیا، بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے، ’’بس بھئی کل کی روانگی ملتوی کرو تو ہم اپنا یہ ناول مکمل کرکے تمہیں دیدیں گے۔ اس قدر لجاحت سے روکتے تھے کہ مجھے شرمندگی ہونے لگتی تھی۔ انہیں نیند بہت کم آتی تھی۔ رات کو بارہ ایک بجے تک جاگتے تھے۔ اس لیے میں صبح سات آٹھ بجے تک اٹھتا تھا۔ پھر دوپہر کو ضرور سوتا تھا۔ غرض میں تو سوتا ہی رہا اور انہوں نے ’’دیمپائر‘‘ مکمل کردیا اور ایک دو افسانے بھی لکھ کر تھمادیے۔‘‘
چغتائی صاحب کے اور سب عزیزوں کو دیکھ کر کہنا پڑا کہ، ’’ایں خانہ تمام آفتاب است۔‘‘ بڑے بھائی ملے، خوب تندرست و توانا۔ معلوم ہوا کہ آپ بھی تھرڈ کلاس وکیل ہیں۔ نیچے کے چار دانت غائب۔ مرزا صاحب سے چھوٹے بھائی ملے۔ قوی الحبثہ، مزاجاً صوفی۔ نیچے کے چار دانت غائب۔ ان سے چھوٹے بھائی بالکل چغتائی صاحب کی شکل کے مگر اچھی صحت۔ ’’آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘ فرمایا، ’’رہتا ہوں‘‘ ۔ نیچے کے چار دانت غائب۔ سب سے چھوٹے بھائی قد میں سب سے بڑے، ماشاء اللہ دیوزاد، یہ لمبا تڑنگا جوان۔ معلوم ہوا کہ آپ کو دق ہے۔ نیچے کے چار دانت غائب۔ مجھ سے نہ رہا گیا میں نے مرزا صاحب سے پوچھا، ’’یہ کیا مصیبت ہے کہ سب کے چار چار دانت غائب؟ کہنے لگے، ’’ایک دانتوں کے ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ انہی چار دانتوں سے پائیوریاہوتا ہے۔ بس سب نے اکھڑوا ڈالے۔‘‘ جب عصمت چغتائی ملیں تو سب سے پہلے میں نے یہی دیکھا کہ کہیں ان کے بھی چار دانت تو غائب نہیں؟ بحمداللہ ان کے سارے دانت برقرار تھے۔
ایک دفعہ پھر خط لکھا کہ، ’’ملنے کو بہت جی چاہتا ہے۔ آجاؤ۔ کسی کے نوکر تھوڑی ہو۔ تم آؤگے تو تم سے ڈس کس کرکے کئی افسانے لکھیں گے۔‘‘ میں پہنچا۔ صحت پہلے سے بدتر تھی۔ کھانسی زیادہ تھی۔ میں نے کہا آپ اپنی صحت کی طرف سے غفلت کر رہے ہیں۔ کہنے لگے، ’’ڈاکٹر کہتے ہیں تمہیں دق ہے۔ میں کہتا ہوں مجھے دِق نہیں، دمہ ہے۔‘‘ ان کی ضدی طبیعت نے ڈاکٹروں کی رائے ماننے سے بھی انکار کردیا تھا۔ من مانی دوائیں کھاتے رہتے تھے۔ گھروالوں میں سے بھی کسی کی نہ سنتے تھے بلکہ جو کچھ کوئی کہتا تو اَد بدَا کر اس کے خلاف کرتے اور تکلیف اٹھاتے۔ بھابی بھی ان کی ضد سے پریشان ہوتی تھیں مگر ان کی ایک بھی پیش نہ جاتی تھی۔ بیچاری خاموشی سے سارے گھر کا کام بھی کرتیں، بچوں کی نگرانی اور پرورش بھی اور شوہر کی خدمت بھی۔ اور کیا مجال جو کبھی پیشانی پر شکن تک آجائے۔
دوتین افسانے تو چغتائی صاحب نے میرے لیے پہلے ہی سے لکھ رکھے تھے۔ کئی افسانوں کے انہوں نے پلاٹ سنائے۔ سب اچھے، ایک سے ایک عمدہ۔ ایک مارواڑ کا رومان سُنایا۔۔۔ سوانہ کی روحیں۔۔۔ یہ سب سے زیادہ مجھے پسند آیا۔ کہنے لگے، ’’تو لاؤ پہلے اسی کو لکھ ڈالیں‘‘ اور کاغذ قلم لے کر لکھنا شروع کردیا۔ میں بیٹھا واقعی مکھیاں مارتا رہا کیونکہ اس سال وہاں ساری دُنیا کی مکھیاں آگئی تھیں۔ ایک گھنٹہ میں انہوں نے کئی صفحے لکھ ڈالے، پھر بولے، ’’میاں پٹہ کھیل چکے، لو ذرا اب تم قلم لو، میرا ہاتھ تھک گیا۔‘‘ میں نے قلم سنبھالا۔ وہ بے تکلف بولتے رہے۔ میں لکھتا رہا۔ دوتین صفحے لکھ کر میں نے کہا، ’’بس جی میں تو لکھ چکا۔ مجھے تو نیند آرہی ہے۔ مرغن کھانے کھلاتے ہو تو سونے بھی دو۔‘‘ کہنے لگے، ’’اچھا تو مچھردانی لگاکر سو رہو۔‘‘ عصر کے وقت انہوں نے جگایا، ’’کیا آج چائے نہیں پیوگے؟‘‘ اٹھنا پڑا، بولے، ’’افسانہ ختم ہو رہا ہے۔ شام تک ختم ہوجائے گا۔‘‘ میں تو چائے پی کر کسی کے ساتھ ٹل گیا۔ مرزا صاحب بیٹھے لکھتے رہے۔ چراغ جلے گھر واپس پہنچا تو بڑے خوش خوش بیٹھے ہوئے تھے۔ کہنے لگے، ’’لو بھئی یہ افسانہ۔‘‘ اور کوئی چالیس فل اسکیپ کا پُلندہ میر ی طرف بڑھا دیا۔ میں نے کہا، ’’شابش ہے مرزا صاحب آپ کی ہمت کو۔ بس کل صبح کی گاڑی سے میں چلا جاؤں گا۔‘‘ جانے کے نام سے ان کا منہ اتر گیا۔ کہنے لگے، ’’نہ جانے کیا بات ہے تم آجاتے ہو تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں بیمار نہیں ہوں۔ کل نہ جاؤ، ہم تمہیں دو افسانے اور لکھ دیں گے۔‘‘ انہوں نے یہ بات کچھ ایسے اندوہ ناک لہجے میں کہی کہ میرا دل بھر آیا۔ میں نے کہا، ’’اچھا پرسوں چلا جاؤں گا۔‘‘ بچوں کی طرح خوش ہونے لگے۔ مجھے تھوڑی دیر بعد خیال آیا کہ میرے پاس چغتائی صاحب کے تقریباً سو صفحے کے مضامین تو ہو ہی جائیں گے، اگر سو صفحے کے اور ہوجائیں تو ’’چغتائی نمبر‘‘ ہی کیوں نہ چھاپ دیا جائے۔ اتنے بڑے مضمون نگار اور ایسے پیارے دوست کی ایک اچھی یادگار ہی قائم ہوجائے گی۔ میں نے ان سے کہا کہ، ’’مرزا صاحب! تو پھر آپ یوں کیجیے کہ کل تو آپ مجھے جو کچھ لکھ کر دے سکیں دے دیں، اس کے بعد پندہ بیس دن میں مجھے چند مضامین اور لکھ دیجیے۔ میں ’’چغتائی نمبر‘‘ چھاپے دیتا ہوں۔ ’’یہ تجویز انہیں پسند آگئی۔ پوچھا، ’’بِک جائے گا؟‘‘ میں نے کہا، ’’نہ بکنے کی کوئی وجہ نہیں‘‘ کہنے لگے، ’’ایک ہفتے میں تمہیں سب مضامین پہنچ جائیں گے۔‘‘ میں نے چند تجویزیں انہیں بتائیں کہ اس اس طرح کے مضامین ضرور لکھیے مثلاً ایک آدھ غمناک افسانہ، دو ایک مکالمے یا ڈرامے اور ایک مضمون یہ کہ ’’میں مضمون کیسے لکھتا ہوں۔‘‘ کہا، ’’یہ سب ہوجائے گا۔‘‘
اگلے دن دو مضمون تو انہوں نے لکھ کر دے دیے اور بیسیوں پلاٹ سنائے۔ پھر کہنے لگے، ’’لکھتے لکھتے میرا ہاتھ تھک جاتا ہے۔ اگر کوئی شارٹ ہینڈ میں لکھنے والا مل جائے تو میں کئی ناول بول دوں۔‘‘
اگلے دن صبح سویرے میں اٹھ بیٹھا۔ بستر لپیٹنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ مرزا صاحب آگئے۔ افسردگی چہرے سے ظاہر تھی۔ کہنے لگے، ’’ارے بھئی سُنتے ہو، آج اور ٹھہر جاؤ۔ سارے مضامین ساتھ ہی نہ لیتے جاؤ؟‘‘ دل کٹ گیا ان کے اس خلوص کو دیکھ کر۔ میں نے کہا، ’’اگر آپ کو میرے ٹھہر جانے سے خوشی ہوگی تو میں ضرور ٹھہر جاؤں گا۔ مگر مجھے یہ گوارا نہیں کہ آپ میرے لیے مرتے رہیں۔ پندرہ دن میں تو یہ مضامین لکھے جائیں گے جو میرے پاس ہیں۔ باقی آپ پھر بھیجتے رہیے گا۔‘‘ بولے، ’’ارے بھئی تم نہیں جانتے کہ تمہارے یہاں ہونے سے میری کیا کیفیت ہے۔ سچ کہتا ہوں میں بالکل تندرست ہوگیا ہوں۔ بھوک لگنے لگی، خوراک دُگنی ہوگئی۔ جی چاہتا ہے کہ لکھوں اور لکھتاہی رہوں۔ میں اس وقت سے ڈر رہا ہوں کہ تم چلے جاؤگے تو مجھ سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا جائے گا اور پھر بیماری مجھے دبوچ لے گی۔‘‘ میں نے ان کو بہلانے کے لیے کہا، ’’اب تو آپ پہلے سے بہت اچھے ہیں۔ میں دلّی جاکر چند یونانی مرکبات آپ کو بھیجوں گا، ان سے رہی سہی کمزوری بھی جاتی رہے گی۔‘‘ مگر وہ پھیکی سی ہنسی ہنس کر رہ گئے اور بولے، ’’بس تو آج تم نہیں جارہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں!‘‘ جلدی جلدی بھابی سے جاکر کہا، ’’شاہد صاحب آج نہیں جارہے۔ آج انہیں جودھ پور کی سیر کرائی جائے گی۔ ذرا تگڑا ناشتہ کرادو آج۔‘‘ ناشتے کے بعد کسی دوست کی کار منگوائی۔ شہر کا ایک چکر اس میں لگایا۔ پھر ایک پرانا قلعہ دکھایا۔ ایک نیا محل تیار ہو رہا تھا، وہ دکھایا۔ ایک عزیز تھے، ان سے ملوایا۔ دوپہر کو گھر آئے، کھانا کھایا۔ باتیں کرتے کرتے میں تو سوگیا اور انہوں نے اتنی دیر میں دو چھوٹے چھوٹے مضمون لکھ لیے۔ کہنے لگے، ’’آج رات کو تمہیں گانا بھی سنوایا جائے گا۔‘‘ میں نے کہا، ’’آپ کو تو اس سے نفرت ہے۔‘‘ بولے، ’’تمہیں تو نہیں ہے۔ ایک ہندو پکا گانا گاتا ہے، اسے بلوایا ہے۔‘‘ وقت اچھا گزرا۔ صبح ناشتہ پر پھر کچھ روکنے کی تمہید اٹھائی تھی کہ بھابی نے کہا، ’’کیوں آپ انہیں پریشان کرتے ہیں۔ گھروالے پریشان ہوں گے کہ تین دن کو کہہ کر گئے تھے، آج چھ دن ہوگئے۔‘‘ کہنے لگے، ’’ارے صاحب یہ کسی کے نوکر تو ہیں نہیں کہ ان کی حاضری ہو۔ ہم یہاں سے ان کے گھر تار دیے دیتے ہیں۔ انہیں آخر کس بات کا فکر ہے؟‘‘ بھابی شاید کچھ اور کہتیں مگر بیچ میں مرزا صاحب کا چھ سال کا بچہ تجو بول پڑا۔ ’’اماں یہ دلّی میں کیا کرتے ہیں؟‘‘ بھابی نے کہا، ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ بچے نے کہا، ’’تو پھر یہ کھاتے کہاں سے ہیں؟‘‘ ہم سب ہنس پڑے اور وہ بات بھی اڑ گئی۔ چلتے وقت مرزا صاحب نے کہا، ’’وعدہ کرو کہ پھر جلدی آؤگے۔‘‘ میں نے کہا، ’’جب آپ یاد فرمائیں گے حاضر ہوجاؤں گا۔‘‘
نواب صاحب جاورہ خبر نہیں کب سے چغتائی صاحب کی قدردانی پر مائل تھے۔ کچھ عرصہ بعد سُنا کہ نواب صاحب نے انہیں جاورہ بلاکر چیف جج بنادیا۔ مرزا صاحب نے جاورہ بلایا۔ میں وہاں بھی گیا۔ نہایت عالی شان کوٹھی انہیں ملی ہوئی تھی۔ چغتائی صاحب بہت بڑے عہدہ دار تھے اور نواب صاحب کے مزاج پر بھی چڑھے ہوئے تھے۔ مجھ سے کہا کہ، ’’نواب صاحب سے کب ملو گے؟‘‘ میں نے کہا، ’’میں اتنے بڑے آدمیوں سے نہیں ملتا جن سے مل کر مجھے ذلت محسوس ہو۔‘‘ مرزا صاحب نے کہا، ’’ارے بھئی تمہارے دادا کے تو بڑے قدردان ہیں یہ نواب۔ میں نے یہاں لوگوں سے سنا ہے کہ نواب صاحب ایک دفعہ ایسے بیمار پڑے کہ ان کے جینے کی آس نہ رہی۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی بزرگ کہہ رہے ہیں‘‘ مولوی نذیر احمد کا ترجمۂ قرآن شائع کرو۔ تم اچھے ہو جاؤگے۔ انہوں نے تمہارے والد سے اجازت منگوائی اور دو جلدوں میں صرف ترجمہ اپنے چھاپہ خانہ سے شائع کیا اور واقعی اچھے ہوگئے۔ تو وہ تم سے مل کر بہت خوش ہوں گے۔ میں نے کہا، ’’اور کچھ خیرات بھی مجھے دیں گے۔‘‘ مرزا صاحب نے کہا، ’’تو پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے کہا، ’’مجھے معاف فرمائیے، میں تو صرف آپ سے ملنے آیا ہوں۔ میرے تو نواب یا بادشاہ جو کچھ ہیں آپ ہیں۔‘‘ مگر مرزا صاحب نے میری اس بات کو کچھ پسند نہیں کیا اور دل میں شاید کچھ ناراض بھی ہوئے۔
جاورہ میں مرزا صاحب کی صحت اور بھی زیادہ خراب رہنے لگی۔ وہاں کی مرطوب آب و ہوا سے ان کی سانس کی شکایت اور بڑھ گئی اور صحت گرتی ہی چلی گئی۔ شاید مشکل سے دو سال جاورہ میں رہے ہوں گے، ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ آپ جودھ پور واپس چلے جائیے ورنہ آپ یہاں بہت جلد مرجائیں گے۔ مرزا صاحب بیماری کا عُذر کرکے جودھ پور چلے آئے اور یہاں سے استعفیٰ بھیج دیا۔ وکالت کا کام پھر شروع کیا مگر بدن میں جان نہ ہونے کی وجہ سے وکالت ٹھس ہی رہی۔ اس لیے اپنی کتابیں چھاپنے کا کام خود شروع کردیا تھا۔
اب سے کوئی پچاس سال پہلے مولوی نذیر احمد صاحب نے ایک کتاب ’’امہات الامہ‘‘ لکھی تھی۔ یہ کتاب ایک دریدہ دہن پادری کی کتاب کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ اس نے آنحضرت صلعم پر بعض بڑے بیہود اعتراضات کیے تھے جن میں خاص طور پر ازدواجِ مطہرات کے سلسلے میں ناگفتہ بہ باتیں کہی تھیں۔ اس کتاب کا ایک جواب سرسید احمد خاں نے لکھا تھا اور ایک مولوی نذیر احمد نے۔ یوں تو یہ کتاب شروع سے آخر تک ایک علمی اور تاریخی کتاب ہے اور اپنے مواد کے لحاظ سے نہایت قابل قدر بھی۔ لیکن مولوی صاحب نے احترام کے الفاظ کسی نام کے ساتھ اس میں نہیں لگائے ہیں اور بعض جگہ فقرے بھی ایسے لکھ گئے ہیں جو زبان کے اعتبار سے چاہے کتنی ہی ٹکسالی کیوں نہ ہوں، رسول مقبول و اہل بیت کے ادب و احترام کے لحاظ سے قابل اعتراض سمجھے گئے۔ مولوی صاحب اس پیرائیہ بیان کا جواز یوں پیش کرتے تھے کہ چونکہ ایک عیسائی پادری اس کتاب کا مخاطب ہے، اس سے ان کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ یہ توضیح صحیح ہو یا غلط یہاں اس سے بحث نہیں۔ ہوا یہ کہ ہمارے علماء نے اس کتاب کو سوختنی اور مولوی ساحب کو کافر قرار دیا۔ مسلمانوں کے ایک بڑے ذمہ دار لیڈر نے رفعِ شر کے لیے اس کتاب کے سارے نسخے مولوی صاحب سے اپنی تحویل میں لے لیے اور مولوی صاحب کی بغیر اجازت انہیں علماء کے جلسے میں لے جا کر جلوادیا۔ قصہ مختصر اس ناگوار واقعہ کے بعد مولوی صاحب تین چار سال زندہ رہے مگر انہوں نے ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔ شامتِ اعمال اس کتاب کا نسخہ کہیں سے میرے ہاتھ لگ گیااور میں نے یہ سوچ کر کہ ایک اچھی کتاب سے مسلمان کیوں محروم رہیں، اسے جوں کا توں چھاپ دیا۔ اس کا چھپنا تھا کہ پھر ہمارے علماء نے اس کے خلاف تحریک شروع کردی۔ حکومت پر زور ڈالا کہ کتاب ضبط کرلی جائے۔ حکومت کو بھلا کیا غرض پڑی تھی کہ خواہ مخواہ اس جھگڑے میں پڑے؟ جب ادھر سے کامیابی نہ ہوئی تو مجھ پر بزرگوں سے دباؤ ڈلوایا گیا۔ یہ بھی ناکام رہا تو قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ اور ہر شہر میں اور دلّی میں اس کے خلاف جلسے ہونے لگے۔ چغتائی صاحب نے مجھے جودھ پور سے لکھا کہ ساری کتاب مجھے بھیج دو اور اعلان کردو کہ کتاب میرے پاس ہے جس میں ہمت ہو مجھ سے لے لے۔ میں نے ا نہیں دوسو جلدیں بھیج دیں کہ محفوظ ہوجائیں اور کتاب کی اشاعت روک دینے کااعلان کردیا۔ مسلمانوں نے مجھے نہ صرف معاف کردیا بلکہ خوش بھی ہوئے کہ چلوغلطی انسان ہی سے ہوتی ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ کتاب کی اشاعت بند کرکے اس نے اپنا مالی نقصان کرلیا۔ ادھر مرزا صاحب کی ضدی طبیعت نے زور مارا اور انہوں نے ایک مراسلہ ’’انقلاب‘‘ لاہور میں چھپوادیا کہ ’’امہات الاّمہ‘‘ شاہد احمد کے پاس اب نہیں ہے، میرے پاس ہے۔ جس میں ہمت ہو مجھ سے لے لے، بلکہ مسلمانوں کو چاہیے کہ مجھے کاٹ کر میرا پلاؤ پکائیں اور مُلاّنوں کو کھلادیں۔ اس کے چھپتے ہی بس آگ ہی تو لگ گئی۔ پندرہ دن بعد مرزا صاحب کے خط سے معلوم ہوا کہ جودھ پور کے مسلمانوں نے ان کے گھر کو گھیرلیا اور زبردستی ان سے ساری کتابیں لے گئے۔ اس کے بعد وہ ایک دن کچہری جارہے تھے تو دو چار بدمعاشوں نے ان پر لاٹھیوں سے حملہ کیا اور ان کے ایک ہاتھ میں سخت ضرب آئی۔ مرزا صاحب نے لکھا، ’’بھائی بڑی رُسوائی ہوئی، نوبت یہاں تک پہنچی کہ یا تو مسلمانوں کے جلسہ عام میں توبہ کرو اور اقرار اسلام کرو ورنہ تم کافر ہو اور قتل کردیے جاؤگے۔ سارے شہر میں آگ پھیلی ہوئی تھی۔ لاکھ میں سب سے کہتا ہوں کہ کتاب میں نے نہیں لکھی، دلّی والے نذیراحمد نے لکھی تھی مگر سب یہی کہتے کہ نہیں تم نے لکھی ہے اور اس میں تم نے سب کو گالیاں دی ہیں۔ چنانچہ مصلحت اسی میں سمجھی کہ اپنے آپ کو یہاں کے علماء کے حوالے کردوں۔ علماء مجھے ایک بڑے جلسے میں لے گئے۔ مجھ سے سب کے سامنے توبہ کرائی۔ مجھے کلمہ پڑھوایا اور دوبارہ مجھے مشرف بہ اسلام کیا۔ تب کہیں جان بچی۔ خیر مجھے اس تکلیف اور رُسوائی کا بھی اتنا افسوس نہیں، مگر بے حد رنج ہوا اور شرم آئی یہ دیکھ کر کہ وہ دو سو جلدیں جو تم نے مجھے بھیجی تھیں وہ مجھ سے مولوی زبردستی چھین لائے تھے، اس جلسے میں جلائی گئیں۔ افسوس کہ پچیس تیس سال میں مسلمانوں نے کوئی ذہنی ترقی نہیں کی۔‘‘
ایک دفعہ مرزا صاحب کا سخت اصرار ہوا کہ خود بھی آؤ اور بھابی کو بھی لے آؤ۔ تعمیل ارشاد کی گئی۔ اب کے جو انہیں دیکھا تو بڑا دکھ ہوا۔ ان کے پاؤں رہ گئے تھے اور چلنے پھر نے سے معذور ہوگئے تھے۔ بخار ہر وقت رہتا تھا۔ کھانسی بہت بڑھی ہوئی تھی۔ سوکھ کر قاق ہوگئے تھے۔ مگر دماغ اسی طرح روشن اور مزاج اسی طرح بشاش تھا۔ خوش تو ہمیشہ ہی ہوتے تھے۔ اب کے بہت خوش ہوئے۔ بولے، ’’دیکھو! ابھی تم آئے ہو اور ابھی ہماری بیماری جاتی رہی۔‘‘ مزے مزے کی باتیں کرتے رہے۔ ہنستے رہے، ہنساتے رہے۔ ایک ناول ’’شراب‘‘ لکھنا شروع کیا تھا مگر چند باب ہی لکھ سکے تھے۔ اس کے کچھ حصے سنائے اور چھاپنے کے لیے مجھے دیے۔ رات کو جب دسترخوان بچھا تو کھسک کر ساتھ بیٹھ گئے۔ بھابی وہیں سے چیخیں کہ آپ کچھ نہ کھالیجیے گا۔ کہنے لگے، ’’کھائیں گے ہم ضرور۔ اب ہم بالکل اچھے ہیں، کوئی بیمار تھوڑی ہیں۔‘‘ مجھ سے کہتے جاتے تھے، ’’ارے بھئی یہ ہمیں بھی دو۔‘‘ بھابی جھلاتی تھیں مگر وہ اپنا کام کئے جاتے تھے۔ کھایا تو خیر ان سے کیا جاتا، تھوڑا تھوڑا سا سب چکھ لیا۔ بارہ ایک بجے تک باتیں کرتے رہے۔ صبح جب مرزا صاحب کو دیکھا تو ان کی حالت غیر تھی۔ معلوم ہوا کہ سخت بدہضمی ہوئی۔ رات بھر اوکتے اور ڈالتے رہے۔ پلیتھن نکل گیا۔ اتنے کمزور ہوگئے تھے کہ آواز بھی نہ نکلتی تھی۔ دودن میں طبیعت کچھ سنبھل گئی تھی۔ ہم بازار سے گھوم پھر کر آئے تو تکیے کے سہارے پلنگ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ بولے، ’’لو یہ افسانہ تمہارے لیے لکھا ہے۔‘‘ پڑھ کر سنایا۔ عنوان تھا ’’برتھ کنٹرول۔‘‘ میں ہنس رہا تھا، مرزا صاحب بھی ہنستے جاتے تھے۔ مجھے کیا خبر تھی کہ یہ ان کا آخری افسانہ ہے، اور میرے لیے ان کی یہ ہنسی بھی آخری! اگلے دن ہمیں دلّی واپس جانا تھا۔ رات کو باتیں کرتے کرتے میری بیوی سے بولے، ’’آپ کا آنا ایسے وقت میں ہوا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔‘‘ پھر ایک اپنا چھپا ہوا لیٹر فارم نکالا اور اس پر کچھ لکھ کر انہیں دیا کہ ’’اسے قبول کرلیجیے۔‘‘ انہوں نے پڑھ کر میری طرف بڑھادیا۔ مرزا صاحب نے کتاب ’’کولتار‘‘ کاحقِ تصنیف ان کے نام منتقل کردیا تھا۔ میں نے کہا، ’’یہ نہیں ہوسکتا۔ یہ آپ کے بچوں کی حق تلفی ہے۔‘‘ کہنے لگے، ’’تم خاموش رہو جی۔ تمہیں تھوڑی دے رہے ہیں۔‘‘ نہیں مانے اور زبردستی وہ کاغذ میری بیوی کے ہاتھ میں رکھ دیا۔
مرزا صاحب کی صحت گرتی ہی چلی گئی۔ ان کے خطوط سے ان کا حال معلوم ہوتا رہتا تھا۔ اس کے بعد ایسے خط آنے شروع ہوئے جو ان کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔ پھر ایک دن ان کاخط ملا کہ ’’آخری بار آکر مل جاؤ۔ کچھ روپے لیتے آنا۔‘‘ میں نے روانگی کا تار دیا اور رات ہی کی گاڑی سے چل پڑا۔ اسٹیشن پر ان کے چھوٹے بھائی آئے تھے۔ میں نے پوچھا، ’’چغتائی صاحب کا کیا حال ہے؟‘‘ بولے، ’’وہی ہے!‘‘ سمجھ میں نہ آیا کہ وہی ہے کا کیا مطلب ہے۔ گھر پہنچے تو دیکھا کہ ان کے حصے کے کمروں میں سنّاٹا! نہ بھابی نہ بچے۔ ایک کمرے میں پلنگ پر لحاف اوڑھے چغتائی صاحب پڑے تھے۔ پاس کوئی نہ تھا۔ میں نے آواز دی اور سلام کیا تو منہ پر سے لحاف ہٹایا۔ مجھ پر بجلی گرپڑی۔ مرزا صاحب کے بدلے ایک سِکھ دکھائی دیا۔ کڑبڑی داڑھی مونچھیں اور بڑھے ہوئے سرکے بالوں پر ایک رومال بندھا ہوا۔ پیلا چہرہ، پھٹی پھٹی آنکھیں۔ لحاف ہلا تو اس میں سے بدبو کا ایک بھبکا آیا۔ یا یوں کے نیچے پانی کے پیالے رکھے ہوئے تھے مگر پلنگ پر ٹانکے کے چیونٹے پھر رہے تھے۔ میں رونے لگا۔ وہ بھی آب دیدہ ہوگئے۔ میں نے کہا، ’’یہ کیا حالت ہوگئی؟‘‘ بولے، ’’بس اب ختم سمجھو۔‘‘ پھر ایک دم سے مسکرائے اور کراہتے ہوئے بولے، ’’ارے ارے آپ کو دیکھیے۔‘‘ اور لحاف میں سے ایک چیونٹا چٹکی میں پکڑ کر نیچے پھینکا۔ ’’مرنے سے پہلے ہی اپنا حصہ لینے چلے آئے۔‘‘ اتنے میں اندر کے رُخ کا ایک دروازہ کھلا اور ان کی والدہ اندر آئیں۔ بولیں، ’’منّے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے؟‘‘ مرزا صاحب نے کہا، ’’یہ شاہد صاحب آئے ہیں، انہیں پہلے چائے پلوائیے۔‘‘ اماں چلی گئیں تو ان کی باتوں سے معلوم ہوا کہ اب صرف امّاں ہی ان کا خیال رکھتی ہیں۔ ماشاء اللہ بھرا پُرا گھر تھا مگر کوئی ان کے پاس نہ آتا تھا۔ میں نے کہا، ’’بھابی اور بچے کہاں ہیں؟‘‘ بولے، ’’رام پور!‘‘ میں نے کہا، ’’وہ کیوں؟‘‘ کہنے لگے، ’’بیوی کو میری خدمت کرتے کرتے خود دق ہوگئی۔ میں نے ان سے بارہا کہا کہ تم یہاں سے چلی جاؤ ورنہ تم بھی مرجاؤگی۔ مگر وہ نہ مانیں۔ جب میں نے دیکھا کہ میں تو مر ہی رہا ہوں اور اگر یہ نہ چلی گئیں تو یہ بھی مرجائیں گی، تو میں نے ان سے کہا، اگر تم یوں نہیں جاؤگی تو ہم تمہیں طلاق دے دیں گے۔ وہ پھر بھی نہ گئیں۔ میں نے ان سے کہہ دیا کہ آپ کو ہم نے طلاق دے دی، آپ یہاں سے تشریف لے جائیے۔ تو انہوں نے کہا آپ کے طلاق دینے سے کیا ہوتا ہے۔ ہم نے تو طلاق نہیں لی۔ ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔ آخر میں نے تنگ آکر ان کے میکے والوں کو خط لکھا کہ اپنی لڑکی کو آکر لے جاؤ، میں نے اسے طلاق دے دی ہے۔ خط کے پہنچتے ہی ان کا بھائی آدھمکا اور زبردستی اپنی بہن کو یہاں سے لے گیا۔‘‘ میں نے کہا، ’’یہ آپ نے اچھا نہ کیا، ساری عمر کی خدمت کا آپ نے یہ صلہ دیا انہیں۔‘‘ کہنے لگے، ’’بھائی اگر وہ یہاں رہتیں تو واقعی مر جاتیں۔ ان کے بچانے کی اور کوئی صورت ہی نہیں تھی، اور ہاں سُنو! اصل میں طلاق ہوئی نہیں ہے مگر ان کے گھر والوں کو میں جانتا تھا کہ ایک خط میں ہی آکر لے جائیں گے۔ بیوی نے بہت کہا بھی یہ طلاق نہیں ہے مگر ان کے بھائی نے کہا، ’’جب انہوں نے ہمیں لکھ کر ہی بھیج دیا تو اگر نہیں ہوئی تب بھی ہوگئی۔‘‘
اس کے بعد ان کی امّاں اور بھائیوں اور عصمت چغتائی سے باتیں کرنے پر معلوم ہوا کہ بیماری نے مرزا صاحب کے دماغ پر عجب طرح کا اثر ڈالا ہے کہ انہیں دوسروں کو تکلیف پہنچا کر لُطف آتا ہے۔ مثلاً بھائیوں بھائیوں کو لڑادیں گے۔ کسی پر چوری کا الزام لگادیں گے۔ طبیعت سے گھڑکر کوئی ایسی بات کریں گے کہ دو آدمی الجھ جائیں۔ ہم سب نے تنگ آکر ان کی طرف جانا ہی چھوڑ دیا۔ بس ماں کی ہی مامتا ہے جو برداشت کر رہی ہے۔ میں نے کہا، ’’مگر اب تو ان کا آخری وقت ہے۔ کتنے دن جیئیں گے بچارے۔‘‘ مگر سارے بھائی بہن یہی کہتے تھے کہ ’’یہ نہیں مریں گے۔ کتنی ہی دفعہ ہوچکا ہے کہ منے بھائی مر رہے ہیں، منے بھائی مر رہے ہیں۔ سب بھاگے بھاگے گئے۔ اور وہ نہ مرے نہ درے۔ پھر اچھے خاصے ہوگئے۔‘‘ اس گھر میں تین دن رہنا مجھے اجیرن ہوگیا۔ عجیب بے کسی کی زندگی تھی۔ گرم گرم بخار چڑھتے، پنڈا جھلستا رہتا۔ ہڈیاں تک سوکھ گئی تھیں۔ کھانسی کے مارے سینے میں سانس نہ سماتا تھا۔ پاؤں بالکل بے کار ہوچکے تھے۔ مگر دماغ روشن تھا۔ کوئی تیمار دار نہیں۔ پیسہ کوڑی پاس نہیں۔ نہ جانے کس وقت دم نکل جائے۔ گھروالے تو مطمئن ہیں کہ یہ مرنے ہی کے نہیں! میں نے جی میں کہا، ’’اللہ تیری شان ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے دنیا کو ہنسایا اور مرنے کے بعد بھی ہنساتا رہے گا۔ اور اِس عذاب میں مبتلا! تو ہی اپنی مصلحتوں کو خوب جانتا ہے۔‘‘ جب میں ان سے رخصت ہونے لگا تو ہاتھ بڑھایا اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ میں رو رہا تھا۔ وہ بھی رو رہے تھے۔ میں نے کہا، ’’یہ روپے رکھ لیجیے۔‘‘ پوچھنے لگے، ’’کتنے ہیں؟‘‘ میں نے کہا ‘’دوسو ہیں۔ اگر زیادہ کی ضرورت ہو تو میں دلّی پہنچ کر اور بھیج دوں گا۔‘‘بولے‘‘ بہت ہیں۔ تکیے کے نیچے رکھ دو۔ ’’خدا حافظ کہہ کر میں آنسو پونچھتا باہر نکل آیا۔ پھر ان کی صورت دیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔ شاید دوہفتے گزرے ہوں گے کہ ان کے انتقال کی خبر ملی۔ میں نے کہا، ’’لو بھئی وہ مرگیا جو مرتا نہ تھا۔ اناللہ و اناالیہ راجعون۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.