Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مٹھو بھٹیارہ

اشرف صبوحی

مٹھو بھٹیارہ

اشرف صبوحی

MORE BYاشرف صبوحی

    میاں مِٹھو کا نام تو کچھ بھلا سا ہی تھا۔ کریم بخش یا رحیم بخش ٹھیک یاد نہیں، ڈھائی ڈھوئی کے مہینے سے پہلے کی بات ہے۔ ساٹھ برس سے اوپر ہی ہوئے ہوں گے۔ مگر ایک اپنی گلی والے کیا، جو انہیں پکارتا ‘‘میاں مٹھو’’ بھٹیارے تھے۔ سرائے کے نہیں، دِلی میں محلے محلے جن کی دوکانیں ہوتی ہیں، تندور میں روٹیاں لگتی اور شوربا، پائے اور اوجھڑی بکتی ہے۔ نان بائی اور نہاری والوں سے ان بھٹیاروں کو ذرا نیچے درجے کا سمجھنا چاہیے۔ تندور والے سب ہوتے ہیں۔ نان بائیوں کے یہاں خمیری روٹی پکتی ہے۔ یہ بے خمیر کی پکاتے ہیں۔ ادھر آٹا گوندھا اور ادھر روٹیاں پکانی شروع کردیں۔ پراٹھے تو ان کا حصہ ہیں۔ بعض تو کمال کرتے ہیں۔ ایک ایک پراٹھے میں دس دس پرت اور کھجلے کی طرح خستہ۔ دیکھنے سے منہ میں پانی بھرآئے۔ قورمہ اور کبابوں کے ساتھ کھائیے۔ سبحان اللہ۔ بامن کی بیٹی کلمہ نہ پڑھنے لگے تو ہمارا ذمہ۔

    شاہ تارا کی گلی میں شیش محل کے دروازے سے لگی ہوئی میاں مِٹھو کی دکان تھی۔ شیش محل کہاں؟ کبھی ہوگا۔ اس وقت تک آثار میں آثار ایک دروازہ وہ بھی اصلی معنوی میں پھوٹا ہوا باقی تھا۔ نمونتہً یا بطور یادگار۔ اب تو ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ بھی صاف ہوگیا۔ اس کی جگہ دوسری عمارتیں بن گئیں۔ دروازہ تو کیا رہتادروازے کے دیکھنے والے بھی دوچار ہی ملیں گے۔ سنا ہے جاڑے، گرمی برسات محلے بھر میں سب سے پہلے میاں مِٹھو کی دکان کھلتی۔ منہ اندھیرے بغل میں مصالحہ کی پوٹلی وغیرہ، سرپر پتیلا، پیٹھ کے اوپر کچھ چھپٹیاں کچھ جھانکڑ لنگی میں بندھے ہوئے گنگناتے چلے آتے ہیں۔ آئے، دکان کھولی، بہارو بھارو کی، تندور کھولا، ہڈیوں گڈیوں یا اوجھڑی کا ہنڈا نکالا، ہڈیاں جھاڑیں، اس کوٹھی کے دھان اس کوٹھی میں کئے یعنی گھر سے جو پتیلا لائے تھے ہنڈے کا مال اس میں ڈالا، مصالحہ چھڑکا اور اپنے دھندے سے لگ گئے۔ سورج نکلتے نکلتے سالن، نہاری، شروا، جو کہو درست کرلیا۔ تندور میں ایندھن جھونکا۔ تندور گرم ہوتے ہوتے غریب غربا کام پر جانے والے روٹی پکوانے یا لگاون کے لیے شروا لینے آنے شروع ہوگئے۔ کسی کے ہاتھ میں آنے کاطباق ہے تو کوئی مٹی کا پیالہ لئے چلا آتا ہے اور میاں مٹھو ہیں کہ جھپاجھپ روٹیاں بھی پکاتے جاتے ہیں اور پتیلے میں کھٹاکھٹ چمچہ بھی چل رہا ہے۔

    میاں مٹھو کی اوجھڑی مشہور تھی۔ دور دور سے شوقین منگواتے۔ آنتوں اور معدے کے جس مریض کو حکیم اوجھڑی کھانے کو بتاتے وہ یہیں دوڑا چلا آتا۔ کہتے ہیں کہ پراٹھے بھی جیسے میاں مٹھو پکا گئے پھر دلی میں کسی کو نصیب نہ ہوئے۔ ہاتھ کچھ ایسا منجھا ہوا تھا، تندور کا تاؤ کچھ ایسا جانتے تھے کہ مجال ہے جو کچا رہے یا جل جائے۔ سُرخ جیسے باقر خانی، سموسے کی طرح ہر پرت الگ نرم کہو تو لچئ سے زیادہ نرم بالکل ملائی۔کرارا کہو تو پاپڑوں کی تھئی کھجلے کو مات کرے۔ پھر گھی کھپانے میں وہ کمال کے پاؤ سیر آٹے میں ڈیڑھ پاؤ گھی کھپا دیں۔ ہر نوالے میں گھی کا گھونٹ۔ اور لطف یہ کہ دیکھنے میں روکھا۔ غریبوں کے پراٹھے بھی ہم نے دیکھے۔ دو پیسے کے گھی میں تربتر۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا کہ ڈیڑھ پاؤ گھی والے سے دو پیسے والے پر زیادہ رونق ہے۔ اس ہنر کی بڑی داد یہ ملتی ہے کہ غریب سے غریب بھی پراٹھا پکواکر شرمندہ نہ ہوتا۔ پوسیری اور چھٹنکی پراٹھے دیکھنے والوں کو یکساں ہی دکھائی دیتے۔ مال دار اور مفلس کا بھید نہ کھلتا۔

    پچھلے وقتوں میں ہر آدمی اپنی کھال میں رہتا۔ جس رنگ میں ہوتا وہی رنگ دکھاتا۔ جس قوم کا ہوتا وہی بتاتا۔ یہ نہیں کہ پیٹ سے زیادہ ملا اور اپھر گئے۔ ہیں اوباش اور صورت ایسی اختیار کی کہ لوگ صوفی کہیں، تھے مردھوں میں اللہ نے کام چلادیا اب مرزا مغل کی اولاد ہونے میں کیا شک رہا۔ اللہ نے جیسا بنادیا، جس پیشے میں رزق اتار دیا، جو صورت بنا دی، اپنی شخصیت کی جھوٹی نمائش انسان کیوں کرے۔ جہاں ہوں، کیا وہاں شرافت نہیں دکھاسکتے؟ حلال خور، چمار، کنجڑے قصائی سب اپنے اپنے درجے میں شریف ہوتے ہیں۔ اچھے کام کرو، دین داری بھل منسائی کے ساتھ دوسروں سے پیش آؤ، حرام خوری پر کمر نہ باندھو یہی شرافت ہے ‘‘جنم کا اولیا، کرم کا بھوت، پہلے کپوت دوجے اچھوت’’ اونچے خاندان میں سبھی تو فرشتے نہیں ہوتے۔ ایک درخت کے بہت سے پھل کِڑ کھائے بھی نکل آتے ہیں۔ دھول کوٹ کی بعض کچریاں ایسی مزیدار دیکھو گے کہ لکھنؤکا چتلاپانی بھرے۔

    کوئی پچاس برس ہوئے کلّن نفیری والا، گلزار بھانڈ، اچیل ہیجڑا، ننواں تیلی، اجلا دھوبی، ببی رنگریز، چپّو قصائی، چھوٹا گھوسی، امیر نائی، شبو شہدا، نبو گورکن، کوڑا بھنگی کہنے کو کمین اور پیشے کے لحاظ سے نیچے تھے۔ مگر ان کی شرافت کا کیا کہنا؟ پھر خدا نے ان کو بڑھایا چڑھایا بھی ایسا ہی تھا۔ میاں مٹھو رہے تو بھٹیارے کے بھٹیارے غریب کو مرتے مرتے کھر کا مکان تک نہ جڑا۔ بھٹیارے سے نان بھائی بھی نہ بنے۔ سدا اپنے ہاتھ سے تندور جھونکا۔ ہاں یہ بات ضرور تھی کہ جیتے جی کوئی ان کی طرف انگلی نہ اٹھاسکا۔ کیا مجال جو کسی طور طریق میں بساند آتی۔ نور کے تڑکے سرجھکائے آنا، ہنس کر بات کرنا ، اپنے کام سے کام رکھنا، اور رات کے بارہ بجے آنکھیں بند کئے چلے جانا۔ آدمی کچھ مشین نہ تھے۔ معمولی قد، چھریرا بدن، سرگھٹا ہوا، چندی آنکھیں، پلکیں اڑی ہوئیں، شاید دھویں اور آگ نے آنکھوں کا یہ درجہ بنادیا تھا۔ ڈاڑھی کیا بتاؤں، جب کبھی ہوگی تو بالکل خصی بکرے کی سی۔ تندور میں جھک کر روٹی لگائی جاتی ہے۔ کوئی کیسا ہی جھپا کا کرے، آگ کی لپٹ کہاں چھوڑے، جھلستے جھلستے لہسن کی پیندی بن کر رہ گئی تھی۔ ڈاڑھی کا یہ حال تو مونچھوں کا کیا ذکر۔

    دِلّی میں جب تک شاہی رہی دن عید ،رات شب برات تھی۔ ایک کماتا ،کنبہ بھر کھاتا۔ نہ ٹیکس تھے، نہ اتنی گرانی، ہر چیز سستی، غدر کے بعد تک روپے کا پچیس سیر آٹا، پکا دوڈھائی سیر گھی، بکری کا اچھے سے اچھا گوشت چار یا چھ پیسے سیر، ترکاریاں پڑی سڑتیں، کون پوچھتا؟ مکانوں کا کرایہ برائے نام۔ اول تو غریب یا امیر سب کے مرنے جینے کے ٹھکانے اپنے الگ۔ پکا محل نہ سہی کچی کھپریل سہی۔ دوسرے غیر جگہ بسے بھی تو مفت برابر۔ آٹھ آنے، روپیہ، دو روپے حد تین، اس سے زیادہ نہ کوئی دیتا نہ لیتا۔ ان فارغ البالیوں اور راحتوں کے بعد مہینے کے تیس دن میں اکیس میلے کیوں نہ ہوتے؟ ایک نہ ایک تہوار رکھا تھا۔ پھر جو تھارنگیلا۔ بات بات میں دل کے حولے دکھانے اور چھٹی منانے کے بہانے ڈھونڈے جاتے۔ عید کے پیچھے ہفتہ بھر تک سیریں منائی جاتیں۔ باغوں میں ناچ ہو رہے ہیں۔ دعوتیں اڑ رہی ہیں۔ شب برات آئی آتش بازی بن رہی ہے۔ وزن سے وزن کا مقابلہ ہے۔ بسنتوں کی بہار دیکھنے کے قابل ہوتی، سورج مکھی کے ارد گرد مرہٹی بازوں کے غول میں واہ واہ کا شور ہے، آج اس مزار پر پنکھا چڑھا کل اس درگاہ پر، محرم میں سبیلیں سجتیں، تعزیہ داریاں ہوتیں، براق نکلتے، اکھاڑے جمتے۔

    ‘‘دِلّی کی دل والی منہ چکنا پیٹ خالی’’۔ غدر کے بعد کی کہاوت ہے۔ گھر بار لٹ گیا شاہی اجڑ گئی سفید پوشی ہی سفید پوشی باقی تھی۔ اندر خانہ کیا ہوتا ہے؟ کوئی کیا جانے۔ باہر آبرو، جہاں تک سنبھائی جاسکتی سنبھالتے۔ مدتوں پرانی وضعداری کو نبھایا۔ شہر آبادی کی رسمیں پوری کرتے رہے۔ سات دن فاقے کرکے آٹھویں روز پلاؤ کی دیگ ضرور چڑھ جاتی۔ اپنے بس تو باپ دادا کی لکیر چھوڑی نہیں۔ اب زمانہ ہی موافق نہ ہو تو مجبور ہیں۔ فاقے مست کا لقب بھی مسلمانوں کو قلعہ کی تباہی کے بعد ملا ہے۔ اللہ اللہ ایک حکومت نے کیا ساتھ چھوڑا سارے لچھن جھڑ گئے۔ ہر قدم پر منہ کی کھانے لگے۔

    اگلےروپ اب تو کہاں دیکھنے میں آتے ہیں۔ کچھ بدنصیبی نے بگاڑے تو کچھ نئی تہذیب نے بدلے۔ اور جو کہیں دکھائی بھی دیں گے تو بالکل ایسی جیسے کوئی سانگ بھرتا ہے۔ دل کی امنگ کے ساتھ نہیں صرف رسماً کھیل تماشہ سمجھ کر۔ محرم میں سبیلیں آج بھی رکھی جاتی ہیں۔ تعزیہ داری بھی ہوتی ہے۔ مگر دلوں کے حوصلے مرگئے تو زندگی کس بات میں؟ پرانی روحوں کو ثواب پہنچانے کے سوا کچھ نہیں۔ میاں مِٹھوں دوکان کے آگے دو کورے مٹکے رکھ کر سبیل بھی لگاتے اور برابر کی دوکان میں تعزیہ بھی رکھتے۔ ان کے تعزیہ میں کوئی ندرت تو نہ ہوتی۔ آرائش والوں سے بنوالیتے۔ معمولی کھپچیوں اور پنّی کا۔ ہاں جو چیز دیکھنے کے قابل تھی وہ ان کی عقیدت یا سوگوار صورت، چاند رات سے جو یہ امام حسین علیہ السلام کے فقیر بنتے تو بارہویں کو حلیم کھاکر کہیں نہاتے دھوتے اور کپڑے بدلتے۔

    دِلّی میں پچاس ساٹھ برس پہلے تک منتوں، مرادوں کا بڑا زور تھا، درگاہوں میں چلے چڑھتے، مسجدوں میں طاق بھرے جاتے، بچوں کے گلے میں اللہ آمین کے گنڈے ڈالتے، جینے کے لیے طرح طرح سے منتیں مانی جاتیں۔ کوئی شاہ مدار کے نام کی چوٹی رکھتا، کوئی حسینی فقیر بنتا۔ لوگ کچھ کہیں جہالت کے عیب لگائیں یا عقیدے کا کچا بتائیں۔ سچ پوچھو تو فارغ البالی کے سارے چونچلے تھے۔ وہ جو مثل ہے ‘‘کیا گنجی نہائے گی کیا نچوڑے گی’’۔ دل ہی افسردہ ہو اور ہاتھ خالی ہوگئے تو جس کام میں جتنی چاہو فی نکال لو، خیر وقت وقت کی راگنیاں ہوتی ہیں۔ مطلب یہ کہ میاں مٹھو بھی فقیر بنتے تھے۔ بچپن میں ماں باپ نے بنایا ہوگا۔ جوانی میں بدصورت پر بھی کچھ نہ کچھ روپ ہوتا ہے۔ سبز پوشی بھا گئی۔ ہر سال فقیر بننے لگے۔ تعزیہ داری کئی پشتوں سے ان کے ہاں ہوتی آئی تھی۔ یہ اپنے بڑوں کی سنت کیوں ترک کرتے۔ اس کے بعد لوگوں کا بیان ہے کہ انہیں کچھ نظر بھی آیا۔ حضرت عباس کی زیارت بھی ہوئی۔ اور ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی بار۔ یہی سبب تھا کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق سچے دل سےتعزیہ نکالتے اور جو کچھ کرتے بناوٹ سے خالی ہوتا۔ جوانی بھر ان کا یہی طور رہا۔ اور مرتےمرتے اور کچھ نہ ہو تعزیہ نکالنا اور فقیر بننا نہ چھوڑا۔ آخر میں غریب کی آنکھیں جاتی رہی تھیں۔ دکان پر ایک شاگرد کو بٹھادیا تھا۔ وہ نالائق نکلا آٹھ آنے روز استاد کو دیتا وہ بھی آٹھ آٹھ آنسو رُلاکر۔ تاہم جس طرح بنتا محرم کے لیے انہیں بیس پچیس روپے بچانے لازمی تھی۔ دوستوں کو حلیم کھلاکر فقیری اترتی۔

    باپ کے مرنے کے بعد میاں مٹھو نے جب دوکان سنبھالی ہے تو ان کی عمر پچیس برس سے کم نہ ہوگی۔ شادی ہوگئی تھی بلکہ دو بچے بھی ہوکر مرگئے تھے۔ باپ کے سامنے یہ بھی گھنٹے دو گھنٹے کےلیے تعزیے کے پاس آکر بیٹھتے لیکن رات کے دس بجے دوکان اٹھاکر۔ اب تعزیے داری کا بوجھ ان کے سرپر آپڑا تھا۔ اس لیے چراغ جلتے ہی جلدی جلدی دوکانداری ختم کی، پاس کی مسجد میں نہائے، سبز تہمد باندھا، سبز کرتا پہنا، لال کلا وہ گلے میں ڈالا، جھولی سنبھالی، سبز دوپلڑی ٹوپی منڈھے ہوئے سرپر جمائی اور تعزیے کے پہلو میں دوزانوں آبیٹھے۔ ملنے والوں میں جو سوز، نوحہ مرثیہ پڑھنے والے ہوتے، آتے اور ثواب کے لیے کچھ پڑھ کر چلے جاتے۔ اب جہاں جہاں اس قسم کی تعزیہ داری ہوتی ہے یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ انہیں خود بھی سوز پڑھنے کا شوق تھا۔ شوق کیا، تعزیہ داری، سبیل لگانے، حسینی فقیر بننے اور تعزیے کے آگے کچھ پڑھنے کو نجات کا باعث سمجھتے تھے۔ آواز تو جیسی بھونڈی تھی، تھی ہی۔ طرہ یہ کہ سلام یا بین جو چیز حضرت پڑھتے وہ بھی سناگیا آپ ہی کی تصنیف ہوتی۔ لیکن پڑھتے وقت صورت کچھ ایسی سچ مچ کی رونی بناتے اور ایسے جذبے کے ساتھ ادا کرتے کہ سننے والے حضرت امام کی بے کسی کو بھول کر ان پر ترس کھانے لگتے۔

    محلے میں کئی جگہ تعزیے نکلتے اور بڑی کاری گری کے ہوتے۔ مرثیے بھی وہاں خوب خوب پڑھے جاتے۔ مگر جتنی بھیڑ ان کی دکان کے آگے رہتی۔ کہیں نہ رہتی۔ بڈھوں کو رِقّت چاہیے اور بچوں کو دل لگی۔ یہ دونوں باتیں میاں مٹھو میں موجود تھیں۔ بڑے بوڑھے تو انہیں کچھ اور ہی سمجھنے لگے تھے۔ جاگتے یا سوتے یہ سقائے سکینہ کی زیارت کرچکے تھے۔ سبز عمامہ باندھے نقاب ڈالے نیزہ ہاتھ میں لیے، گھوڑے پر سوار سیّد الشہداء حضرت امام حسینؑ کو بھی انہوں نے اپنے تعزیے کے سامنے دیکھا تھا۔ یہ اپنا گھڑا ہوا سلام الاپتے اور وہ بیٹھے سردھنا کرتے۔ لڑکے بالے کچھ توڑ یوڑ یوں یا کھیلوں کے لالچ میں جمے رہتے یا ان حرکات و سکنات کا تماشا دیکھنے کے لیے۔ بے چارے شاعر تو کیا تھے بلکہ کلام مجید بھی پورا نہیں پڑھا تھا۔ جوانی میں چاوڑی بازار بھی دو چار ہی مرتبہ گئے ہوں گے۔ ورنہ مرثیے کے دوچار بند، سلام کے پانچ سات شعر یا کوئی سوز وہیں سے یاد کرلاتے۔ اب شوق پورا کرنا ٹھیرا، گھڑ گھڑا کر ایک سلام بنالیا، میرا حافظہ کم بخت ایسا ہے کہ کئی دفعہ سُنا اور یاد نہیں رہا۔ حالانکہ میاں مٹھو اسی سلام کی بدولت بنے۔

    سلام کہو یا مرثیہ، سوز کہو یا نوحہ کوئی ایسی چیز تھی جس میں بار بار

    ‘‘نبی جی کے لاڈلو پر بھیجو سلام۔’’

    آتا تھا۔ اور اسی کو وہ سب سے زیادہ لہک لہک کر ادا کرتے تھے۔ اس سے بحث نہیں کہ یہ ناپ تول کے حساب سے کوئی مصرعہ ہے یا کیا۔ افسوس میں نے لکھ کیوں نہ لیا۔ اور اب جس سے پوچھتا ہوں اسی ایک مصرعہ کے سوا کچھ نہیں بتاتا۔اچھا اس مصرعے سے اور میاں مٹھوں کے خطاب سے کیا نسبت؟ آہ دِلّی مرحوم! دِلّی والوں کی دور بلا، میاں دِلّی والے ہی نہ رہے۔ دِلّی کا چھ برس کا بچہ تک سمجھ جاتا۔ آخر کریم بخش یا رحیم بخش پر میاں مِٹھوں کی پھبتی بھی تو بچوں ہی نے کہی تھی۔ ‘‘نبی جی کے لاڈلوں پر سلام’’ والا سلام پڑھتے انہیں دوسرا دن تھا کہ محلے کا ایک لڑکا روٹی پکوانے آیا۔ اتفاق سے رات کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ لڑکا انہیں دیکھتا اور مسکراتا رہا۔ اکیلا تھا کچھ کہنے کا ہباؤ نہ پڑا۔ اتنے میں اس کا ایک یار بھی آپہنچا۔ ایک نے دوسرے کو دیکھا۔ میاں مٹھو کی طرف اشارہ کیا اور دونوں کھل کھلاکر ہنس پڑے۔ ہنستے ہنستے ایک بولا ‘‘میاں مٹھو ہیں’’۔ دوسرا کہنے لگا ‘‘میاں مٹھو نبی جی بھیجو۔’’ دوکان پر کھڑے ہونے والےلونڈوں کی باتوں پر لوٹ لوٹ گئے۔ اب کیا تھا۔ ساری گلی میں ‘‘میاں مٹھو نبی جی بھیجو’’ شروع ہوگیا۔ اس دن سے یہ ایسے میاں مٹھو بنے کی لوگوں کو ان کا اصلی نام ہی یاد نہ رہا۔ لیکن اللہ بخشے کبھی بُرا نہ مانا اور نہ اپنی وضع بدلی۔ مرتے مرتے اپنا وہی سلام پڑھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے