نیازی خانم
اللہ بخشے نیازی خانم کو عجیب چہچہاتی طبیعت پائی تھی۔ بچپن سے جوانی آئی، جوانی سے ادھیڑ ہوئیں۔ مجال ہے جو مزاج بدلا ہو۔ جب تک کنواری رہیں، گھروالوں میں ہنستی کلی تھیں۔ بیاہی گئیں تو کھلا ہوا پھول بن کر میاں کے ساتھ وہ چُہلیں کیں کہ جو سنتا پھڑک اٹھتا۔ کیا مقدور ان کے ہوتے کوئی منہ تو بسورے۔ پھر خالی ہنسوڑی ہی نہیں۔ اللہ نے عقل کا جوہر بھی دیا تھا۔ ذہن اتنا برّاق کہ جہاں بیٹھیں ہنسی ہنسی میں سگھڑاپے سکھادیں ۔گدگداتے گدگداتے بیسویں ٹیڑھے مزاجوں کو سیدھا کردیا۔ غرض کہ جب تک جییں جینے کی طرح جییں۔ کسی کو اپنے برتاو سےشکایت کا موقع نہیں دیا۔ قاعدہ ہے کہ جہاں دو برتن ہوتے ہیں ضرور کھڑکا کرتے ہیں۔ لیکن قہقہوں کے سوا ان کے اندر کبھی کوئی دوسری آواز نہیں سنی۔ مرتے مرگئیں نہ یہ کسی سے بھڑیں، نہ ان سے کسی نے دو بدو کی۔ جیسی بچپن میں تھیں، ویسی ہی آخری دم تک رہیں۔
وہ جو کسی نے کہا ہے کہ پوت کے پانو پالنے میں نظر آجاتے ہیں۔ نیازی خانم ماں کی گود سے اتر کر گھٹنیوں چلنے میں ایسی شوخاہں اور ایسے تماشے کرتیں کہ دیکھنے والے حیران ہوتے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد تو کہنا ہی کیا تھا۔ پوری پکّی پیسی تھیں۔ جو ان کی باتیں سنتا دنگ رہ جاتا۔ تقدیر کی بات، جنم ایسے زمانے میں لیا تھا کہ جتنی گیگلی ہوتیں، اچھی سمجھی جاتیں۔ لکھنا پڑھنا کیسا، لکھے پڑھوں کی سی باتیں بھی کوئی کرتی تو، حرّافہ، اور شتّابہ کا خطاب پاتی۔ بڑا تیرمارا تو قرآن شریف ختم کرکے راہِ نجات، کریمایا خالق باری پڑھ لی، وہ بھی چپکے چپکے ابّا، بھائی یا امیر گھرانا ہے تو کسی استانی سے۔ سب ہی لڑکیاں آٹے کی آپا، مٹی کی تھوئی، گدّی کے پیچھے عقل رکھنے والی نہیں ہوتیں۔ آدمی آدمی انتر کوئی ہیرا کوئی کنکر۔ ان ہی گدڑیوں میں بہت سے لعل بھی ہوتے ہیں۔ بڑی بڑی ذہین، فطری قابلیتوں سے آراستہ عورت دیکھنے میں آتی ہے۔ قدامت پسندوں نے گھوٹ گھوٹ کر ان کی طبیعتوں کو بجھادیا، ورنہ مردوں میں کیا سرخاب کے پرلگے ہوتے ہیں۔ کون سا کمال ہے جو یہ حاصل نہیں کرسکتیں۔ یورپ میں جاکر دیکھ لو، مردوں سے آگے ہی پاؤگے۔ اتنی دور کیوں جاؤ۔ اپنے ملک ہی میں نئی تعلیم یافتہ خواتین کا کیا کال ہے۔ جہاں وہ دیکھی جاسکتی ہیں جاؤ دیکھو، کیسے جوہر دکھا رہی ہیں۔
کاش ہماری نیازی خانم آج اس جدید دور کی پیدایش ہوتیں۔ اگر انھوں نے یہ زمانہ پایا ہوتا تو نہ جانے شہرت کے کون سے آسمان پر اپنا جلوہ دکھاتیں۔ اپنی طبّاعی کی کتنی داستانیں، قہقہوں کے کتنے زعفران زار اور اپنی مزاحی شاعری کی کیسی کیسی یادگاریں چھوڑ جاتیں۔ اب تو ان کی باتیں نری کہانیاں ہیں۔ وہ بھی اندھیری راتوں میں سنی ہوئی، جن میں فطری ذہانت کے سوا کوئی علم کی روشنی نہیں۔
اگلے وقت تو نہ تھے لیکن اگلے وقتوں کے لگ بھگ مغلیہ خاندان کا آخری چراغ ٹمٹما رہا تھا کہ دلّی کے ایک شریف پڑھے لکھے، قال اللہ قال رسول کرنے والے خاندان میں نیازی خانم پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کچھ دن سے مکتب پڑھانے لگے تھے۔ خدا کی شان ہے یا تو ان کے ہاں فضیلت کی پگڑیاں بندھتی تھیں یا کریما بہ بخشائے برحالِ ما، خالق باری سُرجن ہار، ما مقیمانِ کوے دل داریم، سے آگے کوئی پڑھنے والا ہی نہ تھا۔ تاہم یہ بچوں ہی کو مخاطب کرکے اپنی علمی بھڑاس نکالتے رہتے۔ مکتب کے علاوہ بعض کھلنڈرے بچوں کے ماں باپ اپنے لڑکوں کو گھر پر بھی بھیج دیتے اور یہ بڑے شوق سے گھنٹوں مغززنی کرتے۔ گھر اندر سے تو خاصا بڑا تھا مگر باہر کوئی بیٹھک نہ تھی۔ ڈیوڑھی ہی میں ایک تخت بچھا رہتا۔ اسی پر مکتب جم جاتا۔
نیازی خانم کی دو بہنیں اور تھیں۔ کوئی دو دو سال کے فرق سے بڑی، اور ایک چھوٹا بھائی۔ اگرچہ یہ تینوں بہن بھائی اللہ کے جی تھے۔ ذہن کے غبی طبیعیت کے ٹھس۔ لڑکیوں کا تو خیر کچھ نہیں، پرایا دھن تھا۔ سُگھڑاٹھیں یا پھوہڑ۔ جس کے پلےّ بندھیں گی وہ سمجھ لے گا۔ لیکن لڑکا باپ کی امیدوں کا سہارا ہوتا ہے، اس لیے اس پر مولانا اپنی میانجی گری کا پورا زور صرف کرتے۔ ہر وقت ساتھ رکھتے۔ مکتب جاتے تو ساتھ لے جاتے۔ گھر پر پڑھاتے تو بیٹے کا پڑھانا مقدم تھا۔ رات کو دن بھر کے دھندوں سے فرصت پاکر پلنگ پر لیٹتے تو سوتے سوتے کہانیوں، قصوں کی طرح قسم قسم کے مسائل حل کرتے رہتے۔ بس نہیں چلتا تھا کہ اپنی ساری علمی پونجی گھول کر پلادیں۔
برخوردار تو ٹھوٹ کے ٹھوٹ رہے۔ لاکھ توتے کر پڑھایا پر وہ حیوان ہی رہا۔ مولانا کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ بچارے کا شہر میں مکتب بھی نہ چلا۔ ہاں نیازی خانم کی شوخ فطرت کو چار چاند لگ گئے۔ باپ، بیٹے کو جو باتیں بتاتے بیٹی لے اڑتی۔ تھوڑے دن میں یہ البتہ سچ مچ کی علاّمہ ہوگئیں۔ ایسے ایسے لطیفے دماغ سے اتارنے لگیں کہ گھر والے، کیا چھوٹے کیا بڑے، منہ تکتے رہ جاتے۔ کتابی تعلیم تو انھیں کون دیتا، وہی دوچار مذہبی رسالے وغیرہ پڑھے تھے۔ رہا لکھنا، قلم کسی لڑکی نے چھوا اور سانپ نے سونگھا۔ پرانے لوگ تھوڑا بہت پڑھا تو خیر دیتے مگر لکھنے کے پکے دشمن تھے۔ ان کا خیال تھا کہ لکھنا آیا اور لڑکی ہاتھ سے گئی۔ زبان جتنی چاہے چلے، ہاتھ نہ چلے۔ جھوٹ موٹ بھی اگر کبھی نیازی خانم نے تختی سنبھالی، ادھر باپ نے ڈانٹ بتائی ادھر ماں نے دوہتّڑ رسید کیا کہ ‘‘کس کو خط لکھنا ہے۔ ہماری آبرو پر حرف لائے گی۔ نگوڑی یہ شریفوں میں نہیں ہوتا۔’’
کچھ تو اس دور کی کہا مان اولاد اور کچھ ماں باپ کی تنبیہ، شوق کے باوجود نیازی خانم نے شرارت سے بھی قلم کو نہ چھوا۔ چھوتیں تو جب کہ کوئی انھیں چھونے دیتا۔ تاہم طبیعت کی شوخی کہاں جاتی تھی، ہزاروں چٹکلے دوسروں سے لکھواکر چھوڑ گئیں۔ گھر میں سگا بھائی تھا اور کُنبے رشتے کے لڑکے تھے، ان کے ہاتھوں اپنے دل کا ارمان نکال لیتیں۔ لڑکپن میں بڑے بوڑھوں کی سی تو باتیں ہوتی نہیں۔ دھماچوکڑی ہی میں گزرتی ہے۔ ان دنوں ہر شریف گھرانے میں گڑیاں کھیلی جاتی تھیں کہنے کو تو یہ ایک کھیل تھا لیکن اس کو سگھڑاپا سکھانے کی تعلیم سمجھنا چاہیے۔
نیازی خانم کو گڑیوں کا بڑا شوق تھا۔ عجب عجب نام رکھے جاتے، ان کا بیاہ ہوتا تو مزے مزے کے رقعے لکھواتیں۔ مبارک بادی، سہرے اس کے بعد گڑیوں کے بچے ہوتے تو زچہ گیریاں بناتیں۔ خود گاتیں اور ڈومنیوں سے گواتیں اور ان میں ایسی ایسی پھلجھڑیاں چھوڑتیں کہ گھروالے ہنسی کے مارے لوٹ لوٹ جاتے۔ مولانا جیسے زاہد خشک بھی باہر بیٹھے ہوئے سنتے تو مسکرائے بغیر نہ رہتے۔
ہمیں مرحومہ کی پوری سوانح عمری تو لکھنی نہیں کہ مہد سے لحد تک کے حالات بیان کریں اور نہ ہمارے پاس ان کی زندگی کا روزنامچہ ہے۔ ہاں چند واقعات سنے ہیں۔ آپ بھی سن لیں۔ زندہ دلی کے ایسے نمونے دنیا میں روز روز نظر نہیں آتے۔ ہونے کو ممکن ہے کہ نیازی خانم سے برھ چڑھ کر بھی عورتیں گزری ہوں گی، لیکن خدا جس کا نام نکال دے۔
بچے عموماً شریر ہوتے ہیں۔ کوئی تکلیف دہ اور کوئی ہنسانے والا بعض شریر ہونے کے ساتھ برے تیترے ہوتے ہیں۔ گھر کے کونے کونے کا حال ان سے پوچھ لو۔ ہر ڈھکی چھپی چیز کا حال انھیں معلوم۔ کیسی ہی مگھم میں بات کرو وہ تاڑ جائیں۔ وہ وہ مغز سےاتار کر باتیں کریں کہ لوگوں کو غصہ بھی آئے اور ہنسی بھی۔ ایسے بچے دلّی والیوں کی اصطلاح میں غضبی کہلاتے ہیں۔ نیازی خانم ان معاملات میں بہت تیز تھیں۔ سارے گھروالوں کا ناک میں دم کر دیا تھا۔ بہت سی باتیں بچوں سے کہنے کی نہیں ہوتیں۔ بہت سے کام بچوں کے کرنے کے نہیں ہوتے۔ بہت سے موقعوں پر بچوں کو ساتھ لے جانا مناسب نہیں ہوتا اور بچوں سے کہتے بھی اس لیے نہیں کہ ضد کریں گے، مگر نیازی خانم سے کیا مجال کوئی کام چھپا کر کرتو لے۔ ہونٹ ہلے اور انھوں نے مطلب سمجھا۔ لتری نہیں تھیں کہ یہ عادت ضرر رساں ہوتی۔ اسے بھی شوخیوں کے ساتھ ایک قسم کی شوخی سمجھو۔ وقت گزرنے کے بعد ذرا دل لگی ہوجاتی۔ دوچار دن کے ہنسنے ہنسانے کا سامان ہوجاتا۔
ایک دن کا ذکر ہے، موری دروازے چالیسویں میں جانا تھا۔ بچوں کو ایسی تقریب میں یوں بھی کوئی نہیں لے جاتا، پھر یہ تو بلا کی شریر تھیں۔ اس کے علاوہ ان دنوں جانے آنے کی بھی آسانی نہ تھی۔ امیروں کے ہاں اپنی سواریاں ہوتیں، پالکیاں نالکیاں، بہلیاں، رتھیں۔ حسب مقدور غریب مانگے تانگے سے کام چلاتے۔ ڈولیوں میں لدتے یا بھارکش کرایے پر کرتے۔ اِکّے تھے مگر وہ اچکی سواری سمجھی جاتی۔ بیل گاڑیوں میں دیر بہت لگتی۔ ڈولیوں میں اکٹھے باتیں کرتے ہوئے جانے کا لُطف کہاں؟ شہر میں دو چار سیج گاڑیاں آگئی تھیں، تو ان کا کرایہ زیادہ تھا۔ دلّی دروازے سے موری دروازے کا فاصلہ خاصا۔ صلاحیں ہوئیں کہ کیوں کرچلنا چاہیے۔ کسی نے کہا بھارکش کرلو، کوئی بولی شکرم میں کبھی نہیں بیٹھے۔ دس پانچ آنے زیادہ جائیں گے۔ ملا سے سیر تو ہوجائے گی۔ سُنا ہے دو گھوڑے جتتے ہیں۔ گھر کا گھر ہوتی ہے۔ جھلملیوں میں سے راستے کا خوب تماشا دکھائی دیتا ہے۔ اندر بیٹھنے والے سب کو دیکھیں اور باہر کا کوئی نہ دیکھے۔
آخر شکرم ہی کی ٹھہری اور بھائی صاحب جاکر سائی بھی دے آئے۔ اب سوال نیازی کی خانم کے لے جانے کا تھا۔ یہ نہ بچہ نہ بوڑھی اور ان کی بے چین فطرت سے سب واقف۔ ڈر تھا کہ ان کی بولیوں ٹھٹھولیوں کا کیا بندوبست۔ اگر یہ ساتھ چلیں تو روتوں کو ہنسائیں گی۔ اور کہیں بیچ بازار میں سیر کا شوق چرّایا۔ جھلملیاں اتاردیں تو کیا ہوگا۔ ان کی زبان میں تو بواسیر ہے۔ قہقہے لگانے شروع کردیے، یا زور زور سے باتیں ہی کرنے لگیں تو کیسی بدنامی ہوگی۔ راہ گیر سمجھیں گے کہ نگوڑیاں کوئی بڑی اچھال چھکّا ہیں۔ نیازی خانم نے جو گھروالوں کو کانا پھوسی کرتے دیکھا تو وہ اڑتی چڑیا کے پرگننے والی، فوراً سمجھ گئیں کہ ہو نہ ہو کہ کوئی بات ضرور مجھ سے چھپانے کی ہے۔ ٹوہ لینے کے لیے اِدھر ادھر ٹہلتے ٹہلاتے در سے لگ کر اس طرح کھڑی ہوگئیں، گویا کچھ خبر ہی نہیں۔
رات کا وقت تھا۔ ٹمٹماتے ہوئے کڑوے تیل کے چراغ کی روشنی پر چھائیں پڑتی ہوئی بڑی بہن کی بھی نظر پڑگئی۔ ایک نے دوسری سے ٹہوک کر کہا ‘‘فتنی کو دیکھا کیسی چھپ کر ہماری باتیں سُن رہی ہے۔ آؤ زرگری میں باتیں کریں۔’’ زرگری فرفری اور اسی طرح کی کئی بولیاں قلعے والوں کی ایجاد شہر کےاکثر گھرانوں میں بھی آپہنچی تھیں۔ ان بولیوں کا شریفوں کی لڑکیوں میں بہت رواج تھا۔ انجانوں سے بات چھپانے کی خاصی ترکیب تھی۔ چنانچہ ایک بہن بولی ‘‘کریوں ازا پزا ازس سزے لزے چزل لزیں یزا نزئیں۔’’ (کیوں آپا اسے لے چلیں یا نہیں؟) دوسری نے جواب دیا ‘‘ازب ازس کزو یہنز رزے نزے دزو۔’’ (اب اس کو یہیں رہنے دو) اسکے بعد دیر تک ہنسی ہوتی رہی اور زرگری میں باتیں کرتیں۔ کبھی فرفری میں۔
نیازی خانم کو یہ بولیاں نہیں آتی تھیں۔ جو کچھ بہنوں نے کہا وہ تو سمجھ میں کیا آتا تاہم ان کے مطلب کو پہنچ جاتیں۔ ان کی آنکھوں میں دھول ہی نہ ڈالی تو نام نیازی خانم نہیں۔ انھوں نے بھی ترکیب سوچ لی اور چپکے سے اپنے بھچونے پر آکر سوگئیں۔ صبح ہی ضروریات سے فارغ ہوکر سب نے کپڑے بدلنے شروع کیے۔ نیازی خانم غائب۔
والدہ: اے بھئی نیازی کہاں ہے۔ بی امتیازی تم بڑی کٹر ہو۔ وہ بھی چلی چلے گی تو کیا ہوگا؟
امتیازی: (بڑی بیٹی) اماں بی وہ بڑی شریر ہے۔ راستہ بھر ادھم مچاتی چلے گی۔
والدہ: سیج گاڑی وہ بھی دیکھ لیتی بچے ادھم مچایا ہی کرتے ہیں۔
بنیادی: (دوسری بیٹی) لے چلیے آپ ہی کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔
امتیازی: تو اسی کو لے جاؤ چلو میں نہیں جاتی۔
والدہ: بوا بگڑتی کیوں ہو۔ جیسا تمھارا جی چاہے کرو۔ مگر وہ ہے کدھر؟
ماما: چھوٹی بیوی کو پوچھتی ہو؟ وہ تو سویرے اٹھتے ہی بی ہمسائی کے ہاں چلی گئیں۔ کل شام کو کوئی کہہ رہا تھاکہ نوری کے ابا بمبئی سے ولایتی گڑیا لائے ہیں۔
بنیادی: یہ بھی اچھا ہوا۔ کھیل میں لگی ہوئی ہے تو لگی رہنے دو۔ اتنے میں گاڑی آگئی تھی۔ گاڑی والا غُل مچا رہا تھا کہ جلدی چلو۔
امتیازی: اب دیر نہ کرو۔ گاڑی والے کی آواز اس کے کانوں میں پڑ گئی اور وہ آپہنچی تو پیچھا چھڑانا مشکل ہوجائے گا۔
سوار ہونے میں دیر کیا تھی۔ پردہ رکوا جھپاک جھپاک سب گاڑی میں جابیٹھے۔ گاڑی بان دروازہ بند کرکے کوچ بکس پر چڑھ ہی رہا تھا کہ نیازی خانم ڈیوڑھی میں سے نکل گاڑی کے پائے دان پر جھلملیاں اٹھا اندر جھانکتے ہوئے بولی ‘‘چھوٹی آپا، تا ،بڑی آپا سلام۔ اب زرگری نہیں بولتیں۔ کہو ‘لزے چزل تزی ہزو یزا نزاہزیں’۔ (لے چلتی ہو یا نہیں)
والدہ: ہے تو بڑی فِتنی۔
نیازی: نہیں اما بی میں تو چھوٹی ہوں۔
بڑی بہن: خدا ہی سمجھے۔
دوسری بہن: (ہنس کر) اور ہ تم چھپی ہوئی کہاں تھیں۔
بڑی بہن: کپڑے بھی بدل رکھے ہیں۔
نیازی: اور کیا۔ اے بھئی گاڑی بان دروازہ تو کھول۔
گاڑی بان: کیا بیوی تم رہ گئی تھیں؟
نیازی: دروازہ کھولتا ہے یا باتیں بناتا ہے۔
سب ہنسنے لگے، دروازہ کھلا۔ نیازی خانم بڑے ٹھسے سے بیٹھیں اور سارے رستے بہنوں کا ستامارا۔
ایک مرتبہ تو کمال کردیا۔ گرمی کے دن تھے۔ چاندنی رات۔ ہمسائی کی لڑکیاں بھی آگئی تھیں۔ آنکھ مچولی کھیلی جارہی تھی۔ نیازی خانم ہوں گی کوئی چھے برس میں۔ چھپتیں اور پکڑی جاتیں۔ کہیں بڑی بہن کے منہ سے نکل گیا کہ بس پھِش۔ پھر کیا تھا۔ آگیا طرارہ۔ اب کے جو جاکے چھپیں تو پتا نہیں۔ سب نے اندر کے دلان کی کوٹھری میں جادیکھا تھا۔ چپّہ چپّہ ڈھونڈ ڈالا۔ کونا کونا چھان مارا۔ نیازی خانم کیاں ملتیں۔ چھوٹے بڑے سب حیران۔ آخر ماں سے نہ رہا گیا۔ بڑی لڑکیوں پر جھنجلانے لگیں کہ اوئی بھئی ایسا بھی اندھیر نہیں چاہیے۔ ایک تو وہ خود ہی شریر اوپر سے تم نے اسے چڑادیا۔ نہ جانے کس چوہے کے بل میں گھس کر بیٹھ گئی۔ یہ گرمی پڑ رہی ہے۔ کیڑے پتنگوں کے دن، میری بچی کو ماروگی۔ (آواز سے) ‘‘نیازی بیٹی نکل آؤ۔ یہ سب ہاریں تم جیتیں۔ دَم گھٹ جائے گا۔ بس کھیل ہوچکا۔’’دیکھتے کیا ہیں کہ کوٹھری کے آگے جو چھپر کھٹ بچھا تھا اس کے نیچے سے نکلی چلی آتی ہیں۔
والدہ: غضبی لڑکی تو یہاں تھی۔
بڑی بہن: اور اس کے نتیجے تو کئی مرتبہ میں نے خود دیکھا ہے۔
منجھلی بہن: چھپکلی کو بھی مات کردیا سچ مچ چھپرکھٹ کے نیچے تھیں۔
نیازی: (ہنس کر) اور کہاں سے نکلی۔ میں نے تمھاری آنکھوں پر بُرکی ماردی تھی۔
بڑی دیر کے بعد سب سے چیں بُلوالی توبتایا کے نچلے پاکھوں میں گھس کر لیٹ گئی تھی۔ لاکھ پتلی دبلی، ہلکی پھلکی سہی، بنائی کے خلا میں اس طرح لیٹنا اور پھر اتنی دیر تک دم سادھے پڑے رہنا جنّاتی کام ہے۔ نہ گرمی لگی نہ جی گھبرایا۔ خدا کی پناہ۔
ایک کمال۔ نیازی خانم کی جو بات تھی۔ حیرت میں ڈالنے والی۔ ہم تو کہتے ہیں کہ نظر کیوں نہیں لگتی۔ اندھیرے میں سوئی ایسی پرولیتیں کوٹھری کہ جیسے کوئی بڑا مشاق سورج کی روشنی میں پرودے۔ اندھیری کوٹھری میں لحاف اڑھا کرکیسے ہی ناکے کی سوئی دیتے، منٹ دو منٹ میں اتنی سی بٹیا کو سواگز کی چُٹیا والی کردیتیں۔ شبہ ہوا کہ علامہ تو ہے ہی، کہیں یہ چالاکی تو نہیں کرتی کہ تاگا پروئی ہوئی سوئیاں چھپارکھتی ہو۔ اس شک کو دور کرنے کے لیے کئی دفعہ ایسا کیا کہ خوب ٹٹول ٹٹول کر سارے کپڑوں کی تلاشی لی۔ چوٹی تک کھول ڈالی۔ پھر آنکھوں پر کس کر پٹی باندھی۔ دو دو لحاف ڈالے، چاروں طرف سے گھیر لیا۔ اور ایک نے رنگ برنگ کےتاگے۔ الگ الگ، کسی کی چھوٹی کسی کی بڑی سوئیاں دیں کہ اب دیکھیں کیا کارستانی کرتی ہے۔ مگر اللہ ہی جانےنیازی خانم کے سر پر کوئی آتے تھے یا ان کی آنکھیں بلی کی سی تھیں۔ باری باری سے سب کے تاگے پرودیے۔
ایسے ہنسوڑے بچے لڑکے ہوں یا لڑکیاں ایک نہ ایک دل لگی کا شگوفہ چھوڑتے رہتے ہیں۔ اتفاق سے ایک بلی کا بچہ میاؤں میاؤں کرتا گھر میں گھس آیا۔ والدہ بولیں۔ ‘‘ارے یہ مردہ مال کہاں سے آگیا۔’’ بہن نے دیکھ کر کہا بوا جلدی باہر پھکوادو۔ اپلوں کی کوٹھڑی یا کباڑخانے میں دبک گیا تو مشکل ہوگی۔ کم بخت کیسا گھناؤنا ہے۔’’ نیازی خا نم مسکرائیں۔ کہنے لگیں ‘‘اے ہے کیسا پیارا بچہ ہے۔ بھئی کچھ تو خدا کاخوف کرو۔ بچارے کو مارتے کیوں ہو۔’’
بڑی بہن: (مسکراتے ہوئے) جیسی روح، ویسے فرشتے۔
منجھلی: تو گلے لگالونا۔
والدہ: نوج۔ اب تم یہ لگادو۔
نیازی: ولایتی بلی کا بچہ ہے۔ ‘‘یہ کہتی اور مسکراتی دوڑیں۔ بچے کو گود میں اٹھالیا۔ سب ہاں ہاں کرتے رہے۔ والدہ نے برا بھلا کہا، بہنوں نےکیڑے ڈالے، مگر یہ کب سننے والی تھیں۔ دل میں جو سماگئی سماگئی۔ چلیے ایک نیا مشغلہ ہاتھ لگا۔ بلی کے بچے کی خاطریں ہونے لگیں۔ خوبصورت ریشمی پٹاسی کر گلے میں ڈالا۔ چھوٹی سی رنگین پاؤں کی کھٹولی منگائی گئی۔ ہر وقت گود میں لیے لیے پھر رہی ہیں۔ دِنوں دودھ پلایا۔ پھر چھیچھڑوں کی جگہ قیمہ آتا۔ جہاں کھانے کو تر نوالے ملیں، آدمی کیا جانور کیا غینچا بن جاتا ہے۔ وہ مرجیونا، زرغل بچہ چند روز میں چکنا چکنا جگادری بلا ہوگیا۔
اچھا سماں ہوا، فارغ البالیاں ہوں تو آدمی کوئی نئی نئی سوجھتی ہے۔ پیسہ چاہیے اور بے فکری، ان ہونی باتیں کیے جائیے۔ بہت سی تقریبیں شادی کی ہوں یا غمی کی، بہت سے میلے ٹھیلے، کیا ہیں؟ خوش حالی کے وقتوں کی یادگاریں۔ مل کر بیٹھنے، رنگ رلیاں منانے اور خوش ہونے کی ترکیبیں۔ ہاں تو نیازی خانم کو بیٹھے بیٹھے ہلہلا اٹھا کہ گُڈے گڑیا کے بیاہ تو بہت کیے، بلے کی بھی شادی کرنی چاہیے۔ بڑا مزہ آئے گا۔ انوکھی بات ہوگی۔ اب سوچ ہوا کہ بلی کہاں سے آئے۔ نظر دوڑائی تو یاد آیا کہ چھوٹی آپا کی سہیلی رمضانی خانم کے ہاں بلی ہے۔ یاد آنے کی دیر تھی۔ گھر میں ذکر کیا۔ ماں بہنیں بھی آخر ان ہی کی ماں بہنیں تھیں۔ تھوڑی دیر ہنسی دل لگی کرکے سب راضی ہوگئے۔
رات کو یہ ذکر ہوا تھا۔ نیازی خانم چلبلی طبیعت والی۔ ہر چیز میں جدّت پلنگ پر لیٹے لیٹے رقعے کا مضمون گھڑا۔ وہ بھی نظم میں۔ صبح اٹھتے ہی بھائی سے تقاضا کہ ‘‘بھیا آج مکتب ذرا ٹھہر کر جانا۔ مجھے اپنے بیٹے کی منگنی کا رقعہ لکھوانا ہے۔ تم ہی بازار سے لال کاغذ لانا۔’’ چنانچہ سنہری روپہلی افشاں کیا ہوا لال کاغذ آیا۔ چھوٹے مولانا لکھنے بیٹھے ‘‘ہاں بوا کیا لکھوں؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔’’ ٹھہرو، ذرا دم لو۔ بتاتی ہوں۔ نیازی خامن کا مٹکنا سا منہ، زبان فراٹے بھرتی ہوئی۔ شعر جو رات کو گھڑے گئے تھے۔ لکھوانے شروع کیے۔ گھروالوں کے پیٹوں میں بل پڑے جاتے تھے۔ رقعہ تیار ہوا تو لال قند کے رومال میں لپیٹ کر بیٹی والوں کے ہاں بھیجا گیا۔ وہاں بھی بڑی ہنسی ہوئی۔ دنوں محلے پر محلے اس رقعے کی تک بندی کا چر چارہا۔ جس نے سنا پھڑک اٹھا۔ اس زمانے کے لوگ ایسے معقول اور قدردان کہاں تھے جو ان چیزوں کو سینت کر رکھتے۔ نیازی خانم اپنے ساتھ ہی لے گئیں۔ دو تین شعر خدا جانے کتنی زبانی یاد داشتوں کی ٹھوکریں کھاتے ہم تک پہنچے ہیں۔ آپ بھی سن لیں۔ وہوا ہذا
قیمہ پسندے کھاتا ہوں زربفت کی ہے جھول
یہ التجا ہے کیجیے دامادی میں قبول
صورت ہے ساری شیر کی خصلت میں آدمی
آسودہ گھر کا بیٹا ہوں کس بات کی کمی
عیبی نہیں، ستاؤ نہیں، مُسمساً نہیں
منہ سے کسی چوہے کا لہو تک لگا نہیں
بیٹا بلاو خاں کا ہوں فیروز نام ہے
پشتیں گزر گئیں ہیں کہ دہلی مقام ہے
جیسا مزے دار رقعہ تھا، دیکھنے والوں کا سننے والوں سےبیان ہے کہ شادی کی رسمیں بھی بڑی لطف کی تھیں۔ غرض کہ نیازی خانم بہو بیاہ لائیں۔ لوگوں کا خصوصاً جاہل عورتوں کا قاعدہ ہے کہ جہاں کسی سے، لڑکی ہو یا لڑکا، عورت ہو یا مرد غیر معمولی حرکتیں ہوتی دیکھیں کہہ دیا کہ اس پر تو کوئی آتا ہے۔ اسی طرح جانوروں کےمتعلق بھی عجیب عجیب باتیں مشہور ہوجاتی ہیں۔ بِلاّ بلی کےہزاروں نہیں تو بیسویں قصے ہم نےسنے ہیں۔ نیازی خانم کے بلے پر بھی بعض کاگمان تھا کہ ضرور اس میں کوئی اسرار ہے اور لڑکی سےجوعقل میں نہ آنے والی باتیں سرزد ہوتی ہیں، وہ بلے کی کرشمہ سازی ہے۔ ایک بڑی بی کہتی تھیں کہ میں نےاس بلے کو دیکھا ہے۔ جنوں کا شہزادہ تھا۔ بھلا اس کی آنکھوں سے آنکھیں ملاکر کوئی دیکھ تو لے۔ دیدے تھے جیسے مشعلیں۔ غصہ آتا توپھول کر گدھے کا گدھا ہوجاتا۔ ایسی آوازیں نکالتا کہ ہیبت آتی۔ یہ بھی سنا ہےکہ جب مرا ہے تو بڑی آندھی آئی اور بڑے زور کادھماکا ہوا۔
اور تو خیر۔ اتنی بات تو سچ ہے کہ بلے کی موت کانیازی خانم کو بہت رنج ہوا۔ کئی وقت روٹی نہیں کھائی۔ آدمیوں کاسا سوگ کیا۔ اس کی لاش کو یوں ہی نہیں پھکوایا بلکہ باقاعدہ کفن دیا،دفن کرایا۔ فاتحہ درود بھی کیا۔ ایک روایت یہ بھی سنی گئی ہے ۔ دروغ برگردنِ راوی کہ بلے کے مرنےکے کچھ دن بعد نیازی خانم نےاپنی ایک رازدار سہیلی کو بتایا کہ ایک رات اپنے پیارے بلے کو یاد کرتے کرتے میں نے کہا کہ ‘‘فیروز کیا سچ مچ تجھ میں کوئی اثر تھا اور تو بلے کے روپ میں پرستان کا شہزادہ تھا؟ اگر واقعی تو بلا نہیں تھا تو خواب میں مجھے اپنی صورت دکھا جا۔ اسی رات آنکھ بند ہوتے ہی خواب میں دیکھا کہ ایک خوبصورت نوجوان زرق برق کپڑے پہنے میرے سامنے کھڑا مسکرارہا ہے۔
ادھر میں لٹکتے ہوئے سفید پوش لوگوں کو جو نہ امیر ہوں نہ لنگوٹی بند، بیٹا بیٹی کے بنج میں ہمیشہ سے بڑی دقتیں پیش آتی ہیں۔ دولت مند کو کون بیٹی نہ دے اور ان کی بیٹی کون نہ لے۔ کارپیشاؤں کی اپنی برادری ہوتی ہے۔ رشتے جڑنے میں کیا مشکل۔ درمیانی درجے والے پہلے بھی اس معاملے میں بدنصیب تھے اور آج بھی ایک ایک کا م منہ تکتے ہیں۔ پیوند نہیں ملتا۔ دو بیٹیاں تو جوان بیٹھی ہی تھیں۔ تیسری نیازی خانم بھی پہاڑ بنتی چلیں۔ ہر وقت نظر دوڑاتے تھے لیکن کوئی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ رات دن مولوی صاحب اور ان کی بیوی اسی فکر میں رہتے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ بیٹیوں کانصیب پتے کے تلے۔ جب کھلتا ہے تو بے سان گمان۔ جمعہ کا دن تھا۔ مکتب کی چھٹی، مولوی صاحب گھر ہی میں تھے کہ کسی نے دروازے کی کنڈی بجائی۔ نکل کر دیکھیں تو پڑوس کے مرزا صاحب، علیک سلیک کے بعد ڈیوڑھی میں تخت پر دونوں بیٹھ گئے۔
مولانا: کہیے اس وقت کیسے تشریف لائے؟
مرزا: کچھ عرض کرنا ہے (مسکراکر) آپ جانتے ہیں جس گھر میں بیری کادرخت ہوتا ہے پتھر آنے لازمی ہیں۔
مولانا: (مطلب سمجھ کر) جی ہاں مگر کیا کیجیے اللہ میاں کو بیری کےدرخت ہی بونے تھے اور ایک چھوڑ تین تین۔
مرزا: (ذرا سے تامل کے بعد) میرے ایک ملنے والے جو بلندشہر کے باشندے اور پورے مولوی ہیں ایک ہفتے سے غریب خانے پر تشریف فرماہیں۔ کوئی چالیس برس کا سن ہے۔ نہایت مرد معقول قوم کے صدیقی شیخ۔ شجرہ نسب بے داغ۔ آمدنی بہت کافی۔
مولانا: بہت خوب، اچھا پھر؟
مرزا: ان کی بیوی حال ہی میں، شاید چھے مہینے ہوئے ہوں گے، دو چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر انتقال کرگئیں۔ بچارے پریشان ہیں۔ شادی کی فکر ہے۔
مولانا: اللہ رحم کرے۔ کسی بیوہ سے شادی کرلیں۔ ثواب بھی ہوگا۔
مرزا: بیوہ سے تو جب کریں کہ کنواری لڑکیاں نہ ملیں۔
مولانا: مولوی ہو کر سنت سے انحراف! اپنا اپنا خیال ہے۔ تو پھر انھیں اپنے ہی وطن میں شادی کرنی چاہیے۔ جانے بوجھے لوگ ہوں گے۔
مرزا: دیہات قصبات کی بیوی انھیں پسند نہیں!
مولانا: یہ کیوں؟
مرزا: کہتے ہیں کہ شہر والیوں کی سی نستعلیق زبان گنواروں کو کہاں نصیب۔
مولانا: مجھے تو ان کے چال چلن میں شک ہوگیا۔ انھوں نے یہاں کی شریف زادیوں کو باتیں کرنے کہاں سنا؟
مرزا: ان کا بیان ہے کہ پچھلی مرتبہ جو میں دہلی آیا تو ناوقت پہنچا تھا۔ سرائے میں ٹھہر گیا۔ بھوک لگی ہوئی۔ بھٹیاری سے کھانے کے لیے کہا۔ وہ بولی ‘‘میاں اب تو بازار کی ساری دکانیں خیر سے بند ہوگئیں، مونگ کی مقشردال بھونی مسالے دار موجودہے۔ اسے نوش فرماکر دیکھیے پسند آئے تو فبہا ورنہ ابھی چلاد تیار کیے دیتی ہوں۔’’ دوران گفتگو میں اس نے مقشر، نوش اور فبہا کے علاوہ اور بھی کئی لفظ اس بے تکلفی سے بولے کہ میں حیران رہ گیا۔
مولانا: بھٹیاری پر لٹو ہوگئے؟
مرزا: توبہ توبہ! بھٹیاری پر کیا لٹو ہوں گے۔ ہاں دلی کی بیٹی سے شادی کرنے کی قسم کھالی۔
مولانا: یہ گمان ہوگا کہ جہاں کی بھٹیاریاں باہر کے مولویوں کے کان کتریں، وہاں کی بیگمات کا طرزِ گفتگو کیا ہوگا۔
مرزا: جی ہاں۔ برسوں سے میں انھیں جانتا ہوں، انتہا درجے کے شریف، خلیق ہیں۔ پہلی بیوی نے جب تک زندہ رہی، عیش کیا۔ روٹی کپڑے کی کمی نہیں۔ میرا اپنا خیال ہے کہ اگر آپ انھیں دامادی میں قبول فرمائیں تو انشا اللہ تعالی آپ کو کسی طرح کی شکایت نہیں ہوگی۔
مولانا: آپ کو ان کے حسب نسب کا یقین ہے۔
مرزا: بالکل۔ میں ذمےدار ہوں۔
مولانا: (کچھ سوچ کر) پیوند تو نامناسب نہیں۔عمر ذرا بڑی ہے!
مرزا: آپ کی چھوٹی لڑکی بھی تو غالباً شادی کے قابل ہوگئی ہوگی۔
مولانا: اس کا ابھی کیا ذکر۔ پہلے دونوں بڑی بہنوں کاکرنا ہے۔
مرزا: (دبی زبان سے) مگر ان کا خیال تو چھوٹی سے ہے۔
مولانا: اونٹ کے گلے میں گھنٹال! بھئی اوّل تو پندرہ برس کی لڑکی، چالیس سال کے مرد سے منسوب ہو، دوسرے بڑی بیٹھی رہیں اور چھوٹی کے سہرا بندھے۔ آپ ہی سوچئے کہاں تک مناسب ہے؟
مرزا: جی ان باتوں کو جانے دیجیے۔ جس کانصیب کھلے۔ کسی طرح بند تو ٹوٹے، کیا خبر اس کے بعد ہی دونوں بہنوں کامقدر بھی جاگ اٹھے۔
مولانا کادل تو مرزا صاحب کو دعائیں دے رہا تھا کہ خوب بات لائے۔ کیسی چھوٹی اور کیسی بڑی ایک پہاڑ تو چھاتی سے ٹلتا ہے۔ مگر بیٹی کے باپ تھے فوراً کس طرح ہاں کرلیتے۔ کہنے لگے۔ اب آپ فرماتے ہیں تو میں گھر میں ذکر کردوں گا۔ بڑی رضامندی تو ماں کی ہے۔ ماموؤں کامشورہ بھی ضروری ہے۔ اگلے جمعے تک ملیے گا۔’’
بلند شہر والے مولوی صاحب کو کون نہیں جانتا تھا۔ رسمی بات چیت کے بعد معاملہ طے ہوگیا۔ طے کیا ایک جمعہ بیچ میں چھوڑ کر دوسرے کو الہٰی! (دہلی میں نکاح کے بعد شُہدے یہ دعا دولہا کو دیا کرتے تھے۔) ست پوتا ہو، سازگاری رہے۔ ڈاڑھی کے ایک ایک بار پر نور برسے، آمین! کاغُل شہدوں نے مچادیا۔ ‘‘لڑکے کی بری بازار میں کھڑی’’ تو کہاوت ہی ہے۔ ‘‘مولوی کا بیاہ سرراہ’’ کی مثل بھی پوری ہوگئی اور پندرھویں دن بی نیازی خانم دونوں بڑی بہنوں کو منہ چڑا بلندشہر جاپہنچیں۔
تقدیر جب جاگتی ہے تو یوں جاگتی ہے۔ مولوی صاحب سچ پوچھو تو عمرکے لحاظ سے نیازی خانم کی جوڑ نہ تھے، لیکن گھٹا ہوا بدن تھا۔ بھونرا سی کالی ڈاڑھی، رنگ سُرخ و سفید۔ اچھے ٹانٹے۔ بے فکری کی ملے تو آدمی کبھی بوڑھا نہیں ہوتا، آدمی کی جوانی کاگھن تو پیسے کی نہوت ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مولوی صاحب کی طبیعت عام مولویوں کی طرح خشک نہ تھی، بلکہ غیرمعمولی شگفتہ۔ دونوں ایک ڈالی کے پھول، رنگین اور خنداں۔ وہ بات کرتے تو کھلے جاتے، یہ بات کرتیں تو کلیاں چٹکنےلگتیں۔ دونوں کےنصیب ایسے لڑے کہ خدا سارے جہان کی بیٹیوں اور بیٹوں کی ایسی ہی جوڑی ملائے۔
مولوی صاحب گھر میں اکیلے تھے۔ بچے اپنی ننھیال میں رہتے۔ میاں، بیوی کے ممولےچنتے اور بیوی میاں کی تفریح کا سامان کرتیں۔ کوئی مُخل نہ تھا۔ دونوں مسخرے، دونوں کی جبلت میں ظرافت مگر ایک نوعمراور طرز زندگی کے لحاظ سے ذرا لیے دیے ہوئے، پھر دیہاتی، ایک شہر کی چھٹی ہوئی شوخ لڑکی۔ باتوں باتوں میں ایسے ایسے لطائف و ظرائف کہہ جاتی، ایسی نئی نئی چُہلیں کرتی کہ میاں بغلیں جھانکتے رہ جاتے۔ مولانا کی عادت تھی کہ جب گھر میں ہوتے تو گاؤتکیے سے لگ کر بڑے ٹھسے سے بیٹھتے۔ گاؤ تکیہ اٹھا دیا اور گاؤ تکیے کی صورت کھپچیاں جوڑ کر تکیہ بنایا۔ نیا غلاف چڑھایا۔ اور اسے قالین پر سجا چپکی بیٹھ گئیں۔ مولوی صاحب تشریف لائے۔ اپنی عادت کے موافق آتے ہی گاؤ تکیے سے لگ کر بیٹھے ہی تھے کہ چُرمر کی آواز آئی۔ کھپچیوں کاجال ٹوٹا اور مولانا بہ ایں ریش دفش اس کے اندر۔ پہلوؤں میں بانس کی تیلیوں نے چبھنا شروع کیا۔ تڑپ کر کھڑے ہوئے۔ بیوی دوڑتی ہوئی آئیں ‘‘ہائیں کیا گاؤ تکیے نے پکڑ لیا۔ ڈاڑھی کی تو خیر ہے۔ اوئی سنبھل کر نہیں بیٹھتے۔ اللہ کی امان۔’’ ہنسی کی بات بھی قہقہوں میں ختم ہوگئی۔
کئی دن کا بھلاوا دے کر پھر خانم نے اپنے مذاق کا پٹارا کھولا۔ رات کو مولوی صاحب کی آمد سے پہلے ایک کھپچی موڑ کر پٹاری کے آگے کھڑی کی۔ سہارے کے لیے اِدھر ادھر دو تکیے کھڑے لگادیے۔ اور اپنی دلائی اس پر اس طرح اڑھائی گویا سرجھکائے چھالیہ کتر رہی ہیں۔ میاں کو ان کے کرتوتوں کی کیا خبر۔ وہ آئے اور سیدھے پلنگ پر بیٹھ گئے۔ کڑوے تیل کے چراغ کی روشنی ہی کیا ہوتی ہے۔ سمجھے کہ گھروالی پان بنارہی ہیں۔ بولے ‘‘کیوں جی، ہمیں بھی پان ملے گا؟ منہ سیٹھا ہو رہا ہے۔’’ مگر جواب ندارد۔ پھر کہا ‘‘کچھ خفا ہو، کیا بیٹھے بیٹھے اونگھ گئیں۔’’ کھپچی کیا بولتی۔ ‘‘ارے صاحب، نیند آرہی ہے تو پلنگ پر لیٹ جاؤ۔’’ اب بھی جواب نہ ملا تو اٹھ کر پٹاری کے پاس آئے اور دلائی کا پلا کھینچ کر کہنے لگے ‘‘اللہ رے تمھارے نخرہ، لو اب اٹھتی ہو یا گود میں لے کر اٹھاؤں۔ دلائی کو ہاتھ لگانا تھا کہ کھپچی سیدھی ہوکر اچھلی۔ مولانا کود کر پیچھے ہٹے۔ اندر کےدالان کی بغلی کوٹھڑی میں سے قہقہے کی آواز آئی۔ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے جو دیکھتے ہیں تو دلائی کے نیچے بانس کی ایک کھپچی اور دو تکیے پڑے ہیں۔
میاں: ‘‘لاحول ولا قوۃ! ارے بی !! تم بھی۔’’
بیوی: ‘‘(قہقہہ لگاکر) تم بھی کیا۔ آپ نے مجھ کو شیطان مقرر کیا ہے جو لاحول پڑھی۔’’
میاں: ‘‘آخر یہ کون سی رحمانی حرکت تھی۔’’
بیوی: ‘‘بس ڈر گئے۔ ذرا سی کھپچی سے۔ اتنی بڑی ڈاڑھی والے مرد ہوکر۔’’
میاں: ’’اس طرح بے خبری میں تو آدمی پرچھائیں سے ہول کھاجاتا ہے۔’’
بیوی: ‘‘نہیں تو آپ شیر کامقابلہ کریں۔’’
میاں: ‘‘کبھی موقع ملا تو دیکھ لینا۔’’
بیوی: ’’ماشاء اللہ! ماشاء اللہ۔’’
یہ تو چُہل کی باتیں تھیں۔ اب حاضر جوابی اور تکبندی ملاحظہ ہو۔ گرمی کاموسم تھا، رات کا وقت۔ دونوں میاں بیوی بالاخانےپر کھلے ہوئے صحن میں براج رہے تھے۔ فتیل سوز میں کڑوے تیل کا چراغ روشن ہے۔ ہوا سے بچانےکے لیے بُرجی نما جھر جھرے کپڑے کا فانوس ڈھکا ہوا ہے۔ اس وقت لالٹین وغیرہ کہاں تھیں۔ روشنی اور روشنی کی حفاظت کے لیے یہی سامان تھے۔ مولانا کو پیاس لگی۔ خدا جانے کیا سوجھی۔ شاعری کو مولویوں سے کیا علاقہ۔ لیکن نئی بیوی صحبت کااثر ،تک بندی کو جی چاہا۔ ایک مصرع گھڑا اور کہنے لگے ‘‘آبِ خنک صراحی سے جلدی انڈیل دو۔’’ بیوی مسکراتی ہوئی اٹھیں کہ اتنے میں چراغ کا تیل ختم ہوچکا تھا۔ صراحی کے پاس جاتے جاتے ان کی شاعری بھی اکسی۔ وہیں سے بولیں ‘‘اندھیرا ہو رہا ہے اٹھولا کے تیل دو۔’’مولوی صاحب نیچے گئے۔ بوتل دیکھی تو تیل ندارد، آواز لگائی،
بوتل میں ایک بوند بھ باقی نہیں ہے تیل
بیوی بس آج رات تو یوں ہی ڈھکیل دو
نیازی خانم پورا شعر سنتیں اور چپ رہتیں۔ فوراً سُر میں سُر ملایا،
تیلی کے گھر میں تیل کا کیا کال مولوی
ٹٹخاری مار کولھو کے بیلوں کو ٹھیل دو
میاں کواس کے جواب میں قافیے کی تلاش ہوئی۔ ٹٹولتے ہوئے اوپر آئے اور کہنے لگے،
سرسوں کہیں دھری ہے جو گھانی میں ریل دو
یہاں خانم کا قافیہ بھی تنگ ہوا۔ اتفاق سے مولوی صاحب زمیندار بھی تھے۔ ان کی کسی اسامی کےہاں سے اسی دن السی دو بوریاں آئی تھیں۔ سوجھ ہی تو ہے۔ فوراً جواب دیا،
سرسوں اگر نہیں ہے تو السی کو پیل دو
مولوی صاحب پھسڈی رہے جاتے تھے زورلگاکر بولے،
کیوں رات کھوٹی کرتی ہو سونے کا میل دو
رات زیادہ آچکی تھی۔ چراغ بجھ چکا تھا۔ اندھیرے میں قافیے بھی نہیں سوجھتے تھے۔ آخر بیوی نے یہ کہہ کر ‘‘کب تک یہ غمزے اونٹ کو اپنے نکیل دو۔’’ مشاعرہ ختم کیا۔ اور دونوں سوگئے۔ مولوی صاحب اپنے کو عربی نسل سے بتاتے تھے، اس لیے ان پر اونٹ اور نکیل کی پھبتی ایسی ہوئی کہ دونوں نہیں بھولے۔
(دلی کی چند عجیب ہستیاں/ اشرف صبوجی دہلوی، کتاب کا صفحہ ۱۹۸ اور ۱۹۹ Missing ہے)
بچے اور دلّی کی ماں۔ کیا کہنا ہے۔ خوب اٹھایا۔’’
سدا رہے نام اللہ کا۔ افسوس یہ زندہ دل اور لائق بیوی زیادہ عرصے زندہ نہیں رہیں۔ بڑی منتوں سے کئی سال کے بعد اولاد کی امید ہوئی تھی۔ کچا بچہ ہوا۔ قصبے کی دائیاں جاہل۔ بچاری جوان لہلہاتی ہوئی چلی گئیں۔ مولوی صاحب کو کتنا صدمہ ہوا بس یہ سمجھ لو کہ باقی زندگی انھوں نے گھر میں بیٹھ کر گزاردی۔ یا تو وعظ میں بھی ہنسنے ہنسانے سے باز نہ رہتے یا پھر کسی نےانھیں مسکراتے بھی نہیں دیکھا۔ کوئی انھیں پرانی باتیں یاد دلاکر ہنسانا چاہتا تو کہہ دیتے،
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک ہنساکرتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.