سروجنی نائیڈو
اب جلسے کی جان روح رواں سروجنی کی بابت سنو، ٹھمکا ٹھمکا بوٹا سا قد، گول گول گدرایا ہوا ذیل، کھلتی ہوئی چمپئی رنگت، کتابی چہرہ، کھڑا کھڑا نقشہ، چہرے سے متانت اور سنجیدگی ہویدا ہے، مگر ساتھ ہی اس کے خوش خلق اور ہنس مکھ بھی ضرور ہیں۔ خوب گہری گہری کالی جٹی بھویں، جٹ کے اوپر چھوٹا سا خوب گہرا سرخ کسوم کا ٹیکہ۔ بڑی بڑی نرگسی آنکھیں کچھ جھکی جھکی سی۔ دیکھنے میں کمزور مگر چلنے اور حرکت کرنے میں ہوا سے باتیں کریں۔ آنکھوں کے ڈھیلے ہر وقت ترو تازہ رہتے ہیں۔ پتلیاں خوب سیاہ اور بڑی بڑی جن کے چاروں طرف بڑے بڑے مڑے ہوئے سیاہ گنجان پلکوں کا جنگلہ ہے، جس میں یہ وحشی ہر وقت رم کرتے رہتے ہیں۔ بھلا کہیں اس جنگلے سے یہ کالے شیرازی کبوتر رکتے ہیں، نہیں، آناً فاناً میں دور دور کے کاوے کاٹ آتے ہیں۔ بوا، آنکھیں کیا بتاؤں، غضب کی ہیں موتی کوٹ کوٹ کر بھردیے ہیں، لیکن ساتھ ہی ان سے حجاب و شرم و حیا اور عصمت و عفت پڑی برستی ہے۔ یہ دیکھ کر کہ شہر شہر ملک ملک اکیلی پڑی پھرتی ہیں، ہزاروں لاکھوں مردوں میں اٹھتی بیٹھتی ہیں۔ چاہیے تھا کہ دیدے کاپانی ڈھل جاتا مگر نہیں؟ آنکھ میں وہ حیا ہے کہ بعض بے حیا مردوں کی طرف اٹھتے ہی ان کو بھی حیادار بنادیتی ہیں۔ یہ باہر کاپھرنا اس سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ گھروں کی چار دیواری کے اندر پڑے پڑے پردوں میں گردے لگائیں اور نہ بی بی ہم نے حاشا اللہ حاشا رحمٰن کوئی ان کی ایسی ویسی بات سنی۔ متناسب اعضا ہیں، چھپ تختی بڑی پیاری ہے جس کے سبب جامہ زیبی اور پھبن غضب کی ہے، کان موزوں ہیں، اور لویں نیچے کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ جھکی ہیں، بال بڑے گھنے دار کالے بھونرا سے ہیں اور انگریزی موجودہ طرز کے موافق کنپٹیوں پر جھکاکر اور کانوں پر سے لے جاکر پیچھے جوڑے کی صورت میں لپیٹ دے کر کالی کنگھیاں لگائی گئی تھیں جن میں ہیرے کی طرح چمکتے ہوئے سفید نگ جڑے ہوئے تھے جو مہین بنارسی ساڑی کے اندر سے پٹ بچنوں کی طرح جھم جھم کر رہے تھے۔ بالوں کی وضع تھی تو انگریزی مگر ہماری محمد شاہی پٹیوں اور سادی ببریوں سے کچھ کچھ ملتی جلتی ہے۔ بائیں رخسار پر ذراکچھ اوپر ہٹ کر ایک ننھا ساہلکے سیاہ رنگ کاتل ہے کہ جب ہنستے وقت گال اوپر کی طرف بڑی خوب صورتی سے تلاطم پیدا کرتے ہوئے چڑھتے ہیں تو شامت زدہ آنکھوں میں گھسنے کی کوشش کرتاہے۔ سیدھے رخسارے میں ہلکا ساگڑھا پڑتاہے جس کی بابت دلّی والیوں کاخیال ہے کہ ساس پر بھاری ہوتا ہے۔ چوکھٹا موزوں، برابر برابر۔ جمی ہوئی خوب چمکتی ہوئی بتیسی جیسے بحرین کے موتی، ہونٹ جو ہنسنے اورمسکرانے میں ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں اور پھر کچھ وقفے کے بعد مل کر بالکل وابستہ ہوجاتے ہیں پتہ دیتے ہیں کہ یہ عورت بڑی برداشت اور تحمل کی ہے۔ رکھ رکھاؤ اور اپنے تئیں لیے دیے رکھنے کابڑا مادہ ہے۔ کوئی راز کی بات کہہ دو تو گویا کوئیں میں ڈال دی یا یوں سمجھ لو کہ وہ زبان حال سے کہتے ہیں کہ ہم نے آج تک کوئی چھچھوری، پوچ، بے ہودہ اور لغویات اپنے میں سے باہر نہیں جانے دی، پہلے ہم ساکنانِ دل و دماغ کاجھاڑا لیتے ہیں پھر نکلنے دیتے ہیں۔ خوب صورت ٹھوڑی جیسے بنارسی لنگڑے کی کیری، مورنی کی سی گردن، گول سڈول بازو، چپٹی لمبوتری سانچے میں ڈھلی بانہیں، اچھی گول گول نازک کلائیاں جن میں پھنسی پھنسی چمکتے ہوئے زبرجدی رنگ کی جاپانی ریشمیں چوڑیاں، بیچ میں نیم کے پھول کے بمبئی کی جلادار اشرفی کے سونے والی چوڑی اور پھر ریشمیں چوڑیوں میں ملی ہوئی ادھر اُدھر ایک کے بعد ایک، بائیس کے ردوالی وہی سرخی لیے اشرفی کے سونے کی پتلی پتلی نخیں لگی ہوئی بڑی بھی معلوم ہوتی تھیں۔ گلے میں ست لڑے کی سی وضع کی کنٹھی تھی جس میں جگنی کی جگہ یاقوت کی آواز دار جرائی کا چاند اور پکھراج کی جڑائی کا تارہ سا لگا ہوا تھا۔ کانوں میں ہیرے کے چھوٹے چھوٹے بندے تھے جو بجلی کی روشنی میں حرکت کے ساتھ پڑے جھمر جھمر کرتے تھے۔
بیگم نیڈو کے کانوں کو دیکھ کر اللہ بخشے ودّا سوبھایاد آگئیں جو کہا کرتی تھیں کہ اے ہے! عورت کاحسن ہی کیا جو اوپر کے سب کان نہ چھدے ہوں۔ نرے نیچے کے ایک ایک یا دو دو کان چھدے ہوں تو عورتیں لگتی نہیں۔ خاصے بھانڈوں کے ساتھ ناچنے والے لونڈے معلوم ہونے لگتی ہیں۔ صورت ہی نہیں نکلتی جب تک کہ نرم نرم کان گونٹی کی طرح نہ جھکے پڑتے ہوں اورجو بیویاں مارے نزاکت کے گہنا پاتا نہیں پہنتیں تو لو گو! چاہے مجھے کوئی بدشرم کہے یا بے حیا اس بندی کو وہی میاں مراد کے چوتڑ جیسے چاند سادہ سادہ روڑھا روڑھا منھ لگنے لگتاہے۔ چاہے کتنا ہی گوراچٹاکیوں نہ ہو۔ خصم بھی بات کرتے لجیائے، موئے ہم زاد کا دھوکا کھائے۔ اللہ غریق رحمت کرے کیا اگلے لوگ بھی تھے اور کیا تھے ان کے خیال۔ بہشتن کسی کو بھی ذراہلکا ہلکا سا زیورپہنے دیکھ لیتی تھی تو کوئی نہ کوئی چوٹ ضرور ہی کردیتی تھی اور ہم بہنوں میں سے تو اگر کوئی ذرا بھی گھبراکر ایک بھی چیز علاحدہ کردیتی تھی تو ہماری جان سے دور، چار بارپنجتن پاک کا قدم درمیان، بے چاری کی ارواح نہ شرمائے، بلا کی طرح ہاتھ جھاڑ کے پیچھے پڑجاتی تھی اور جو نہ کہنی تھی وہ کہہ سناتی۔ خیر بے چاری، اب ہم سے اچھے لوگوں میں ہے۔ اللہ واں کی اچھی بنائے یاں تو اچھی کاٹ ہی دی۔ کہتے ہیں کہ مرکے پاؤں پھیرے اس نے تو مرکے بھی پہرہ دیا۔ یاد ہوگا۔ شتابو کی اس رات کیسی گھگھی بندھی تھی اور کیسی چیخی چلائی ہے اور پوچھتے تھے کہ اری مرداربتا کیا آفت ہے سر پہ میراں آئے ہیں یا موں اللہ بخش چڑھ بیٹھے ہیں، کوئی پچھل پہری دیکھی یا تیرے میرے پیاروں نے آ ٹیٹوا دبایا۔ کچھ جواب نہ دیتی تھی۔ بیری کی طرح تھر تھر سر سے پاؤں تک کانپتی تھی، بات کرتی تو منھ سے پورے لفظ نہ نکلتے، آخر جب خالہ مغلانی نے قرآن شریف کی، واری جاؤں نام کے، ہوادی اور استانی جی نے پنج سورہ اور لعل خاں ڈیوڑھی بان کی ماں نے لایلاف پڑھ کر دم کیا، جب قطامہ کے اوسان درست ہوئے، منھ سے پھوٹی کہ منجھلی سرکار للہ میری خطا معاف کریں مجھ سے بڑی چوک ہوئی۔ حضرت بی بی کے بچوں کا صدقہ درگزرو۔ جب اماں جان نے بگڑ کر کہا شفتل صدقے واسطے ہی دلائے جائے گی یا کچھ کہے گی بھی، تو کس طرح چبا چبا کے کہا ہے کہ سرکار عالیہ، میں نے منجھلے سرکار کی گردے کی جڑائی والی، ہیرے کی آرسی صبح فجر ہی نور ظہور کے تڑکے چھوٹی مہتابی والی صخچی میں سے جب سلفچی آفتابہ اور لال کھاروے کا زیر اندازاٹھانے گئی یہ نگوڑی اندر سبھا رات کو عشا کے بعد وہیں بھول آئی تھی۔ تھا تو سیویرا ہی، میرا کلیجہ بھی کھرچ رہاتھا۔ میں نے کہا کہ دیکھوں کچھ رات کابچا کھچا گنجینے میں دھرا ہو تو لے جاکر برتادوں۔ ناگہانی ہونی شدنی کلنک کاٹیکہ لگنا تھا اٹھالی، میرا اللہ گواہ ہے جو کوئی بھی نیت میں خلل ہو۔ ادھم اس کی مچے ہی گی اور حافظ جی بدھنی کی فال کھولیں گے دیکھوں کس کا نام نکلتا ہے۔ سنو جی کی بیٹی کس کا حلیہ بتلاتی ہیں، حضور یہاں سرکاریں ایسی بے پرواہ ہیں کہ کسی نے پلٹ کر سدھ بھی نہ لی۔ جھٹ پٹے کے وقت سے مجھے خیال ہوا کہ کچھ ذکر نکالوں اس کی بابت، پھر میں نے کہا کہ مجھے چپ ہی سادھ لینی چاہیے، دوسرے مجھے ملمع تولناتھا اور مودی خانہ میں رکھنا تھا ادھر نانی فتن نے سارا محل سر پر اٹھالیا کہ لوگو! غضب ہے جس سرکار، دربارمیں یہ پرتھمی کی پرتھمی بھری ہو۔ ہتھیلی کا پھپھولا نہ پھوڑیں۔ ہلکے پانی نہ پئیں۔ نگوڑے سب کے سب بادشاہی احدی ہوگئے کہ ہلاؤ نہ جلاؤ ٹکڑے مانگ مانگ کھلاؤ۔ کھائیں اور مگرائیں۔ کرموجلیاں انعام اکرام کے وقت تو کیا کیا پل پل کے دشمنوں، بیریوں کی جان پر آتی ہیں، ایک ہے کہ اپنا حق خدمت جتاتی ہے، بھلا یہ بھی کوئی ڈھنگ ہے، کوئی رویہ ہے، کوئی قرینہ ہے کہ دونوں وقت ملنے کو آئے اور جنس اب تک باہر نہیں گئی۔ اب بھلا کس وقت وہ نمانا کرموں بندہ جنس سنبھالے گااورکب پکاریندھ کر فارغ ہوگا۔ پھر وہی مدعیوں کی جان پر سرشام ہائے ہائے ہوگی، یہ معصوم معصوم پھول سے بچے خالی انتڑیوں ان نمک حراموں کی جان کو دعا دیتے ہوئے آرام کریں گے۔ اسی طرح نواب کہ جس کے دم کی ساری راون بھاون ہے۔ ان مستانی کے کلیجے میں چھری کٹاؤں ڈالنے کو وقت سے بے وقت کھانے کے مارے بھوک ماری جائے گی۔ بس کچھ یوں ہی سا جمی جم کھائیں گے۔ ان مال زادیوں کے گہرے ہیں، سارا اُلش انہیں غیبانیوں کے تلڑ میں گھسے گا۔ سرکار عالیہ میں جلدی جلدی جنس تول جھونک فرخندہ کے ہاتھ باہر باروچی خانہ میں بھجوا، نانی فتن کی پھپھا پھپھا اور تھوک پیک اڑتے دیکھنے چھوٹی سہ دری میں چلی گئی۔ وہ مجھے دیکھ کر اور تیز ہوئیں اور آئیں تو جائیں کہاں، ایک ایک گالی، سوا سوا من کی دے ڈالی اور میں جب ہنسی اور ہنستے ہنستے لوٹ گئی تو پیٹ میں بل پڑگئے تو اور بھی آپے سے باہر ہوئیں۔ پن کٹی پٹخ ناک کے بانسے پر عینک کو رکھ اور اس کے ڈوروں کو پیچھے چٹیا کی طرف کھسکا، لکڑی ٹیکتی اٹھیں کہ بھلا رہ تو سہی خام پارہ میں خود نواب پاس چھوٹی محل سراے میں جاتی ہوں اور قسم ہے مجھے تیس دھار دودھ کی جو نواب پرنثار کیں اور طلاق ہے اس بندی کی جنتی پر جو تیری پوری طرح کدبدیانہ بنوائی۔ ٹھیر جا بڑی چربیاگئی ہے۔ ابھی آن کے آن سدھروائے دیتی ہوں۔ میرا بھی فتح النسا نام نہیں۔ اپنے نام کی میں بھی ایک بندہ بشر ہوں کسی مغل کی نہیں چمار کی جنی کہیو جو تیرے سارے مغز کی گرمی نہ چھٹوادی۔ وہ رسیوں سے بندھوا سائیسوں سے جو تیاں نہ لگوائی ہوں کہ تو بھی کدھی کو یاد کرے۔ لنکا کہیں کی چوٹی، جامع مسجد کی سیڑھیوں پہ کی شہدن، اڑوابیگنی۔ اوخو کیا کیا تھرکتی ہے۔ کیا کیا کلیں توڑتی ہے۔ بوٹی بوٹی پڑتی ناچتی ہے۔ خاک پہ بسم اللہ، اللہ نے دیکھ کے ہی پٹخا ہے۔ دیکھتی جا وہ چار چوٹ کی مارپٹواؤں کہ بند بند ڈھیلا ہوجائے، کھڑی پڑی کہرواناچے۔ اب تو ہی اس گھر میں براج لے یا میں رہ لوں۔ سرکار عالیہ! نانی فتن نے سرکار حضور سے شکایت کی دھمکی دی، میرے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے۔ زمین کے سرے ٹٹولتی تھی۔ نانی فتن کے آگے ہاتھ جوڑے، توبہ کی، ناک رگڑی، اللہ رسول کے واسطے دیے، ہزاروں خوشامدیں درامدیں، منت سماجتیں کیں تب کہیں خدا خدا کرکے ان کا جوش اُترا، غصہ ٹھنڈا ہوا، نرم پریں، پسیجیں، چھوٹی حویلی میں تونہ گئیں مگر ہاں بڑڑ بڑڑ گھنٹوں کرتی رہیں۔ پھر میں اُٹھ درے میں خالہ ہپؤ کے پاس جابیٹھی، چھالیہ کتر ایک زردے کا ٹکڑا کھایا اتنے میں خاصے کاوقت آیا، مکہو سپڑچن بہنگی سنبھال پتیلیاں لینے ڈیوڑھی پر گئی۔ میں نے شیدی کو پھلکوں کا آٹا رکوانے باہر دوڑایا اور خود چچی رحمت کے پاس کھانا اتروانے نعمت خانے کے قریب جابیٹھی۔ وہاں کچھ بیٹھے بیٹھے نیند سی آئی۔ سونچی کہ تونے ابھی صبح کے خرچ کو صراحیاں آب دار خانے میں سے نکال کر بجھیروں پر نہیں دھری ہیں۔ اس کام سے نچنت ہوکر سورہوں گی۔ اتنی بھی ہمت نہ پڑی اپنے حصے کی روٹی اور تصرف کاسالن دادی دلین کی پوتی سے لے لینے کو کہہ، اور اس سے آب حیات کو نکالنے اور بجھیروں پر رکھنے کو جتا، جاکر پڑ رہی۔ سرکار عالیہ! ذرا کی ذرا ہی آنکھ جھپکی ہوگی دیکھتی کیا ہوں کہ ایک بڑھیلا منھ میں دانت نہ پیٹ میں آنت آئی اور میری چھاتی پر چڑھ بیٹھی۔ بہتیرا اسے دونوں ہاتھوں سے ہٹاتی ہوں، پاؤں بھی مارتی ہوں۔ دھکیلتی ہوں مگر وہ مریم سے ٹلیم نہیں ہوتی۔ آخر اسی ہشت مشت میں اس نے میری گردن کی طرف ہاتھ بڑھا مونڈے پر رکھ دیا اور کہا کہ چھوٹی چنبلی میری بچی کی آرسی ابھی اس کے حوالے کر ورنہ مونڈیا مروڑ کر رکھ دوں گی۔ سرکار میرا لہو خشک ہوگیا، چیخنے کی کوشش کرتی تو آواز نہ نکلتی۔ پھر میری آنکھ کھلی تو آپ لوگوں کو دیکھا۔ لیجیے یہ رہی آرسی۔ یہ کہہ نیفے میں سے نکال کرحوالے کی۔ نانی حضرت بڑی ناراض ہوئیں۔ کہنے لگیں ذوف ہے، لعنت ہے تجھ پہ خدا کی، دیکھا مردار چرانے کا مزا۔ وہ بے غیرت، دھویا دیدا، چکنا گھڑا، بوند پڑی پھسل گئی، بیٹھی ٹھی ٹھی ہنستی رہی۔ ہم لوگ تو پھر چلے آئے۔ صبح اس نامراد نے بے چاری دداسوبھا کی فاتحہ مچھلی کی دھوون، ماش کے بڑوں اور انڈوں پر دلوادی۔ اس روز سے پھر کسی کے خواب میں نہیں آئیں مگر دیکھو پھیرا مرے پر بھی دیا۔ میری کوئی چیز ادھر سے اُدھر، جا سے بے جا ہوئے یا ذرا بھی میں آنکھوں سے اوجھل ہوجاؤں بس دیوانوں کی طرح سڑی سودائیوں کی طرح ہوجاتی تھی۔ اے ہے دیکھو! اچھوں کی یاد کرنے کے بعد بھی ہوتی ہے۔ سچ ہے چاند پیارا نہیں کام پیارا ہے۔ لو میں نے بھی بات کہاں سے کہاں لاڈالی۔ کہاں بیگم نیڈو کا سراپا کہاں ان کی جان سے دور ددّاسوبھا کارونا صورت اورزیور سے تو آشنا ہوگئیں اب لباس او رجو باتیں ان کے متعلق رہ گئی ہیں سب آگے چل کر بتائے دیتی ہوں۔
کنائے دار ہلکے موتیائی رنگ کی بنارس ساڑھی۔ کنارے پر دھنیے کی بیل اور متن پر برف کی بوٹیاں پڑی تھیں۔ چولی مرہنی تراش کی تھی جس کی آستینیں خوب پھنسی پھنسی آدھے بازوؤں تک تھیں۔ چولی کا کپڑا بنارسی تھاجس کی زمین پہ پاس پاس گلاب اور مہوے کی سنہری بوٹیاں پڑی تھیں اور اس پہ کنارہ جو لگایا تھا وہ بھی بنارسی۔ جس کی بیل خداجانے کس قسم کی جال کی تھی، لیکن چولی کارنگ اور ٹکائی ساڑی ہی کے جواب کی تھیں۔ ساڑی بمبئی کے طرز سے بندھی تھی۔ چاروں طرف خوب اچھا میٹھا میٹھا جھول دیا ہوا تھا۔ لیکن اوڑھنے کا سرامعمولی ساڑھیوں سے بڑاتھاجس کے آنچل کو الٹے کھوے پرمہین مہین چنٹ دے کر اور پھول سوئی اٹکاکر سر پر سے لے جاکر پیچھے نیچے تک لٹکتا چھوڑ دیا تھا۔ جس سے بچھانے کی ڈھکن بڑی خوبی سے ہوگئی ہے او ربمبئی کی عام ساڑیاں جو پارسنیں باندھتی ہیں کہ پلو کا ایک سرالے کردائیں پہلو کی لپیٹ کے بعد گائی کے نیچے سے بائیں پہلو کی طرف اڑس لیتی ہیں اور دوسرا سرا پیچھے سموسہ نما لٹکا رہنے دیتی ہیں۔ اس میں وہ بات نہ رہی تھی (یعنی پیچھے سموسے کی طرح نہیں لٹکتا تھا) بلکہ دونوں سرے پیچھے ہی لٹکے ہوئے تھے۔ کان کے پاس کچھ سرگاہ کے آنچل کی جھوک تھی جس کو سروجنی صاحبہ اکثر بولتے وقت عجیب انداز سے دائیں کان اور ہنسلی کا سراڈھانکنے کے لیے بڑی پھرتی سے جھکالیتی تھیں جو پھر حرکت سے آہستہ آہستہ کھسک کر پیچھے ہٹ جاتا تھا اور پھر وہ چٹکی سے پکڑ کر آگے کھسکالیتی تھیں۔ پاؤں میں پیر سے اونچی ایڑی کی سیاہ بیگمی جوتی تھی۔ جس وقت یہ تقریر کرنے کھڑی ہوتی ہیں اس وقت کا عالم بیان سے باہر ہے۔ آواز میں ایک خاص قسم کی لرز تھی جو دلوں میں لرزش پیدا کرتی تھی۔ کبھی تو آواز رساں رساں اوپر چڑھ کر مہاوٹ کے بھورے بھورے بادلوں کی سی گرج پیدا کرتی تھی اور کبھی آہستہ آہستہ نیچے ہوکر ساون بھادوں کی باجرا پھوار کا مزا دیتی تھی۔ اور کبھی ایک جگہ قائم ہوکر سننے والوں کے دلوں کی متحرک موجوں میں چاند کے غیر مستقل عکس کا مزا دے جاتی تھی۔ یا یہ معلوم ہوتاتھاکہ گل مشکی کے تختے میں سونے موتیوں کا ہزارہ چھوٹ رہا ہے۔ جس کی صدہاپتلی پتلی دھاریں لب کے پاس ایک دوسرے سے بہت ہی قریب قریب ملی ہوئی نکل کر اور اوپر پھیلتی ہوئی اورایک دوسرے سے دور ہوتی ہوئی اور پھر ایک خاص قسم کی محراب بناکر پھولوں کی نازک نازک کالی پنکھڑیوں پر گرکے اور تھوڑی دیر ٹھہر کر اور اپنی چمک دکھاکے چھوٹے چھوٹے موتیوں کی ٹوٹی ہوئی لڑیوں کی طرح تختے میں چاروں طرف بکھر جاتی ہوں۔ جس وقت وہ جوش میں آن کر سرکو حرکت دے کر گردن کو اکڑاتی تھیں تو معلوم ہوتاتھاکہ بارش سے دھلے ہوئے ہرے کنچن سے جنگل میں ہرنی ہوا کے رُخ کھڑی کستوری کی بو لے رہی ہے۔ لفظوں کو پرزور اور پراثر بنانے کے لیے جب وہ مٹھیاں بھینچ کے اور ہاتھ ڈھیلے چھوڑ کے جو اکڑاتی تھیں اور جھومتی تھیں تو معلوم ہوتا تھا کہ سطح آب پر کنول کی تیری ہوئی بیلوں میں جل پری راج ہنسوں کے ساتھ کھڑی اٹھکیلیاں کر رہی ہے۔ پھر خاتمۂ تقریر کے بعد ان کا ایک دم فوراً ہی بیٹھ جانا اور دیوان میں تالیوں کا شور اورحاضرین کی چرغم چرغم بالکل جل پری کے کھیلتے کھیلتے دفعتاً غوطہ لگاجانے اورجل کوؤں کے شور و غل کے مانند تھا۔ یا ان کا جھومنا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی ہری ہری دوب کے جنگل میں چاندنی چٹک رہی ہے اور ہوا کے جھونکے سے ہلتے ہوئے پتوں کی اوٹ میں پٹ بچنو کی چاندنی کے سامنے مدھم مدھم چمک میں ایک دور کسی چٹان پر بیٹھے ہوئے گڈریے کی بین کی آواز پر کیچلی پھاڑ کر نئی نکلی ہوئی ناگن کا پھن پھیلاکر کھیلنے یا کسی گاؤں سے رات کے سناٹے میں پونگی کی آنے والی لہر پہ لہرا لینے کے مانند تھااور پھر بولتے بولتے آناً فاناً میں کچھ جسم کو ڈھیلا چھوڑ کے کرسی، جو جگہ کی تنگی کی وجہ سے پیچھے ہٹائی گئی تھی تاکہ انہیں کھڑے ہونے میں سہولت ہو اور اس کاہٹایاجانا انہیں یاد نہ رہا تھا، ایک پاس ہی پڑی ہوئی چوکی پر بیٹھ جانا۔ لہرا بند ہونے پر ناگن کے پھن سکیڑ کے پتوں پہ سے اوس چاٹنے کی طرح تھا۔
اور ہاں جب ہمارے کالج کے مشہور شاعر سہیل صاحب نے فارسی کاقصیدہ پڑھا ہے، اس وقت بیگم نیڈو کی پتلی پتلی انگلیاں خودبخود تال سر کے ساتھ کرسی پر، جس پر وہ بیٹھی تھیں، پڑنے لگیں۔ ایک تو قصیدے کے الفاظ ایسے تھے کہ جن کے ادا کرنے میں خود بخود ایک راگ کی سہاؤنی آوازنکلتی تھی۔ پھر لفظ بڑے فصیح شان شوکت کے، بندشِ انوری اور قآنی کی بندش سے پالاجمائے۔ سونے پہ سہاگہ سروجنی صاحبہ کی انگلیوں کی حرکت نے غضب کاسماں باندھ دیا۔
اچھی۔ کہوگی تو سہی کہ دوئی سب کی صورت بتائی لیکن سہیل صاحب کی بابت کچھ نہ بتایا۔ لو سنو، ایک مٹھی بھر کاسوکھا سہما مردوا، ہڈیوں کی مالا، مرزا مخنی، ہلکا پتا پھوک سے کوسوں دور جائے۔ بنارس کے پاس جو اعظم گڑھ ہے جہاں کے شبلی مرحوم رہنے والے تھے وہیں کے یہ بھی رہنے والے ہیں۔ ان کی شاگردی کابھی انہیں شرف حاصل ہے، مگر بڑے میاں کی ارواح بھی ایسے قابل آدمی کے شاگرد ہونے پر ناز کرتی ہوگی۔
اے ہاں ایک بات اور یاد آئی۔ جس وقت سروجنی صاحبہ بول رہی تھیں تقریر ساری انگریزی میں۔ اور انگریزی وہ زوردار کہ خودانگریز منھ تکیں کہ یا اللہ کوئی رحمت کا فرشتہ ہے یا آزادی کا کھڑا بول رہا ہے۔ سارے لوگوں پہ وہ سناٹا جیسے اگن چہکے اور سارے پرند چپکے ہوکر بیٹھ رہیں۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ چل تونے تو کئی دفعہ سنا ہے آج اور سننے والوں کا تماشہ دیکھ۔ اب میں نے جو لوگوں کی طرف آنکھیں دوڑائیں، کسی کی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھیں اور کسی کامنھ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔ ایک انگریز ذرا موٹا سا، سرخ سرخ لال چقندر سا رنگ، زرد زرد دانت نکوسے، منھ پھاڑے ایسا مبہوت ہوکے بیٹھا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ دشمنوں کو سانپ سونگھ گیا۔ اے ہے کچھ عجیب ہی بے چارے کی صورت بن کے رہ گئی تھی کہ یہ دیکھے سے ہنسی آتی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.