سنگاپور کا میجر حسرت
دوسری عالمگیر جنگ کے خاتمے پر جب اتحادی قابض فوجیں ملایا کے ساحل پر اتریں تو مولانا چراغ حسن حسرتؔ اس کے ہر اول دستوں میں شامل تھے۔ آپ دو سال سے کچھ اوپر سنگاپور میں مقیم رہے۔
مولاناحسرتؔ جنوب مشرقی ایشیائی کمان کے شعبہ تعلقاتِ عامہ سے وابستہ تھے اور ہیڈکوارٹر سے شائع ہونے والے ہندوستانی عسکری اخبارارت کی ادارت و نگرانی کا فریضہ ان کے سپرد تھا۔
ہم دونوں (مسعود و ضمیر) ان کے نائب و معاون کی حیثیت میں اس شعبے سے متعلق تھے۔ ہمیں اپنی اس خوش بختی پر بڑا فخر ہے کہ ہمیں اپنے زمانے کے ایک صاحب طرز انشا پرداز، ایک بڑے صحافی اور ایک بہت بڑے انسان کو بہت قریب اور بڑی تفصیل سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ جو لوگ اجنبی سرزمینوں میں فاتح لشکروں کی زندگی کا تجربہ رکھتے ہیں وہ اس امر کااندازہ کرسکتے ہیں کہ ہمیں حسرتؔ صاحب سے کتنا اور کیسا تقرب حاصل رہا ہوگا۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ زندگی کسی چہرے پر کوئی نقاب باقی نہیں رہنے دیتی۔
ہمارے رفقاء میں سے کیپٹن (اب لیفٹیننٹ کرنل) جاوید خٹک۔ کیپٹن (اب کمانڈر) حسن عسکری جو ادبی دنیا میں ابنِ سعید کے نام سے مشہور ہیں۔ میجر احمد علی خاں جو آج کل برطانیہ میں پاکستان کے معتمدِ تجارت ہیں۔ کیپٹن انعام قاضی اور کیپٹن (اب لیفٹیننٹ کرنل) رشید حیات پاکستان کے حصے میں آئے ہیں۔ یہ سب دوست وہاں ‘قوم’ کے نام سے یاد کیے جاتے تھے اور حسرتؔ اس ‘قوم’ کے ‘مرشد’ تھے۔ پھر آگے ‘قوم’ کے بھی اندر مسعودؔ اور ضمیرؔ کو مرشد کا خصوصی قرب حاصل تھا۔ مسعود دفتر میں ان کا نمبر ۳ تھا اور ضمیرؔ دفتر سے باہر ان کا ایڈی کانگ!
اس مطالعے سے اسی دور کے حسرتؔ کا تذکرہ مقصود ہے۔ چند جھلکیاں، چند باتیں، چند یادیں!
ہمارے لکھنے کا طریق کار یہ رہا ہے کہ واقعات کی ترتیب میں۔۔۔ قربتوں اور فاصلوں کے مطابق، کچھ حصہ مسعودؔنے لکھا ہے وار کچھ ضمیرؔ نے۔ مولانا جہاں ایک کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے کےقبضے میں چلے گئے ہیں، ایک نے قلم روک کر مضمون بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مولانا کو دوسرے کے سپرد کردیا ہے۔
مولانا حسرتؔ کی بے وقت موت ہماری تہذیبی تاریخ کا ایک عظیم سانحہ ہے۔ یہ ایک فرد کی موت نہیں، ایک روایت، ایک ادارے کی موت ہے۔ ہم نیاز مندوں کے لیے ان کی موت ایک گہرے ذاتی زخم کی حیثیت رکھتی ہے۔ زندگی میں کسی کے ساتھ دو قدم چل کر بچھڑ جانے پر قلق ہوتا ہے۔ یہ تو اس دوست کا بچھڑنا ہے جس کے ساتھ ہم کامل دو برس تک ایک دفتر ہی نہیں، ایک گھر میں بھی رہے۔۔۔ یہ تو اس مرشد کی رخصت کا دائمی گھاؤ ہے جس کے قدموں میں بیٹھ کر ہم نے قلم پکڑنا سیکھا ہے۔۔۔ یہ تو اس انجمن کے اجڑجانے کا ماتم ہے کہ جس کی روشنی ہی کے سبب آج ہم اپنی زندگی کو ایک غیر معمولی متاع سمجھتے ہیں۔ یہ غم تو اب جان کے ساتھ ہی جائے گا۔ لیکن اس مضمون میں تحریر کے انداز کو ہم نے عمداً ہلکا پھُلکا رکھا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ روتے بسورتے لہجہ میں مولانا کی شخصیت سے انصاف کرنا تو کجا، ان کو چھوسکنا بھی ناممکن ہے۔ ہم نے مرشد کے تذکرے کے لیے وہی اسلوب چنا ہے جو خود ان کا اسلوبِ حیات تھا۔ ہم حسرتؔ صاحب کی پسند و ناپسند سے واقف ہیں۔ ہم اپنے مرشد کو جانتے ہیں۔
(م-ض)
لیجیے اب ضمیر سے سنیے:
مرشد مجھ سے پہلے سنگاپور پہنچ چکے تھے۔ جاوید کے ہمراہ جس وقت میں ہالینڈ پارک کے ایک وسیع، دلکشا بنگلے کے اندر پہنچا تو مرشد۔۔۔ قوم کے دل میں بیٹھے ہوئے دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے۔ میں ‘‘شیرزہ’’ کے زمانے سے ان کا نیاز مند تھا۔ دیکھتے ہی کھانا چھوڑ کر مجھ سے لپٹ گئے۔ اپنے پہلو میں بٹھالیا اور پھر لنچ کی اسی ایک نشست میں بیٹھے بیٹھے ڈھیروں باتیں کرڈالیں۔
‘‘خوب پہنچے ہو میرے بھائی۔ آج رات ظہیرؔ کی سال گرہ کی دعوت ہے۔ مولانا آج ہمیں ایک گاکر پڑھنے والے شاعر کی سخت ضرورت تھی۔ سبحان اللہ لاہور کا بکھرا ہوا شیرازہ، کہاں آکر جمع ہو رہا ہے۔۔۔ لو چانو لوں پر یہ ٹِن کی مچھلی بچھا کر کھاؤ۔ یہاں تو یہی کچھ مردار کھانے کو ملے گا میاں! وہ تمہاری یونینسٹ قسم کی روٹی یہاں کہاں؟’’
اب حاضرین سے تعارف شروع ہوا:
‘‘وہ جناب انعام قاضی ہیں۔ تم ان کا نام غالباً پہلی مرتبہ سُن رہے ہو مگر مشہور ادیب ہیں۔۔۔ وہ دھان پان صاحبزادے مولانا عسکری ہیں۔ جاوید کی رائے میں اپنے نامور والد میرزا محمد سعید دہلوی سے بھی بڑے ادیب ہیں۔۔۔ یہ رشید حیات ہیں، بس رشید حیات، محض و خالص۔ جاویدؔ سے بھی مل چکے ہو۔ آپ چلم اور فلم سے ہوکر علم کے کوچے میں وارد ہوئے ہیں۔۔۔اور حضرات یہ مولانا ضمرؔا جعفری ہںن۔ جہلم کے رہنے والے، جہاں کے لوگ خدا کے تصور کے لےا تھانے دار کو دیکھتے ہںب۔’’
پھر اس شام ظہیرؔ کی سالگرہ منائی گئی۔ یہ ظہیرؔ سے ان کی بے اندازہ محبت کی پہلی جھلک تھی جو ہم نے دیکھی۔ مرشد نے جزیرے کے تقریباً سبھی انڈین افسروں کو مدعو کر رکھا تھا۔ دو چار خوش ذوق انگریز جوڑے بھی موجود تھے۔ محفل جمی۔ تو مرشد میزبان کے بجائے کچھ اس طرح مہمان سے بنے بیٹھے رہے جیسے انہیں اپنے سگریٹ کے علاوہ کسی چیز سے کوئی واسطہ نہ ہو۔۔۔ مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد۔۔۔ مگر جب پھر بوتلوں کے کاگ اڑنے لگے تو مرشد نے چہکنا شروع کیا اور اب جو منظر بدلا ہے تو پوری انجمن گویا تنہا حسرتؔ کی ذات سے عبارت تھی۔ میجر احمد علی خاں کے الفاظ میں حسرتؔ کا چراغ روشن ہوگیا۔ ان کے لبوں سے شعر و ادب، تاریخ و تصوف، طنز و ظرافت، زندگی اور اس کی چاندنی کا ایک سُبک آبشار جاری تھا۔۔۔ تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا۔
یہ محفل، جو مرشد کی اصطلاح میں ’’بزمِ ہاؤ وہُو’’ کہلاتی تھی۔ اگلی صبح کے کوئی تین بجے تک قائم رہی۔ یوں کہنا چاہیے کہ مرشد اپنے چند جاں نثاروں کے ساتھ قائم رہے ورنہ تین چوتھائی محفل وہیں کرسیوں پر پاؤں پسار کر سوگئی تھی۔ مرشد تو وہیں کھڑے کھڑے ‘‘صبوحی’’ تک لگا دینے کاحوصلہ و ارادہ رکھتے تھے مگر نہ معلوم شاید ذخیرہ ختم ہوگیا تھا یا شاید جس کسی میں ابھی تک دوسرے کو تھامنے پکڑنے کی سکت باقی تھی وہ ان کو تھام پکڑ کر خواب گاہ میں لےگیا اور یہ محفل بالآخر اس طرح ختم ہوئی کہ اس کو جمتے تو سب نے دیکھا تھا مگر برخاست ہوتے شاید ہی کسی نے دیکھا۔ نسبتاً ہوش مند لوگوں کو ڈر تھا کہ اگر کل صبح انہیں لوگوں نے دفتر لگانا ہے تو یہ دفتر لگ چکا۔ مرشد کی نسبت سب کو قطعی یقین تھا کہ وہ کل کیا معنی، اب ایک پورے ہفتے کے لیے گویا معطل ہوگئے مگر پھر دوسری صبح کو جو پہلی آواز ہالینڈ پارک کے خوبصورت گنبدوں اور روشن غلام گردشوں میں گونجتی ہوئی سنائی دی وہ مرشد کی آواز تھی۔
‘‘جاوید، عسکریؔ، ضمیرؔ۔۔۔ قاضی صاحب۔’’
‘‘ارے اوساون کے بادلو!’’
‘‘ابے اوخبیثو!’’
اور بھاگم بھاگ ہم لوگ جب تیار ہوکر ناشتے کے میز پر پہنچے تو وہ پپیتےکے آخری پرزے کو کانٹے کی نوک پر بٹھا کر خود دفتر جانے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ جہاں سہ پہر تک اب انہیں مسعودؔ کے قبضے میں رہنا تھا۔ لہٰذا یہ رُوداد مسعودؔ ہی سے سنیے:
مجھے دفتر میں ان کا نمبر ۳ ہونے کا امتیاز حاصل تھا۔ اس سے پہلے میں کلکتہ میں ان کے ساتھ کام کر چکا تھا۔ مرشد میرے لیے کوئی نئے ‘باس’ نہ تھے۔ سنگاپور پہنچا تو پہلے ہی روز مجھے پورے اعتماد میں لیتے ہوئے فرمایا:
‘‘مولانا آپ کا انتظار ہی کر رہا تھا۔ اب یہ کام سنبھالیں۔ میں بڈھا آدمی ہوں۔ مجھے آرام کرنے دیں۔ میں چاہتا ہوں کچھ پڑھنے کا وقت مل جائے، کچھ گھوم پھر لوں۔ آپ کی تھوڑی بہت مدد کر دیا کروں گا۔’’
اس تمام وقفہ میں سکریٹ منہ سے نہیں نکلی۔ دھواں آنکھوں میں جارہا تھا۔ کبھی کبھی تو یہ گمان ہوتا کہ دھواں آنکھوں میں جانہیں رہا، آنکھوں سے آرہا ہے۔ درمیان میں جھنجلا کر آنکھیں ملنے بھی لگتے۔ لیکن آنکھوں کی جلن اور سگریٹ کے دھوئیں میں کوئی رشتہ شاید وہ کبھی دریافت نہ کرسکے تھے۔ علل و معلول کی اکثر کارفرمائیوں سے مرشد عموماً بے تعلق و بے نیاز ہی رہے۔
‘‘ہاں تو مولانا مسعودؔ صاحب بہت اچھا ہوا کہ آپ آگئے۔۔۔ لو بھئی چائے اور یہ سکریٹ۔۔۔ جاویدؔ ماچس۔۔۔ سنگاپور کو آپ کلکتہ سے زیادہ تقویٰ شکن پائںت گے۔’’
اتنے میں مجھے کپڑا جلنے کی بو سی آئی۔ میں نے کہا۔ ‘‘مولانا کہیں کوئی کپڑا تو نہیں جل رہا؟’’ بولے۔ ‘‘آپ کہہ رہے ہیں تو ضرور جل رہا ہوگا۔ آپ بڑے خطرناک آدمی ہیں’’۔۔۔ پھر ذرا چلا کر بولے ۔۔۔ ‘‘ارے قاضی صاحب ذرا ادھر تو تشریف لائیں۔۔۔ دیکھیے کوئی کپڑا تو نہیں جل رہا؟ یہ کہیں سے بو سی کیا آرہی ہے؟’’ ۔۔۔اس ‘‘کہیں سے بو’’ کا راز یہ کھلا کہ جناب کی پتلون کا پائنچا چار پانچ انچ کے قریب راکھ ہوچکا تھا۔ فرمانے لگے۔ ‘‘مولانا یہ سکریٹ بھی بڑی واہیات چیز ہے، سوچتا ہوں کہ اس لعنت کو چھوڑ ہی دوں’’۔ اور شام تک سکریٹ اور ماچس کے خالی بکسوں سے آدھی ٹوکری بھری پڑی تھی۔
مرشد کی باتیں کرتے ہوئے تسلسل یا اسلوب کا قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ خود انہوں نے زندگی کو اسلوب کی بندشوں میں کبھی قید نہ ہونے دیا۔ فوج کے سخت گیر ضوابط بھی انہیں کبھی پابند نہ کرسکے۔ ایک مرتبہ جب افسرِ اعلیٰ نے کسی بات پر باز پُرس کی تو جواب میں یہ شعر لکھ بھیجا۔
جرمنی ختم اور اس کے ساتھ جاپانی بھی ختم
تیری کرنیلی بھی ختم اور میری کپتانی بھی ختم
کلکتے کی بات ہے ایک روز دفتر چلے آرہے ہیں۔ اس شان سے کہ منہ میں سگریٹ ہے۔ فیلڈ سروس ٹوپی بغل میں دبی ہوئی ہے اور کندھوں پر ایک طرف تین اسٹار لگے ہیں اور دوسری طرف دو۔
میرے وہاں پہنچنے پر مرشد نے مطالعہ کی اک ذرا سی فرصت اور سیر و سیاحت کی اک تھوڑی سی مہلت کے عوض اپنے تمام فرائض مجھے تفویض کردینے کا فرمان تو جاری کردیا مگر ہمیں معلوم تھا کہ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ مطالعہ کے لیے مرشد کو مہلت کی ضرورت ہی نہ تھی۔ جس طرح اور لوگ کتاب پڑھتے ہیں اس طرح ہم نے انہیں پڑھتے کبھی نہیں دیکھا۔ ان کی کیفیت تو کچھ ایسی تھی کہ کتاب اٹھائی، اسے چھوا، ٹٹولا، سونگھا، چند ایک ورق الٹ پلٹ کر دیکھے اور بس۔ اس کے بعد وہ کسی باطنی عمل سے کتاب کا نفسِ مضمون، کتاب کی رُوح، سب کی سب، اپنے ذہن میں منتقل کرلیتے۔ دوسرے روز آپ اس کتاب کے متعلق بات کریں تو اور اس کے کرداروں کا حسب نسب، کہانی کی اٹھان، اس کی کمزوریاں اور خوبیاں، مصنف کا اسٹائل اور فلسفہ اور پھر دس اور کتابوں سے اس کی جزئیات کاموازنہ، یہ سب یوں بیان کرجاتے جیسے یہ کتاب انھوں نے مکتب میں سبقاً پڑھی ہو۔
رہی سیر و سیاحت کی فرصت، تو یہ بھی ایک طرح کی آرزو ہی تھی جسے عملی رنگ دینے کا ارادہ مرشد نے غالباً کبھی کیا ہی نہ تھا۔ سچ مچ کی سیر و سیاحت مرشد کے بس کی بات ہی نہ تھی۔ پھر سیر کے لیے انہیں طول طویل راستے ناپنے کی ضرورت بھی کیا تھی۔ حسن ان کے لیے ایک داخلی کیفیت تھی۔ حسن ان کی آنکھوں اور ان کے دل میں تھا۔ خارجی اسباب کا سہارا اگر انہیں درکار تھا تو نہایت سُبک سا۔ میس کی ایک کھڑکی سے جھانکو تو چھالیہ کے کشیدہ قامت پیڑوں کے جھنڈ آپس میں سرگوشیاں کرتےنظر آتے تھے۔ دوسری طرف بالکنی کے باہر چینی چیری کاایک تناور درخت باہیں پھیلائے کھڑا تھا۔ پشت کو اٹھتی ہوئی پہاڑی کی پیشانی پر ایک عرب رئیس کا بنگلہ تھاجس کے زمردیں لان اوپر سے لڑھکتے، پھسلتے ہمارے میس کے حاشیے پر آکر کہیں رکتے تھے۔ ذرا ہٹ کرناریل کے پیڑ ایک دوسرے پر جھُکے ہوئے تھے جن کا منظر چاندنی راتوں میں بڑا فسوں خیز ہوتا تھا۔مرشد فرمایا کرتے۔ چانسری لین کے مناظر جس شحص کے ذوق کی تسکین نہیں کرسکتے اس گدھے کو سارے سوئٹزرلینڈ میں گھمالائیے تو بھی اسے کے پلے کچھ نہیں پڑے گا۔
اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ مطالعہ و سیاحت کی فرصت کی خاطر دفترکا کاروبار میرے حوالے کرنا مرشد کی ایک ادا تھی۔ لیکن اس ادا میں تصنع یا تکلف ہرگز نہ تھا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس وقت اپنی باتوں پر واقعی یقین کر رہے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ دل ہی دل میں انہوں نے بالی کےسفر کا کوئی تفصیلی نقشہ بھی کھینچ رکھا ہو۔ مجھے کچھ ایسا خیال پڑتا ہے کہ اس روز مرشد کوئی آدھ گھنٹہ پہلے ہی دفتر سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔ دوسرے دن صبح کو ناشتے کے میز پر بھی موجود نہیں تھے۔ کمرے میں جھانکا تو دیکھا کہ کرتے پاجامے میں لیٹے ‘‘سٹوری آف سان مائیکل’’ میں مستغرق ہیں۔ ‘‘سٹوری آف سان مائکل’’ مرشد کی تازہ ترین دریافت تھی۔ فرمایا۔ ‘‘مولانا اس سے بہتر کتاب میں نے تو آج تک نہیں پڑھی’’۔ لیکن بعد میں ہم اس طرح کے غلو کے عادی ہوگئے۔ مُرشد کا انداز ہی یہ تھا۔ ان کے مطالعہ کی کتابیں منتخب تو ہوتی ہی تھیں، بس جو کتاب شروع کرتے، اس کے عشق میں مبتلا ہوجاتے۔ ‘‘سٹوری آف سان مائیکل’’ سے پہلے ٹالسٹائی کی ‘‘واراینڈ پیس’’ دنیا کی بہترین کتاب تھی اور اس سے پہلے ہکسلے کی ‘‘ایلس ان غازہ’’۔
ہم نے پوچھا ‘‘آپ دفتر میں تو نہیں تشریف لے جائیں گے’’۔بولے ۔ ‘‘مولانا مجھے تو آپ چھٹی ہی دے دیں۔ میں چاہتا ہوں۔ مگر ہاں دیکھیے کوئی دس بجے کے قریب جیپ بھیج دیجیے گا۔ ذرا ریفلز لائبریری کا چکر لگا آؤں گا ۔ ممکن ہے تھوڑی دیر کو دفتر میں بھی آنکلوں۔’’
ہمارا دفتر سیسل اسٹریٹ میں ایک عمارت کی بالائی منزل میں تھا۔ سیسل اسٹریٹ کو سنگاپور کی فلیٹ اسٹریٹ کہہ لیجیے۔ اس زمانے میں سنگاپور کے تمام انگریزی اور ملائی روزنامے وہیں سے نکلتے تھے۔ جس جگہ ہم بیٹھتے تھے وہ جنگ سے پہلے ایک ڈچ تجارتی کمپنی کا دفتر تھا جو ملایا سے ربڑ اور مسالے برآمد اور ڈنمارک سے بیئر درآمد کرتی تھی۔ دفتر کیا تھا ایک وسیع ہال تھا جو کسی زمانے میں پارٹیشنوں سے مزین ہوگیا مگر جاپانیوں کے چار سالہ تسلط میں ان تکلفات کا نام و نشان مٹ چکا تھا۔ جاپانی جس عمارت میں ایک مرتبہ بسیرا کر گئے اس کے دروازے، کھڑکیاں تک غائب ہوجاتیں۔ سا گوان کی بیش بہا الماریوں کو توڑ کر چاول ابالنے کے لیے چولہا سلگا لینا ان کے لئے کوئی غیر معمولی بات نہ تھی۔ الغرض ہمارا دفتر بالکل ننگ دھڑنگ قسم کا دفتر تھا۔ جس کے چوبی فرش پر بھاری بھرکم فوجی بوٹ ہر وقت ایک زلزلہ بپا کیے رکھتے تھے۔ ابھی دس بج کر کچھ منٹ ہی گئے تھے کہ اس زلزلے کی لرز اور گرج میں ایک نئی شدت پیدا ہوگئی اور ہم سمجھ گئے کہ مرشد تشریف لے آئے۔ موٹی موٹی کتابوں کا ایک ‘‘دوبغل بھر پلندہ’’ ریک میں پھینکا، ٹوپی اتاری، سگریٹ منہ میں اڑسی اور ماچس کھٹکھٹاتے ہوئے بیٹھ گئے۔ ہم جانتے تھے کہ مُرشد اخبار سے جدائی زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکیں گے۔ مرشد کی نظروں میں ہم سب جاہل تھے۔ کوئی ذرا کم، کوئی قدرے زیادہ۔ اخبار وہ بالکل ہمارے ہاتھوں میں کیسے چھوڑ سکتے تھے؟ چنانچہ آتے ہی جائزہ شروع ہوجاتا:
‘‘مولانا لائیے تو ادھر، یہ آپ کیا لکھ رہے ہیں ۔ مولانا یہ کوئی سُرخی تو نہ ہوئی۔ ہمیں تو یہی بتایا گیا تھا کہ خبر کی سُرخی میں پہلی سطر جملہ فعلیہ خبریہ ہونا چاہیے۔ آپ کو شاید ان سے تعارف نہ ہو لیکن مولانا! متبدا اور خبر، مضاف اور مضاف الیہ میں ایک بہت قریبی رشتہ ہوتا ہے۔ اور ۔۔۔بھئی محرم علی میں آپ سے عرض کرچکا ہوں کہ آپ ہر صبح کاتبوں کے قلم ضرور دیکھ لیا کریں۔ کل کی سرخیاں تو ایک دوسرے کو کھانے کو دوڑ رہی تھیں۔حمید صاحب ‘‘نون’’ کا دائرہ بنانے کی مشق اگر آپ نے لگ کر چار پانچ برس کرلی تو آپ ‘‘نون’’ بنا لیا کریں گے۔ فی الحال تو آپ کا نون فیروز خاں نون کا ‘‘نون’’ معلوم ہوتا ہے۔’’
تعریف کے معاملے میں مرشد شقاوت کی حدتک سخت تھے۔ کچھ تو اس لیے کہ دوسروں کو ناپتے جانچتے وقت شاید نادانستہ دوسروں کا موازنہ اپنے ساتھ کرجاتے تھے اورظاہر ہے کہ موازنہ ان سے ہو تو تعریف کے قابل کون نکلے؟۔پھر انہیں یہ خیال بھی تھا کہ علم و ادب سے تعلق رکھنے والے آج کل کے نوجوانوں کی برخود غلطی پہلے ہی تشویش ناک صورت اختیار کرچکی ہے انہوں نے تعریف کردی تو مبادا دماغ بھی خراب ہوجائے۔ وہ حیران ہوتے تھے کہ یہ کیسیا دور آگیا ہے کہ لوگ قواعد کے ابتدائی اصول جانے بغیر، عربی و فارسی کی تحصیل کے بغیر، اساتذہ کے کلام کامطالعہ کیے بغیر، شعر کی تہذیب اور اس کا مزاج سمجھے بغیر، مصنف اور شاعر بن بیٹھتے ہیں۔ ‘مست قلندر’ میں ایک افسانہ چھپ گیا، چلو افسانہ نگار بن گئے۔ ‘‘پھلجھڑی’’ نے ایک غزل شائع کردی، لیجیے شاعر ہوگئے۔ پھر تحسین باہمی کے حلقے قائم کرکے جہالت کے حصاروں میں قید ہوکر بیٹھ گئے۔
ایک مرتبہ مجھے بھی مزاحیہ کالم لکھنے کا شوق پیدا ہوا تھا۔ پہلے روز کالم مرشد کو دکھایا۔ کالم پر نگاہ جماتے سگرٹ سے سگرٹ سلگاتے گئے۔ پڑھ چکے تو سگرٹ کے کش بیچوں بیچ ایک مبہم سی ‘‘ہونہہ’’ کہہ کر کاغذ مجھے دے دیا۔ منہ لٹکائے ہوئے میں واپس اپنی جگہ پر آبیٹھا۔ دوسرے روز پوچھتے ہیں ۔ ‘‘مولانا وہ اپنا کالم آپ نے کیا کیا، آج کے اخبار میں تو نہیں ہے۔’’ میں نے عرض کیا ۔ ‘‘پھاڑ کر پھینک دیا تھا’’ ۔ فرمایا ۔ ‘‘دے دیتے کیا ہرج تھا۔ اور لغویات بھی تو چھپتی رہتی ہیں’’ ۔ مرشد کی زبان سے یہ بھی گویا حوصلہ افزائی کے کلمات تھے۔ اس کے بعد کبھی کبھار میں کالم لکھ کر مرشد کے پاس لے جاتا اور ان سے ‘‘ہونہہ’’ وصول ہوجاتی جو کالم کی اشاعت کی اجازت بھی ہوتی۔
ایک روز تو انہوں نے تعریف کی حد ہی کردی۔ ارشاد ہوا ۔‘‘مولانا اگر آپ محنت کریں تو ممکن ہے ایک روز آپ کو کالم لکھنا آجائے۔ آپ کو یہ بہت بڑا ایڈوینٹج ہے کہ آپ اَن پڑھ ہیں اس لیے آپ فلاں یافلاں کے اسلوب نقل کرنے کے بجائے خود اپنی سیدھی سادی زبان میں بات کہہ جاتے ہیں۔ یہ تحریر کی بڑی خوبی ہوتی ہے۔ نگارش کی اپنی طرز اسی سے بنتی اور نکھرتی ہے’’ ۔ ان دو جملوں کے علاوہ مرشد کے منہ سےکبھی اور کوئی توصیفی کلمہ سننا نصیب نہ ہوا، اگرچہ پسِ پشت وہ اپنے شاگردوں کی تھوڑی بہت تعریف کردیا کرتے تھے۔
مرشد کے ساتھ کام کرنا تلوار کی دھار پر چلنا تھا۔ معمولی سے معمولی غلطی کو اپنے اسلوبِ طنز کی تازگی کے ساتھ وہ مہینوں تروتازہ رکھتے ۔ یہ ناممکن تھا کہ کسی روز وہ کام سے مطمئن ہوجائیں یا کھل کر شاباش دے جائیں۔ معیار کے معاملہ میں وہ قدم قدم پرمولانا ابوالکلامؔ آزاد، مولانا جالبؔ اور نصیر حسین خیال کا حوالہ دیتے۔ ضمیرؔ کی رائے تھی کہ اگر مولانا آزادؔ، مولانا جالبؔ اور نواب خیال بھی ان کے سٹاف میں ہوتے تو ان کا مرتب کیا ہوا اخبار مرشد کے معیار پر شاید ہی پورا اترتا۔ مرشد کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایک عجیب سی گھٹن طاری رہتی تھی مگر ان کے جانے کے بعد ہی محسوس ہوا کہ اس گھٹن سے ہم نے کتنا کچھ سیکھا اور ان کی نظر اپنے پیشے میں ہمارے قد و قامت کو کتنا اونچا لے گئی تھی۔ علم و فن پر ان کا اپنا انداز طالب علمانہ تھا۔ اپنے آپ انہوں نے کبھی فارغ التحصیل نہیں سمجھا۔ وہ ہمیشہ، ہر وقت، علم کے اکتساب میں مصروف رہے۔ کہا کرتے۔ ‘‘اخبار نویسی کرتے پچیس برس ہوگئے ہیں لیکن یہاں فوج میں آکر اور پبلک ریلیشنز کے اپنے ساتھی انگریز صحافیوں کے کام کو دیکھ کر صحافت کے کئی گُر اب سمجھ میں آئے ہیں’’۔فرینک اون کے آپ بڑے مداح تھے۔ فرینک اون ان دنوں برطانوی فوجوں کے اخبار ‘‘سنی آک’’ کا ایڈیٹر یعنی انگریزوں کا چراغ حسن حسرت تھا۔ آج کل وہ غالباً برطانیہ کے سب سے کثیر الاشاعت روزنامہ ڈیلی میل کا ایڈیٹر ہے۔
سنگاپور میں ‘‘دوالفکیر’’ کتابوں کی ایک بڑی دکان تھی جس کے مالک ایک مدراسی مسلمان تھے۔ مدراس میں عبدالفقیر نام عام سننے میں آتا ہے۔ پتہ نہیں ‘‘دوالفکیر’’ ۔۔۔ عبدالفقیر ہی کا مخفف تھا یا ذوالفقار کی مالا باری شکل۔ مرشد اسی تجسس میں دو ایک مرتبہ اس دکان پر گئے اور پھر یہ معمول بن گیا کہ دفتر سے واپسی پر وہاں ضرور رُک جاتے۔ سنگاپور کی مرطوب آب و ہوا میں ساری دوپہر کام کرنے کے بعد ہمیں گھر جانےکی جلدی ہوتی مگر مرشدہیں کہ دکان میں کھڑے ایک شیلف سے دوسرے شیلف اور دوسرے سے تیسرے کی طرف کھچے چلے جارہے ہیں۔ کتابوں کی دکان کے اندر جاکر وہ باہر نکلنے کا راستہ ہی بھول جاتے۔ ایک ایک کتاب سے تانک جھا نک ہو رہی ہے۔ ادھر ہم دروازے پر کھڑے یا جیپ میں بیٹھے انہیں کوس رہے ہیں۔ بعض اوقات ہم انہیں اتار کر خود چپکے سے فرار ہوجاتے اور جیپ واپس بھیج دیتے۔ مرشد کو اس پر بڑا دُکھ ہوتا۔ اس لیے نہیں کہ ہم نے ان کا انتظار کیوں نہ کیا، اس لیے کہ ان کے ساتھ اکٹھے رہنے اور کام کرنے کے باوجود ہم اتنے کور ذوق اور بے حس کیوں تھے کہ کتابیں قطار درقطار اور منزل بہ منزل رکھی ہیں مگر ہم میس کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ مرشد کا بس چلتا تو وہ میس کے بجائے ‘‘دو الفکیر’’ یا کتابوں کی کسی دوسری دکان میں بستر لا ڈالتے۔
دفتر سے مرشد کبھی غیرحاضر نہیں ہوئے۔ ویسے ارادہ انہوں نے کئی مرتبہ کیا۔ بعض اوقات محض اس خیال سے کہ یونٹ کا افسر کمانڈگ ہونے کی وجہ سے ان میں اور دوسروں میں آخر فرق ہی کیا ہوا؟ ان سے آخر کون سوال کرسکے گا کہ آپ دفتر کیوں نہیں آئے؟ مگر پھر دفتر کے بغیر جی بھی نہ لگتا۔ ایک دو گھنٹے کے بعد ٹیلی فون آتا کہ جیپ بھیج دو۔ دفتر آئے اور کوئی چیز لکھنے بیٹھ گئے۔ ایک دفعہ اردو کے شاعروں کے تذکرے کا ایک سلسلہ اخبار میں شروع کردیا اور کسی کتاب یا حوالہ کی مدد لیے بغیر بیسیوں شعراء بھگتا دیے۔ جن شاعروں کا ہم میں سے کسی کو نام بھی یاد نہ تھا، ان کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات ہی نہیں، بلکہ ان تاریخوں میں اختلافات کی بحث، ان کے کلام کی خصوصیات اور چیدہ چیدہ اشعار یوں قلم بند کرتے جاتے جیسے کہیں سے نقل کر رہے ہوں۔
قلم اور زبان پر مرشد کا جتنا زور چلتا تھا زندگی کے دوسرے مسائل اتنے ہی ان کے قابو سے باہر تھے۔ کسی ارادے کی تکمیل ان سے نہیں ہوسکی۔ ویسے جناب کے ارادے بھی ناقابل عمل ہوتے۔ مثلاً وہی بالی کے سفر کا ارادہ لیجیے۔ جس کی طرف سرسری سا اشارہ اوپر آچکا ہے۔ اس زمانے میں بالی کا سفر اتنا ہی آسان تھا جتنا کہ پک نک پر راولپنڈی سے واہ تک چلے جانا ہے۔ ایئرفورس کے ہوائی جہاز چاروں طرف بھاگے پھرتے تھے۔ اور پبلک ریلیشنز کا نام ہر سفر کے لیے کھل جا سم سم کے معنی رکھتا تھا۔ لیکن مرشد بھلا عوام الناس کی طرح سفر کیوں کرتے؟ مرشد کے بالی کے سفر کا تصور یہ تھا کہ ضمیر ان کے ساتھ ہو۔ کچھ پیدل، کچھ اکّوں پر اور کچھ ٹٹوؤں پر وہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں پہنچیں۔ کھانے کا وقت جہاں آجائے پڑاؤ کرکے وہیں چولہا روشن کیا جائے۔ ایک آدمی لکڑیاں چن رہا ہو، دوسرا دیگچی مانجھ رہا ہو اور پگڈنڈی کے کنار ےمرغی بھونی جارہی ہو۔ اس طرح کا ایک اور شاعرانہ ارادہ ان کا یہ تھا کہ سنگاپور سے دو چار میل پر ایک چھوٹا سا جزیرہ وہ پٹے پرلے لیں اور باقی زندگی وہاں مطالعہ و تصنیف میں گذاردیں۔ گھنٹوں اس سکیم کا ذکر اذکار رہتا۔ ایک دفعہ میں نے نہایت ہی غیرشاعرانہ سوال کردیا کہ اس غیر آباد جزیرے پر بسر اوقات کی کیا صورت ہوگی۔ فرمایا ۔‘‘بھئی یہ جزیرے تو اللہ تعالی نے جنت کے نمونے پر بنائے ہیں کہ فکرِ روزگار کا وہاں گذر تک نہیں ہے۔ اس مٹی میں آپ دھان کی مُٹھی اٹھاکر پھینک دیں اور دوسرے مہینے فصل لپیٹ لیں۔ کھانے کے لیے مرغیاں پالیے۔ پھر ناریل ہیں کہ آپ کےلیے اکل و شرب کے قاب سر پر اٹھائے کھڑے ہیں۔ صبح صبح ایک کشتی میں بیٹھ گئے اور کچھ تازہ بہ تازہ نَو بہ نَو مچھلی پکڑ لائے۔ مولانا انسان کو اور کیا چاہیے؟’’ ۔ مرشد دراصل اپنی ذات میں ایک وضع اور ایک تہذیب کے سیمبل تھے۔ لوگ کہتےہیں مولانا چراغ حسن حسرت کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، ان کاجسد فانی ختم ہوگیا مگر ان کانام کبھی ختم نہ ہوگا۔ ممکن ہے یہ سب درست ہو لیکن ہمیں اس میں تسلی کا کوئی سامان نہیں ملتا۔ حسرت کا نام زندہ رہ سکتا ہے مگر ہم جانتے ہیں ہمارا مرشد اب یہاں نہیں ہے اور اس کے ساتھ ہی ادب و فن اور تہذیب و وضع داری کاایک پورا دور تاریخ کے ایک موڑ کے ادھر اوجھل ہوگیا ہے۔ مکتب ہی نہ رہے تو اب کون ہوگا جو گھنٹوں اس تحقیق میں لگا رہے کہ جُوں جُوں کے بعد تُوں تُوں کہا جاتا ہے تو کیوں کہا جاتاہے۔ آج کسی لکھنے والے کی تحریر میں محاورے یا گریمر کی کسی غلطی کی طرف اشارہ کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ جناب میں تو اس کو اسی طرح درست سمجھتا ہوں۔ مرشد ذرا سے اشتباہ پر سند کے لیے پریشان ہوجاتے تھے ۔‘‘سالک صاحب فلاں محاورے کے متعلق کچھ الجھن سی لاحق ہو رہی ہے۔ کچھ یاد پڑتا ہے کہ منشی دیاشنکر نسیم نے اس محاورے کو اس طرح باندھا ہے مگر اب وہ مقام ذہن سے اتر گیاہے۔ آپ کے ذہن میں تو کوئی سند ہوگی؟’’ ۔۔۔ لیکن میں بھی کہاں سے کہاں پہنچ گیا، آئیے پھر سنگاپور کی طرف!
دفتر میں مولانا کے چہرے پر مسلسل خشونت سی طاری رہتی تھی جس کی وجہ سے دفتر کے اوقات میں ان سے کھل کر بات کرنے کی جرأت کوئی نہ کرتا۔ اس وقت وہ حسرت صاحب بلکہ بعض اوقات ‘‘سر’’ تک ہو جاتے تھے۔ لیکن دفتر سے اٹھتے ہی سب حجابات اٹھ جاتے اور وہ حسرت صاحب سے اترکر ‘مرشد’ ہوجاتے۔ جیپ کی اگلی نشست میں جناب پھیل جاتے اور پچھلی نشست میں جاوید، انعام قاضیؔ، ضمیر اور میں۔ اب فقرے پر فقرہ چست ہو رہا ہے، بات میں سے بات نکل رہی ہے۔ راستے میں اس بے تکلفی سے بولتے کہ سنگاپور کے ٹریفک کے تمام شور وغُل کےباوجود پٹڑی پر چلتے ہوئے رہگیر ان کی بات سن سکتے تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کسی واقف کار نے کوئی ایسا انکشاف کردیا جس پر غصہ، ندامت، تعجب یا کوئی اور مناسب ردِعمل جو ہوتاوہ تو ہوتا ہی تھا، سب سے زیادہ کوفت اس بات پر ہوتی تھی کہ ‘قوم’ کا یہ قصہ باہر کیسے پہنچ گیا۔ بعد میں پتہ چلتا ۔ ‘‘ارے بھئی کل جب تمھاری جیپ گذر رہی تھی۔ میں براس بہ روڈ پر'کون واہ 'میں کھڑا تصویریں دیکھ رہا تھا کہ حسرت صاحب کی آواز نے چونکا دیا اور پھر جو کچھ وہ فرما رہے تھے اس نے اور بھی۔۔۔’’ الغرض دفتر سے باہر قدم رکھتے ہی مرشد کچھ اور ہوجاتے مگر داستان کا یہ حصہ ضمیرؔ سے سینے کہ وہ اس معاملہ میں ‘‘ماہر مرشدیات’’ ہے۔
دفتر میں میرا ان کا واسطہ کچھ ویسے کم تھا کچھ میں اس واسطے کو اور بھی کم رکھتا تھا۔ اس ‘واسطے’ سے بس یہ سمجھیے کہ کچھ خوف ہی آتا تھا، مرشد جب آواز دیتے، دل دہل جاتا۔ الہٰی خیر! نہ معلوم کم بخت کونسا محاورہ الٹا جاپڑا ہے؟ کس روز مرّے کو تکلیف پہنچ گئی ہے؟ کہیں کوئی شتر گربہ تو نہیں پکڑا گیا؟ کسی جملے کی نشست تو برخاست نہیں ہوگئی، کوئی بندھنے والا خیال کھل تو نہیں گیا؟ خدا معلوم تذکیر وتانیث کا کونسا شاخسانہ اٹھنےوالا ہے؟ ہمیں مرشد کے سامنے اپنی جہالت کےاعتراف و اقرار میں کیا تامل ہوسکتا تھا۔ تاہم نوجوانوں کی پوری معنوی نسل کو اپنے سامنے تختہ دار پرکھچتے ہوئے دیکھنے سے ہم کتراتے ضرور تھے۔ ہمیں مرشد کی ڈانٹ سے زیادہ ان کی مایوسی و آزردگی کا ڈر تھا۔ وہ گاندھی جی کی طرح دوسروں کو سزا دیتے ہوئے اپنے آپ کو سزا دینے لگتے تھے۔
میں مرشد کی شاموں اور راتوں کا اردلی تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ دنوں کی بہ نسبت اپنی شبوں میں کہیں زیادہ زندہ و تابندہ نظر آتے تھے۔ دن کو تو وہ اکثر ایک نہایت واہیات سے خول میں، جس کو انہوں نے اپنے شخصیت کے اوپر منڈھ رکھا تھا، سکڑ کر بیٹھے رہتے تھے۔ بعض اوقات ان کا رویہ نہایت رُوکھی پھیکی سرد مہری سے جاملتا۔ ہم نے بار ہا یہ تماشا دیکھا کہ کوئی ملاقاتی پاس بیٹھا ہے مگر مرشد سگرٹ کا ٹن اس کے سامنے رکھ کر خود خول میں چھپے بیٹھے ہیں۔ وہ غریب پشیمان ہوکر اٹھنے لگا تو مرشد جیسے چونک کر بولے ۔ ‘‘ہوں۔تشریف رکھیے مولانا، آپ سے تو ابھی بہت سی باتیں کرنا ہیں’’ ۔وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ تو مرشد پھر غائب۔ دراصل ان کے اپنے اندر اتنا کچھ تھا کہ باہر دیکھنے کی انہیں فرصت تھی نہ خواہش۔ البتہ شام کو جب آفتاب غروب ہوتا تو یہ آفتاب طلوع ہوجاتا۔ ان کی عادت تھی کہ دفتر سے آنے کے بعد کوئی کتاب سینے پر رکھ کر تھوڑی دیر کے لیے سو جاتے۔ سرِشام بیدار ہوتے، غسل کرتے، لباس بدلتے۔ چھٹی کا دن ہوتا تو سرے سے اٹھتے ہی اس وقت۔ شیو بھی شام ہی کو بناتے۔ ان کے لیے جاگ کر سونا جتنا مشکل تھا، سوکر جاگنا اس سے زیادہ مشکل تھا اور جاگ کر پھر کہیں باہر جانے کے لیے تیار ہونا تو گویا قطرے کا گہر ہونا تھا۔ صاف ستھرا لباس پہننے کا شوق ضرور تھا مگر اس شوق کو اتنی اہمیت بھی نہیں دے رکھتی تھی کہ لباس خود پہننا بھی پڑے۔ سگرٹ، کتاب اور شراب کے علاوہ وہ کسی شے کو بھی کوئی خاص اہمیت نہ دیتے تھے۔ فوجی وردی کی نوک پلک کے بارےمیں سخت لاپروا تھے۔ مگر چونکہ بڑاجرنیلی قد کاٹھ پایا تھا اس لیے جو چیز جس طرح پہن لیتے، سج جاتی۔ وہ تیار ہوتے نہیں تھے، تیار کرائے جاتے تھے۔ ان کا بیٹ مین عنایت اللہ جس کو وہ علامہ کہتے تھے، بیگم حسرت پر تحسین و آفرین بھیجتے ہوئے اکثر کہا کرتا تھا ۔ ‘‘میں تو صاحب کو بچوں کی طرح پال رہا ہوں۔’’
مرشد تیار ہوکر بیٹھتے تو پوری ‘قوم’ ان کے کمرے میں جمع ہوجاتی۔ میس سے ملحق بڑی اعلیٰ نشست گاہ موجود تھی لیکن وہاں جاکر بیٹھنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا کہ مگر مرشد کا بس ہوتا تو وہ کھانا بھی اسی میز پر کھاتے جس پر سمرسٹ ماہم، جیمز جوئیس، عذرا پاؤنڈاور بالزاک وغیرہ کے دوش بہ دوش حجامت کا سامان، عینک اور گھڑی، سگرٹ اور ماچس، قلم اور کاغذ، معدے کے انگریزی چورن، موزے اور چھوٹی موٹی درجنوں دوسری چیزیں پڑی رہتی تھیں۔ ‘‘محفلِ نورانیاں’’ اسی میز کے گرد جمتی۔ مرشد اس وقت اپنے آپ کو خول سے نکال کر گویا میز پر رکھ دیتے۔ اس وقت ان کے چہرے کی شگفتگی اور گھنی گنجان مونچھوں میں سے پھوٹ کر کان کی لوؤں تک پھیلتی ہوئی ایک دل آویز مسکراہٹ دیکھنے کی چیز ہوتی تھی۔ شام ہوئی اور مرشد نے اپنا مخصوص نعرۂ مستانہ بلند کیا:
‘‘ذرا خان صاحب کو آواز دینا۔’’
یہ خان صاحب پوری یونٹ کے کوارٹر ماسٹرتھے جو عملاً مرشد ہی کے لیے وقف ہو کر رہ گئے تھے۔ وہ بیچارے صبح سے اس آواز کے منتظر ہوتے اور آواز سنتے ہی میز کو کارگہِ شیشہ گراں بناکر رکھ دیتے۔ مرشد کی ‘‘محفل شبینہ’’ کی پہلی مجلس ڈنر تک جاری رہتی اور ڈنر وہ گیارہ بجے سے پہلے شاذ ہی کھاتے۔
یہ ‘محفلِ شبینہ’ ‘‘ذرا خان صاحب کو آواز دینا’’ سے شروع ہوکر عموماً اس مقام پر ختم ہوتی جہاں یا تو حلق سے کوئی آواز نکل ہی نہ سکتی یا لوگ اپنے آپ کو آوازیں دینے لگتے۔ مرشد کو اپنے دور کے کسی شاعر کا کوئی شعر شاید ہی یاد ہو مگر اساتذہ قدیم کے بلا مبالغہ ہزاروں اشعار سینے میں محفوظ تھے۔ بالعموم وہ داغؔ سے شروع ہوتے پھر جوں جوں کیف بڑھتا جاتا توں توں غالبؔ و بیدل سے ہوتے ہوئے، عرفی و نظیریؔ سعدیؔ وحافظؔ کی طرف اوپر ہی اوپر چڑھتے جاتے۔ دوسروں کے شعر پڑھنے میں انہیں جتنی راحت ہوتی اپنے شعر سنانے میں اتنی ہی وحشت ہوتی۔ ہم اصرار کرتے تو لاحول پڑھ کر ٹال دیتے۔ لیکن محفلِ شبینہ کے آخری رسیلے لمحات میں ہتھیار ڈال دیتے اور پھر ایک نہایت پُرسوز، کھوئے کھوئے، ڈوبتے ابھرتے ترنم کے ساتھ، جس میں ماروائے سخن بھی ایک بات ہوتی تھی، ڈھائی تین تین شعروں کی دوچار غزلیں سنادیتے۔ ان کی مشہور غزل ' آؤ حسنِ یار کی باتیں کریں 'ہمارا ‘‘قومی ترانہ’’ تھی جس کے بعد مرشد حسنِ یار کی باتوں سے آگے نکل کر خود ‘‘آستانِ یار’’ کی طرف چل پڑتے۔
‘‘ہاؤوہو’’ کی یہ محفلیں، مرشد کے کلاسیکی مذاقِ ادب، ان کی وسیع معلومات، دلنشیں ظرافت، شستہ و برجستہ بذلہ سنجی، اور برمحل اعلیٰ اشعار کے ترشح کے باعث ایک سدا بہار دبستانِ علم و دانش کا درجہ رکھتی تھیں۔ باتوں باتوں میں ہم وہ کچھ سیکھ جاتے جو برسوں کے باقاعدہ اکتساب سے بھی شاید ہی سیکھ سکتے۔ بحث کے معاملہ میں ان کامعاملہ یہ تھا کہ ' اک ذرا چھیڑیئے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے ' چنانچہ انھیں چھیڑنے کے لیے ہم کوئی غلط نظریہ کوئی متنازعہ فیہ محاورہ، کوئی بھونڈا اسلوبِ بیان، شیرشاہ سوری کا غلط سالِ جلوس، شبلی کے ماخذات، سیماب اکبر آبادی کا کوئی شعر۔ غرض یہ کہ کوئی سی بات مصرع طرح بناکر چھوڑ دیتے اور مرشد مشرق و مغرب کی وسعتیں سمیٹ کر دیکھتے دیکھتے معلومات کا ایک قطب مینار کھڑا کردیتے۔ کسی لفظ کی صحت کے درپے ہوگئے تو اردو، فارسی اساتذہ کے یک مُشت پندرہ بیس اشعار گویا ایک دوسرے سے بندھے ہوئے چلے آرہے ہیں۔ قدیم اساتذہ میں سے وہ خدا معلوم کہاں کہاں سے ایسے ایسے گمنام لیکن جید شعرأ کو ڈھونڈھ نکالتے جن کو جانناادب کو جاننے کے لیے لازمی ہے مگر جانتا کوئی نہیں۔ اردو شاعری میں وہ حسرتؔ موہانیؔ اور اقبالؔ کے بعد کسی شاعر سے کوئی سروکار نہ رکھتے تھے۔ جن شعرأ کا کلام نظر سے گذرتا تھا یا جن کو ذاتی طور پر جانتے تھے، مرشد نے ان کو صرف دو درجوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ سوجھ بوجھ کا شاعر اور بکواس ۔ کسی لفظ کے حسب نسب کا مسئلہ درپیش ہے تو چراغ لے کر مصر و یونان کے اندھیروں میں اتر جاتے اور عرب و عجم، افغانستان و کشمیر سے ہوتے ہوئے جب مراجعت فرماتے تو ترکی الاصل، عربی النسل، ایرانی نژاد اور خانہ زاد الفاظ کے الگ الگ جلوس ان کے ہمرکاب ہوتے ۔ تاریخ پر عبور کا یہ عالم کہ غیاث الدین بلبن کے رکاب داروں کے نام معہ سنِ ولادت و وفات سُن لیجیے۔ سنکدرِ اعظم مقدونیا سے چل کر جن جن راستوں سے ہوتا ہوا بیاس تک پہنچا تھا، مرشد ان راستوں کے ایک ایک پتھر سے واقف تھے ۔ اسلام کے تہذیبی، معاشرتی اثرات پر ان کی نظر اتنی گہری تھی کہ صدیوں کی دھوپ چھاؤں کے ایک ایک سائے علیٰحدہ علیٰحدہ کرکے دکھا دیتے۔ دوسری طرف پراچین، ہندو دیومالا میں بھی بڑی دور تک پہنچے ہوئے تھے۔ افسانوی دیوی دیوتاؤں کے باہمی رشتوں ناطوں، جھگڑوں آویزشوں سے پورے پورے باخبر، علم طب سے اتنا گہرا شغف کہ اگر وہ ادب کے بجائے طب میں جاپڑتے تو شاید زیادہ آسودہ رہتے۔ مزے کی بات یہ کہ فلسفہ ہو یا فلکیات، اس قدر سلجھاکر بیان کرتے کہ مولانا صلاح الدین احمد کے الفاظ میں ‘‘موضوع کو پانی کرکے چھوڑتے’’۔ تاریخ ان کا خاص مضمون تھا۔ مرشد جو کچھ بولتے تاریخ معلوم ہوتا، جو کچھ لکھتے تاریخ بن جاتا۔
مرشد موج میں ہوتے تو نکتہ طرازی و انجمن سازی کے لیے کوئی غلط بات کہنے کی بھی چنداں ضرورت نہ ہوتی۔ اس کیفیت میں وہ صحیح بات کےبھی پرزے اڑا دیتے۔ بالخصوص جہاں ذاتی پسند یا رائے کی گنجائش ہوتی۔ مثلاً اگر آپ گاندھی جی کی عظمت بیان کر رہے ہیں تو مرشد بندوق کی نالی گاندھی جی کی طرف سیدھی کردیتے۔ اگر آپ گاندھی جی کی مذمت کر رہے ہیں تو مرشد اپنے ترکش کے سارے تیر لے کر گاندھی جی کی حمایت میں سینہ سپر ہوجاتے۔ اصلیت، جہاں تک میں سمجھ چکا ہوں، یہ تھی کہ ایک عظیم جینئس ہونے کی وجہ سے ان کی اپنی اَنا کا جذبہ بڑا قوی تھا۔ وہ بڑی سے بڑی شخصیت سے مرعوب ہونے کو تیار نہ تھے۔ چھوٹوں کے سامنے وہ جس عاجزی سے بچھ جاتے تھے بڑوں کے سامنے اتنے ہی سرکش نظر آتے۔ لیکن پھر چند شخصیتیں ایسی بھی تھیں جن کے سامنے ان کی گردن ہر وقت جھکی ہوئی ملی۔ علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد کے خلاف وہ ایک لفظ بھی نہ سُن سکتے۔
دوستوں کی محبت ان کی زندگی کا سب سے برا سرمایہ، سب سے بڑی تسکین تھی مگر دوستی کرنے میں وہ تقدم یا تیزی کے قائل نہ تھے۔ مدت تک یہی نہ کھل سکتا کہ وہ دوست بننے پر آمادہ بھی ہیں یا نہیں لیکن اندر ہی اندر نہایت نامعلوم طور پر وہ دوسرے کے دل میں سماجاتے اور پھر دوستی میں ان کی بے بسی یہاں تک پہنچ جاتی کہ دوست اگر دشمن بھی ہوجاتا تو وہ اسے چھوڑ نہ سکتے۔ عالی ظرفی کایہ حال تھا کہ وہ سالکؔ صاحب کی سب سے زیادہ عزت ہی اس لیے کرتے تھے کہ سالک صاحب فن میں ان کے سب سے بڑے حریف تھے۔ احمد شاہ بخاری، مجید ملک، مولانا صلاح الدین، صوفی تبسمؔ، عابدؔ، فیضؔ، تاجؔ کا ذکر ہمیشہ بڑی محبت اور شیفتگی کے ساتھ کرتے اور ہندوستان بھر میں بہت کم لوگوں کو ان کے پلے کا آدمی سمجھتے۔ نیازمندوں کی ادبی خامیوں پر اندر خانے خود ان غریبوں کو کھاجاتے مگر بیرونی معرکوں میں مرشد کا طاقتور قلم ان کی ڈھال بن جاتا۔ اپنے ساتھ بیدل، نظیری، ظہوری، فغالی وغیرہ کو بھی دوست کی کمک پر لے آتے۔ دوستوں سے وہ کمزوری کی حدتک محبت کرتے تھے۔ افراد و اقدار کے بارے میں ان کے جمے ہوئے نظریات و تعصّبات اتنے بھاری پتھر تھے کہ کوئی دوسرا تو کیا، ان چٹانوں کو وہ خود بھی اپنی جگہ سے ہلا نہ سکتے تھے۔ سنگاپور میں وہ اپنے لاہور کے بعض ایسے جگری دوستوں کا تذکرہ اکثر بڑے فخر کےساتھ کیا کرتے تھے جن میں سے ایک دودھ دہی کی دُکان کرتا تھا۔ ایک لوہے کے نلکے نلکیاں بیچتا تھا اور ایک حسرت صاحب سے دوستی کے علاوہ سرےسے کوئی کام ہی نہ کرتا تھا۔ وہ جب ان کی بے غرض محبت، بے ریا خلوص، بے لوث وابستگی میں اپنے حسنِ بیان کاجادو جگاتے تو یوں معلوم ہوتا کہ یہ لوگ جیسے ناولوں کے ہیرو تھے جو کتابوں سے نکل کر لاہور کے گلی کوچوں میں چلے آئے تھے۔ بعض اوقات مرشد عشرت و آسودگی کے اس ماحول میں، جو وہاں انہیں میسر تھا، ان دوستوں کی یاد میں تڑپ اٹھتے، مغموم ہوجاتے اور ملازمت ترک کردینے کے منصوبے سوچنےلگتے۔ ان کے ایک عزیز دوست ریاض شمیم (اب لیفٹیننٹ کرنل) جب اتفاقاً تبدیل ہوکر سنگاپور آگئے تو مرشد اس قدر خوش ہوئے کہ اس طرح بے تحاشا خوش ہوتے ہم نےانہیں کبھی نہ دیکھا تھا۔ ہفتوں بھر ملنے والے سے ریاض شمیم ہی کا تذکرہ چلتا رہا۔
‘‘مولانا، سُنا آپ نے، ریاض شمیم بھی یہیں آگئے۔’’
‘‘میں دہلی میں تھا تو وہ وانا سے بدل کر دہلی آگیا،پھر کلکتے اور اب میرے پیچھے پیچھے یہاں بھی۔’’
‘‘آپ ریاض شمیم سے ملے ہیں؟۔ ضرور ملئے گا ۔ حسین بھی ہے، ذہین بھی ہے۔’’
ان کا سینہ یقیناً آرزوؤں اور ارادوں کا تلاطم زار ہوگا مگر وہ اپنی آرزوؤں، محرومیوں کی کتھا سے دوسروں کو کبھی مکدر نہ کرتے تھے۔ وہ زندگی کے ہر روپ کو ایک انعام، ایک فیضان سمجھتے تھے۔ بہرحال جن دو ایک آرزوؤں کی بہ آوازِ بلند پرورش کیا کرتے رہتے تھے ان میں سے ایک سلسلہ وار آرزو یہ تھی کہ دریا کے کنارے ایک معقول سا گھر ہو، ڈھنگ کی لائبریری ہو، جس میں بیٹھ کر وہ سمرنا سے بغداد، بغداد سے سمرنا کی تاریخ لکھتے رہیں۔ اور چند یار جانی ہوں جن کے ساتھ شام کو ‘ہاؤوہُو’ رہے۔ غالباً یہ تنہا آرزو ہے جس کی تکمیل کے لیے انھوں نے عملی اقدام بھی کیا تھا۔ پونچھ میں دریا کے کنارے ایک مکان بنوالیا تھا، کتابوں کا خاصہ ذخیرہ جمع کرلیا تھا۔ مگر افسوس کہ حالات اور زندگی نے انہیں وہ کام نہ کرنے دیا جو صرف وہی کرسکتے تھے۔
لاہور شہر اور اس کی زندگی سے مرشد کو عشق تھا۔ سنگاپور کہ جنوب مشرقی ایشیا کاپیرس سمجھا جاتا ہے، بڑا ہی جمیل و تاب ناک شہر ہے۔ جنگ کے بعد فتح کی مسرتوں نے ان دنوں اس کوکچھ اور زیادہ پیرس بنارکھا تھا۔ شراب وافر تھی، وقت اپنا تھا۔ غالب نے جو بات آم کے بارے میں کہی ہے وہی بات اس خطے کے زہرہ شمائلوں پر صادق آتی تھی کہ عام بھی تھے اور شیریں بھی۔ آباد میخانے، شاداب رقص گاہیں، خوابگوں ساحل، گاتے ہوئے کیبرے، جگمگاتے ہوئے کلب، معمور ریستوران، ہپی ورلڈ گریٹ ورلڈ کے طرب خانے، آزادی، فرصت، فراغت، مرشد کو اور کیا چاہیے تھا؟ انہیں اس شہر سے یک گونہ لگاؤ بھی پیدا ہوگیا تھا۔ سنگاپور نے انہیں زندگی کے دو ایسے بہترین اور عہد آفریں سال دیے تھے کہ ہر برس کے تھے دن پچاس ہزار۔ مگر اس کے باوجود سوادِ رومۃ الکبریٰ میں انہیں اپنی دلی یعنی لاہور کی یاد ہمیشہ تڑپاتی رہی۔ میں ہر وقت سائے کی طرح ان کے ساتھ لگا رہاہوں۔ مجھے ایسا کوئی لمحہ حاد نہیں جب وہ لاہور کی یاد سے غافل ہوئے ہوں۔
‘‘مولانا یہ شہر بکواس ہے۔’’
‘‘مولانااس شہر کی اپنی کوئی شخصیت نہیں۔’’
‘‘مولانا سنگاپور کو آپ اٹھاکر فرانس میں بھی رکھ سکتے ہیں۔’’
اور لاہور کے فضائل میں:
‘‘مولانا لاہور بجلی کا بٹن دبانےسے نہیں بن گیا۔’’
‘‘مولانا لاہور ایک تہذیب، ایک وضع کا نام ہے۔’’
‘‘مولانا، لاہور، لاہور ہے۔’’
مجھے اچھی طرح یاد ہے، ایک دعوت مںی مرشد ایک مجرگ سیھی سے اتنی سی بات پر سچ مچ لڑپڑے تھے کہ سیھ کے والد لاہور کی سکونت ترک کرکے لکھنؤ جابسے تھے۔
مرشد کی رند مشربی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں۔ نہ اتنی معمولی چیز ہے کہ میرے چھپائے چھپ سکے۔ وہ خرابی کے پورے معنوں میں رندِ خرابات تھے۔ انہیں سگرٹ، کتاب، شراب سے الگ کرکے دیکھا ہی نہیں جاسکتا۔ انہیں اس طرح دیکھنا غلط بھی ہوگا۔ پینے کے معاملے میں وہ شاعری کے روایتی بلانوش کی طرح دریا سمیٹ کر پی جاتے تھے۔ جتنی پیتے جاتے حواس اتنے ہی روشن ہوتے جاتے۔ بڑی مشکل یہ تھی کہ ان کے بہکنے کا آسانی سے پتہ بھی تو نہیں چل سکتا تھا۔ آنکھیں عموماً ویسے ہی سرخ و مست رہتی تھیں۔ پائے وہ یوں کب جاتے تھے کہ کھوئے جانے کا سراغ مل سکے۔ اگر کوئی ٹوکتا کہ مولانا آپ شاید بہک گئے ہیں تو جواب ملتا ۔ مولانا آپ بہک گئے ہیں۔ میرا تو سر دامن بھی ابھی تر نہیں ہوا۔ پھر ہوش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے تین چار ساغر پے بہ پے خالی کر جاتے۔ ان کا بہکنا اگر کچھ تھا تو ایک نہایت معصوم سا، بڑا علمی قسم کا بہکنا تھا۔ طنز نوکیلا ہوجاتا، لطیفے بھرپور ہوجاتے، اشعار کی روانی طغیانی پر آجاتی۔ معصیت و بخشش کے مضامین زور باندھ دیتے۔ جن اشعار کو وہ پہلے پینے کا عنوان بناتے تھے انہیں اشعار کو بعد میں رونے کا سامان بنالیتے۔ ہم نے اپنی سہولت کے لیے یہ علامت مقرر کر چھوڑی تھی کہ مرشد جس وقت لاہور یا سالک صاحب کے موضوع پر بلاوجہ ہی دوسروں سے الجھنےلگیں تو یہ سمجھیے کہ وہ بہک گئے۔ اس مرحلہ پر وہ خان صاحب کو ہزار آوازیں دیتے خان صاحب قریب نہ پھٹکتے۔
مرشد ہر شام کو جس فراوانی سے پیتے، جس باقاعدگی سے رات کو ‘‘شگفتنِ گلہائے ناز’’ کی سیر کو نکلتے اور پھر جس یکسوئی کے ساتھ ان نظاروں میں الجھ کر رہ جاتے تھے، اس کے بعد ان سے یہ توقع رکھنا کہ انہیں اپنے گھر بار، بیوی بچے کا بھی کچھ خیال ہوگا، ایک زیادتی کی بات تھی۔ بظاہر ان کی وارفتگی سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ:
دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
لیکن یہ سب قیاس ہی قیاس تھا۔ مرشد کی شخصیت کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہی ہے کہ وہ اندر ہی اندر ایک نہایت جمے ہوئے گھریلو قسم کے انسان تھے۔ بڑے شفیق باپ، نہایت رفیق القلب شوہر، اپنی ساری ماورائیت کے باوصف ان کا دل ہر وقت لاہور یا پونچھ میں اپنے بیوی بچے کے ساتھ دھڑکتا رہتا تھا۔ گھر سے خط آنے میں دوروز کی تاخیر ہوجاتی تو پریشان ہوجاتے۔ جوابی تاروں کا سلسلہ باندھ دیتے۔
بازار کی خرید و فروخت سے انہیں سخت وحشت ہوتی تھی۔ ان کی ضرورت کی اکثر چیزیں ہمیں لوگ خریدا کرتے۔ مگر جب کبھی خود بازار میں نکلتے تو ظہیر و زینب کے لیے ضرور کوئی نہ کوئی تحفہ خرید لیتے۔ ظہیر کو اتنے لمبے لمبے اور پیارے پیارے خط لکھتے کہ اگر اتنا وقت مستقل تصنیف کی طرف دیا ہوتا تو وہ ‘‘بغداد سے سمرنا’’ تک والی تاریخ لکھ ڈالتے ۔ ایک مرتبہ آپ وہاں ذرا ایک باقاعدہ عشق میں مبتلا ہوکر عقدِ ثانی پر آادہ ہوگئے تھے۔ مہینوں تگ و دو ہوتی رہی۔ سینکڑوں ڈالر کے تحائف لڑکی والوں کی نذر کردیے۔ مگر جب عقد کی ساعت قریب آئی تو ظہیر یاد آگیا ۔ زینب یاد آگئی ۔ پونچھ یاد آگیا اور آخرش اپنے ہونے والے معزز خسر کو یہ پیغام بھجوادیا کہ مولانا مجھے معاف کردو، مجھ پر لعنت بھیجو، مجھے بھول جاؤ۔
مرشد کی گشتِ شبینہ کا انداز بھی کچھ اپنا ہی تھا۔ مغربی موسیقی سے انہیں ہول آتا تھا۔ فلم دیکھنے کو وہ تضیعِ اوقات سمجھتے۔ البتہ چینی، ملائی، انڈونیشی اوپروں کو شوق سے دیکھتے۔ لیکن کسی ایک مقام پر دیر کت بیٹھے رہنا ان کے لیے قریب قریب ناممکن تھا۔ہوتا یہ تھا کہ کسی ابتدائی گیت پر یا منظر پر خوش بھی ہولیتے، سر بھی ہلادیا، ساتھ ساتھ کلچر کی بحث بھی اٹھاتے رہے مگر پھر دس پندرہ منٹ کے بعد اکتا بھی گئے۔
‘‘مولانا یہ تو بکواس ہے۔ آئیے کہیں اور چلتے ہیں۔’’
اس کے بعد کہیں اور ، پھر کہیں اور ۔۔۔ اور جب تک شہر کا آخری اوپرا بند نہ ہوجاتا۔ ‘‘کہیں اور’’ کا سلسلہ بند نہ ہوتا۔ ریستورانوں میں بیٹھنے کا بھی یہی ہنجار تھا۔ ایک سے دوسرے میں، دوسرے سے تیسرے میں۔ کہیں دومنٹ کو بیٹھ جاتے، کہیں بس جھانک کر لوٹ آتے۔ کہیں لوگ بہت زیادہ ہوتے کہیں بہت کم ہوتے۔ ہر رات قریباً سارا شہر گھوم کر لوٹتے۔ وہ تھوڑی سی مہلت میں بہت کچھ دیکھ لینا چاہتے تھے، کیسی بھی جگہ ہو، ایک مقام سے بہت جلد ان کی طبیعت بھر جاتی تھی۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زندگی سے بھی شاید اسی لیے وہ بہت جلد اکتا گئے۔
سیر و سفر میں کبھی کبھار وہ بے مقصد و بے اختیار سے ہوکر۔ جیسے ندی میں کوئی سنگِ رواں آوارہ۔۔۔ گھومنے کے بھی بڑے حامی و مبلغ تھے۔
‘‘مولانا ان نپی تلی شاہراہوں میں دھرا ہی کیا ہے۔’’
‘‘مولانا زندگی بڑی بیکراں چیز ہے۔’’
‘‘مولانا زندگی بڑی بیکراں چیز ہے۔’’
‘‘مولانا زندگی کو آگے پیچھے، شمال جنوب ہر طرف سے سیکھنا چاہیے۔’’
‘‘مولانا آئیے آج ہم اپنے آپ کو شہر پر چھوڑ دیں۔’’
اور اپنے آپ کو شہر پر چھوڑنے کے معنی یہ ہوتے کہ وہ حسرت صاحب جو صبح کی سیر میں بھی پیدل نہ چلتے تھے، گھنٹوں شہر کے دالان در دالان قسم کے عقبی کوچوں میں مارےمارے پھرتے۔ ایک مرتبہ اپنے آپ کو جزیرے پر ‘‘چھوڑتے چھوڑتے ’’ ہم ایک ایسے ساحلی کمپونگ یعنی گاؤں میں جانکلے جہاں تک پہنچنے سے پہلے ایک وسیع و طویل دلدل کے اوپر تنگ تختوں کے ایک جھولتے لرزتے ‘‘پُل صراط’’ پر سے گذرنا پڑتا تھا۔ جن لوگوں نے مرشد کو دیکھا ہے وہ ان کی مصیبت کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ مگر زندگی کو آگے پیچھے سے دیکھنے کے ولولے میں وہ اس ‘’پُل صراط’’ پر سے بھی گذر گئے۔
یہاں ایک واقعہ یاد آگیا۔ انہیں دنوں مرشد کے دوست مشہور ادیب پروفیسر احمد علی ہندوستان سے چین جارہے تھے۔ ان کاجہاز شب کے چند گھنٹوں کے لیے سنگاپور ٹیں رُک رہا تھا۔ مرشد ایک مدت سے ان کی راہ تک رہے تھے اور ان کے چند گھنٹوں کے قیام کو پُرلطف بنانے کے لیے کوئی پورے تین شب و روز کی مصروفیت طے کر چھوڑی تھی۔ لیکن اتفاق دیکھیے کہ جس شام احمد علی وہاں پہنچے ہیں، مرشد کو سوکر جاگنے، جاگ کر اٹھنے، اٹھ کر تیار ہونے اور پھر دو تین ساغر برائے ملاقات پینے میں اتنی دیر ہوگئی کہ جب ہم لوگ جہاز پر پہنچے تو پروفیسر صاحب شہر کی گشت پر نکل چکے تھے۔ اب انہیں ڈھونڈھنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ جاوید نے کہا کہ اتنے بڑے اجنبی، پُراسرار شہر میں اندھا دھند تلاش سے کون مل سکتا ہے۔ لیکن مرشد بہت پُرامید تھے۔ فرمایا۔ ‘‘کیوں نہیں ملے گا۔ مجھے معلوم ہے احمد علی کو کہاں ہونا چاہیے۔ میرے بھائی میں احمد علی کو جانتا ہوں۔’’ تلاش شروع ہوئی تو احمد علی کو جہاں جہاں ہونا چاہیے تھا، ایک ایک مقام پر چھان مارا مگر وہ خدا معلوم کہاں غائب ہوگئے تھے۔ کوئی بارہ بجے کے قریب مرشد یہ کہہ کر کہ ذرا تازہ دم ہوکر ابھی پھر نکلتے ہیں، ایک چینی ریسٹورنٹ میں گھس گئے اور وہاں جام و مینا سے نہ معلوم کیا سرگوشیاں ہوئی کہ خیالات کا دھارا احمد علی کو پاسکنے کی رجائیت کی طرف سے یک بارگی احمد علی کو نہ پاسکنے کی قنوطیت کی طرف مڑ گیا۔ بولے:
‘‘مولانا یہ احمد علی تو ملتا دکھائی نہیں دیتا۔’’
‘‘کیوں؟’’ ہم نے پوچھا۔
‘‘مولانا چینیوں کے اس شہر میں احمد علی کا ملنا ناممکن ہے۔ بات یہ ہے کہ سامنے کے رخ سے احمد علی بھی ساٹھ فی صدی چینی معلوم ہوتا ہے اور چینیوں کے انبوہ میں کسی چینی سے آپ خط و کتابت تو کرسکتے ہیں اسے شناخت نہیں کرسکتے۔ اب اس کو جہاز پر ہی پکڑیں گے۔’’
پھر وہیں بیٹھے بیٹھے مرشد نے جواحمد علی کی باتیں شرع کی ہیں کہ وہ کتنا پیارا آدمی ہے، کتنا نڈر ادیب ہے، کتنا قیمتی دوست ہے تو درمیان میں ہماری وقفہ بہ وقفہ یاد دہانیوں کے بعد جب ریستواران سے اٹھ کر آخر جہاز پر پہنچے تو جہاز ہانگ کانگ کو روانہ ہوچکا تھا۔ بعد میں خط و کتابت سے معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب نے بھی اس شب اپنے آپ کو سنگاپور پر چھوڑ رکھا تھا۔
مرشد گو کھانے سے زیادہ پینے کے قائل تھے۔ تاہم ادب کی طرح کھانے کا بھی بڑا ہی کلاسیکی مذاق رکھتے تھے۔ ذائقہ تو بعد کی بات تھی، کھانے کی صورت بُری ہوتی تو اس پر بھڑک اٹھتے۔ طبیعت منغض ہوجاتی، اشتہا مرجاتی۔ کھانا کھانے کے بجائے کھانہ کھانے کے حق میں تقریر کرتے۔ نوابانِ اودھ، سلاطینِ کشمیر اور قطب شاہی علی قلی خانوں کے مطبخوں، دسترخوانوں کے متعلق وہ جو وسیع ذاتی معلومات رکھتے تھے ان معلومات نے مرشد کو اس ضمن میں کچھ اور بھی مشکل پسند بنادیا تھا۔ ذائقے اور تنوع کے لحاظ سے کشمیری کھانے کو کھانوں کا بادشاہ مانتے تھے۔ شب دیگ، گوشتابہ، کمیخوانہ، آفتاب وغیرہ کشمیری کھانوں کی ایک طویل فہرست تھی جو ہمیں ہر کھانے پر سننا پڑتی۔ بارہا مرشد نے شب دیگ خود اپنے ہاتھ سے دم کرنے کا پروگرام بنایا لیکن دیگ میسر آسکی نہ شب۔ ایک مرتبہ ایک چینی لکھ پتی کی دعوت پر جب کوئی پچاس کورسوں کے ڈنر سے سابقہ پڑا جس میں چینی باورچیوں نے چڑیا کی ایک چونچ میں ترش، نمکین، شیریں مچھلی تَل کر سامنے رکھ دی تھی تو مرشد چینیوں کی عظمت کے بھی قائل ہوگئے تھے مگر قیادت کا جھنڈا پھر بھی کشمیر ہی میں لہراتا رہا۔
دوسال کے بعد مرشد ۸فروری ۱۹۴۷ء کو ہم سے رخصت ہوئے۔ احباب کا ایک ہجوم الوداع کہنے کو ساحل پر موجود تھا۔ جس میں فوجی افسر، سردار، سپاہی سبھی شامل تھے۔ مقامی ملاقاتیوں کابھی ایک جمِ غفیر پہنچا ہوا تھا۔ ملائی معززین، عرب سوداگر، چینی آرٹسٹ اور ہیپی ورلڈ اور گریٹ ورلڈ کے خدمت گار ایک اجنبی کو رخصت کر رہے تھے۔ ان میں بہت تھوڑے تھے جوادیبِ چراغ حسن حسرت کی عظمت سے واقف تھے۔ ان لوگوں کو انسان چراغ حسن حسرت کی محبت جزیرے کے کونے کونے سے کھینچ لائی تھی۔ ہم سے ہمارا مرشد جدا ہو رہا تھا۔ سپاہی ایک ایسے افسر کو رخصت کر رہے تھے جو افسروں کی نوع ہی سے مختلف تھا۔ مقامی احباب اس شخص کو الوداع کہہ رہے تھے جس سے مل کر وہ ایشیا کے ایک عظیم ملک کی روح میں جھانک سکے تھے۔ ہیپی ورلڈ کے خدمت گار اس محسن سے محروم ہو رہے تھے جو چائے پئے بغیر بھی بڑی باقاعدگی، بڑی فیاضی سے ان کو ٹِپ دیتا تھا۔ اور جب عظیم ‘‘ڈویژن شائیر’’ لنگر اٹھاکر آبنائے ملاکا کے کھلے دہانے کی طرف رینگنے لگا تو ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے زندگی کے وہ دو سال ہماری پوری زندگی پر پھیل گئے ہوں۔ جذبات کے ایک مشترکہ جھٹکے سے ہر دل بوجھل، ہر آنکھ نمناک ہوگئی مگر جو شخص بچوں کی طرح بلبلاکر روپڑا وہ مرشد کا اردلی علامہ عنایت اللہ تھا جو مرشد کو بچوں کی طرح پالتا رہا تھا۔
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دِلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.