آٹوگراف بک اور اصطبل
بمبئی کی ایک معروف ادب پرور اور بوڑھی مغنیہ کے یہاں محفل مشاعرہ منعقد ہورہی تھی، جس میں جوش، جگر، حفیظ جالندھری، مجاز اور ساغر نظامی بھی شریک تھے۔
مشاعرے کے اختتام پر ایک دبلی پتلی سی لڑکی جس کی کم سن آنکھیں بجائے خودکسی غزل کے نمناک شعروں کی طرح حسین تھیں، ایک مختصر سی آٹو گراف بک میں دستخط لینے لگی۔
اس جہاندیدہ مغنیہ کی موجودگی میں یہ نو عمر حسینہ زندگی کے ایک تضاد کو نہایت واضح انداز میں پیش کررہی تھی۔ چنانچہ اس تضاد کے پیش نظر جگر مرادآبادی نے آٹو گراف بک میں لکھا،
ازل ہی سے چمن بند محبت
یہی نیرنگیاں دکھلا رہا ہے
کلی کوئی جہاں پہ کھل رہی ہے
وہیں اک پھول بھی مرجھا رہا ہے
اور جب حفیظ صاحب کی باری آئی تو انہوں نے معصوم لڑکی کے چہرے پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے لکھا،
معصوم امنگیں جھول رہی ہیں دلداری کے جھولے میں
یہ کچی کلیاں کیا جانیں کب کھلنا، کب مرجھانا ہے
اس کے بعد آٹو گراف بک دوسرے شاعرں کے پاس سے ہوتی ہوئی جب جوش صاحب کے سامنے آئی تو انہوں نے لکھا،
’’آٹو گراف بک ایک ایسا اصطبل ہے، جس میں گدھے اور گھوڑے ایک ساتھ باندھے جاتے ہیں۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.