تمام
تعارف
غزل47
نظم31
شعر46
ای-کتاب351
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 10
آڈیو 8
ویڈیو 51
مرثیہ2
قطعہ2
رباعی35
قصہ18
گیلری 3
بلاگ1
جوش ملیح آبادی کے قصے
جوش کا مردانہ، فیض کا زنانہ
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ فیض احمد فیض کی آواز میں نسوانیت تھی اور جوش ملیح آبادی کی آواز میں کھنک تھی۔ ’’جشن رانی‘‘ لائل پور کے مشاعرہ میں جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض الگ الگ گروپوں میں بیٹھے تھے۔ قتیل شفائی مشاعرہ میں شرکت کے لئے آئے تو فیض صاحب
بیگم جوش کی ناراضگی
جوش کو شراب پینے کی عادت تھی، لہذا شام ہوتے ہی ان کی بیگم اندر سے پیگ بنا بنا کر بھجواتیں جنہیں وہ چار گھنٹے میں ختم کردیتے اور اس کام سے فارغ ہوکر کھانا کھاتے۔ ایک شام آزاد انصاری بھی ان کے ساتھ تھے۔ بیگم جوش کو آزاد سے حد درجہ کراہت تھی اور ان کی موجودگی
پھر کسی اور وقت مولانا
جوش ملیح آبادی ایک بار گرمی کے موسم میں مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کی غرض سے ان کی کوٹھی پر پہنچے۔ وہاں ملاقاتیوں کا ایک جم غفیر پہلے سے موجود تھا۔ کافی دیر تک انتظار کے بعد بھی جب ملاقات کے لئے جوش صاحب کی باری نہ آئی تو انہوں نے اکتا کر ایک چٹ
بہرے کا چندہ
حفیظ جالندھری شیخ سر عبدالقادر کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کے لئے چندہ جمع کرنے کی غرض سے اپنی نظم سنارہے تھے۔ مرے شیخ ہیں شیخ عبدالقادر ہوا ان کی جانب سے فرماں صادر نہیں چاہتے ہم سخن کے نوادر ہے مطلوب ہم کو نہ گریہ نہ خندہ سنا نظم ایسی
شوہر کی گمراہی
یونس سلیم صاحب کی اہلیہ کراچی گئیں تو جوش صاحب سے ملنے کے لئے تشریف لے گئیں۔ جوش صاحب نے پہلے تو یونس صاحب کی خیر و عافیت دریافت کی اور اس کے بعد کہنے لگے کہ یونس آدمی تو اچھا ہے لیکن آج کل اس میں نقص پیدا ہوگیا ہے۔ ایک تو نماز بہت پڑھنے لگا ہے اور دوسرے
مولانا پر سنگساری
ایک مولانا کے جوش ملیح آبادی سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ کئی روز کی غیر حاضری کے بعد ملنے آئے تو جوش صاحب نے وجہ پوچھی، ’’کیا بتاؤں جوش صاحب۔ پہلے ایک گردے میں پتھری تھی، اس کا آپریشن ہوا۔ اب دوسرے گردے میں پتھری ہے۔‘‘ ’’میں سمجھ گیا۔‘‘ جوش صاحب نے
رنڈی والا باغ
جوش صاحب پل بنگش کے جس محلہ میں آکر رہے اس کا نام تقسیم وطن کے بعد سے ’’نیا محلہ‘‘ پڑگیا تھا۔ وہاں سکونت اختیار کرنے کے بعد جوش صاحب کو معلوم ہوا کہ پہلے اس کا نام ’’رنڈی والا باغ‘‘ تھا۔ بڑی اداسی سے کہنے لگے، ’’کیا بد مذاق لوگ ہیں! کتنا اچھا نام
آٹوگراف بک اور اصطبل
بمبئی کی ایک معروف ادب پرور اور بوڑھی مغنیہ کے یہاں محفل مشاعرہ منعقد ہورہی تھی، جس میں جوش، جگر، حفیظ جالندھری، مجاز اور ساغر نظامی بھی شریک تھے۔ مشاعرے کے اختتام پر ایک دبلی پتلی سی لڑکی جس کی کم سن آنکھیں بجائے خودکسی غزل کے نمناک شعروں کی طرح
جوش کا مصلی اور پانی سے استنجا
مالک رام پہلی دفعہ جوش ملیح آبادی صاحب سے ملنے گئے تو جاڑوں کا موسم تھا۔ شام کے تقریباًچھ بجے تھے۔ اتنے میں قریب کی مسجد سے اذان کی آواز آئی تو جوش صاحب نے اپنے بیٹے سجاد کوآواز دی کہ بیٹے میرا مصلیٰ لانا۔ مالک رام صاحب حیران ہوئے کہ جوش صاحب اور نماز؟
عدم یہ ہے تو وجود کیا ہے؟
عبدالحمید عدم کو کسی صاحب نے ایک بار جوش سے ملایا۔ ’’آپ عدم ہیں!‘‘ عدم کافی تن و توش کے آدمی تھے جوش نے ان کے ڈیل ڈول کو بغور دیکھا اور کہنے لگے، ’’عدم یہ ہے، تو وجود کیا ہوگا؟‘‘
پٹھان کی نظم اور سکھ کی داد
ایک بار ممبئی کے مشاعرے میں جوش ملیح آبادی اپنی تہلکہ مچادینے والی نظم ’’گل بدنی‘‘ سنارہے تھے ،بے پناہ داد مل رہی تھی۔ جب انہوں نے اس نظم کا ایک بہت ہی اچھا بند سنایا تو کنور مہندر سنگھ بیدی سحرنے والہانہ داد دی اور کہا کہ حضرات ملاحظہ ہو، ایک پٹھان
تلخ و شیریں
منموہن تلخ نے جوش ملیح آبادی کو فون کیا اور کہا، ’’میں تلخ بول رہا ہوں۔‘‘ جوش صاحب نے جواب دیا، ’’کیا حرج ہے اگر آپ شیریں بولیں۔‘‘
پدری زبان میں خط
جوش نے پاکستان میں ایک بہت بڑے وزیر کو اردو میں خط لکھا، لیکن اس کا جواب انہوں نے انگریزی میں ارسال فرمایا۔ جواب الجواب میں جوش نے انہیں لکھا، ’’جناب والا، میں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا تھا، لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر
خواہش دیدار
بمبئی میں جوش صاحب ایک ایسے مکان میں ٹھہرے جس میں اوپر کی منزل پر ایک اداکارہ رہتی تھی۔ مکان کی کچھ ایسی ساخت تھی کہ انہیں دیدار نہ ہوسکتا تھا، لہذا انہوں نے یہ رباعی لکھی، میرے کمرے کی چھت پہ ہے اس بت کا مکان جلوے کا نہیں ہے پھر بھی کوئی امکان گویا
منافقت کا اعتراف
کسی مشاعرے میں ایک نو مشق شاعر اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے۔ اکثر شعراء آداب محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے۔ لیکن جوش ملیح آبادی پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعہ پرداد تحسین کی بارش کیے جارہے تھے۔ گوپی ناتھ امن نے ٹوکتے ہوئے پوچھا، ’’قبلہ!
داڑھی کا کمال
جن دنوں جوش ملیح آبادی حیدر آباد میں رہائش پذیر تھے، فانی بدایونی بھی مستقلاً وہیں رہنے لگے تھے۔ ایک بار فانی کے صاحبزادے بھی حیدرآباد آگئے۔ انہیں غالباً حکمت سے لگاؤ تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے داڑھی رکھی تھی۔ عموماً یہی ہوتا رہا ہے کہ باپ داڑھی رکھتے