Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سحر البیان

میر حسن

سحر البیان

میر حسن

MORE BYمیر حسن

    کروں پہلے توحید یزداں رقم

    جھکا جس کے سجدے کو اول قلم

    سر لوح پر رکھ بیاض جبیں

    کہا: دوسرا کوئی تجھ سا نہیں

    قلم پھر شہادت کی انگلی اٹھا

    ہوا حرف زن یوں کہ: رب العلا!

    نہیں کوئی تیرا، نہ ہوگا شریک

    تری ذات ہے وحدہٗ لا شریک

    پرستش کے قابل ہے تواے کریم!

    کہ ہے ذات تیری غفور رحیم

    رہ حمد میں تیری عزّ و جل!

    تجھے سجدہ کرتا چلوں سر کے بل

    وہ، الحق کہ ایسا ہی معبود ہے

    قلم جو لکھے، اس سے افزود ہے

    سبھوں کا وہی دین و ایمان ہے

    یے دل ہیں تمام اور وہی جان ہے

    تر و تازہ ہے اس سے گلزار خلق

    وہ ابر کرم، ہے ہوا دار خلق

    اگرچہ وہ بے فکر و غیّور ہے

    ولے پرورش سب کی منظور ہے

    کسی سے بر آوے نہ کچھ کام جاں

    جو وہ مہرباں ہو، تو گل مہرباں

    اگرچہ یہاں کیا ہے اور کیا نہیں

    پر، اس بن تو کوئی کسی کا نہیں

    موئے پر نہیں اس سے رفت و گزشت

    اسی کی طرف سب کی ہے بازگشت

    رہا کون اور کس کی بابت رہی

    موئے اور جیتے وہی ہے وہی

    نہاں سب میں، اور سب میں ہے آشکار

    یہ سب اس کے عالم ہیں ہژدہ ہزار

    ڈرے سب ہیں اس سے، وہی سب سے پیش

    ہمیشہ سے ہے اور رہے گا ہمیش

    چمن میں، ہے وحدت کے، یکتا وہ گل

    کہ مشتاق ہیں اس کے سب جز و کُل

    اسی سے ہے کعبہ، اسی سے کنشت

    اسی کا ہے دوزخ، اسی کا بہشت

    جسے چاہے جنت میں دیوے مقام

    جسے چاہے دوزخ میں رکھے مدام

    وہ ہے مالکُ الملک دنیا و دیں

    ہے قبضے میں اس کے زمان و زمیں

    سدا بے نمودوں کی اس سے نمود

    دل بستگاں کی ہے اس سے کشود

    اسی کی نظر سے ہے ہم سب کی دید

    اسی کے سخن پر ہے سب کی شنید

    وہی نور، ہے سب طرف جلوہ گر

    اسی کے یہ ذرے ہیں شمس و قمر

    نہیں اس سے خالی غرض کوئی شے

    وہ کچھ شے نہیں، پر ہر اک شے میں ہے

    نہ گوہر میں ہے وہ، نہ ہے سنگ میں

    و لیکن چمکتا ہے ہر اک رنگ میں

    وہ ظاہر میں ہر چند ظاہر نہیں

    پہ، ظاہر کوئی، اس سے باہر نہیں

    تامل سے کیجے اگر غور کچھ

    تو سب کچھ وہی ہے، نہیں اور کچھ

    اسی گل کی بو سے ہے خوش بو گلاب

    پھرے ہے لیے ساتھ دریا، حباب

    پر، اس جوش میں آ کے، بہنا نہیں

    سمجھنے کی ہے بات، کہنا نہیں

    قلم، گو زباں لاوے اپنی ہزار

    لکھے کس طرح حمد پروردگار

    کہ عاجز ہے یاں انبیا کی زباں

    زبان قلم کو یہ قدرت کہاں!

    اس عہدے سے کوئی بھی نکلا کہیں!

    سوا عجز، درپیش یاں کچھ نہیں

    وہ معبود یکتا، خدائے جہاں

    کہ جس نے کیا ’’کن‘‘ میں کون و مکاں

    دیا عقل و ادراک اس نے ہمیں

    کیا خاک سے پاک اس نے ہمیں

    پیمبر کو بھیجا ہمارے لیے

    وصی اور امام اس نے پیدا کیے

    جہاں کو انھوں نے دیا انتظام

    برائی بھلائی سجھائی تمام

    دکھائی انھوں نے ہمیں راہ راست

    کہ تا، ہو نہ، اس راہ کی باز خواست

    سو وہ کون سی راہ؟ شرع نبی

    کہ رستے کو جنت کے سیدھی گئی

    نعت حضرت رسالت پناہ کی

    نبی کون، یعنی رسول کریم

    نبوت کے دریا کا در یتیم

    ہوا گو کہ ظاہر میں امی لقب

    پہ، علم لدنی کھلا دل پہ سب

    بغیر از لکھے، اور کیے بے رقم

    چلے حکم پر اس کے لوح و قلم

    ہوا علم دیں اس کا جو آشکار

    گزشتہ ہوئے حکم، تقویم پار

    اٹھا کفر اسلام ظاہر کیا

    بتوں کو خدائی سے باہر کیا

    کیا حق نے نبیوں کا سردار اسے

    بنایا نبوت کا حق دار اسے

    نبوت جو کی اس پہ حق نے تمام

    لکھا: اشرفُ الناس، خیرُ الانام

    بنایا سمجھ بوجھ کر خوب اسے

    خدا نے کیا اپنا محبوب اسے

    کروں اس کے رتبے کا کیا میں بیاں

    کھڑے ہوں جہاں باندھ صف مرسلاں

    مسیح اس کی خر گاہ کا پارہ دوز

    تجلیٔ طور اس کی مشعل فروز

    خلیل اس کے گلزار کا باغباں

    سلیماں سے کئی مہر دار اس کے یاں

    خضر اس کی سرکار کا آبدار

    زرہ ساز داؤد سے دس ہزار

    محمد کی مانند جگ میں نہیں

    ہوا ہے نہ ایسا، نہ ہو گا کہیں

    یہ تھی رمز، جو اس کے سایہ نہ تھا

    کہ رنگ دوئی واں تک آیا نہ تھا

    نہ ہونے کا سایے کا تھا یہ سبب

    ہوا صَرف پوشش میں کعبے کی سب

    وہ قد اس لیے تھا نہ سایہ فگن

    کہ تھا گل وہ اک معجزے کا بدن

    بنا سایہ اس کا لطیف اس قدر

    نہ آیا لطافت کے باعث نظر

    عجب کیا جو اس گل کا سایہ نہ ہو

    کہ تھا وہ، گل قدرت حق کی بو

    خوش آیا نہ، سایے کو، ہونا جدا

    اسی نور حق کے رہا زیر پا

    نہ ڈالی کسی شخص پر اپنی چھانو

    کسی کا نہ منہ دیکھا، دیکھ اس کے پانو

    وہ ہوتا زمیں گیر کیا فرش پر

    قدم اس کے سایے کا تھا عرش پر

    نہ ہونے کی سایے کے اک وجہ اور

    مجھے خوب سوجھی، پہ ہے شرط غور

    جہاں تک کہ تھے یاں کے اہل نظر

    سمجھ مایۂ نور، کحلُ البصر

    سبھوں نے لیا پتلیوں پر اٹھا

    زمیں پر نہ سایے کو گرنے دیا

    سیاہی کا پتلی کی ہے یہ سبب

    وہی سایہ پھرتا ہے آنکھوں میں اب

    وگرنہ یہ تھی چشم اپنی کہاں

    اسی سے یہ روشن ہے سارا جہاں

    نظر سے جو غائب وہ سایا رہا

    ملائک کے دل میں سمایا رہا

    نہیں ہمسر اس کا کوئی، جو علی

    کہ بھائی کا بھائی، وصی کا وصی

    ہوئی جو نبوت نبی پر تمام

    ہوئی نعمت اس کے وصی پر تمام

    جہاں فیض سے ان کے ہے کام یاب

    نبی آفتاب و علی ماہتاب

    منقبت حضرت امیرالمومنین کی

    علی دین و دنیا کا سردار ہے

    کہ مختار کے گھر کا مختار ہے

    دیار امامت کے گلشن کا گل

    بہار ولایت کا باغ سبل

    علی راز دار خدا و نبی

    خبردار سر خفی و جلی

    علی بندۂ خاص درگاہ حق

    علی سالک و رہبر راہ حق

    علیّ ولی، ابن عمّ رسول

    لقب شاہ مردان و زوج بتول

    کہے یوں جو چاہے کوئی بیر سے

    پہ نسبت علی کو نہیں غیر سے

    خدا نفس پیغبرش خداندہ است

    دگر افضلیت بہ کس ماندہ است؟

    یہاں بات کی بھی سمائی نہیں

    نبی و علی میں جدائی نہیں

    نبی و علی، ہر دو نسبت بہم

    دُو تا و یکے، چوں زبان قلم

    علی کا عدوٗ: دوزخی، دوزخی

    علی کا محب: جنتی، جنتی

    نبی اور علی، فاطمہ اور حسن

    حسین ابن حیدر، یہ ہیں پنج تن

    ہوئی ان پہ دو جگ کی خوبی تمام

    انہوں پر درود اور انہوں پر سلام

    علی سے لگا تا بہ مہدیٔ دیں

    یہ ہیں ایک نور خدائے بریں

    اُنہوں سے ہے قائم امامت کا گھر

    کہ بارہ ستوں ہیں یہ اثنا عشر

    صغیرہ، کبیرہ سے یہ پاک ہیں

    حساب عمل سے یہ بے باک ہیں

    ہوا یاں سے ظاہر کمال رسول

    کہ بہتر ہوئی سب سے آل رسول

    سلام ان پہ جو ان کے اصحاب ہیں

    وہ اصحاب کیسے، کہ احباب ہیں

    خدا نے انہوں کو کہا مومنیں

    وہ ہیں زینت آسمان و زمیں

    خدا ان سے راضی، رسول ان سے خوش

    علی ان سے راضی، بتول ان سے خوش

    ہوئی فرض ان کی ہمیں دوستی

    کہ ہیں دل سے وہ جاں نثار نبی

    مناجات

    الٰہی! بہ حق رسول امیں

    بہ حق علی و بہ اصحاب دیں

    بہ حق بتول و بہ آل رسول

    کروں عرض جو میں، سو ہوئے قبول

    الٰہی! میں بندہ گنہگار ہوں

    گناہوں میں اپنے گراں بار ہوں

    مجھے بخشیو میرے پروردگار!

    کہ ہے تو کریم اور آمرزگار

    مری عرض یہ ہے کہ جب تک جیوں

    شراب محبت کو تیری پیوں

    سوا تیری الفت کے، اور سب ہے ہیچ

    یہی ہو، نہ ہو اور کچھ ایچ پیچ

    جو غم ہو، تو ہو آل احمد کا غم

    سوا اس الم کے نہ ہو کچھ الم

    رہے سب طرف سے مرے دل کو چین

    بہ حق حسن اور بہ حق حسین

    کسی سے نہ کرنی پڑے التجا

    تو کر خود بہ خود میری حاجت روا

    صحیح اور سالم سدا مجھ کو رکھ

    خوشی سے ہمیشہ خدا! مجھ کو رکھ

    مری آل اولاد کو شاد رکھ

    مرے دوستوں کو تو آباد رکھ

    میں کھاتا ہوں جس کا نمک اے کریم!

    سدا رحم کر اس پہ تو اے رحیم!

    جیوں آبرو اور حرمت کے ساتھ

    رہوں میں عزیزوں میں عزت کے ساتھ

    بر آویں مرے دین و دنیا کے کام

    بہ حق محمد علیہ السلام

    تعیریف سخن کی

    پلا مجھ کو ساقی! شراب سخن

    کہ مفتوح ہو جس سے باب سخن

    سخن کی مجھے فکر دن رات ہے

    سخن ہی تو ہے، اور کیا بات ہے

    سخن کے طلب گار ہیں عقل مند

    سخن سے ہے نام نکو یاں بلند

    سخن کی کریں قدر مردان کار

    سخن، نام ان کا رکھے برقرار

    سخن سے وہی شخص رکھتے ہیں کام

    جنہیں چاہیے ساتھ نیکی کے نام

    سخن سے سلف کی بھلائی رہی

    زبان قلم سے بڑائی رہی

    کہاں رستم و گیو و افراسیاب

    سخن سے رہی یاد یہ نقل خواب

    سخن کا صلہ یار دیتے رہے

    جواہر سدا مول لیتے رہے

    سخن کا سدا گرم بازار ہے

    سخن سنج اس کا خریدار ہے

    رہے جب تلک داستان سخن

    الٰہی! رہے قدردان سخن

    مدح شاہ عالم بادشاہ کی

    خدیو فلک شاہ عالی گہر

    زمیں بوس ہوں جس کے شمس و قمر

    جہاں اس کے پرتو سے ہے کام یاب

    وہ ہے برج اقلیم میں آفتاب

    اسی مہر سے ہے منور یہ ماہ

    جہاں ہووے اور ہو جہاں دار شاہ

    وہ مہر منور، یہ ماہ منیر

    اور اس کا یہ نجم سعادت وزیر

    مدح وزیر آصف الدولہ کی

    فلک رتبہ نوّاب عالی جناب

    کہ ہے آصف الدولہ جس کا خطاب

    وزیر جہاں، حاکم عدل و داد

    ہے آبادیٔ ملک جس کی مراد

    جہاں، عدل سے اس کے آباد ہے

    غریبوں، فقیروں کا دل شاد ہے

    پھرے بھاگتا مور سے فیل مست

    زبردست ظالم، پہ ہے زیردست

    کتاں پر کرے مہ اگر بد نظر

    تو آدھا ادھر ہووے آدھا ادھر

    کسی کا اگر مفت لے زلف دل

    تو کھایا کرے پیچ وہ متصل

    وہ انصاف سے جو گزرتا نہیں

    کسی پر کوئی شخص مرتا نہیں

    تو ہو باگ، بکری میں کچھ گفتگو

    اگر اس کا چیتا نہ ہووے کبھو

    گر آواز سن صید کی، کچھ کہے

    تو باز آئے چپّک کہ بہری رہے

    پھرے شمع کے گرد گر آ کے چور

    صبا کھینچ لے جاوے اس کو بہ زور

    نہ لے جب تلک شمع پروانگی

    پتنگے کے پر کو نہ چھیڑے کبھی

    اگر آپ سے اس پہ وہ آ گرے

    تو فانوس میں شمع چھپتی پھرے

    گر احیاناً اس کے جلیں بال و پر

    تو گل گیر، لے شمع کا کاٹ سر

    اسے عدل کی جو طرح یاد ہے

    کسے یاد ہے؟ یہ خدا داد ہے

    ستم اس کے ہاتھو سے رویا کرے

    سدا فتنۂ دہر سویا کرے

    گھروں میں فراغت سے سوتے ہیں سب

    پڑے گھر میں چور اپنے روتے ہیں سب

    وہ ہے باعث امن خرد و کلاں

    کہ ہے نام سے اس کے مشق اماں

    بیان سخاوت کروں گر رقم

    تو در ریز کاغذ پہ ہووے قلم

    نظر سے توجہ کی دیکھا جدھر

    دیا مثل نرگس اسے سیم و زر

    سخاوت یہ ادنیٰ سی ایک اس کی ہے

    کہ اک دں دو شالے دیے سات سے

    سوا اس کے، ہے اور یہ داستاں

    کہ ہو جس پہ قربان حاتم کی جاں

    ہوئی کم جو اک بار کچھ برشگال

    گرانی سی ہونے لگی ایک سال

    غریبوں کا دم سا نکلنے لگا

    توکل کا بھی پانو چلنے لگا

    وزیرالممالک نے تدبیر کر

    خدا کی دیا راہ پر مال و زر

    محلے محلے کیا حکم یہ

    کہ باڑے کی اس غم کے کھولیں گرہ

    یہ چاہا کہ خلقت کسی ڈھب جیے

    ٹکے لاکھ لاکھ ایک دن میں دیے

    یہ لغزش پڑی ملک میں جو تمام

    لیا ہاتھ نے اس کے گرتوں کو تھام

    یہ بندہ نوازی، یہ جاں پروری

    یہ آئین سرداری و سروری

    ہوئے ذات پر اس سخی کی تمام

    تکلف ہے آگے سخاوت کا نام

    فقیروں کی بھی یاں تلک تو بنی

    کہ اک اک یہاں ہو گیا ہے غنی

    یہ کیا دخل آواز دے جو گدا

    چٹکنے کی گل کے نہ ہووے صدا

    قدح لے کے نرگس جو ہووے کھڑی

    تو خجلت سے جاوے زمیں میں گڑی

    نہ ہو اس کا شامل جو ابر کرم

    اثر ابر نیساں سے ہووے عدم

    ہر اک کام اس کا: جہاں کی مراد

    فلاطوں طبیعت، ارسطو نژاد

    جب ایسا وہ پیدا ہوا ہے بشر

    تب اس کو دیا ہے یہ کچھ مال و زر

    لکھوں گر شجاعت کا اس کی بیاں

    قلم ہو مرا رستم داستاں

    غضب سے وہ ہاتھ اپنا جس پر اٹھائے

    اجل کا طمانچہ قسم اس کی کھائے

    کرے جس جگہ زور اس کا نمود

    دل آہن کا اس جا پہ ہووے گبود

    چلے تیغ گر اس کی زور مصاف

    نظر آوے دشمن کا میدان صاف

    اگر بے حیائی سے کوئی عدو

    ملا دیوے اس تیغ سے منہ کبھو

    تو ایسے ہی کھا کر گرے سر کے بل

    کہ سر پر کھڑی اس کے رووے اجل

    نہ ہو کیونکے وہ تیغ برق غضب

    کہ برش کی تشدید، جوہر ہیں سب

    لگاوے اگر کوہ پر ایک بار

    گزر جائے یوں، جیسے صابن میں تار

    ہوئی ہم قسم اس سے تیغ اجل

    نکل آئے یہ، گر پڑے وہ اگل

    غضب سے، غضب، اس کے کانپا کرے

    تہور بھی ہیبت سے اس کی ڈرے

    اور اس زور پر ہے یہ علم و حیا

    کہ ہے خلق کا جیسے دریا بہا

    جہاں تک کہ ہیں علم و نسب و کمال

    ہر اک فن میں ماہر ہے وہ خوش خصال

    سخن داں، سخن سنج، شیریں زباں

    وزیر جہان و وحید زماں

    سخن کی نہیں اس سے پوشیدہ بات

    غوامض ہیں سب سہل اس کے نکات

    سلیقہ ہر اک فن میں، ہر بات میں

    نکلتی نئی بات دن رات میں

    سدا سیر پر اور تماشے پہ دل

    کشادہ دلی اور خوشی متصل

    نہ ہو اس کو کیوں کر ہواے شکار

    تہور شعاروں کا ہے یہ شعار

    دلیروں کے تئیں، ہے دلیروں سے کام

    کہ رہتا ہے شیروں کو شیروں سے کام

    شہاں را ضروراست مشق شکار

    کہ آید پئے صید دل ہا بہ کار

    کھلے، بند جتنے ہیں صحرا میں صید

    ہیں نواب کے دام الفت میں قید

    زمہرش دل آہواں سوختہ

    بہ فتراک او چشمہا دوختہ

    شجاعت کا، ہمت کا یہ، کام ہے

    درم ہاتھ میں ہے کہ یا دام ہے

    نہ ہوتا اگر اس کو عزم شکار

    درندوں سے بچتا نہ شہر و دیار

    نہ بچتے جہاں بیچ خرد و بزرگ

    یہ ہو جاتے سب لقمۂ شیر و گرگ

    یہ انسان پر اس کا احسان ہے

    کہ بے خوف انسان کی جان ہے

    بنائی جہاں اس نے نخچیر گاہ

    رہے صید واں آکے شام و پگاہ

    رکھا صید بحری پہ جس دم خیال

    لیا پشت پر اپنی ماہی نے جال

    مگر اپنا دیتے ہیں جی جان کر

    کہ ٹاپو پہ گرتے ہیں آن آن کر

    نہ سمجھو نکلتے ہیں دریا میں سوس

    خوشی سے اچھلتے ہیں دریا میں سوس

    چرندوں کا دل اس طرف ہے لگا

    پرندوں کو رہتی ہے اس کی ہوا

    پلنگوں کا ہے بلکہ چیتا یہی

    کمر آ بندھاوے ہماری وہی

    کھڑے اَرنے ہوتے ہیں سر جوڑ جوڑ

    کہ جی کون دیتا ہے بد بد کے ہوڑ

    خبر اس کی سن کر نہ گینڈا چلے

    کہ ہاتھی بھی ہو مست، اینڈا چلے

    جو کچھ دل میں گینڈے کے آوے خیال

    تو بھاگے اس آگے سپر اپنی ڈال

    اطاعت کے حلقے سے بھاگے جو فیل

    پلک، اس کی آنکھوں میں، ہو تفتہ میل

    سو وہ تو اطاعت میں یک دست ہیں

    نشے میں محبت کے سب مست ہیں

    اسی کے لیے گو کہ ہیں وے پہاڑ

    قدم اپنے رکھتے ہیں سب گاڑ گاڑ

    کہ شاید مشرف سواری سے ہوں

    سر افراز چل کر عماری سے ہوں

    چلن جب یہ کچھ ہوویں حیوان کے

    تو پھر حق بہ جانب ہے انسان کے

    کسے ہو نہ صحبت کی اس کی ہوس

    ولے کیا کرے، جو نہ ہو دسترس

    فلک بار گاہا، ملک در گہا!

    جدا میں جو قدموں سے تیرے رہا

    نہ کچھ عقل نے اور نہ تدبیر نے

    رکھا مجھ کو محروم تقدیر نے

    پراب عقل نے میرے کھولے ہیں گوش

    دیا ہے مدد سے تری مجھ کو ہوش

    سو میں، اک کہانی بنا کر نئی

    در فکر سے گوندھ لڑیاں کئی

    لے آیا ہوں خدمت میں بہر نیاز

    یہ امید ہے پھر، کہ ہوں سرفراز

    مرے عذر تقصیر ہوویں قبول

    بہ حق علی و بہ آل رسول

    رہے جاہ و حشمت یہ تیری مدام

    بہ حق محمد، علیہ السلام

    رہیں شاد و آباد کل خیر خواہ

    پھریں اس گھرانے کے دشمن تباہ

    اب آگے کہانی کی ہے داستاں

    ذرا سنیو دل دے کے اس کا بیاں

    آغاز داستاں

    کسی شہر میں تھا کوئی بادشاہ

    کہ تھا وہ شہنشاہ گیتی پناہ

    ملک خو، ملک شاہ رکھتا تھا نام

    فلک پر مہ و مہر اس کے غلام

    بہت حشمت و جاہ و مال و منال

    بہت فوج سے اپنی فرخندہ حال

    کئی بادشاہ اس کو دیتے تھے باج

    خطا اور ختن سے وہ لیتا خراج

    کوئی دیکھتا آ کے جب اس کی فوج

    تو کہتا کہ: ہے بحر ہستی کی موج

    طویلے کے اس کے جو ادنی تھے خر

    انھیں نعل بندی میں ملتا تھا زر

    جہاں تک کہ سرکش تھے اطراف کے

    وہ اس شہ کے رہتے تھے قدموں لگے

    رعیت تھی آسودہ و بے خطر

    نہ غم مفلسی کا، نہ چوری کا ڈر

    عجب شہر تھا اس کا مینو سواد

    کہ قدرت خدائی کی آتی تھی یاد

    لگے تھے ہر اک جا پہ وہاں سنگ و خشت

    ہر اک کوچہ اس کا، تھا رشک بہشت

    زمیں سبز و سیراب عالم تمام

    نظر کو طراوت وہاں صبح و شام

    کہیں چاہ و منبع، کہیں حوض و نہر

    ہر اک جا پہ آب لطافت کی لہر

    عمارت تھی گچ کی وہاں پیش تر

    کہ گزرے صفائی سے جس پر نظر

    کروں اس کی وسعت کا کیا میں بیاں

    کہ جوں اصفہاں، تھا وہ نصف جہاں

    ہنر مند واں اہل حرفہ تمام

    ہر اک نوع کی خلق کا ازدحام

    یہ دل چسپ بازار تھا چوک کا

    کہ ٹھہرے جہاں، بس وہیں دل لگا

    جہاں تک یہ رستے تھے بازار کے

    کہے تو کہ تختے تھے گلزار کے

    صفا پر جو اس کی نظر کر گئے

    اسے دیکھ کر سنگ مرمر گئے

    کہوں قلعے کی اس کے کیا میں شکوہ

    گئے دب، بلندی کو دیکھ اس کی، کوہ

    وہ دولت سرا خانۂ نور تھا

    سدا عیش و عشرت سے معمور تھا

    ہمیشہ خوشی، رات دن سیر باغ

    نہ دیکھا کسی دل پہ، جز لالہ، داغ

    سدا عیش و عشرت، سدا راگ و رنگ

    نہ تھا زیست سے کوئی اپنی بہ تنگ

    غنی وہاں وا، جو کہ آیا تباہ

    عجب شہر تھا وہ عجب بادشاہ

    نہ دیکھا کسی نے کوئی واں فقیر

    ہوئے اس کی دولت سے گھر گھر امیر

    کہاں تک کہوں اس کا جاہ و حشم

    محل و مکاں اس کا رشک ارم

    ہزاروں پری پیکر اس کے غلام

    کمر بستہ خدمت میں حاضر مدام

    سدا ماہ رویوں سے صحبت اسے

    سدا جامہ زیبوں سے رغبت اسے

    کسی طرف سے وہ نہ رکھتا تھا غم

    مگر ایک اولاد کا تھا الم

    اسی بات کا اس کے تھا دل پہ داغ

    نہ رکھتا تھا وہ اپنے گھر کا چراغ

    دنوں کا عجب اس کے یہ پھیر تھا

    کہ اس روشنی پہ یہ اندھیر تھا

    وزیروں کو اک روز اس نے بلا

    جو کچھ دل کا احوال تھا، سو کہا

    کہ میں کیا کروں گا یہ مال و منال

    فقیری کا ہے میرے دل کو خیال

    فقیر اب نہ ہوں، تو کروں کیا علاج

    نہ پیدا ہوا وارث تخت و تاج

    جوانی مری ہو گئی سب بسر

    نمودار پیری ہوئی سر بہ سر

    دریغا کہ عہد جوانی گذشت

    جوانی مگو، زندگانی گذشت

    بہت ملک پر جان کھویا کیا

    بہت فکر دنیا میں رویا کیا

    زہے بے تمیزی و بے حاصلی

    کہ از فکر دنیا، ز دیں غافلی

    وزیروں نے کی عرض کہ اے آفتاب!

    نہ ہو تجھ کو ذرہ کبھی اضطراب

    فقیری جو کیجے تو دنیا کے ساتھ

    نہیں خوب، جانا ادھر خالی ہاتھ

    کرو سلطنت، لے کے اعمال نیک

    کہ تا دو جہاں میں رہے حال نیک

    جو عاقل ہوں، وے سوچ میں ٹک رہیں

    کہ ایسا نہ ہووے کہ پھر سب کہیں

    تو کار زمیں را نکو ساختی

    کہ بر آسماں نیز پرداختی

    یہ دنیا جو ہے مزرع آخرت

    فقیری میں ضائع کرو اس کو مت

    عبادت سے اس کشت کو آب دو

    وہاں جا کے خرمن ہی تیار لو

    رکھو یاد عدل و سخاوت کی بات

    کہ اس فیض سے ہے تمہاری نجات

    مگر ہاں، یہ اولاد کا ہے جو غم

    سو اس کا تردد بھی کرتے ہیں ہم

    عجب کیا کہ ہووے تمہارے خلف

    کرو تم نہ اوقات اپنی تلف

    نہ لاؤ کبھی یاس کی گفتگو

    کہ قرآں میں آیا ہے: لا تقنطو

    بلاتے ہیں ہم اہل تنجیم کو

    نصیبوں کو اپنے ذرا دیکھ لو

    تسلی تو دی شاہ کو اس نمط

    ولے اہل تنجیم کو بھیجے خط

    نجومی و رَمّال اور برہمن

    غرض یاد تھا جن کو اس ڈھب کا فن

    بلا کر انہیں شہ کنے لے گئے

    جوں ہی رو بہ رو شہ کے سب وے گئے

    پڑا جب نظر وہ شہ تاج و تخت

    دعا دی کہ ہوں شہ کے بیدار بخت

    کیا قاعدے سے نہڑ کر سلام

    کہا شہ نے: میں تم سے رکھتا ہوں کام

    نکالو ذرا اپنی اپنی کتاب

    مرا ہے سوال، اس کا لکھو جواب

    نصیبوں میں دیکھو تو میرے کہیں

    کسی سے بھی اولاد ہے یا نہیں

    یہ سن کر، وے رمال طالع شناس

    لگے کھینچنے زائچے بے قیاس

    دھرے تختے آگے، لیا قرعہ ہاتھ

    لگا دھیان اولاد کا اس کے ساتھ

    جو پھینکیں، تو شکلیں کئی بیٹھیں مل

    کئی شکل سے دل گیا ان کا کھل

    جماعت نے رمال کی عرض کی

    کہ ہے گھر میں امید کے کچھ خوشی

    یہ سن ہم سے اے عالموں کے شفیق

    بہت ہم نے تکرار کی ہر طریق

    بیاض اپنی دیکھی جو اس رَمل کی

    تو ایک ایک نکتہ، ہے فرد خوشی

    ہے اس بات پر اجتماع تمام

    کہ طالع میں فرزند ہے تیرے نام

    زن و زوج کے گھر میں ہے گی فرح

    پیا کر مے وصل کا تو قدح

    نجومی بھی کہنے لگے در جواب

    کہ ہم نے بھی دیکھی ہے اپنی کتاب

    نحوست کے دن سب گئے ہیں نکل

    عمل اپنا سب کر چکا ہے زحل

    ستارے نے طالع کے، بدلے ہیں طور

    خوشی کا کوئی دن میں آتا ہے دور

    نظر کی جو تسدیس و تثلیث پر

    تو دیکھا کہ ہے نیک سب کی نظر

    کیا پنڈتوں نے جو اپنا بچار

    تو کچھ انگلیوں پر کیا پھر شمار

    جنم پترا شاہ کا دیکھ کر

    تُلا اور بِرچھک پہ کر کر نظر

    کہا: رام جی کی ہے تم پر دیا

    چندرما سا بالک ترے ہووے گا

    نکلتے ہیں اب تو خوشی کے بچن

    نہ ہو گر خوشی، تو نہ ہوں برہمن

    مہاراج کے ہوں گے مقصد شتاب

    کہ آیا ہے اب پانچواں آفتاب

    نصیبوں نے کی آپ کے یاوری

    کہ آئی ہے اب ساتویں مشتری

    مقرر ترے، چاہیے، ہو پسر

    کہ دیتی ہے یوں اپنی پوتھی خبر

    وہ لیکن مقدر ہے کچھ اور بھی

    کہ ہیں اس بھلے میں، برے طور بھی

    یہ لڑکا تو ہو گا، ولے کیا کہیں

    خطر ہے اسے بارھویں برس میں

    نہ آوے یہ خورشید بالائے بام

    بلندی سے خطرہ ہے اس کو تمام

    نہ نکلے یہ بارہ برس رشک مہ

    رہے برج میں یہ مہ چاردہ

    کہا شہ نے یہ سن کے، ان کے تئیں

    کہو، جی کا خطرہ تو اس کو نہیں؟

    کہا: جان کی سب طرح خیر ہے

    مگر دشت غربت کی کچھ سیر ہے

    کوئی اس پہ عاشق ہو جن و پری

    کوئی اس کی معشوق ہو استری

    کچھ ایسا نکلتا ہے پوتھی میں اب

    خرابی ہو اس پر کسی کے سبب

    ہوئی کچھ خوشی شہ کو اور کچھ الم

    کہ دنیا میں توام ہیں شادی و غم

    کہا شہ نے: اس پر نہیں اعتبار

    جو چاہے کرے میرا پروردگار

    یہ فرما، محل میں در آمد ہوئے

    منجم وہاں سے بر آمد ہوئے

    خدا پر زبس اس کا تھا اعتقاد

    لگا مانگنے اپنی حق سے مراد

    خدا سے لگا کرنے وہ التجا

    لگا آپ مسجد میں رکھنے دیا

    نکالا مرادوں کا آخر سراغ

    لگائی ادھر لَو، تو پایا چراغ

    سحاب کرم نے کیا جو اثر

    ہوئی کشت امید کی بارور

    اسی سال میں، یہ تماشا سنو

    رہا حمل اک زوجۂ شاہ کو

    جو کچھ دل پہ گزرے تھے رنج و تعب

    مبدّل ہوئے وے خوشی ساتھ سب

    خوشی سے پلا مجھ کو ساقی! شراب

    کوئی دم میں بجتا ہے چنگ و رباب

    کروں نغمۂ تنہنیت کو شروع

    کہ اک نیک اختر کرے ہے طلوع

    داستان تولد ہونے کی شاہ زادہ بے نظیر کے

    گئے نو مہینے جب اس پر گزر

    ہوا گھر میں شہ کے تولد پسر

    عجب صاحب حسن پیدا ہوا

    جسے مہرومہ دیکھ شیدا ہوا

    نظر کو نہ ہو حسن پر اُس کے تاب

    اسے دیکھ، بے تاب ہو آفتاب

    ہوا وہ جو اُس شکل سے دل پذیر

    رکھا نام اس کا شہ بے نظیر

    خواصوں نے، خواجہ سراؤں نے جا

    کئی نذریں گزرانیاں اور کہا

    مبارک تجھے اے شہ نیک بخت!

    کہ پیدا ہوا وارث تاج و تخت

    سکندر نژاد اور دارا حشم

    فلک مرتبت اور عطارد رقم

    رہے اس کے اقلیم زیر نگیں

    غلامی کریں اس کی خاقان چیں

    یہ سنتے ہی مژدہ، بچھا جا نماز

    کیے لاکھ سجدے، کہ اے بے نیاز!

    تجھے فضل کرتے نہیں لگتی بار

    نہ ہو تجھ سے مایوس، امید دار

    دوگانہ غرض شکر کا کر ادا

    تہیہ کیا شاہ نے جشن کا

    وے نذریں خواصوں کی، خوجوں کی لے

    انہیں خلعت و زر کا انعام دے

    کہا: جاؤ، جو کچھ کہ درکار ہو

    کہو خانساماں سے تیار ہو

    نقیبوں کو بلوا کے یہ کہ دیا

    کہ نقار خانے میں دو حکم جا

    کہ نوبت خوشی کی بجاویں تمام

    خبر سن کے یہ شاد ہوں خاص و عام

    یہ مژدہ جو پہنچا، تو نقارچی

    لگا ہر جگہ بادلا اور زری

    بنا ٹھاٹھ نقار خانے کا سب

    مہیا کر اسباب عیش و طرب

    غلاف اس پہ بانات پر زر کے ٹانک

    شتابی سے نقاروں کو سینک سانک

    دیا چوب کو پہلے بم سے ملا

    لگی پھیلنے ہر طرف کو صدا

    کہا زیر سے بم نے بہر شگوں

    کہ دوں دوں خوشی کی خبر کیوں نہ دوں

    بجے شادیانے جو واں اس گھڑی

    ہوئی گرد و پیش آ کے خلقت کھڑی

    بہم مل کے بیٹھے جو شہنا نواز

    بنا منہ سے پھرکی، لگا اس پہ ساز

    سروں پر وے سر پیچ معمول کے

    خوشی سے، ہوئے گال گل، پھول کے

    لگے لینے اپجیں خوشی سے نئی

    اڑانا لگا بجنے اور سگھڑئی

    ٹکوروں میں نوبت کے شہنا کی دھن

    سگھڑ سننے والوں کو کرتی تھی سن

    ترھی اور قرنائے شادی کے دم

    لگے بھرنے زیل اور کھرج میں بہم

    سنی جھانجھ نے جو خوشی کی نوا

    تھرکنے لگا، تالیوں کو بجا

    نئے سر سے عالم کو عشرت ہوئی

    کہ لڑکے کے ہونے کی نوبت ہوئی

    محل سے لگا تابہ دیوان عام

    عجب طرح کا اک ہوا ازدحام

    چلے لے کے نذریں وزیر و امیر

    لگے کھینچنے زر کے تودے فقیر

    دیے شاہ نے شاہزادے کے نانو

    مشائخ کو اور پیر زادوں کو گانو

    امیروں کو جاگیر، لشکر کو زر

    وزیروں کو الماس و لعل و گہر

    خواصوں کو، خوجوں کو جوڑے دیے

    پیادے جو تھے، ان کو گھوڑے دیے

    خوشی سے کیا یاں تلک زر نثار

    جسے ایک دینا تھا، بخشے ہزار

    کیا بھانڈ اور بھکتیوں نے ہجوم

    ہوئی ’’آہے آہے مبارک‘‘ کی دھوم

    لگا کنچنی، چونا پزنی تمام

    کہاں تک میں لوں نرت کاروں کا نام

    جہاں تک کہ سازندے تھے ساز کے

    دھنی دست کے اور آواز کے

    جہاں تک کہ تھے گایک اور تنت کار

    لگے گانے اور ناچنے ایک بار

    لگے بجنے قانون و بین و رباب

    بہا ہر طرف جوئے عشرت کا آب

    لگی تھاپ طبلوں پہ مردنگ کی

    صدا اونچی ہونے لی چنگ کی

    کمانچوں کو، سارنگیوں کو بنا

    خوشی سے ہر اک ان کی تربیں ملا

    لگا تار پر موم مرچنگ کے

    ملا سر طنبوروں کے یک رنگ کے

    ستاروں کے پردے بنا کر درست

    بجانے لگے سب وے چالاک و چست

    گئی بائیں کی آسماں پر گمک

    اٹھا گنبد چرخ سارا دھمک

    خوشی کی زبس ہر طرف تھی بساط

    لگے ناچنے اس پہ اہل نشاط

    کناری کے جوڑے چمکتے ہوئے

    دو پانوں میں گھنگرو جھنکتے ہوئے

    وہ گھٹنا، وہ بڑھنا اداؤں کے ساتھ

    دکھانا وہ رکھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ

    دو بالے چمکتے ہوئے کان میں

    پھڑکنا وہ نتھنے کا ہر آن میں

    کبھی دل کو پاؤں سے مل ڈالنا

    نظر سے کبھی دیکھنا بھالنا

    دکھانا کبھی اپنی چھب مسکرا

    کبھی اپنی انگیا کو لینا چھپا

    کسی کے وہ مکھڑے پہ نتھ کی پھبن

    کسی کے چمکتے ہوئے نورتن

    وہ دانتوں کی مسی، وہ گل برگ تر

    شفق میں عیاں جیسے شام و سحر

    وہ گرمی کے چہرے، کہ جوں آفتاب

    جسے دیکھ کر دل کو ہو اضطراب

    چمکنا گلوں کا صفا کے سبب

    وہ گردن کے ڈورے قیامت، غضب

    کبھی منہ کے تئیں پھیر لینا ادھر

    کبھی چوری چوری سے کرنا نظر

    دوپٹے کو کرنا کبھی منہ کی اوٹ

    کہ پردے میں ہو جائیں دل لوٹ پوٹ

    ہر اک تان میں ان کو ارمان یہ

    کہ دل لیجئے تان کی جان یہ

    کوئی فن میں سنگیت کے شعلہ رو

    برم، جوگ، لچھمی کی لے، پر ملو

    کوئی ڈیڑھ گت ہی میں پانوں تلے

    کھڑی عاشقوں کے دلوں کو ملے

    کوئی دائرے میں بجا کر پرن

    کوئی ڈھمڈھمی میں دکھا اپنا فن

    غرض ہر طرح دل کو لینا انہیں

    نئی طرح سے داغ دینا انہیں

    کبھی مار ٹھوکر، کریں قتل عام

    کبھی ہاتھ اٹھا، لیویں گرتے کو تھام

    کہیں دھرپت اور گیت کا شور و غل

    کہیں قول و قلبانہ و نقش و گل

    کہیں بھانڈ کے ولولوں کا سماں

    کہیں ناچ کشمیریوں کا وہاں

    منجیرا، پکھاوج، گلے ڈال ڈھول

    بجاتے تھے اس جا کھڑے، باندھ غول

    محل میں جو دیکھو تو اک ازدحام

    مبارک سلامت کی تھی دھوم دھام

    وہاں بھی تو تھی عیش و عشرت کی دھوم

    پری پیکروں کا ہر اک جا ہجوم

    چھٹی تک غرض تھی خوشی ہی کی بات

    کہ دن عید اور رات تھی شب برات

    بڑھے ابر ہی ابر میں جوں ہلال

    محل میں لگا پلنے وہ نو نہال

    برس گانٹھ جس سال اس کی ہوئی

    دل بستگاں کی گرہ کھل گئی

    وہ گل جب کہ چوتھے برس میں لگا

    بڑھایا گیا دودھ اس ماہ کا

    ہوئی تھی جو کچھ پہلے شادی کی دھوم

    اسی طرح سے پھر ہوا وہ ہجوم

    طوائف وہی اور وہی راگ و رنگ

    ہوئی بلکہ دونی خوشی کی ترنگ

    وہ گل پانو سے اپنے جس جا چلا

    وہاں آنکھ کو نرگسوں نے ملا

    لگا پھرنے وہ سرو جب پانو پانو

    کیے بَردے آزاد تب اس کے نانو

    داستان تیاری میں باغ کی

    مے ارغوانی پلا ساقیا!

    کہ تعمیر کو باغ کی دل چلا

    دیا شہ نے ترتیب اک خانہ باغ

    ہوا رشک سے جس کے، لالے کو داغ

    عمارت کی خوبی، دروں کی وہ شان

    لگے جس میں زر بفت کے سا یبان

    چقیں اور پردے بندھے زر نگار

    دروں پر کھڑی دست بستہ بہار

    کوئی دور سے در پر اٹکا ہوا

    کوئی زہ پہ خوبی سے لٹکا ہوا

    وہ مقیش کی ڈوریاں سر بہ سر

    کہ مہ کا بندھا جس میں تار نظر

    چقوں کا تماشا، تھا انکھوں کا جال

    نگہ کو وہاں سے گزرنا محال

    سنہری، مغرق چھتیں ساریاں

    وہ دیوار اور در کی گل کاریاں

    دیے چار سو آئنے جو لگا

    گیا چوگنا لطف اس میں سما

    وہ مخمل کا فرش اس میں ستھرا کہ بس

    بڑھے جس کے آگے نہ پاے ہوس

    رہیں لخلخے اس میں روشن مدام

    معطر شب و روز جس سے مشام

    چھپر کھٹ مرصع کا دالان میں

    چمکتا تھا اس طرح ہر آن میں

    زمیں پر تھی اس طور اس کی جھلک

    ستاروں کی جیسے فلک پر چمک

    زمیں کا کروں دھاں کی کیا میں بیا ں

    کہ صندل کا اک پارچہ تھا عیاں

    بنی سنگ مر مر سے چو پڑ کی نہر

    گئی چارسو، اس کے پانی کی لہر

    قرینے سے گرد اس کے سروسہی

    کچھ اک دور دور اس سے سیب و بہی

    کہوں کیا میں کیفیت دار بست

    لگائے رہیں تاک وہاں مے پرست

    ہواے بہاری سے گل لہلہے

    چمن سارے شاداب اور ڈہڈ ہے

    زمرد کی مانند سبزے کا رنگ

    روش کا، جواہر ہوا جس سے سنگ

    روش کی صفائی پہ بے اختیار

    گل اشرفی نے کیا زر نثار

    چمن سے بھرا باغ، گل سے چمن

    کہیں نرگس و گل، کہیں یاسمن

    چنبیلی کہیں اور کہیں موتیا

    کہیں راے بیل اور کہیں موگرا

    کھڑے شاخ شبو کے ہر جانشان

    مدن بان کی اور ہی آن بان

    کہیں ارغواں اور کہیں لالہ زار

    جدی اپنے موسم میں سب کی بہار

    کہیں چاندنی میں گلوں کی بہار

    ہر اک گل سفیدی سے مہتاب وار

    کھڑے سرو کی طرح چمپے کے جھاڑ

    کہے تو کہ خوش بوئیوں کے پہاڑ

    کہیں زرد نسریں، کہیں نسترن

    عجب رنگ پر زعفرانی چمن

    پڑی آبجو، ہر طرف کو بہے

    کریں قمریاں سرو پر چہچہے

    گلوں کا لب نہر پر جھومنا

    اسی اپنے عالم میں منہ چومنا

    وہ جھک جھک کے گرنا خیابان پر

    نشے کا سا عالم گلستان پر

    لیے بیلچے ہاتھ میں مالنے

    چمن کو لگیں دیکھنے بھالنے

    کہیں تخم پاشی کریں کھود کر

    پنیری جماویں کہیں گود کر

    کھڑے شاخ در شاخ باہم نہال

    رہیں ہاتھ جوں مست گردن پہ ڈال

    لب جو کے آئینے میں دیکھ قد

    اکڑنا کھڑے سرو کا جد نہ تد

    خراماں صبا صحن میں چار سو

    دماغوں کو دیتی پھرے گل کی بو

    کھڑے نہر پر قاز اور قر قرے

    لیے ساتھ مرغابیوں کے پرے

    صدا قر قروں کی، بطوں کا وہ شور

    درختوں پہ بگلے، منڈیروں پہ مور

    چمن آتش گل سے دہکا ہوا

    ہوا کے سبب باغ مہکا ہوا

    صبا جو گئی ڈھیریاں کر کے بھول

    پڑے ہر طرف مونسریوں کے پھول

    وہ کیلوں کی اور مونسریوں کی چھانو

    لگی جائیں آنکھیں لیے جن کا نانو

    خوشی سے گلوں پر سدا بلبلیں

    تعشق کی آپس میں باتیں کریں

    درختوں نے برگوں کے کھولے ورق

    کہ لیں طوطیاں بوستاں کا سبق

    سماں قمریاں دیکھ اس آن کا

    بڑھیں باب پنجم گلستان کا

    دوا، دائیاں اور مغلانیاں

    پھریں ہر طرف اس میں جلوہ کناں

    خواصوں کا اور لونڈیوں کا ہجوم

    محل کی وہ چہلیں، وہ آپس کی دھوم

    تکلف کے پہنے پھریں سب لباس

    رہیں رات دن شاہ زادے کے پاس

    کنیزان مہ رو کی ہر طرف ریل

    چنبیلی کوئی اور کوئی راے بیل

    شگوفہ کوئی اور کوئی کام روپ

    کوئی چت لگن اور کوئی سیام روپ

    کوئی کیتکی اور کوئی گلاب

    کوئی مہ رتن اور کوئی ماہتاب

    کوئی سیوتی اور ہنس مکھ کوئی

    کوئی دل لگن اور تن سکھ کوئی

    ادھر اور ادھر آتیاں جاتیاں

    پھریں اپنے جوبن میں اتراتیاں

    کہیں چٹکیاں اور کہیں تالیاں

    کہیں قہقہے اور کہیں گالیاں

    کہیں اپنی پٹی سنوارے کوئی

    اری اور تری کہہ پکارے کوئی

    بجاتی پھرے کوئی اپنے کڑے

    کہیں ’’ہوئے رے‘‘ اور کہیں ’’واچھڑے‘‘

    دکھاوے کوئی گو کھرو موڑ موڑ

    کہیں سوت بونٹی، کہیں تار توڑ

    ادا سے کوئی بیٹھی حقہ پیے

    دم دوستی کوئی بھر بھر جیے

    کوئی حوض میں جاکے غوطہ لگائے

    کوئی نہر پر پانو بیٹھی ہلائے

    کوئی اپنے توتے کی لیوے خبر

    کوئی اپنی مینا پہ رکھے نظر

    کسی کو کوئی دھول مارے کہیں

    کوئی جان کو اپنی وارے کہیں

    کوئی آرسی اپنے آگے دھرے

    ادا سے کہیں بیٹھی کنگھی کرے

    مقابا کوئی کھول مسی لگائے

    لبوں پر دھڑی کوئی بیٹھی جمائے

    ہوا ان گلوں سے دوبالا سماں

    اسی باغ میں یہ بھی باغ رواں

    غرض لوگ تھے یہ جو ہر کام کے

    سو سب واسطے اس کے آرام کے

    پلا جب وہ اس ناز و نعمت کے ساتھ

    پدر اور مادر کی شفقت کے ساتھ

    ہوئی اس کے مکتب کی شادی عیاں

    ہوا پھر انہیں شادیوں کا سماں

    معلم، اتالیق، منشی، ادیب

    ہر اک فن کے استاد بیٹھے قریب

    کیا قاعدے سے شروع کلام

    پڑھانے لگے علم اس کو تمام

    دیا تھا زبس حق نے ذہن رسا

    کئی برس میں علم سب پڑھ چکا

    معانی و منطق، بیان و ادب

    پڑھے اس نے منقول و معقول سب

    خبردار حکمت کے مضمون سے

    غرض جو پڑھا اس نے، قانون سے

    لگا ہیئت و ہندسہ تا نجوم

    زمیں آسماں میں پڑی اس کی دھوم

    کیے علم نوک زباں حرف حرف

    اسی نحوسے عمر کی اس نے صرف

    عطارد کو اس کی لگی آنے ریس

    ہوا سادہ لوحی میں وہ خوش نویس

    ہوا جب کہ نو خط وہ شیریں رقم

    بڑھا کر لکھے سات سے، نو قلم

    لیا ہاتھ جب خامۂ مشک بار

    لکھا نسخ و ریحان و خط غبار

    عروس الخطوط اور ثلث و رقاع

    خفی و جلی مثل خط شعاع

    شکستہ لکھا اور تعلیق جب

    رہے دیکھ، حیراں، اتالیق سب

    کیا خط گلزار سے جب فراغ

    ہوا صفحۂ قطعہ، گلزار باغ

    کروں علم کو اس کے کیا میں عیاں

    کروں مختصر یاں سے اب یہ بیاں

    کماں کے جو درپے ہوا بے نظیر

    لیا کھینچ چلے میں سب فن تیر

    صفائی میں سو فار، پیکاں کیا

    گیا جب کہ تودے پہ، طوفاں کیا

    رکھا چھوٹتے ہی جو لکڑی پہ من

    لیا اپنے قبضے میں سب اس کا فن

    ہوئیں دست و بازو کی سر سائیاں

    اڑائیں کئی ہاتھ میں گھائیاں

    رکھا موسیقی پر بھی کچھ جو خیال

    کیے قید سب اس نے ہاتھوں میں تال

    طبیعت گئی کچھ جو تصویر پر

    رکھے رنگ سب اس نے مد نظر

    کئی دن میں سیکھا یہ کسب تفنگ

    کہ حیراں ہوئے دیکھ، اہل فرنگ

    سو ان کمالوں کے، کتنے کمال

    مروت کی خو، آدمیت کی چال

    رذالوں سے، نفروں سے نفرت اسے

    غرض قابلوں ہی سے صحبت اسے

    گیا نام پر اپنے وہ دل پذیر

    ہر اک فن میں سچ مچ ہوا بے نظیر

    داستان سواری کی تیاری کے حکم میں

    پلا ساقیا! مجھ کو اک جام مل

    جوانی پر آیا ہے ایام گل

    غنیمت شمر صحبت دوستاں

    کہ گل پنج روز است در بوستاں

    ثمر لے بھلائی کا، گر ہو سکے

    شتابی سے بو لے، جو کچھ بو سکے

    کہ رنگ چمن پر نہیں اعتبار

    یہاں چرخ میں ہے خزان و بہار

    پڑی جب گرہ بارہویں سال کی

    کھلی گل جھڑی غم کے جنجال کی

    کہا شہ نے بلوا نقیبوں کو شام

    کہ ہوں صبح حاضر سبھی خاص و عام

    سواری تکلف سے تیار ہو

    مہیا کریں، جو کہ درکار ہو

    کریں شہر کو مل کے آئینہ ہند

    سواری کا ہو لطف جس سے دو چند

    رعیت کے خوش ہوں صغیر و کبیر

    کہ نکلے گا کل شہر میں بے نظیر

    یہ فرما، محل میں گئے بادشاہ

    نقیبوں نے سن حکم، لی اپنی راہ

    ہوئی شب، لیا مہ نے جام شراب

    گیا سجدۂ شکر میں آفتاب

    خوشی سے گئی جلد جو شب گزر

    ہوئی سامنے سے نمایاں سحر

    عجب شب تھی وہ جوں سحر روسپید

    عجب روز تھا مثل روز امید

    گیا مژدۂ صبح لے ماہتاب

    اٹھا سورج آنکھوں کو ملتا شتاب

    کہا شاہ نے اپنے فرزند کو

    کہ بابا! نہا دھو کے تیار ہو

    داستان حمام کے نہانے کی لطافت میں

    پلا آتشیں آب پیر مغاں!

    کہ بھولے مجھے گرم و سرد جہاں

    اگر چاہتا ہے مرے دل کا چین

    نہ دینا وہ ساغر جو ہو قلتین

    کدورت مرے دل کی دھو ساقیا

    ذرا شیشئہ مے کو دھو دھا کے لا

    کہ سر گرم حمام ہے بے نظیر

    گیا ہے نہانے کو ماہ منیر

    ہوا جب کہ داخل وہ حمام میں

    عرق آ گیا اس کے اندام میں

    تن نازنیں نم ہوا س کا گل

    کہ جس طرح ڈوبے ہے شبنم میں گل

    پرستار، باندھے ہوئے لنگیاں

    مہ و مہر سے طاس لے کر وہاں

    لگے ملنے اس گل بدن کا بدن

    ہوا ڈہڈہا آب سے وہ چمن

    نہانے میں یوں تھی بدن کی دمک

    برسنے میں بجلی کی جیسے چمک

    لبوں پر جو پانی پھرا سر بہ سر

    نظر آئے، جیسے دو گل برگ تر

    ہوا قطرۂ آب یوں چشم بوس

    کہے تو، پڑے جیسے نرگس پہ اوس

    لگا ہونے ظاہر جو اعجاز حسن

    ٹپکنے لگا اس سے انداز حسن

    گیا حوض میں جو شہ بے نظیر

    پڑا آب میں عکس ماہ منیر

    وہ گورا بدن اور بال اس کے تر

    کہے تو کہ ساون کی شام و سحر

    نمی کا تھا بالوں کی عالم عجب

    نہ دیکھی کوئی خوب تر اس سے شب

    کہوں اس کی خوبی کی کیا تجھ سے بات

    کہ جوں بھیگتی جاوے صحبت میں رات

    زمیں پر تھا اک موجۂ نور خیز

    ہوا جب وہ فوارہ ساں آب ریز

    زمرد کے لے ہاتھ میں سنگ پا

    کیا خادموں نے جو آہنگ پا

    ہنسا کھلکھلا وہ گل نو بہار

    لیا کھینچ پانوں کو بے اختیار

    عجب عالم اس نازنیں پر ہوا

    اثر گد گدی کا جبیں پر ہوا

    ہنسا اس ادا سے کہ سب ہنس پڑے

    ہوئے جی سے قربان چھوٹے بڑے

    دعائیں لگے دینے بے اختیار

    کہا: خوش رکھے تجھ کو پرور دگار

    کہ تیری خوشی سے، ہے سب کی خوشی

    مبارک تجھے روز و شب کی خوشی!

    نہ آوے کبھی تیری خاطر پہ میل

    چمکتا رہے یہ فلک کا سہیل

    کیا غسل جب اس لطافت کے ساتھ

    اڑھا کھیس، لائے اسے ہاتھوں ہاتھ

    نہا دھو کے نکلا وہ گل اس طرح

    کہ بدلی سے نکلے ہے مہ جس طرح

    غرض شاہ زادے کو نہلا دھلا

    دیا خلعت خسروانہ پنہا

    جواہر سراسر پنہایا اسے

    جواہر کا دریا بنایا اسے

    لڑی، لٹکن اور کلغی اور نورتن

    عدد ایک سے ایک زیب بدن

    مرصع کا سر پیچ جوں موج آب

    مصفّا بہ شکل گل آفتاب

    وہ موتی کے مالے بہ صد زیب و زین

    کہیں جس کو آرام جاں، دل کا چین

    جواہر کا تن پر عجب تھا ظہور

    کہ ایک ایک عدد اس کا، تھا کوہ طور

    غرض ہو کے اس طرح آراستہ

    خراماں ہوا سرو نوخاستہ

    نکل گھر سے جس دم ہوا وہ سوار

    کیے خوان گوہر کے اس پر نثار

    زبس تھا سواری کا باہر ہجوم

    ہوا جب کہ ڈنکا، پڑی سب میں دھوم

    برابر برابر کھڑے تھے سوار

    ہزاروں ہی تھی ہاتھیوں کی قطار

    سنہری، رپہری تھیں عماریاں

    شب و روز کی سی طرح داریاں

    چمکتے ہوئے بادلوں کے نشان

    سواروں کے غٹ اور بھالوں کی شان

    ہزاروں تھی اطراف میں پالکی

    جھلا بور کی جگمگی نالکی

    کہاروں کی زر بفت کی کرتیاں

    اور ان کے دبے پانو کی پھرتیاں

    بندھیں پگڑیاں تاش کی سر اوپر

    چکا چوندھ میں جس سے آوے نظر

    وہ ہاتھوں میں سونے کے موٹے کڑے

    جھلک جس کی ہر ہر قدم پر پڑے

    وہ ماہی مراتب، وہ تخت رواں

    وہ نوبت، کہ دولھا کا جس سے سماں

    وہ شہنائیوں کی صدا خوش نوا

    سہانی وہ نوبت کی اس میں صدا

    وہ آہستہ گھوڑوں پہ نقارچی

    قدم با قدم بالباس زری

    بجاتے ہوئے شادیا نے تمام

    چلے آگے آگے ملے، شاد کام

    سوار اور پیادے، صغیر و کبیر

    جلو میں تمامی امیر و وزیر

    وے نذریں کہ جس جس نے تھیں ٹھانیاں

    شہ و شاہ زادے کو گزرانیاں

    ہوئے حکم سے شاہ کے پھر سوار

    چلے سب قرینے سے باندھے قطار

    سجے اور سجائے سبھی خاص و عام

    لباس زری میں ملبس تمام

    طرق کے طرق اورپرے کے پرے

    کچھ ایدھر ادھر، کچھ ورے، کچھ پرے

    مرصع کے سازوں سے کوتل سمند

    کہ خوبی میں روح الفرس سے دو چند

    وہ فیلوں کی اور میگ ڈمبر کی شان

    جھلکتے وہ مقیش کے سایبان

    چلی پایۂ تخت کے ہو قریب

    بہ دستور شاہانہ نپتی جریب

    سواری کے آگے کیے اہتمام

    لیے سونے روپے کے عاصے تمام

    نقیب اور جلو دار اور چوبدار

    یہ آپس میں کہتے تھے ہر دم پکار

    اسی اپنے معمول و دستور سے

    ادب سے تفاوت سے اور دور سے

    یلو! نوجوانو! بڑھے جائیو

    دو جانب سے باگیں لیے آئیو

    بڑھے جائیں آگے سے، چلتے قدم

    بڑھے عمر و دولت قدم با قدم

    غرض اس طرح سے سواری چلی

    کہے تو کہ باد بہاری چلی

    تماشائیوں کا جدا تھا ہجوم

    ہر اک طرف تھی ایک عالم کی دھوم

    لگا قلعے سے شہر کی حد تلک

    دکانوں پہ تھی بادلے کی جھلک

    کیا تھا زبس شہر آئینہ بند

    ہوا چوک کا لطف واں چار چند

    منڈھے تھے تمامی سے دیوار و در

    تمامی وہ تھا شہر، سونے کا گھر

    رعیت کی کثرت، ہجوم سپاہ

    گزرتی تھی رک رک کے ہر جانگاہ

    ہوئے جمع کھوٹھوں پہ جو مردوزن

    ہر اک سطح تھی جوں زمین چمن

    یہ خالق کی سن قدرت کا ملہ

    تماشے کو نکلی زن حاملہ

    لگا لنج سے تا ضعیف و نحیف

    تماشے کو نکلے وضیع و شریف

    وحوشوں، طیوروں تلک بے خلل

    پڑے آشیانوں سے اپنے نکل

    نہ پہنچا جو اک مرغ قبلہ نما

    سو وہ آشیانے میں تڑپھا کیا

    زبس شاہ زادہ بہت تھا حسیں

    ہوئے دیکھ عاشق کہین و مہیں

    نظر جس کو آیا وہ ماہ تمام

    کیا اس نے جھک جھک کے اس کو سلام

    دعا شاہ کو دی کہ بار الٰہ!

    سدا یہ سلامت رہے مہر و ماہ

    یہ خوش اپنے مہ سے رہے شہر یار

    کہ روشن رہے شہر، پروردگار!

    غرض شہر سے باہر اک سمت کو

    کوئی باغ تھا شہ کا، اس میں سے ہو

    گھڑی چار تک خوب سی سیر کر

    رعیت کو دکھلا کے اپنا پسر

    اسی کثرت فوج سے ہو سوار

    پھر اشہر کی طرف وہ شہر یار

    سواری کو پہنچا گئی فوج، ادھر

    گئے اپنی منزل میں شمس و قمر

    جہاں تک کہ تھیں خادمان محل

    خوشی سے وہ ڈیوڑھی تک آئیں نکل

    قدم اپنے حجروں سے باہر نکال

    لیا سب نے، آپیشوا، حال حال

    بلائیں لگیں لینے سب ایک بار

    کیا جی کو یک دست سب نے نثار

    گیا جب محل میں وہ سر و رواں

    بندھا ناچ اور راگ کا پھر سماں

    پہر رات تک، پہنے پوشاک وہ

    رہا ساتھ سب کے طرب ناک وہ

    قضارا وہ شب، تھی شب چار دہ

    پڑا جلوہ لیتا تھا ہر طرف مہ

    نظارے سے تھا اس کے، دل کو سرور

    عجب عالم نور کا تھا ظہور

    عجب جوش تھا نور مہتاب کا

    کہے تو کہ دریا تھا سیماب کا

    ہوا شاہ زادے کا دل بے قرار

    یہ دیکھی جو واں چاندنی کی بہار

    کچھ آئی جو اس مہ کے جی میں ترنگ

    کہا: آج کوٹھے پہ بچھے پلنگ

    خواصوں نے جا شاہ سے عرض کی

    کہ شہ زادے کی آج یوں ہے خوشی

    ارادہ ہے کوٹھے پر آرام کا

    کہ بھایا ہے عالم لب بام کا

    کہا شہ نے: اب تو گئے دن نکل

    اگر یوں ہے مرضی تو کیا ہے خلل

    پر اتنا ہے، اس سے خبردار ہوں

    جنھوں کی ہے چوکی، وہ بیدار ہوں

    لب بام پر جب یہ سووے صنم

    کریں سورۂ نور کو اس پہ دم

    تمھارا مرا بول بالا رہے

    یہ اس گھر کا قائم اجالا رہے

    کہا تب خواصوں نے: حق سے امید

    یہی ہے کہ ہم بھی رہیں رو سفید

    پھریں حکم لے وہاں سے پھر شاہ کا

    بچھونا کیا جا کے اس ماہ کا

    قضارا وہ دن تھا اسی سال کا

    غلط وہم ماضی میں تھا حال کا

    سخن مولوی کا یہ سچ ہے قدیم

    کہ آگے قضا کے، ہو احمق حکیم

    پڑے اپنے اپنے جو سب عیش بیچ

    نہ سوجھی زمانے کی کچھ اونچ نیچ

    یہ جانا کہ یوں ہی رہے گا یہ دور

    زمانے کا سمجھا انہوں نے نہ طور

    کہ اس بے وفا کی نئی ہے ترنگ

    یہ گرگٹ بدلتا ہے ہر دم میں رنگ

    کرا بادۂ عیش درجام ریخت

    کہ صد شام بر فرق صبحش نہ پیخت

    نداری تعجب ز نیرنگ دہر

    کہ آرد زیک حقہ تریاک و زہر

    داستان شاہ زادے کے کوٹھے پر سونے کی اور پری کے اڑا کر لے جانے کی

    شتابی سے اٹھ ساقی بے خبر!

    کہ چاروں طرف ماہ ہے جلوہ گر

    بلوریں گلابی میں دے بھر کے جام

    کہ آیا بلندی پہ ماہ تمام

    جوانی کہاں اور کہاں پھر یہ سن

    مثل ہےکہ ہے چاندنی چار دن

    اگر مے کے دینے میں کچھ دیر ہے

    تو پھر جان یہ تو کہ اندھیر ہے

    وہ سونے کا جو تھا جڑاؤ پلنگ

    کہ سیمیں تنوں کو ہو جس پر امنگ

    کھنچی چادر ایک اس پہ شبنم کی صاف

    کہ ہو چاندنی، جس صفا کی غلاف

    دھرے اس پہ تکیے کئی نرم نرم

    کہ مخمل کو ہو جس کے دیکھے سے شرم

    کہاں تک کوئی اس کی خوبی کو پائے

    جسے دیکھ، آنکھوں کو آرام آئے

    کسے اس پہ کسنے وہ مقیش کے

    کہ جھبوں میں تھے جس کے موتی لگے

    سراسر ادقچے رزی باف کے

    کہ تھے رشک آئینہ صاف کے

    وہ گل تکیے اس کے جو تھے رشک ماہ

    کہ ہر وجہ تھی ان کو خوبی میں راہ

    کہوں اس کے گل تکیوں کا کیا بیاں

    کہ بے وجہ رکھتا نہ تھا گال واں

    کبھی نیند میں جب کہ ہوتا تھا وہ

    تو رخسار رکھ اپنا، سوتا تھا وہ

    چھپائے سے ہوتا نہ، حسن اس کا ماند

    کہے تو، لگائے تھے مکھڑے پہ چاند

    زبس نیند میں تھا جو وہ ہورہا

    بچھونے پہ آتے ہی بس سورہا

    وہ سویا جو اس آن سے بے نظیر

    رہا پاسباں اس کا ماہ منیر

    ہوا اس کے سونے پہ عاشق جو ماہ

    لگا دی ادھر اپنی اس نے نگاہ

    وہ مہ اس کے کوٹھے کا ہالا ہوا

    غرض واں کا عالم دو بالا ہوا

    وہ پھولوں کی خوش بو، وہ ستھرا پلنگ

    جوانی کی نیند اور وہ سونے کا رنگ

    جہاں تک کہ چوکی کے تھے باری دار

    ہوا جو چلی، سو گئے ایک بار

    غرض سب کو واں عالم خواب تھا

    مگر جاگتا ایک مہتاب تھا

    قضارا ہوا اک پری کا گزر

    پڑی شاہ زادے پہ اس کی نظر

    بھبھوکا سا دیکھا جو اس کا بدن

    جلا آتش عشق سے اس کا تن

    ہوئی حسن پر اس کے جی سے نثار

    وہ تخت اپنا لائی ہوا سے اتار

    جو دیکھا، تو عالم عجب ہے یہاں

    منور ہے سارا زمیں آسماں

    دوپٹے کو اس مہ کے منہ سے اٹھا

    دیا گال سے گال اپنا ملا

    ہوئی دونوں کے حسن کی ایک جوت

    کہ جیسے وہ دو چشموں کی ایک سوت

    اگرچہ ہوئی تھی زیادہ ہوس

    و لیکن حیا نے کہا اس کو: بس

    مے عشق میں پھر یہ سوجھی ترنگ

    کہ لے چیے اس کا امانت پلنگ

    محبت کی آئی جو دل پر ہوا

    وہاں سے اسے لے اڑی دل ربا

    ہوا جب زمیں سے وہ شعلہ بلند

    ہوا میں ستارہ سا چمکا دو چند

    شب مہ میں یوں وہ زمیں سے اٹھا

    چلے شہر جس طرح سے جوش کھا

    جلے رشک سے اس کے شمع و چراغ

    کہ اس مہ کا پہنچا فلک پر دماغ

    غرض لے گئی آن کی آن میں

    اڑاکر وہ اس کو پرستان میں

    کبھی خوش ہے دل اور کبھی دردمند

    زمانے کی جب سے ہے پست و بلند

    شتابی مجھے ساقیا! دے شراب

    کہ یہ حال سن کر، ہوا دل کباب

    داستان وہاں سے اس کے غائب ہونے کی اور غم سے

    ماں باپ اور سب کی حالت تباہ کرنے کی

    یہاں کا تو قصہ میں چھوڑا یہاں

    ذرا اب سنو غم زدوں کا بیاں

    کروں حال ہجراں زدوں کا رقم

    کہ گزر جدائی سے کیا ان پہ غم

    کھلی آنکھ جو ایک کی واں کہیں

    تو دیکھا کہ وہ شاہ زادہ نہیں

    نہ ہے وہ پلنگ اور نہ وہ ماہ رو

    نہ وہ گل ہے اس جا، نہ وہ اس کی بو

    رہی، دیکھ یہ حال، حیران کار

    کہ یہ کیا ہوا ہاے پروردگار!

    کوئی دیکھ یہ حال، رونے لگی

    کوئی غم سے جی اپنا کھونے لگی

    کوئی بلبلاتی سی پھرنے لگی

    کوئی ضعف ہو ہوکے گرنے لگی

    کوئی سر پہ رکھ ہاتھ، دل گیر ہو

    کوئی بیٹھی ماتم کی تصویر ہو

    کوئی رکھ کے زیر زنخداں چھڑی

    رہی نرگس آسا کھڑی کی کھڑی

    رہی کوئی انگلی کو دانتوں میں داب

    کسی نے کہا: گھر ہوا یہ خراب

    کسی نے دیے کھول سنبل سے بال

    تپانچوں سے، جوں گل، کیے سرخ گال

    نہ بن آئی کچھ ان کو اس کے سوا

    کہ کہیے یہ احوال اب شہ سے جا

    سنی شہ نے القصہ جب یہ خبر

    گرا خاک پر، کہہ کے ہائے پسر!

    کلیجا پکڑ ماں تو بس رہ گئی

    کلی کی طرح سے بکس رہ گئی

    ہوا گم وہ یوسف، پڑی یہ جو دھوم

    کیا خادمان محل نے ہجوم

    کہا شہ نے: واں کا مجھے دو پتا

    عزیزو! جہاں سے وہ یوسف گیا

    گئے لے دوشہ کو لب بام پر

    دکھایا کہ سوتا تھا یاں سیم بر

    یہی تھی جگہ وہ جہاں سے گیا

    کہا: ہائے بیٹا، تو یاں سے گیا!

    مرے نوجواں! میں کدھر جاؤں پیر

    نظر تو نے مجھ پر نہ کی بے نظیر!

    عجب بحر غم میں ڈبویا ہمیں

    غرض جان سے تونے کھویا ہمیں

    کروں اس قیامت کا کیا میں بیاں

    ترقی میں ہر دم تھا شور فغاں

    لب بام کثرت جو یکسر ہوئی

    تلے کی زمیں ساری، اوپر ہوئی

    شب آدھی وہ جس طرح سوتے کٹی

    رہی تھی جو باقی، سو روتے کٹی

    عجب طرح کی شب تھی ہیہات وہ!

    قیامت کا دن تھا، نہ تھی رات وہ!

    سحر نے کیا جب گریبان چاک

    اڑانے لگے مل کے سب سر پہ خاک

    اٹھا شہر میں ہر طرف شور و غل

    کہ غائب ہوا اس چمن سے وہ گل

    غم و درد سے دل جو سب کا بھرا

    ہوا باغ سارا وہ ماتم سرا

    گیا جب کہ وہ سر و اس باغ سے

    نظر پھول، آنے لگے داغ سے

    اکڑنا گئے سرو سب اپنا بھول

    اڑانے لگیں قمریاں سر پہ دھول

    صدا اب جو کوئی انہوں کی سنے

    تو کو کو سے ان کی جگر تک بھنے

    ہوئے خشک اور زرد سارے نہال

    ثمر، لگ کے پاتوں، ہوئے پاے مال

    ترانے سے بلبل کا جی ہٹ گیا

    گلوں کا جگر درد سے پھٹ گیا

    تبسم، کلی حزن سے بھول گئی

    پیا غم سے ازبس لہو، پھول گئی

    اڑا نور نرگس کی آنکھوں کا سب

    ہوئے بال سنبل کے، ماتم کی شب

    لب جو کے اڑانے لگی گرد گرد

    گل اشرفی کا ہوا رنگ زرد

    لگی آگ لالہ کے دل کو تمام

    دیا آگ میں پھینک عشرت کا جام

    پڑا ماتم اس باغ میں بس کہ سخت

    ہوئے نخل ماتم تمامی درخت

    گرے غم سے انگور مدہوش ہو

    پرے سایے سارے سیہ پوش ہو

    لگے تھے جو پتے درختوں کے ساتھ

    وہ ہل ہل کے ملتے تھے آپس میں ہاتھ

    وہ لب ریز جو نہر تھی جا بہ جا

    سو آنکھوں کو ہو رہ گئی ڈبڈبا

    اچھلتے تھے فوارے اس کے جو واں

    گئی سب نکل ان کی تاب و تواں

    مثرہ پر جو کچھ اشک تھے، جھڑ گئے

    غرض روتے روتے گڑھے پڑ گئے

    ہو حال چشموں کا یہاں تک تباہ

    کیا رخت پانی نے اپنا سیاہ

    کہاں وے کنویں اور کدھر آبشار

    کوئی دل میں رووے، کوئی ڈاڑھ مار

    نہ بگلوں کا عالم نہ وے قر قرے

    نہ وے آبجوئیں، نہ سبزے ہرے

    جہاں رقص کرتے تھے طاؤس باغ

    لگے بولنے ان منڈیروں پہ زاغ

    سہانی وہ چھائیں، جو دل چسپ تھیں

    سو کیا ہو کہ اب دل لگے واں کہیں

    منقش جہاں تھے وے رنگیں مکاں

    ہوئے سب وہ جوں دیدۂ خوں چکاں

    گلوں کی طرح کھل رہے تھے جو دل

    سووے سب خزاں سے ہوئے مضمحل

    خزاں کا علم واں جو آکر گڑا

    جگر، برگ گل کی طرح جھڑ پڑا

    نہ غنچہ، نہ گل، نے گلستاں رہا

    فقط دل میں اک خار ہجراں رہا

    وزیروں نے دیکھا جو احوال شاہ

    کہ ہوتی ہے اب اس کی حالت تباہ

    کہا سب نے، سمجھا کے اس شاہ کو

    کہ دیکھو گے تم اپنے اس ماہ کو

    اگرچہ جدائی گوارا نہیں

    ولیکن خدائی سے چارا نہیں

    سدا ایک سا دن گزرتا نہیں

    کوئی، ساتھ مرتے کے، مرتا نہیں

    نہیں خوب اتنا تمہیں اضطراب

    نصیبوں سے شاید ملے وہ شتاب

    خدا جانے اب اس میں کیا بھید ہے

    یہ کہتے ہیں: جنیوں کو امید ہے

    ندانم کہ تا کردگار جہاں

    دریں آشکار چہ دارد نہاں

    خدا کی خدائی تو معمور ہے

    غرض، اس کے نزدیک کیا دو رہے!

    نہیں ایک صورت پہ کوئی مدام

    اسی کی، غرض، ذات کو ہے قیام

    یہ کہہ اور شہ کو بٹھا تخت پر

    بہ ہر نوع رہنے لگے یک دگر

    لٹایا بہت باپ نے مال و زر

    و لیکن نہ پائی کچھ اس کی خبر

    ذرا خضر رہ تو ہی ہو ساقیا!

    مجھے دے کے مے، کھوج اس کابتا

    نہ پائی کہیں یاں جو اس گل کی بو

    کروں اب پرستا ن میں جستجو

    داستا پرستان میں لے جانے کی۔

    اڑی جو پری واں سے لے کر اسے

    اتار ا پرستاں کے اندر اسے

    وہاں ایک تھا سیر کا اس کی باغ

    کہ جس کے گلوں سے ہو تازہ دماغ

    ریاچین و گل اس میں انواع کے

    طلسمات کل اس میں انواع کے

    طلسمات کے سارے دیوار و در

    نہ یاں کے سے کوٹھے، نہ یاں کے سے گھر

    مطلّا منقش، مشبک تمام

    یہ کیا ہو جو ہو دھوپ کا اس میں نام

    گرے چھن کے وہاں اس لطافت سے دھوپ

    کہ زردی کا جوں زعفراں پر ہو روپ

    نہ آتش کا خطرہ، نہ باراں کا ڈر

    نہ سردی، نہ گرمی کا اس میں خطر

    جدے اور ملے سب گلوں کے مکاں

    جہاں چاہیے، جا کے رکھ دیں وہاں

    درخشندہ ہر سقف دالان کی

    ہو دیوار جیسی چراغان کی

    زمیں واں کی ساری جواہر نگار

    ادھر میں چمن اور ہوا میں بہار

    کسی کو ہو جس چیز کا اشتیاق

    نظر آوے وہ چیز بالاے طاق

    جواہر کے ذی روح و حش و طیور

    خراماں پھریں صحن میں دور دور

    پھریں دن کو سارے وہ حیوان ہو

    کریں رات کو کام، انسان ہو

    لگے ہر طرف گوہر شب چراغ

    وہی دن کو گوہر، وہی شب، چراغ

    بنائے ہوئے جال باہم نہال

    گل و غنچہ سب واں کے، دور از خیال

    صدا آپ سے آپ گھڑیال کی

    کہیں ناچ کی اور کہیں تال کی

    رہے واں کے حجروں کا جو در کھلا

    تو دنیا کے باجوں کی آوے صدا

    وگر بند کردیجیے ایک بار

    تو جوں ارغنوں راگ نکلیں ہزار

    مکانوں میں مخمل کا فرش و فروش

    بہ خط سلیمانی اس پر نقوش

    طلسمات کے پردے اور چلو نیں

    ارادے پہ دل لے اٹھیں اور گریں

    خواصیں پری زاد اس میں تمام

    پھریں گرد گرد اس پری کے مدام

    سر نہر بنگلا مرصع نگار

    سراپا بہ رنگ گہر آب دار

    رکھا شاہ زادے کا اس میں پلنگ

    کھلا حسن سے اس کے بنگلے کا رنگ

    قضارا، کھلی آنکھ اس گل کی جو

    نہ پائی وہاں شہر کی اپنے بو

    نہ وے لوگ دیکھے، نہ وہ اپنی جا

    تعجب سے ایک ایک کو تک رہا

    اچنبھے کا یہ خواب دیکھا جو واں

    لگا کہنے یارب، میں آیا کہاں!

    زبس تھا وہ لڑکا، تو سہماں بھی کچھ

    ہوا کچھ دلیر اور حیراں بھی کچھ

    سرہانے جو دیکھی مہ چاردہ

    کہ ہے اجنبی سی وہ اک رشک مہ

    کہا: کون ہے تو؟ یہ کس کا ہے گھر؟

    لے آیا مجھے کون گھر سے ادھر

    پھر امنہ کو اور لے ادھر سے نقاب

    دیا اس پری نے یہ ہنس کر جواب

    خدا جانے تو کون ، میں کون ہوں

    مجھے بھی تعجب ہے، میں کیا کہوں!

    پر اب تو تو مہمان ہے میرے گھر

    لے آئی ہے تجھ کو قضا و قدر

    یہ گھر گو کہ میرا ہے، تیرا نہیں

    پر اب گھر یہ تیرا ہے، میرا نہیں

    ترے عشق نے مجھ کو شیدا کیا

    ترا غم مرے دل میں پیدا کیا

    چھڑا کر ترا تجھ سے شہر و دیار

    یہ بندی ہی لائی ہے تقصیر وار

    پری ہوں میں اور یہ پرستان ہے

    یہاں سب یہ قوم بنی جان ہے

    کہاں صورت جن، کہاں شکل انس

    غرض قہر ہے صحبت غیر جنس

    پری کو ہوئی شادی، اس مہ کو غم

    پہ لاچار کیا کرسکے وہ صنم

    کبھی یوں بھی ہے گردش روزگار

    کہ معشوق، عاشق کے ہو اختیار

    بہ جبراً دل اپنا لگایا وہاں

    کہا اس نے جو کچھ، کہا اس کو ہاں

    ولیکن نہ عقل و نہ ہوش و حواس

    رہے وحشیوں کی طرح وہ اداس

    کبھی اشک آنکھوں میں بھر لائے وہ

    کبھی سانس لے کر کہے ہاے، وہ

    وہ محلوں کی چہلیں، وہ گھر کا سماں

    رہے روبہ رو دھیان میں ہر زماں

    وہ شفقت جو ماں باپ کی یاد آئے

    تو راتوں کو رو رو کے دریا بہائے

    کبھی اپنی تنہائی پر غم کرے

    کبھی اپنے اوپر دعا دم کرے

    کرے یاد جب اپنے ناز و نعم

    فغاں زیر لب وہ کرے دم بہ دم

    بہانے سے دن رات سویا کرے

    نہ ہو جب کوئی، تب وہ رویا کرے

    غرض اضطراب اس کو ہر حال میں

    کہ جوں مرغ تڑپھے نیا جال میں

    غرض، ماہ رخ اس پری کاتھا نام

    پدر سے کیا تھا یہ پوشیدہ کام

    کبھی گھر میں رہتی، کبھی رہتی واں

    کہ تا راز اس کا نہ ہووے عیاں

    وہ پریوں میں ازبس کہ تھی ذی شعور

    نئی چیز لاتی تھی اس کے حضور

    عجائب، غرائب پرستان کے

    دکھاتی تھی ہر شب اسے آن کے

    نئے کھانے اور میوے اقسام کے

    مہیا سب اسباب آرام کے

    نئی کشتیاں روز پوشاک کی

    خوشامد سدا جان غم ناک کی

    نئے سانگ واں کے، نئے راگ رنگ

    کہ تا دل لگے اور نہ ہو جی بہ تنگ

    شرابوں کے شیشے چنے طاق میں

    گزک وہ کہ نکلے نہ آفاق میں

    شراب و کباب و بہار و نگار

    جوانی و مستی و بوس و کنار

    نہ تھا اور کچھ غم تو اس کو وہاں

    بغیر از غم دوری دوستاں

    اسی غم سے گھل گھل کے مرتا تھا وہ

    سدا شمع ساں آہ کرتا تھا وہ

    ادھر چار نا چار جھکتا تھا وہ

    ولے غیر جنسی سے رکتا تھا وہ

    پری وہ، جو تھی دل لگائے ہوئے

    وہ بیٹھی تھی اس کو اڑائے ہوئے

    وہ تھی نازنیں بھی بہت عقل مند

    نہ کھلنے سے کچھ اس کے، ہوتی تھی بند

    کہا ایک دن اس نے: سن بے نظیر!

    مرے دام میں تو ہوا ہے اسیر

    تو اک کام کر، اک پہر بھر کہیں

    کیا کر ٹک اک سیر روے زمیں

    تو رک رک کے، دل کو نہ کر اپنے بند

    نہ پہنچے کہیں تیرے جی کو گزند

    سر شام جاتی ہوں میں باپ پاس

    اکیلا تو رہتا ہے اس جا اداس

    یہ گھوڑا میں دیتی ہوں کل کا تجھے

    ولیکن یہ دے تو مچلکا مجھے

    کہ گر شہر کی طرف جاوے کہیں

    ویا دل کسی سے لگاوے کہیں

    تو پھر حال ہو جو گنہ گار کا

    وہی حال ہو تجھ سے دل دار کا

    کہا: کیونکی میں تم کو جاؤں گا بھول

    مجھے، جو کہا تم نے، سو سب قبول

    کہا ماہ رخ نے کہ تھے تیرے بخت

    کہ بخشا تجھے میں سلیماں کا تخت

    جو اترے، تو کل اس کی یوں جوڑیو

    جو برعکس چاہے، توووں موڑیو

    زمیں سے لگا اور تا آسماں

    جہاں چاہیو، جائیو تو وہاں

    داستان گھوڑے کی تعریف میں۔

    کہوں کیا میں اس اسپ کی خوبیاں

    پرندوں میں کب ہوں یہ مجبوریاں

    ذرا کل کے موڑے فلک پر ہوا

    جو کہیے، تو کہیے اسے باد پا

    نہ کھاوے، نہ پیوے، نہ سووے کبھی

    نہ ٹاپے، نہ بیمار ہووے کبھی

    نہ حشری، نہ گمری، نہ شب کور وہ

    نہ وہ کہنہ لنگ اور نہ منہ زور وہ

    نہ ہڈوں کا، نے موتروں کا خلل

    نہ پیشانی اوپر ستارے کا بل

    نہ ساپن، نہ ناگن، نہ بھنوری کا ڈر

    ہر اک عیب سے وہ غرض بے خطر

    یہ گھوڑا جو اس کل کے تھا بخش کا

    ’’فلک سیر‘‘ تھا نام اس رخش کا

    سر شام وہ بے نظیر جہاں

    اسی رخش پر ہو کے جلوہ کناں

    ہر اک طرف سے ہو گزرتا تھا وہ

    وہی اک پہر سیر کرتا تھا وہ

    پہر جب کہ بجتا، تو پھر تا شتاب

    کہ پھر قہر تھا ماہ رخ کا عتاب

    داستان وارد ہونے میں بے نظیر کے بدر منیر کے

    باغ میں اور شاہ زادی کے عاشق ہونے میں

    کدھر ہے تو اے ساقی شوخ رنگ!

    کہ آیا ہوں میں بیٹھے بیٹھے بہ تنگ

    پلا مجھ کو دارو کوئی تیز و تند

    کہ ہوتا چلا ہے مر ذہن کند

    مرے تو سن طبع کو پر لگا

    مجھے یاں سے لے چل فلک پر اڑا

    سنو ایک دن کی یہ تم واردات

    اٹھا سیر کو بے نظیر ایک رات

    ہوا ناگہاں اس کا اک جا گزر

    سہانا سا اک باغ آیا نظر

    سفید ایک دیکھی عمارت بلند

    کہ تھی نور میں چاندنی سے دو چند

    وہ چھٹکی ہوئی چاندنی جا بہ جا

    وہ جاڑے کی آمد، وہ ٹھنڈی ہوا

    وہ نکھرا فلک اور مہ کا ظہور

    لگا شام سے صبح تک وقت نور

    یہ عالم جو بھایا تو کوٹھے پہ آ

    اتر اپنے گھوڑے سے اور سر جھکا

    لگا جھانکنے اس مکاں کے تئیں

    کہ دیکھوں تو یاں کوئی ہے یا نہیں

    جو دیکھے تو ایسا کچھ آیا نظر

    کہ سب کچھ گیا اس کے جی سے اتر

    کہا جی سے: اب تو جو کچھ ہو سو ہو

    ذرا چل کے اس سیر کو دیکھ لو

    یہ کہہ، نیچے اترا دبے پانو وہ

    نظر سے بچائے ہوئے چھانو وہ

    الگ کھول ہاتھوں سے واں کے کواڑ

    چلا سایہ سایہ درختوں کی آڑ

    تھے اک طرف گنجان باہم درخت

    کہ لپٹے ہوں جس طرح مشتاق سخت

    لگا واں سے چھپ چھپ کے کرنے نظر

    درختوں سے جوں ماہ ہو جلوہ گر

    جو دیکھے تو صحبت عجب ہے وہاں

    عجب چاندنی ہے، عجب ہے سماں

    عجب صورتیں اور طرفہ محل

    چلا، دیکھتے ہی، دل اس کا نکل

    ملی جنس کی اس کو جو اپنی بو

    لگا تکنے حیرت سے، حیران ہو

    نظر آئی وہاں چاندنی کی بہار

    کہ آنکھوں نے کی خیرگی اختیار

    در و بام یک لخت سارے سفید

    ہر اک طاق، محراب صبح امید

    مغرق زمیں پر تمامی کا فرش

    جھلک جس کی، لے فرش سے تابہ عرش

    زمیں کا طبق، آسماں کا طبق

    سنہری، رپہری ہوں جیسے ورق

    بلوریں دھرے ہر طرف سنگ فرش

    کہ جس سے منور رہے رنگ فرش

    گئی اس کے عالم پہ جس دم نگاہ

    اور آیا نظر اس کو اک رشک ماہ

    طرح اس کی، ہر دل کی مانوس تھی

    کہ گویا وہ شیشے کی فانوس تھی

    کہیں، دیکھ اس کے تئیں ہوش مند

    پری کو کیا ہے گا شیشے میں بند

    ہر اک سمت واں نور کا ازد حام

    لگے آئنے قد آدم تمام

    لپٹیے ہوئے بادلوں سے درخت

    زمین و ہوا، صاحب تاج و تخت

    ملبب وہ چوپڑ کی پاکیزہ نہر

    پڑے چشمۂ ماہ سے جس میں لہر

    لب بہر پر صاف جو غور کی

    تو پٹری تھی وہ ایک بلور کی

    پڑے اس میں فوارے چھٹتے ہوئے

    ہوا بیچ موتی سے لٹتے ہوئے

    مقرض پڑا اس میں مقیش جو

    گراماہ واں رشک سے پرزے ہو

    لیے گود مقیش چھوٹے بڑے

    سبھی مہ ستارے اڑادیں کھڑے

    غرض اپنی صنعت سے، تاروں کو توڑ

    زمیں کو فلک کا بناتے تھے جوڑ

    ہوا میں وہ جگنو سے چمکیں بہم

    ملیں جلوۂ مہ کو زیر قدم

    فقط چاندنی میں کہاں طور یہ

    کہ طرہ نہ جب تک ملے اور یہ

    زمانہ زر افشاں، ہوا زر فشاں

    زمیں سے لگاتا سما زر فشاں

    گل و غنچہ، نسرین و تاج خروس

    زمین چمن سب جبین عروس

    خراماں زری پوش ہر ماہ وش

    کریں، دیکھ کر مہر و مہ جن کو، غش

    کھڑا ایک نم گیرۂ زر نگار

    کہ تھے جس کی جھالر پہ موتی نثار

    جڑاؤ وہ استادے الماس کے

    ڈھلے ایک سانچے کے، اک راس کے

    کھنچی ڈور ہر طرف زر تار کی

    لڑی جوں کناری کے ہوں ہار کی

    کہوں کیا میں جھالر کی اس کی پھبن

    کہ سورج کے ہو گرد جیسے کرن

    مغرق بچھی مسند اک جگمگی

    کہ تھی چاندنی جس کے قدموں لگی

    نہ پھولے سماتے تھے تکیے دھرے

    کہ تھے وے فقط حسن سے ہی بھرے

    بلوریں صراحی وہ جام بلور

    دل ودیدہ وقف تماشاے نور

    زمیں نور کی، آسماں نور کا

    جدھر دیکھو اودھر سماں نور کا

    چمن سارے داؤدیوں سے بھرے

    جوانان شبو کے ہر جا پرے

    ستاروں کا مہتاب میں حال یوں

    کہ چونے میں پانی کے قطرےہوں جوں

    اگر کیجیے سایے اوپر نگاہ

    تو ہے وہ بھی جوں سایۂ مہر و ماہ

    کرے ہے نگہ جس طرف کو گزر

    بجز نور آتا نہیں کچھ نظر

    کرے کون سے حسن کو انتخاب

    ہر اک آئنے میں وہی ماہتاب

    نظر جس طرف جائے نزدیک و دور

    اسی ایک مہ کا ہے ہر جا ظہور

    نکل اپنی وحدت سے، کثرت میں آ

    وہی نور ہے جلوہ گر جا بہ جا

    نئے رنگ سے ہر طرف ماہتاب

    وہی ایک نکتہ کہ جس کی کتاب

    حقیقت کی لیکن بصارت بھی ہو

    کہ دیکھے نہ، اس کے سوا غیر کو

    داستان بدر منیر کی تعریف میں۔

    گلابی مرے سامنے ساقیا!

    مہ چار دہ کو دکھا کر ہلا

    کہ دیکھے سے ہو جس کے، دل کو سرور

    نظر کام کر جائے نزدیک و دور

    کروں اس مکاں کی مکیں کا بیاں

    کہ ہے بعد خاتم نگیں کا بیاں

    وہ مسند جو تھی موج دریاے حسن

    وہاں دیکھی اک مسند آراے حسن

    برس پندرہ ایک کا سن و سال

    نہایت حسیں اور صاحب جمال

    دیے کہنی تکیے پہ اک ناز سے

    سر نہر بیٹھی تھی انداز سے

    خواصیں کھڑیں ایدھر اودھر تمام

    ستاروں کا جوں ماہ پر ازدحام

    وہ بیٹھی تھی سج دھج بنائے ہوئے

    دل اس چاندنی پر لگائے ہوئے

    ادھر آسماں پر درخشندہ مہ

    ادھر یہ زمیں پر مہ چار دہ

    پڑا عکس دونوں کا جوں نہر میں

    لگا لوٹنے چاند ہر لہر میں

    نظر آئے اتنے جو اک بار چاند

    زمانے کے منہ کو لگے چار چاند

    عجب طرح کا حسن تھا جاں فزا

    کہ مہ رو بہ رو جس کے تھا ٹھیکرا

    کہوں اس کی پوشاک کا کیا بیاں

    فقط ایک پشواز آب رواں

    زبس موتیوں کی تھی سنجاف گل

    کہے تو وہ بیٹھی تھی موتی میں تل

    اور اک اوڑھنی، جوں ہوا یا حباب

    جسے دیکھ، شبنم کو آوے حجاب

    صباحت، صفا اس میں جھلکی ہوئی

    پڑی سر سے کاندھے پہ ڈھلکی ہوئی

    گریباں میں تکملہ اک الماس کا

    ستارہ سا مہتاب کے پاس کا

    وہ کرتی، وہ انگیا جواہر نگار

    نیا باغ اور ابتدا کی بہار

    وہ چھب تختی اور اس کی کرتی کا چاک

    تڑاقے کی انگیا کسی ٹھیک ٹھاک

    جھلک پایجامے کی دامن سے یوں

    نظر آئے آئینے میں برق جوں

    صفائی یہ پوشاک کی دیکھیو

    نظر سوچ میں ہے کہ میلی نہ ہو

    وہ ترکیب اور چاند سا وہ بدن

    وہ بارو پہ ڈھلکے ہوئے نورتن

    جڑاؤ ووبالے کہ ہالے کا رشک

    وہ موتیکے مالے کہ عاشق کا اشک

    وہ آنکھوں کی مستی، وہ مژگاں کی نوک

    کرن پھول کی اور بالے کی جھوک

    وہ موتی کا دلڑا، وہ موتی کا ہار

    سدا اشک غم دیدہ جس پر نثار

    لگا دھکدھکی، پچ لڑا، ست لڑا

    سراسر گلے حسن اس کے پڑا

    جڑاؤ دمکتی وہ چمپا کلی

    رہے جس سے الماس کو بے کلی

    تلے اس کے، موتی لگے گرد گل

    کہ جوں شبنم آلودہ ہو برگ گل

    جہاں گیریوں کا کروں کیا بیاں

    کہ اٹھتا تھا ہاتھوں سے اس کے فغاں

    جواہر سے مینے کی ہیکل جڑی

    کمر اور کولے کے نیچے پڑی

    فقط موتیوں کی پری پائے زیب

    کہ جس کے قدم سے گہر پائے، زیب

    سراپا اگر ہو زباں، میرا تن

    سراپا میں اس کے کروں کیا سخن

    سب اعضا بدن کے موافق، درست

    ہر اک کام میں اپنے چالاک و چست

    جہاں راستی چاہیے، راستی

    کجی جس جگہ چاہیے، واں کجی

    وہ مکھڑا جسے دیکھ، مہ داغ کھائے

    وہ نقشہ، کہ تصویر کو حیرت آئے

    جو کچھ چاہیے، ٹھیک نکھ سکھ سے انگ

    نزاکت بھرا سیوتی کا سا رنگ

    کچھ اک تمکنت اور کچھ اک بانکپن

    غرض ہر طرح میں انوٹھی پھبن

    کرشمہ ادا غمزہ ہر آن میں

    غرض دل بری اس کے فرمان میں

    تغافل، حیا، نازو شوخی، غرور

    ہر اک اپنے موقعے سے وقت ضرور

    تبسم، تکلم، ترحم، ستم

    موافق ہر اک حوصلے کے کرم

    وہ ابرو کہ محراب ایوان حسن

    جھکی شاخ نخل گلستان حسن

    نگہ آفت و چشم عین بلا

    مژہ دے صفوں کی الٹ بر ملا

    درگوش جب اس کا تابندہ ہو

    صدف کا دل صاف شرمندہ ہو

    وہ بینی کہ جس کی نہیں کچھ نظیر

    ہے انگشت قدرت کی سیدھی لکیر

    وہ رخسار نازک کہ ہو جائے لال

    اگر اس پہ بوسے کا گزرے خیال

    نہیں رطب و یا بس کا یاں کچھ حساب

    بیاض گلو سب کی سب انتخاب

    وہ ساعد، وہ بازو بھرے گول گول

    برابر ہو الماس کے جس کا مول

    وہ دست حنا بستہ خوبی کے باب

    شفق میں ہو جوں پنجٔہ آفتاب

    زبس مثل آئینہ تھا اس کا تن

    کہے تو کہ تھی ناف، عکس ذقن

    کمر کو کہوں کیونکے میں اس کی ہیچ

    نہ آوے نظر، تو ہے قسمت کا پیچ

    وہ زانو کہ آ جائے گر اس پہ ہاتھ

    تو پھر عمر بھر ہاتھ، زانو کے ساتھ

    وہ ساق بلوریں، وہ انداز پا

    پھرے ہر سحر چشم و دل میں سدا

    قدوقامت آفت کا ٹکڑا تمام

    قیامت کرے جس کو جھک کر سلام

    وہ اٹھکھیلیاں اور اس کی وہ چال

    کہ دل جس سے عالم کا ہو پایمال

    بنا کبک کیسی ہی گو چال لائے

    کہاں، پر وہ رفتار کو اس کی پائے

    الگ چال اس کی کوئی کیا چلے

    یہ انداز سب اس کے پانوں تلے

    عجب پشت پا، صاف انگشت پا

    کف پا، دکھاوے سر پشت پا

    مغرق جواہر سے اک جفت کفش

    نہ وہ مفت پا، بلکہ پا، مفت کفش

    یہ قدرت کا دیکھا جو اس نے خیال

    کہا شاہ زادے نے: یا ذوالجلال!

    درختوں سے وہ دیکھتا تھا نہاں

    کسی کی نظر جا پڑی ناگہاں

    جو دیکھے تو ہے اک جوان حسیں

    درختوں کی ہے اوٹ ماہ مبیں

    یہ چرچا جو پھیلا تو ظاہر ہوا

    ہر اک حال سے اس کے ماہر ہوا

    یہ سن ایک سے ایک، واں سب کی سب

    بھریں برگ گل کی طرح غنچہ لب

    جو دیکھیں تو شعلہ سا روشن ہے کچھ

    درختوں کا روشن سا آنگن ہے کچھ

    کسی نے کہا: کچھ نہ کچھ ہے بلا

    کسی نے کہا: چاند ہے یاں چھپا

    کسی نے کہا: ہے پری یا کہ جن

    کسی نے کہا: ہے قیامت کا دن

    لگی کہنے، ماتھا کوئی اپنا کوٹ

    ستارہ پڑا ہے فلک پر سے ٹوٹ

    ہوئی صبح، شب کا گیا اٹھ حجاب

    درختوں میں نکلا ہے یہ آفتاب

    کسی نے کہا: دیکھیو اے بوا!

    کھڑا ہے کوئی صاف یہ مردوا

    کسی نے کہا: یہ تو دل دار ہے

    کسی نے کہا: کچھ یہ اسرار ہے

    یہ آپس میں باتیں جو ہونے لگیں

    اشاروں سے گھاتیں جو ہونے لگیں

    گئی بات یہ شاہ زادی کے گوش

    یہ سننے ہی جاتا رہا اس کا ہوش

    کہا: میں تو دیکھوں، یہ کہہ کر اٹھی

    گیا سنسناجی، تو رہ کر اٹھی

    خواصوں کے کاندھے پہ دھر اپنا ہاتھ

    عجب اک ادا سے چلی ساتھ ساتھ

    کچھ اک خوف سے ہول کھاتی ہوئی

    دھڑک اپنے دل کی مٹاتی ہوئی

    کئی ہمد میں، تھیں جو کچھ کچھ پڑھیں

    دعائیں وہ پڑھ پرھ کے آگے بڑھیں

    گئیں جب وے، کر کے دل اپنا کرخت

    وہاں، جس جگہ تھے وے باہم درخت

    لگیں جھانکنے سب کی سب وے شریر

    یکایک نظر واں پڑا بے نظیر

    جو دیکھیں، تو ہے اک جوان حسیں

    کھڑا ہے وہ آئینہ ساں مہ جبیں

    سر کنے کی وہاں سے نہ جاگہ نہ ٹھانو

    دیے حیرت عشق نے گاڑ پانو

    برس پندرہ یا کہ سولہ کا سن

    مرادوں کی راتیں، جوانی کے دن

    نئی پشت لب سے مسوں کی نمود

    بنا آتش لعل شیریں کا دود

    گلے میں پڑا نیمہ شبنم کا ایک

    بدن سے عیاں نور عالم کا ایک

    تمامی کی سنجاف جلوہ کناں

    کہ جوں عکس مہ زیر آب رواں

    طرح دار اک سر پہ پھینٹا سجا

    تمامی کا پٹکا کمر سے بندھا

    عجب پیچ سے پیچ بیٹھے تھے مل

    کہ ہر پیچ پر پیچ کھاتا تھا دل

    جواہر کا تکمہ گلے میں لگا

    ستارہ ہو جوں صبح کا جگمگا

    وہ موتی کا لٹکن، زمرد کی ہر

    لٹک جس کی زیبندہ دستار پر

    کھینچے ابرو اور چشم مست غرور

    بھرے گال چہرے کے خورشید نور

    وہ گورا بدن صاف ترکیب دار

    بھرے ڈنڈ پر نورتن کی بہار

    اک الماس کی ہاتھ انگشتری

    سراسر حنا دست و پا میں لگی

    عیاں چستی و چابکی گات سے

    نمود جوانی ہر اک بات سے

    بدن آئنہ ساں دمکتا ہوا

    گل باغ خوبی لہکتا ہوا

    اکڑ زلف کی اور کاکل کا بل

    جوانی کی شب کا سماں بر محل

    قیافے سے ظاہر سراپا شعور

    جبیں پر برستا شجاعت کا نور

    ولے، عشق کی تیغ کھائے ہوئے

    کھڑا دل کسی پر لگائے ہوئے

    یہ دیکھا جو عالم، تو غش کر گئیں

    وہ جتنی کہ آئیں تھیں، سو مر گئیں

    شتابی سے جاکر کہا واں کا حال

    کہ اے شاہ زادی صاحب جمال!

    عجب سیر ہے سیر مہتاب میں

    یہ عالم تو دیکھا نہیں خواب میں

    کہے سے ہمارے نہ مانوگی تم

    جو دیکھو گی آنکھوں، تو جانو گی تم

    اٹھا پاے گل گوں کو جلدی نگار!

    نہ جاوے کہیں ہاتھ سے یہ بہار

    نہیں اور کچھ، تم نہ کیجو ہراس

    چلی آؤ ٹک ان درختوں کے پاس

    گئی اس جگہ جب یہ بدر منیر

    اور اس نے جودیکھا شہ بے نظیر

    گئے، دیکھتے ہی، سب آپس میں مل

    نظر سے نظر، جی سے جی، دل سے دل

    غرض بے نظیر اور بدر منیر

    گرے دونوں آپس میں ہو کر اسیر

    رہی کچھ نہ تن من کی سدھ بدھ اسے

    نہ کچھ اپنے تن کی رہی سدھ اسے

    تھی ہمراہ ایک اس کے دخت وزیر

    نہایت حسیں اور قیامت شریر

    زبس تھی ستارہ سی وہ دل ربا

    اسے لوگ کہتے تھے نجم النسا

    شتابی سے لا اس نے چھڑکا گلاب

    تب آئی تنوں میں ذرا ان کے تاب

    وہ اٹھتے تو اٹھی، پہ حیران سی

    گل شبنم آلودہ گریان سی

    وہ شہ زادہ ٔدل شدہ تو ٹھٹھک

    وو نہیں رہ گیا نقش پا سا بھچک

    کہ وہ نازنیں کچھ جھجھک، منہ چھپا

    کمر اور چوٹی کا عالم دکھا

    چلی اس کے آگے سے منہ موڑ کر

    وو نہیں نیم بسمل اسے چھوڑ کر

    وہ گدی، وہ شانے، وہ پشت و کمر

    وہ چوٹی کا کولے پہ آنا نظر

    داستان زلف اور چوٹی کی تعریف و صحبت اول کے بیان میں۔

    پلا ساقیا! ساغر مشک بو

    کہ مجھ کو ہے در پیش تعریف مو

    سرشام سے دیے یہاں تک شراب

    کہ مستی میں دیکھوں رخ آفتاب

    کروں اس کے بالوں کا کیا میں بیاں

    نہ دیکھا کسی رات میں یہ سماں

    وہ زلفیں کہ دل جس میں الجھا رہے

    الجھنے سے، جی، جن کے سلجھا رہے

    وہ کنگھی۔ وہ چوٹی کھنچی صاف صاف

    کناری کا پیچھے چمکتا مباف

    کہوں اس کی خوبی کا کیا رنگ ڈھنگ

    کہ جوں آخری شب ہو جھمکے کا رنگ

    نمایاں تھی یوں اوڑھنی سے جھلک

    کہ جوں ابر میں برق کی ہو چمک

    مباف زری نے کیا ہے غضب

    دیا ہے گرہ دن کو دنبال شب

    سنگاروں میں گو سب سے ہے وہ اتار

    پہ کہتے ہیں چوٹی کا اس کو سنگار

    نہ ہو کیونکے چوٹی کا رتبہ بڑا

    کہ اک نور ہے اس کے پیچھے پڑا

    گل و سنبل اس پر سے قربان ہے

    کہ اس کی لٹک میں عجب آن ہے

    لڑی تھی زبس سحر سے اس کی سانٹھ

    شب و روز کو دے رکھا اس نے گانٹھ

    ولے ہاتھ آنا ہے اس کا کٹھن

    کہ ہے فی الحقیقت وہ کالے کا من

    الٹ کر نہ دیکھے اسے ہوشیار

    کہ وہ اک ستارہ ہے دنبالہ دار

    کہوں اس کے عالم کا کیا ماجرا

    کہ جوں ہووے دریا پہ کالی گھٹا

    بھری تھی دلوں سے زبس اس کی مانگ

    بہت دل لیے اس سےکنگھی نے مانگ

    دل عاشق اس پر سے قربان ہے

    کہ مشاطہ کا سر پر احسان ہے

    کشاکش میں تھا ورنہ جینا تو ہیچ

    بھلے کو رکھا اس نے ڈھیلا ہی پیچ

    غرض حسن کا اس کے ہے سب یہ بھید

    جو چاہے کرے وہ سیاہ و سفید

    کیا قتل کو اس نے دل کو تو کیا

    شفق کا نہیں شام پر خوں بہا

    کہاں تک کہوں اس کی چوٹی کی بات

    کہ تھوڑا ہے سانگ اور بڑی ہے یہ رات

    دیا شعر کو گرچہ ہر بار طول

    و لیکن یہ ہو عرض میری قبول

    بہت موشگافی جو کی میں نے یاں

    گھٹانے کی جاگہ نہ تھی درمیاں

    تس اوپر جو پوری نہ بیٹھی مثال

    ہوئی ہے مری فکر مجھ پر وبال

    اب اس پیچ سے باہر آتا ہوں میں

    سماں ایک تازہ سناتا ہوں میں

    غرض وہ مڑی جب دکھا اپنے بال

    تو گویا کہ مارا محبت کا جال

    ادائیں سب اپنی دکھاتی چلی

    چھپا منہ کو اور مسکراتی چلی

    غضب منہ پہ ظاہر، ولے دل میں چاہ

    نہاں آہ آہ اور عیاں واہ واہ

    یہ ہے کون کم بخت آیا جو یہاں

    میں اب چھوڑ گھر اپنا، جاؤں کہاں!

    یہ کہتی ہوئی آن کی آن میں

    چھپی جا کے اپنے وہ دالان میں

    دیا ہاتھ سے چھوڑ پردہ شتاب

    چھپا ابر تاریک میں آفتاب

    کہ اتنے میں آئی وہ دخت وزیر

    فسوں پڑھ کے بولی کہ بدر منیر!

    مجھے چوچلے تو خوش آتے نہیں

    ترے ناز بے جایے بھاتے نہیں

    مری طرف ٹک دیکھ تو ہائے ہائے

    مثل ہے کہ من بھائے، منڈیا بلائے

    کیا ہے اگر تو نے گھائل اسے

    تو مت چھوڑ اب نیم بسمل اسے

    ٹک اک حظ اٹھا زندگانی کا تو

    مزہ دیکھ اپنی جوانی کا تو

    مے عیش کا جام اب نوش کر

    غم دین و دنیا فراموش کر

    یہ حسن و جوانی، یہ جوش و خروش

    غفور است ایزد، تو ساغر بنوش

    کہاں یہ جوانی، کہاں یہ بہار

    یہ جو بن کا عالم بھی ہے یاد گار

    سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں

    گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

    سبھی یوں تو دنیا کے ہیں کاروبار

    ولے حاصل عمر ہے وصل یار

    خوشا وہ زمانہ کہ دو، اک جگہ

    کریں یک دگر جلوۂ مہر و مہ

    کہاں چاہ والے ہیں یوسف عزیز

    اری باولی! چاہ میں کر تمیز

    ترے گھر میں آیا ہے مہماں غریب

    یہ ہے واردات عجیب و غریب

    شتابی سے مجلس کو تیار کر

    تو اس گل سے گھر رشک گلزار کر

    بلا ساقیان گل اندام کو

    نگہ ساتھ گردش میں لا جام کو

    شب و روز پی مل کے جام شراب

    مہ و مہر کو رشک سے کر کباب

    یہ سن سن کے وہ نازنیں مسکرا

    لگی کہنے: اچھا، بھلاری بھلا!

    میں سمجھی، تراجی گیا ہے ادھر

    بہانے تو کرتی ہے کیوں مجھ پہ دھر

    لگی کہنے ہنس ہنس کے وہ ماہ وش

    ہوئی تھی اسے دیکھ میں ہی تو غش!

    مجھی پر تو چھڑکا تھا تم نے گلاب!

    بھلا میری خاطر بلاؤ شتاب

    یہ آپس میں رمزوں کی باتیں ہوئیں

    اشاروں کی باہم جو گھاتیں ہوئیں

    بلا لائی جا اس جواں کے تئیں

    کیا میزباں، میہماں کے تئیں

    بلا اک مکاں میں بٹھایا اسے

    محل کا سماں سب دکھایا اسے

    پھر اس نازنیں کا پکڑ اس نے ہاتھ

    بٹھایا ہی لا آخر اس گل کے ساتھ

    پلا ساقیا! مجھ کو صہباے عیش

    ملی ہے نصیبوں سے یاں جاے عیش

    بہم مل کے بیٹھے ہیں دو رشک مہ

    قران مہ و مہر ہے اس جگہ

    ہر اک برج، رشک گلستاں ہے آج

    بہار وصال غریباں ہے آج

    بہ زور اس کو لاکر بٹھایا جو واں

    نہ پوچھ اس گھڑی کی ادا کا بیاں

    وہ بیٹھی عجب ایک انداز سے

    بدن کو چرائے ہوئے ناز سے

    منہ آنچل سے اپنا چھپائے ہوئے

    لجائے ہوئے، شرم کھائے ہوئے

    پسینا پسینا ہوا سب بدن

    کہ جوں شبنم آلودہ ہو یاسمن

    گھڑی دو تلک وہ مہ و آفتاب

    رہے شرم سے پاے بند حجاب

    انہوں کے رکے بیٹھنے سے، خفا

    ہوئی دل میں اپنے وہ نجم النسا

    گلابی کو لا اس کے آگے دھرا

    پیالے کو پھر جلد اس نے بھرا

    کہا شاہ زادی کو: بیٹھی ہے کیا

    یہ پیالہ تو اس بت کے منہ سے لگا

    ذرا میری خاطر ہنس سے بول تو

    لب لعل شیریں کو ٹک کھول تو

    میں صدقے ترے، تجھ کو میری قسم

    کئی ساغر اس کو پلا دم بہ دم

    یہ دیکھ اس کی منت، پیالہ اٹھا

    ادھر سے پھرا منہ کو اور مسکرا

    کہا: بادہ نوشی سے ہو جس کو ذوق

    پیے وہ پیالہ، نہیں اس کا شوق

    کہا شاہ زادے نے ہنس کر کے یوں

    پیوں میں کسی کے نہورے سے کیوں

    غرض ہو کے آپس میں راز و نیاز

    پیے دو پیالے بہ صد امتیاز

    پھر آخر کو شہ زادے نے بھی اٹھا

    دیا ساغر اس مہ کے منہ سے لگا

    جب آپس میں چلنے لگے جام مل

    مندے غنچہ ساں دل، کھلے مثل گل

    ہوئی یک دگر پھر تو تفتیش حال

    لگے ہونے آپس میں قال و مقال

    کھلا، بند جس دم در گفتگو

    جواں نے حقیقت کہی مو بہ مو

    کہ ابتدا سے جو گزری تھی سب

    بتایا سب اپنا حسب اور نسب

    پری کا بھی احوال ظاہر کیا

    چھپے راز سے اس کو ماہر کیا

    کہا: اک پہر کی ہے رخصت مجھے

    زیادہ نہیں اس سے فرصت مجھے

    یہ سن، دل ہی دل بیچ کھا پیچ تاب

    دیا شاہ زادی نے اس کو جواب

    مرو تم پری پر، وہ تم پر مرے

    بس اب تم ذرا مجھ سے بیٹھو پرے

    میں اس طرح کا دل لگاتی نہیں

    یہ شرکت تو بندی کو بھاتی نہیں

    میں سمجھی ہوں تم کو، بہت دور ہو

    چلو اب کہیں یاں سے کافور ہو

    عبث تم سے کیوں دل لگاوے کوئی

    بھلے چنگے دل کو جلاوے کوئی

    بہے شمع ساں کیوں کوئی اشک سے

    جلے کس لیے آتش رشک سے

    یہ سن، پانو پر گر پڑا بے نظیر

    کہا: کیا کروں آہ بدر منیر!

    کوئی لاکھ جی سے ہومجھ پر فدا

    میں تجھ پر فدا ہوں، مجھے اس سے کیا

    کہا چل، سر اپنا قدم پر نہ دھر

    کسی کے مجھے دل کی کیا ہے خبر!

    یے زمزہ کنایے جو ہونے لگے

    تو آپس میں ہنس ہنس کے رونے لگے

    رہی دل ہی میں آخرش دل کی بات

    پہر بھر گئی اتنے عرصے میں رات

    خبر رات کی سن، اٹھا بے نظیر

    کہا: اب میں جاتا ہوں بدر منیر!

    اگر قید سے چھوٹنے پاؤں گا

    تو پھر آج کے وقت کل آؤں گا

    یہ مت سمجھیو، ہوں میں آرام میں

    کروں کیا، پھنسا ہوں عجب دام میں

    دل اس جا سے اٹھنے کو کرتا نہیں

    کوئی آپ سے جان مرتا نہیں

    کرم مجھ پہ رکھیو ذرا میری جاں

    میں دل چھوڑے جاتا ہوں اپنا یہاں

    یہ کہ، اس طرف وہ روانہ ہوا

    دل اس طرف اس کا دوانہ ہوا

    گیا اپنے معمول سے بے نظیر

    ادھر کا ہوا قیدی اودھر اسیر

    پری ساتھ کاٹی وہ جوں توں کے رات

    اٹھا صبح، ملتا ہوا اپنے ہاتھ

    سماں شب کا آنکھوں میں چھایا ہوا

    مزہ دل میں سارا سمایا ہوا

    اٹھے جو کوئی وصل کا دیکھ خواب

    نہ ہو وصل اور دل کو ہو اضطراب

    نئی بات کا لطف پانا غضب

    وہ پہلے پہل دل لگانا غضب

    قلق دل پہ، یعنے کٹے روز کب

    ملے مجھ سے شمع شب افروز کب

    محبت میں زلف سیہ فام کی

    لگا دیکھنے راہ پھر شام کی

    وہ سن ہجر کا، روز شامت ہوا

    اسے کاٹنا دن، قیامت ہوا

    ادھر کا تو احوال تھا اس طرح

    کہا میں نے، کر مختصر، جس طرح

    ولے اب سنو تم ادھر کا بیاں

    ہوا طرف ثانی پہ کیا حال وہاں

    وہ شب اس کو اندوہ و غم میں کٹی

    گھڑی جو کٹی، سو الم میں کٹی

    رہی صورت آنکھوں میں جو یار کی

    ہوئی، یاد میں صبح، رخسار کی

    کچھ امید دل میں، کچھ اک جی کو یاس

    لبوں پر ہنسی، لیک چہرہ اداس

    لگا اس کو باتوں میں نجم النسا

    لگی کہنے: جی چاہتا ہے مرا

    کہ تو آج کر خوب اپنا سنگار

    مجھے حسن کی اپنے دکھلا بہار

    لگی کہنے: چل ری دوانی نہ ہو

    کوئی چیز اپنی، بگانی نہ ہو

    کروں کس کی خاطر میں اپنا سنگار

    وہ ہے کون جس کو دکھاؤں بہار

    غرض شاہ زادی بہت دور تھی

    یہ شکل اس کو پہلے ہی منظور تھی

    نہا دھو کے اس روز ایسی بنی

    کہ دو دن کی سچ مچ ہو جیسی بنی

    وہ مکھڑے کا عالم، وہ کنگھی کا رنگ

    شب ماہ ہو دیکھ کر جس کو دنگ

    وہ مسی اور اس کے لب لعل فام

    سواد دیار بدخشاں کی شام

    وہ آنکھوں کا عالم، وہ کاجل غضب

    کہے تو پڑی نرگسستاں میں شب

    ستم تس پہ سرمے کی تحریر سی

    کھنچی ہاتھ کافر کے شمشیر سی

    لکھوٹا وہ پانوں کا مسی کے ساتھ

    کہ جوں دامن شب شفق کے ہو ہاتھ

    وہ پشواز اک ڈانک کی جگ مگی

    ستاروں کی تھی آنکھ جس پر لگی

    اور اک اوڑھنی، جالی مقیش کی

    پڑی چاندنی سی مہ عیش کی

    جو دیکھے وہ انگیا جواہر نگار

    فرشتہ ملے ہاتھ بے اختیار

    وہ باریک کرتی مثال ہوا

    عیاں موبہ مو جس سے تن کی صفا

    ڈھلک سرخ نیفے کی ابھری ہوئی

    گلابی سی گرد ایک تہ دی ہوئی

    جھلک پایجامے کی دامن سے یوں

    کہ روشن ہو فانوس میں شمع جوں

    مغرق زری کا وہ شلوار بند

    ثریا سے تابندگی میں دو چند

    پڑی پانو میں کفش زریں نگار

    ستاروں کی جس کے زمیں پر بہار

    لگا پا سے وہ نازنیں تابہ فرق

    سراپا جواہر کے دریا میں غرق

    گٹھی ہوئی وہ ترکیب اور وہ بدن

    وہ پوشاک و زیور کی اس پر پھبن

    وہ چھب تختی اس کی نزاکت نژاد

    چمن زار قدرت کا نخل مراد

    بھری مانگ موتی سے جلوہ کناں

    نمایاں شب تیرہ میں کہکشاں

    وہ ماتھے پہ بینے کی اس کے جھلک

    سحر چاند تاروں کی جیسے چمک

    ہوس ہو نہ، دیکھ اس کے زیور کو پھر

    کہے تو کہ ٹپکا تھا سب اس کے سر

    وہ بالے کی تابندگی زیر گوش

    جسے دیکھ، اڑ جائیں بجلی کے ہوش

    وہ ہیرے کا تکمہ بہ صد آب و تاب

    وہ صبح گلو، مطلع آفتاب

    وہ تکمے پہ چمپا کلی کی پھبن

    کہ سورج کے آگے ہو جیسے کرن

    وہ چھاتی پہ الماس کی دھکدھکی

    رہے آنکھ سورج کی جس پر جھکی

    وہ موتی کے مالے لٹکتے ہوئے

    رہیں دل جہاں سر پٹکتے ہوئے

    وہ الماس کی ہیکل اک خوش نما

    تصور رہے جس کا دل سے لگا

    وہ بھج بند بازو کے اور نورتن

    کہ جوں گل سے ہو شاخ زیب چمن

    وہ پہنچی زمرد کی اور دست بند

    نزاکت میں تھی شاخ گل سے دو چند

    وہ لعلوں کی پازیب آویزہ دار

    سدا اشک خونی ہو جس پر نثار

    وہ مینے کے پانوں میں چھلے تھے گل

    کہ آنکھوں سے دل ان پہ کھاتے تھے گل

    وہ بالوں کی بو رشک مشک ختن

    وہ ڈوبا ہوا عطر میں تن بدن

    زمیں سے معطر ہوا تا فلک

    زمانہ گیا اس کی بو سے مہک

    کیا اس طرح کا جب اس نے سنگار

    ہوئے مہر و مہ اس کے منہ پر نثار

    فلک تک گئی حسن کی اس کے دھوم

    لیا ہاتھ مشاطہ نے اپنا چوم

    خواصوں نے گھر کو دیا انتظام

    تمامی کے پردے لگائے تمام

    بچھا فرش اور کر چھپر کھٹ کو صاف

    مرصع کا اس پر اڑھا کر غلاف

    وہ نرگس کے دستے، جو آفاق میں

    نہ نکلیں، سولا کر چنے طاق میں

    ولایت کے میوے دھرے ہر طرف

    کہ لے جاوے بو ان کی گل پر شرف

    دھرے لخلخے جو اس ایوان میں

    ہوا، ہو گئی عطر، دالان میں

    دھریں اک طرف کیاریاں بے شمار

    چنی اک طرف ڈالیوں کی قطار

    اچار و مربے دھرے خوش نما

    وہ باہر کے دالان میں جا بہ جا

    چھپرکھٹ کے پاس ایک مسند بچھا

    اور اس پر تمامی کے تکیے لگا

    چنگیریں بنا اور رکھ پان دان

    قرینے سے اس میں رکھے ہار، پان

    مرصع کے تھے عطرداں کئی دھرے

    انوٹھی گھڑت کے کئی چو گھرے

    سرہانے مجلد دھری اک کتاب

    ظہوریؔ ، نظیریؔ کا کل انتخاب

    قلم دان بھی اک نزاکت بھرا

    قرینے سے زیر چھپرکھٹ دھرا

    دھری اک بیاض اور رشک چمن

    پر از شعر سوداؔ و میرؔ و حسنؔ

    دھرا اک طرف گنجفہ خوش قماش

    دھری چوپڑ اک طرف کو غم تراش

    بچھی ایک چوکی، پڑا تورہ پوش

    کریں، دیکھ کر غش، جسے بادہ نوش

    صراحی و ساغر، شراب و کباب

    دھرا اس پہ ساقی نے، کر انتخاب

    ولے، اس کو رکھا چھپائے ہوئے

    کہ چھپتے نہیں منہ لگائے ہوئے

    کہا خاصہ پڑ کو خبردار کر

    کہ رکھیو تو خاصے کو تیار کر

    یہ سب کچھ ہوا جب کہ آراستہ

    خراماں ہوئی سرو نو خاستہ

    سرشام، لے ہاتھ میں اک چھڑی

    ولیکن چھڑی وہ کہ جگنوں جڑی

    روش پر لگی پھر نے ایدھر ادھر

    کہ چھپ جائے سورج اسے دیکھ کر

    داستان دوبارہ بے نظیر کے آنے اور باہم بے تکلف ملاقات کرنے کی۔

    پلا مجھ کو ساقی! شراب وصال

    کہ اب ہجر سے تنگ ہے میرا حال

    تڑپھتا تھا اودھر جو وہ بے نظیر

    ہوئی شام بارے، تو چھوٹا اسیر

    پر اس نے بھی اتنا تکلف کیا

    کہ اک دن میں جوڑے کو دھانی رنگا

    تمامی کی سنجاف کر کے درست

    بنا جلد جلد اور پہن تنگ و چست

    پہن لعل و یاقوت کے نورتن

    وہ گل اس طرح ہو کے رشک چمن

    فلک سیر پر ہو شتابی سوار

    ہوا آسماں پر ہوا ایک بار

    یکایک جو وارد ہوا اس جگہ

    کہ جس جا خراماں تھی وہ رشک مہ

    نظر نازنیں کی جو اس پر پڑی

    ہوئی جا درختوں کے اوجھل کھڑی

    کیا چھپ کے عالم پہ اس کے جو دھیان

    تو دیکھا عجب رنگ سے وہ جوان

    کہ دھانی ہے جوڑا گلے میں پڑا

    چھپا سبزے میں چاند سا ہے کھڑا

    کہے تو کہ شب، چاند نے آن کے

    نکالا تھا منہ کھیت سے دھان کے

    وہ حسن اور پوشاک اور وہ شباب

    زمرد میں جوں جلوۂ آفتاب

    سماں دیکھ اس شعلۂ سبز کا

    ہوئی اور جلنے کی اس کو ہوا

    خواصیں جو تھیں، دم بہ خود جان کر

    کہا ایک ہم راز نے آن کر

    کہ اب کس طرف ان کو لے جائیے

    جہاں حکم ہو، جا کے بٹھلائیے

    کہا: وہ جو آراستہ ہے مکاں

    ادھر سے، تو ووں ہو کے، لے جاوہاں

    کہے کے بہ موجب اڑھا کر نقاب

    چھپا اس کو، لاکر بٹھایا شتاب

    وہ بیٹھا جو خلوت میں آ بے نظیر

    اور ایدھر سے آئی جو بدر منیر

    اسے دیکھ، اس نے تو پھر غش کیا

    لباس اور زیور سے اش اش کیا

    زبس حوصلے نے جو تنگی سی کی

    حیا، عشق نے خانہ جنگی سی کی

    پکڑ ہاتھ مسند پہ کھینچا اسے

    محبت کے رشتے میں اینچا اسے

    لگی کہنے: ہے ہے، مر چھوڑ ہاتھ

    یہ گرمی ہے جس سے، رہے اس کے ساتھ

    کہا: ہاے پیاری! جلایا مجھے

    رکھائی نے تیری ستایا مجھے

    اری ظالم! اک دم تو تو بیٹھ جا

    ذرا میرے پہلو سے تکیہ لگا

    تڑپھتا ہے کب سے پڑا میرا دل

    ذرا کھول آغوش اور مجھ سے مل

    غرض آخرش بعد راز و نیاز

    وہ مسند پہ بیٹھی بہ صد امتیاز

    ہوا پھر جو صہباے گل گوں کا دور

    ہوا اور ہی اور کچھ واں کا طور

    ہوئے جب وے بدمست دو ماہ رو

    لگی ہونے ان میں عجب گفتگو

    کہ دستے جو نرگس کے تھے وہاں ہزار

    لگے ڈھانپنے آنکھ بے اختیار

    خواصیں جو تھیں روبہ رو ہٹ گئیں

    بہانے سے ہر کام کے بٹ گئیں

    غرض رفتہ رفتہ وہ مدہوش ہو

    چھپرکھٹ میں لیٹے ہم آغوش ہو

    لیا کھینچ انہوں نے جو پردہ شتاب

    چھپے ایک ہو، دو مہ و آفتاب

    لگی ہونے بے پردہ جو چھیڑ چھاڑ

    درحسن کے کھل گئے دو کواڑ

    لگے پینے باہم شراب وصال

    ہوئے نخل امید سے وہ نہال

    لبوں سے ملے لب، دہن سے دہن

    دلوں سے ملے دل، بدن سے بدن

    ملی آنکھ سے آنکھ خوش حال ہو

    گئیں حسرتیں دل کی پامال ہو

    لگی جا کے چھاتی جو چھاتی کے ساتھ

    چلے ناز و غمزے کے آپس میں ہاتھ

    کسی کی گئی چولی آگے سے چل

    کسی کی گئی چین ساری نکل

    غم و درد دامن کشیدہ ہوئے

    وہ گل نارسیدہ رسیدہ ہوئے

    اٹھے، پی کے باہم شراب امید

    کوئی سرخ رو اور کوئی رو سفید

    چھپر کھٹ سے باہر رکھ اپنے قدم

    نکل آئے، بھرتے محبت کا دم

    نشے سے وہ لذت کے بے ہوش ہو

    گئے بیٹھ مسند پہ خاموش ہو

    عرق میں ادھر غرق وہ مہ جبیں

    کیے نیچی آنکھیں ادھر نازنیں

    یے بیٹھے تھے خوش ہو کے باہم ادھر

    کہ اتنے نیں اودھر سے باجا پہر

    پہر کے وہ بجتے اٹھا بے نظیر

    ہوئی غم کی تصویر بد منیر

    نہ بولی، نہ کی بات، نے کچھ کہا

    نہ دیکھا ادھر آنکھ اپنی اٹھا

    کہا: مجھ سے پیاری! نہ بیزار ہو

    پھر آؤں گا، بولی کہ مختار ہو

    خفا ہونے سے اس کے، وہ نوجواں

    گیا تو، ولے منہ پر آنسو رواں

    ہوئے دل جو دونوں کے آپس میں بند

    لگے ہجر سے جی پر آنے گزند

    بندھا پھر تو معمول اس کامدام

    کہ ہر روز آنا ادھر اس کو شام

    پہر رات تک ہنسنا اور بولنا

    در عشق اور حسن کو کھولنا

    کبھی ہجر سے، ان کو ہونا ملول

    کبھی وصل سے، بیٹھنا پھول پھول

    داستان پری کے دریافت کرنے کی۔

    پلا جلد ساقی! مجھے بھر کے جام

    کہ ہے چرخ بھی درپے انتقام

    یہ دو دل کو اک جا بٹھاتا نہیں

    کسی کا، اسے وصل، بھاتا نہیں

    یہ ہے دشمن وصل و دل سوز ہجر

    کرے ہے شب وصل کو، روز ہجر

    جدائی انہوں کی خوش آئی اسے

    یہ اتنی بھی صحبت نہ بھائی اسے

    کسی دیو نے دی پری کو خبر

    کہ معشوق، عاشق ہوا اور پر

    یہ سن کر وہ شعلہ، بھبھوکا ہوئی

    لگی کہنے: ایں، یہ بلا کیا ہوئی!

    قسم مجھ کو حضرت سلیمان کی

    ہوئی دشمن اب اس کی میں جان کی

    کہا دیو سے: دے مجھے تو بتا

    کہا: وہ کسی باغ میں تھا کھڑا

    کوی نازنیں سی تھی ایک اس کے ساتھ

    کھڑی تھی دیے ہاتھ میں اس کے ہاتھ

    قضارا، اڑا میں جو ہو کر ادھر

    وو دونوں مجھے وہاں پڑے تھے نظر

    یہ اڑتی سی اس کی خبر سن پری

    کہا: دیکھنے پاؤں اس کو ذری

    تو کھا جاؤں کچا اسے موت ہو

    لگی ہے مری اب تو وہ سوت ہو

    وہ آوے تو آگے مرے نابکار

    گریباں کو اس کے کروں تار تار

    یہی قول و اقرار تھا میرے ساتھ

    بھلا دامن اس کا ہے اور میرا ہاتھ

    ہمارے بزرگوں نے سچ ہے کہا

    کہ ہیں آدمی زاد گل بے وفا

    غضب ناک بیٹھی تھی یہ تو ادھر

    کہ اتنے میں آیا وہ رشک قمر

    اسے دیکھ غصے میں، وہ ڈر گیا

    کہے تو کہ جیتے ہی جی مر گیا

    بلاسی، وہ دیکھ، اس کے پیچھے لگی

    کہا: سن تو اے موذی و مدعی!

    تجھے سیر کو میں نے گھوڑا دیا

    کہ اس مال زادی کو جوڑا دیا

    الگ ہم سے یوں رہنا اور چھوٹنا

    یہ اوپر ہی اوپر مزے لوٹنا

    مچلگا دیا تھا نا تو نے یہی!

    بھلا اس کا بدلا نہ لوں تو سہی

    پھرا جیسے راتوں کو دل شاد تو

    کرے گا دنوں کو بہت یاد تو

    مزہ چاہ کا دیکھ اپنی ذرا

    جھکاتی ہوں کیسے کنویں، رہ بھلا

    تجھے جی سے ماروں تو کیا اے غریب!

    ولے چاہتے تھے یہ تیرے نصیب

    کہ چاہ الم میں پھنساؤں تجھے

    ہنسا ہے تو جیسا، رلاؤں تجھے

    یہ کہہ اور بلا اک پری زاد کو

    کہا: سنیو اس کی نہ فریاد کو

    اسے کھینچتا یاں سے لے جا شتاب

    وہ صحرا، جو ہے درد و محنت کا باب

    کنواں اس میں جو ہے مصیبت بھرا

    کئی من کا پتھر ہے اس پر دھرا

    اسے، جا کے اس چاہ میں بند کر

    وہی سنگ پھر اس کے منہ پر تو دھر

    سر شام کھانا کھلانا اسے

    اور اک جام پانی پلانا اسے

    نہ دیجو سوا اس کے، جو کچھ کہے

    یہی اس کا معمول دائم رہے

    گری اس پہ جو آسمانی بلا

    دل اس نازنیں کا ہوا ہو چلا

    یہ سن، دیو اس گل کے نزدیک آ

    پکڑ ہاتھ اس کا فلک پر اڑا

    ہوا یوں جو اس بخت واژوں کا اوج

    چلی آہ و نالے کی ساتھ اس کے فوج

    کہا: دل! یہ رتبہ جو کچھ آج ہے

    یہی عشق کی جان معراج ہے

    کیا بند پھر جا کے اس چاہ میں

    کنواں وہ جو تھا قاف کی راہ میں

    وہ یوسف کنویں میں ہوا جب کہ بند

    ہوا اس سے پستی کا رتبہ بلند

    کھلے اس کنویں کے یکا یک نصیب

    کہ آیا وہ اس میں مہ دل فریب

    منور وہ گھر اس کا سارا ہوا

    کنویں کی وہ پتلی کا تارا ہوا

    اندھیرا پڑا تھا، سو روشن ہوا

    شب تیرہ میں سانپ کا من ہوا

    ولے پانو جب اس کا تہہ پر گیا

    کنواں اس کے اندوہ سے بھر گیا

    زمیں میں سمایا تحیر سے آب

    گئے سوکھ آنسو کنویں کے شتاب

    ہوا واں سے اوپر گئی کانپ کانپ

    کنویں نے لیا سنگ سے من کو ڈھانپ

    دل اس نازنیں کا دھڑکنے لگا

    جگر ٹکڑے ہو کر پھڑکنے لگا

    اندھیرے اجالے نہ نکلا تھا جو

    ہوا قید آ اس اندھیرے میں سو

    اندھیرے نے اس کا کیا دم خفا

    کہ جوں لے سیاہی کسی کو دبا

    نکلنے کی سوجھی نہ واں اس کو راہ

    ہوا اس کی آنکھوں میں عالم سیاہ

    فغاں کی بہت اور پکارا بہت

    سر اپنے کو ہر طرف مارا بہت

    پکارا وہ جس تس کو فریاد کر

    نہ پہنچا کوئی کارواں بھی ادھر

    نہ مونس نہ غم خوار اس کا کوئی

    نہ تھا جز خدا یار اس کا کوئی

    وہی چاہ تاریک اس کا رفیق

    وہی سنگ سر پر بجاے شفیق

    ہوا بھی نہ واں، جس سے کچھ دھیان ہو

    کنویں کی سنے کون آواز کو

    کنواں ہی مدام اس کا ہم دم رہے

    جو اس سے سنے، ووہی اس سے کہے

    کنواں اس کو پوچھے، وہ پوچھے اسے

    اندھیرے سوا کچھ نہ سوجھے اسے

    سیاہی میں، جیسے وہ کافر کا دل

    صعوبت میں اس سے جہنم خجل

    نہ شب کی سیاہی، نہ واں دن کا نور

    سدا ظلمت غم کا اس جا ظہور

    غم و درد الفت کو کھا کھا جیے

    لہو پانی اپنا کنویں میں پیے

    اس اندھیر کو کیا لکھوں اب میں آہ!

    قلم کے نکلتے ہیں آنسو سیاہ

    نہ تھا وہ کنواں، تھا ستون الم

    نشان شب آفت وہ درد و غم

    کروں مختصر یہاں سے اس غم کی بات

    لگا رہنے اس میں وہ آب حیات

    نہیں مخلصی سوجھتی اب اسے

    نکالے خدا دیکھیے کب اسے

    پھنسا اس طرح سے جو وہ بے نظیر

    پڑی بے قراری میں بدر منیر

    بہم دو دلوں میں جو ہوتی ہے چاہ

    تو ہوتی ہے دل کے تئیں دل سے راہ

    قلق وہاں جو گزرا، تو یہاں غم ہوا

    رکا جی وہاں، یاں خفا دم ہوا

    کئی دن جو آیا نہ وہ رشک ماہ

    نظر میں ہوا اس کی عالم سیاہ

    لگی کہنے نجم النسا سے: بوا!

    خدا جانے اس شخص پر کیا ہوا!

    کہا اس نے: بی! تم کو سودا ہے کچھ

    وہ معشوق ہے، اس کو پروا ہے کچھ

    خدا جانے کس شغل میں لگ گیا

    مری چڑ ہے، اتنا بھی ہونا فدا

    وہ رہ رہ کے تم کو دلاتا ہے چاہ

    عبث آپ کو تم کرو مت تباہ

    رکے جو کوئی، اس سے رک جائیے

    جھکے آپ سے وہ، تو جھک جائیے

    تفول بھلا کچھ نکالا کرو

    ذرا آپ کو تم سنبھالا کرو

    یہ سن، چپ رہی، دل میں کھا پیچ و تاب

    دیا کچھ نہ اس بات کا پھر جواب

    گئے اس پہ جب دن کئی اور بھی

    بگڑنے لگے پھر تو کچھ طور بھی

    دوانی سی ہر طرف پھرنے لگی

    درختوں میں جا جا کے گرنے لگی

    ٹھہرنے لگا جان میں اضطراب

    لگی دیکھنے وحشت آلودہ خواب

    تپ ہجر گھر دل میں کرنے لگی

    در اشک سے چشم بھرنے لگی

    خفا زندگانی سے ہونے لگی

    بہانے سے جا جا کے سونے لگی

    تپ غم شدت سے پھر کانپ کانپ

    اکیلی لگی رونے منہ ڈھانپ ڈھانپ

    نہ اگلا سا ہنسنا، نہ وہ بولنا

    نہ کھانا نہ پینا، نہ لب کھولنا

    جہاں بیٹھنا، پھر نہ اٹھنا اسے

    محبت میں دن رات گھٹنا اسے

    کہا گر کسی نے کہ بی بی! چلو

    تو اٹھنا اسے، کہہ کے، ہاں جی چلو

    جو پوچھا کسی نے کہ کیا حال ہے

    تو کہنا، یہی ہے جو احوال ہے

    کسی نے جو کچھ بات کی، بات کی

    پہ، دن کی جو پوچھی، کہی رات کی

    کہا گر کسی نے کہ کچھ کھائیے

    کہا: خیر، بہتر ہے، منگوائیے

    کسی نے کہا سیر کیجے ذرا

    کہا: سیر سے دل ہے میرا بھرا

    جو پانی پلانا، تو پینا اسے

    غرض غیر کے ہاتھ جینا اسے

    نہ کھانے کی سدھ اور نہ پینے کا ہوش

    بھرا دل میں اس کے محبت کا جوش

    چمن پر نہ مائل، نہ گل پر نظر

    وہی سامنے صورت آٹھوں پہر

    نہفتہ اسی سے سوال و جواب

    سدا رو بہ رو اس کے غم کی کتاب

    جو آجائے کچھ ذکر شعر و سخن

    تو پڑھنا یے دوتین شعر حسنؔ

    غزل

    یہ کیا عشق آفت اٹھانے لگا

    مرے دل کو مجھ سے چھڑانے لگا

    ملا میرے دلبر کو مجھ سے خدا!

    نہیں تو، مرا جی ٹھکانے لگا

    گنہ چشم خوں بار کا کچھ نہیں

    مرا دل ہی مجھ کو ڈبانے لگا

    فلک نے تو اتنا ہنسایا نہ تھا

    کہ جس کے عوض یوں رلانے لگا

    نہیں مجھ کو دشمن سے شکوہ حسنؔ !

    مرا دوست مجھ کو ستانے لگا

    غزل یا رباعی، ویا کوئی فرد

    اسی ڈھب کی پڑھنا کہ ہو جس میں درد

    سو یہ بھی، جو مذکور نکلے کہیں

    نہیں تو، کچھ اس کی بھی خواہش نہیں

    سبب کیا، کہ دل سے تعلق ہے سب

    نہ ہو دل، تو پھر بات بھی ہے غضب

    گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل

    کہاں کی رباعی، کہاں کی غزل

    داستان بدرمنیر کے غم و اندوہ میں اور حسن بائی کے بلانے میں۔

    گلابی میں غنچے کی بھر کر شتاب

    پلا ساقیا! کیتکی کی شراب

    پیالے میں نرگس کے دے میری جاں!

    کہ دیکھوں میں کیفیت بوستاں

    حکایت کروں ایک دن کی رقم

    کہ دنیا میں تو ام ہیں شادی و غم

    اٹھی سوتے اک دن وہ رشک پری

    کہا، جا کے دیکھوں چمن کو ذری

    مگر غنچہ ساں کچھ کھلے میرا دل

    کہ غم نے کیا ہے نپٹ مضمحل

    زبس گل سے آتی ہے بو یار کی

    ہوا پھر ہوئی اس کو گلزار کی

    پہر ایک دن تھا کہ منہ ہاتھ دھو

    چلی اٹھ کے دالان سے سیر کو

    زمرد کا مونڈھا چمن پر بچھا

    اور اک پانو مونڈھے سے لٹکا دیا

    نہ پوچھ اس کے پاے نگاریں کا حال

    زبان حنا وصف میں جس کے لال

    کفک اور فندق سے لالے کو داغ

    نہ ہو ایسی کیفیت پائین باغ

    طلائی کڑے اور کفک کا وہ رنگ

    سنہری شفق جس کو ہو دیکھ دنگ

    جواہر کے چھلے بھرے پور پور

    زری کی ٹکی جیسے مخمل پہ قور

    زبس سوتے اٹھی تھی وہ نازنیں

    پڑی تھی عجب ڈھب سے چین جبیں

    خماری وہ آنکھیں، وہ انگڑائیاں

    وہ جو بن کے عالم کی سر سائیاں

    جوانی کا موسم، شروع بہار

    وہ سینے سے جوبن کا اس کےا بھار

    نشے میں وہ آ حسن کے بیٹھنا

    وہ چھب تختی اپنی کو دیکھ اینٹھنا

    خواص ایک حقہ لیے تھی کھڑی

    کہ لالے کی پتی تھی اس میں پڑی

    وہ شیشے کا حقہ، مرصع کا کام

    مغرق زری کا ہو نیچہ تمام

    ولے ایک اس پر پڑا تھا جو بیچ

    یہ سب اس کے آگے تھا گویا کہ ہیچ

    لب نازک اوپر منہ نال دھر

    نکالے تھی پردے میں دود جگر

    ادھر اور ادھر ہر طرف تھی نگاہ

    کسی کی کوئی جیسے تکتا ہو راہ

    خواصیں کھڑیں اس کے سب گرد و پیش

    جو تھیں اپنے عہدے پہ حاضر ہمیش

    کوئی مور چھل لے، کوئی پیک دان

    کوئی لے چنگیر، اور کوئی ہار، پان

    رسیلی، چھبیلی بنی تنگ و چست

    لباس اور ریور سے ہر اک درست

    کھڑیں نیچے آنکھیں کیے با ادب

    اسی شرم سے، پر قیامت غضب

    وہ آنکھیں، کہ کرتی تھی جیدھر نگاہ

    ادھر غش میں آتے تھے دل، کر کے آہ

    کئی ہمدم اس کی، جو تھیں ماہ رو

    بچھائے ہوئے کرسیاں سو بہ سو

    برابر برابر، ادھر اور ادھر

    وہ گرد اس کے بیٹھیں تھیں بایک دگر

    سماں اس گھڑی کا کہوں کیا میں آہ!

    ستاروں میں آوے نظر جیسے ماہ

    عجب حسن تھا باغ میں جلوہ گر

    کہ ہر گل کی تھی اس کے منہ پر نظر

    چمن اس گھڑی بر سر جوش تھا

    گل و غنچہ جو تھا، سو بے ہوش تھا

    زبس عطر میں تھی وہ ڈوبی ہوئی

    دوبالا ہر اک گل کی خوبی ہوئی

    معطر ہوا اور گل کا دماغ

    کہ مہکا تمام اس کی خوش بو سے باغ

    پڑا عکس جو اس کا طرف چمن

    ہوا لالہ، گل اور گل، نسترن

    درختوں پر اس کی پڑی جو جھلک

    زمرد کو دی اور اس نے چمک

    ہوئی اس کے بیٹھے سے گلشن کو زیب

    گیا اڑ صبا کا بھی صبر و شکیب

    چمن نے جو اس گل کی دیکھی بہار

    ہوا، دیکھ اپنے گلوں کو، فگار

    گل و غنچہ و لالہ آپس میں مل

    لگے کہنے: اس باغ کا تھا یہ دل

    گئی جی سے بلبل کے گلشن کی چاہ

    ہوئی سرو کی شکل قمری کو، آہ

    ہوئے وہاں کے آئینہ، دیوار و در

    وہ مہ سب کے دل میں ہوئی جلوہ گر

    کہ اتنے میں کچھ جی میں جو آ گیا

    ادا سے لگی کہنے وہ دل ربا

    اری کوئی ہے، واں ذرا جائیو

    مری حسن بائی کو لے آئیو

    عجب وقت ہے اور عجب ہے سماں

    کرے دو گھڑی آ کے مجرا یہاں

    خفا ہوں، مراجی بھی مشغول ہو

    کوئی دم تو داغ جگر، پھول ہو

    کسی طرح سے دل تو لگتا نہیں

    جلے ہے جگر، دل سلگتا نہیں

    یہ سنتے ہی دوڑی گئی اک نگار

    لیا حسن بائی کو اس نے پکار

    وہ آنے لگی کافر اس آن سے

    کہ جانے لگا جی مسلمان سے

    عجب چال سے وہ چلی نازنیں

    کہ مستی میں پانوں کہییں کا کہیں

    وہ خلقت کی گرمی، وہ ڈومن پنا

    نشے میں بھبھوکا سا چہرہ بنا

    لٹیں مہ چھوٹی ہوئیں سر بہ سر

    کہ بدلی ہو جوں مہ کے ایدھر ادھر

    وہ بن پونچھی ہونٹھوں کی مسی غضب

    کہ منہ پر تھی گویا قیامت کی شب

    فقط کان میں ایک بالا پڑا

    کہے تو کہ تھا مہ کے ہالا پڑا

    وہ پشواز اگری، وہ نرگس کا ہار

    وہ کمخواب کی بند، رومی ازار

    بندھا سر پہ جوڑا، پڑی زرد شال

    کمر کی لچک اور مٹک کی وہ چال

    وہ شبنم کی انگیا بنی تنگ و چست

    کناروں پہ مینا بنت کا درست

    وہ اٹھی ہوئی چین پشواز کی

    وہ مسکی ہوئی چولی انداز کی

    وہ منہدی کا عالم، وہ توڑے، چھڑے

    وہ پانوں میں سونے کے دو دو کڑے

    چلی واں سے دامن اٹھاتی ہوئی

    کڑے سے کڑے کو بجاتی ہوئی

    عجب ایک عالم تھا بے ساختہ

    کہ عالم تھا ایک اس پہ جاں باختہ

    کئی کافریں اور بھی دل نواز

    لیے ساتھ ساتھ اس کے سب اپنے ساز

    چلیں ایک اغماز اور ناز سے

    کھڑی ہوئیں واں ایک انداز سے

    روش پر جو تھا فرش اس کے حضور

    ادب سے وہاں بیٹھیاں دور دور

    ہوا حکم گوری کا جو برملا

    لیے ساز اپنے سبھوں نے اٹھا

    دیا آسماں پر جو طبلوں کو کھینچ

    ہر اک تھاپ میں دل لیا سب کا اینچ

    لگی گانے ٹپا وہ اس آن سے

    نکلنے لگی جان ہر تان سے

    عجب تان پڑتی تھی انداز سے

    کہ بے کل تھی ہر تان آواز سے

    وہ تھی گٹکری یا لڑی نور کی

    مسلسل تھی اک پھل جھڑی نور کی

    گل و غنچہ کی طرح محبوب تھی

    کھلی اور مندی دل کی مرغوب تھی

    غرض کیا کہوں اس کامیں ماجرا

    عجب طرح کی بندھ گئی تھی ہوا

    وہ گانے کا عالم، وہ حسن بتاں

    وہ گلشن کی خوبی، وہ دن کا سماں

    گھڑی چار دن باقی اس وقت تھا

    سہانا ہر اک طرف سایہ ڈھلا

    درختوں کی کچھ چھانو اور کچھ وہ دھوپ

    وہ دھانوں کی سبزی، وہ سرسوں کا روپ

    لپیٹے ہوئے پوستوں پر تمام

    رپہری، سنہری ورق صبح و شام

    وہ لالے کا عالم، ہزارے کا رنگ

    وہ آنکھوں کے ڈورے، نشے کی ترنگ

    گلابی سا ہو جانا دیوار و در

    درختوں سے آنا شفق کا نظر

    وہ چادر کا چھٹنا، وہ پانی کا زور

    ہر اک جانور کا درختوں پہ شور

    وہ سرد سہی اور وہ آب رواں

    وہ مستی سے پانی کا پھرنا وہاں

    وہ اڑتی سی نوبت کی دھیمی صدا

    کہیں دور سے گوش پڑتی تھی آ

    وہ رقص بتاں اور وہ ستھری الاپ

    وہ گوری کی تانیں، وہ طلبوں کی تھاپ

    وہ دل پیسنا ہاتھ پر دھر کے ہاتھ

    اچھلنا وہ دامن کا ٹھوکر کے ساتھ

    نہ انسان کا ہی تھا دل اس میں بند

    ہوئے محو سن کر چرند و پرند

    غرض جو کھڑی تھی، کھڑی رہ گئی

    اڑی جس جگہ، سو اڑی رہ گئی

    جو پیچھے تھی، آگے نہ وہ چل سکی

    جو بیٹھی، سو بیٹھی، نہ پھر ہل سکی

    لگی دیکھنے آنکھ نرگس اٹھا

    گلوں نے دیے کان اودھر لگا

    لگے ہلنے آوجد میں سب درخت

    کھڑے رہ گئے سرو، ہو کر کرخت

    درختوں سے گرنے لگے جانور

    بنے مثل آئینہ دیوار و در

    ہوئی قمریاں شوق سے نعرہ زن

    بھرا، اشک سے بلبلوں کے، چمن

    ہوئے نہر کے سنگ پانی، پگھل

    پڑے سارے فوارے اس کے اچھل

    عجب راگ کو بھی دیا ہے اثر

    کہ ہو جاوے پتھر کا، پانی جگر

    بندھا اس طرح کا جو اس جا سماں

    ہوا سب کے دل کا عجب حال واں

    ولیکن جو کچھ دل گیوں پر گیا

    کہ بن آئی، ہر اک وہاں مر گیا

    لگا تھا زبس عشق کا اس کو تیر

    لگی کھینچنے آہ بدر منیر

    بندھا اس کو عاشق کا اپنے خیال

    لگی رونے آنکھوں پہ دھر کر رمال

    کہیں کا کہیں لے اڑا اس کو راگ

    ہوا سے ہوئی اور دونی وہ آگ

    لگی کہنے: ہے ہے، یہ دیکھوں میں سیر!

    نہ ہو پاس میرے وہ، یادش بہ خیر!

    وہی جانے، وہ جس کے کچھ دل کو لاگ

    کہ معشوق بن سب ہے گلزار، آگ

    بھلا کیونکے جی اس کا خوش حال ہو

    کہ ہجراں کا غم جس کے دنبال ہو

    جگر میں اگر آہ کی سول ہو

    لگے خار، کیسا ہی گو پھول ہو

    درختوں کے عالم سے کیا ہو نہال

    جسے یاد شمشاد کی ہو کمال

    کرے گلشن و گل پہ کیا وہ نظر

    جسے اپنے گل کی نہ ہووے خبر

    یہ کہہ کر اٹھی واں سے وہ دل ربا

    چھپر کھٹ میں جا کر گری منہ چھپا

    خوشی کا جو عالم تھا، ماتم ہوا

    ورق کا ورق ہی وہ برہم ہوا

    سب، اٹھتے ہی بس اس کے، جاتی رہیں

    طوائف کہیں اور خواصیں کہیں

    مری عقل اس جا پہ حیران ہے

    کہ یارب! یہ کیسا گلستان ہے!

    ہر اک وقت ہے اس کا عالم جدا

    جو چاہو، یہ پھر ہو، تو امکان کیا

    کبھی ہے خزاں اور کبھی ہے بہار

    نہیں اک و تیرے پہ لیل و نہار

    داستان بے نظیر کے غم ہجر سے بدر منیر کی بے قراری میں۔

    پلا ساقی! اک جام مجھ کو شتاب

    کہ پردے میں شب کے گیا آفتاب

    شب ہجر کی پھر علامت ہوئی

    غرض عاشقوں پر قیامت ہوئی

    گری جب چھپرکھٹ میں وہ رشک حور

    سبھوں کو کہا: تم رہو دور دور

    اکیلی وہ روتی تھی زار و نزار

    اسی اپنے عالم میں بے اختیار

    گرے چشم سے اس کی اتنے گہر

    کہ دھویا اسی آب سے منہ سحر

    صبوحی تو دے ساقی لعل فام!

    کہ رو دھو کے میں رات کاٹی تمام

    ہوا آفتاب الم جو طلوع

    اداسی کا ہونے لگا دن شروع

    ذرا آئنہ لے کے دیکھا جو رنگ

    تو جوں آئنہ رہ گئی وہ بھی دنگ

    بدن کو جو دیکھا تو زار و نزار

    کسی کو کوئی جیسے دیوے فشار

    فلک کی طرف دیکھ اور شکر کر

    لگی دل کو بہلانے ایدھر ادھر

    زباں پر تو باتیں ولے دل اداس

    پراگندہ حیرت سے ہوش و حواس

    نہ منہ کی خبر اور نہ تن کی خبر

    نہ سر کی خبر، نے بدن کی خبر

    اگر سر کھلا ہے، تو کچھ غم نہیں

    جو کرتی ہے میلی، تو محرم نہیں

    جو مسی ہے دو دن کی، تو ہے وہی

    جو کنگھی نہیں کی، تو یونہیں سہی

    جو سینہ کھلا ہے تو دل چاک ہے

    غم آلودہ صبح طرب ناک ہے

    نہ منظور سرمہ، نہ کاجل سے کام

    نظر میں وہی تیرہ بختی کی شام

    ولیکن یہ خوبوں کا دیکھا سبھاو

    کہ بگڑے سے دونا ہو ان کا بناو

    نہیں حسن کی اس طرح بھی کمی

    جو بگڑی ہے بیٹھی، تو گویا بنی

    غرض بے ادائی ہے یاں کی ادا

    بھلوں کو سبھی کچھ لگے ہے بھلا

    جو ماتھے پہ چین جبیں غم سے ہے

    تو وہ بھی ہے اک موج دریاے مے

    وہ آنکھیں جو روئی ہیں بس پھوٹ پھوٹ

    تو گویا کہ موتی بھرے بھرے کوٹ کوٹ

    تپ غم سے یوں تمتمائے ہیں گال

    کی جوں رنگ لالہ ہو وقت زوال

    گریبان سینے پہ ہے جو کھلا

    تو گویا وہ ہے صبح عشرت فزا

    نقاہت سے چہرہ اگر زرد ہے

    ویا آہ ہونٹھوں پہ کچھ سرد ہے

    ادا سے نہیں یہ بھی عالم جدا

    کہ ہے چاندنی اور ٹھنڈھی ہوا

    داستان بے قراری بدرمنیر کی بے نظیر کے فراق میں اور نجم النسا کے دینے میں۔

    پلا ساقیا! ساغر بے نظیر

    پھنسی دام ہجراں میں بدر منیر

    وہ حسن و جوانی اور اس پر یہ غم

    ستم ہے، ستم ہے، ستم ہے، ستم!

    جہاں بیٹھنا، آہ کرنا اسے

    بہانہ نزاکت پہ دھرنا اسے

    کبھی خون آنکھوں سے رو ڈالنا

    کسی کو کبھی دیکھ دھو ڈالنا

    خواصوں کو بالا بتانا اسے

    اکیلے درختوں میں جانا اسے

    ولے ان درختوں میں، جس میں وہ ماہ

    سر شام چھپ چھپ کے کرتا نگاہ

    سو یہ بھی پہر دن سے آ واں مدام

    اسی چھانو میں بیٹھ کرتی تھی شام

    گیا اس طرح جب مہینا گزر

    کہ وہ ماہ مطلق نہ آیا نظر

    اور اس کا ادھر رنگ گھٹنے لا

    جگر، خوں ہو مژگاں پہ بٹنے لگا

    لگی رہنے تپ جان بے تاب میں

    لگا فرق آنے خور و خواب میں

    محبت کا سودا سا ہونے لگا

    جنوں، تخم وحشت کا بونے لگا

    سرکنے لگا پاس ناموس و ننگ

    لگی عقل اور عشق میں ہونے جنگ

    خموشی اٹھانے لگی دل میں شور

    جتانے لگی ناتوانی بھی زور

    یہ احوال دیکھ اس کا، دخت وزیر

    لگی جل کے کہنے کہ بدر منیر!

    تو وہ ہے کہ سب کے تئیں دے وقوف

    کدھر دل گیا تیرا اے بے وقوف

    مسافر سے کوئی بھی کرتا ہے پیت!

    مثل ہے کہ جوگی ہوئے کس کے میت

    اری! چار دن کے ہیں یے آشنا

    ملا دل کو، آخر کریں ہیں جدا

    گہے آسماں، گہ زمیں کے ہیں یے

    جہاں بیٹھے ہیں، بس وہیں کے ہیں یے

    تو بھولی ہے کس بات پر اے بوا!

    خبر لے دوانی، تجھے کیا ہوا!

    سنو جانی! اپنے پہ جو کوئی مرے

    تو دل پہلے اپنا بھی صدقے کرے

    اگر آپ پر کوئی شیدا نہ ہو

    تو پھر چاہیے، اس کی پروا نہ ہو

    وہ خوش ہو گا اپنی پری کو لیے

    عبث اس پہ بیٹھی ہو تم جی دیے

    تمہاری اسے چاہ ہوتی اگر

    تو اب تک وہ تم کو نہ آتا نظر؟

    لگی کہنے تب اس کو بدر منیر

    کہ سنتی ہے اے میری دخت وزیر!

    کسی کی بدی تو نہ کر، عیب ہے

    کہ اس کا خدا عالم الغیب ہے

    وہ اپنے دلوں سے تو ہے نیک ذات

    ہوئی اس پہ کیا جانیں کیا واردات

    ہوا قید، یا آنے پایا نہ وہ

    گئے اتنے دن، اب تک آیا نہ وہ

    مجھے رات دن اس کا رہتا ہے ڈر

    پری نے سنی ہو نہ یاں کی خبر!

    نہ باندھا ہو اس کو کسی شید میں

    کیا ہو نہ اس کے تئیں قید میں

    پری نے کہیں طیش کھا لاف میں

    دیا ہو نہ پھینک اس کوکہہ قاف میں

    پرستان سے بھی نکالا نہ ہو

    کسی دیو کے منہ میں ڈالا نہ ہو

    نہ ملنے کے دکھ اس کے سب میں سہے

    بھلا اپنے جی سے وہ جیتا رہے

    یہ کہہ حال دل اپنا، رونے لگی

    گہر آنسوؤں کے پرونے لگی

    گئی منڈ کری مار آخر کو لیٹ

    چھپرکھٹ کے کونے میں سر منہ لپیٹ

    داستان خواب دیکھنے میں بدر منیر کے بے نظیر کو کنویں میں۔

    پلا ساقیا! جام جم سے وہ مل

    کہ غائب کا احوال ظاہر ہو گل

    کسی کو تو آ کام فرخندہ فال!

    کہ آخر یہ دنیا ہے خواب و خیال

    ذرا آنکھ لگ گئی جو اس حال میں

    تو دیکھا پھنسا اس کو جنجال میں

    قضا نے دکھایا عجب اس کو خواب

    کہ دشمن نہ دیکھے وہ حال خراب

    یہ دیکھا کہ صحرا ہے اک لق و دق

    کہ رستم جسے دیکھ ہو جاوے فق

    نہ انسان ہے واں نہ حیوان ہے

    فقط اک کف دست میدان ہے

    مگر بیچ میں اس کے ہے اک کنواں

    کہ اٹھتا ہے آہوں کا واں سے دھواں

    کنویں کا ہے منہ بند اور اس سے اڑی

    کئی لاکھ من کی ہے اک سل پڑی

    صدا واں سے یہ ہے کہ بدر منیر!

    ترے چاہ غم میں ہوا ہوں اسیر

    میں بھولا نہیں تجھ کو اے میری جاں!

    کروں کیا کہ ہے مجھ پہ قید گراں

    پر اس قید میں بھی ترا دھیان ہے

    فقط تیرے ملنے کا ارمان ہے

    تو اپنی جو صورت دکھاوے مجھے

    تو اس قید غم سے چھڑاوے مجھے

    نہیں مجھ کو مرنے سے کچھ اپنے ڈر

    یہ غم ہے کہ تجھ کو نہ ہووے خبر

    تجھے کاش اس وقت میں دیکھ لوں

    جیوں، میں اگر تیرے آگے مروں

    ولیکن یہ ہے خام میرا خیال

    نہیں وصل ممکن بغیر از وصال

    کوئی دم کا مہمان ہوں آج کل

    اسی چاہ میں جائے گا دم نکل

    یہ سن واردات شہ بے نظیر

    جو چاہے، کرے بات بدر منیر

    یہ ہرگز میسر نہ آئی اسے

    قضا نے نہ اس کی سنائی اسے

    یکا یک گئی آنکھ اتنے میں کھل

    بھرے اشک رخسار پر آئے ڈھل

    نہ وہ چاہ دیکھا، نہ ہم راز وہ

    پڑی گوش میں پھر نہ آواز وہ

    صدا اپنے یوسف کی سن خواب سے

    اٹھی باولی جان بے تاب سے

    کہا گو کسی سے نہ اس نے یہ بھید

    ولے جوں مہ صبح چہرہ سفید

    ڈھلے منہ پہ آنسو، ہوا بس کہ رنج

    چھٹے چاندنی میں ستاروں کے گنج

    وہ مہتاب سا چہرہ، ہو زرد زرد

    سراپا ہوا شکل اندوہ و درد

    زبس آہ پنہاں سے گھٹنے لگی

    تو منہ پر ہوائی سی چھٹنے لگی

    مژہ وہ، نکیلی جو تھی تیز سی

    ہوئی اشک خونیں سے گل ریز سی

    بھچمپا سا قد، تھا جو رشک انار

    نکلنے لگے اس سے شعلے ہزار

    جلیں اس کی آہوں سے گل صورتیں

    ہوئیں سب وہ ٹٹی کی جو مورتیں

    چھپایا بہت اس نے، پر ہم نشیں!

    چھپائے سے، آتش چھپے ہے کہیں!

    کسی سے کسی کو جو ہوتی ہے لاگ

    بغیر از کہے، اور لگتی ہے آگ

    خواصیں کئی، وے جو ہم راز تھیں

    بڑی خدمتوں میں سر افراز تھیں

    کہا ان سے رو رو کے احوال خواب

    رلایا انہیں، پڑھ کے غم کی کتاب

    سنا جب کہ نجم النسا نے یہ حال

    ہوئی بے قراری تب اس کو کمال

    داستان نجم النسا کے جوگن ہونے میں۔

    لگی کہنے وہ یوں: نہ آنسو بہا

    ترے واسطے میں نے سب دکھ سہا

    بس اب سر بہ صحرا نکلتی ہوں میں

    اسے ڈھونڈھ لانے کو چلتی ہوں میں

    جو باقی رہا کچھ مرے دم میں دم

    تو پھر آ کے میں دیکھتی ہوں قدم

    وگر مر گئی، تو بلا سے موئی

    تو یوں جانیو، مجھ پہ صدقے ہوئی

    کہا شاہ زادی نے: بس اے رفیق!

    ہوئی میں تو اس چاہ غم میں غریق

    بھلی چنگی اپنی نہ کھو جان تو

    کہ وہ ہے پری اور انسان تو

    رسائی تری کیونکے ہو گی وہاں

    مجھے بھی نہ دے ہاتھ سے میری جاں!

    میں جیتی ہوں اس آسرے پر فقط

    کہ ہوتا ہے تجھ سے مرا غم غلط

    وگرنہ میں رک رک کے مر جاؤں گی

    اسی طرح جی سے گزر جاؤں گی

    کہا اس نے: کیا کیجے پھر بھلا

    پڑی سر پہ یہ ناگہانی بلا

    میں اس عشق کا یہ نہ سمجھی تھی ڈول

    ترے غم سے، آنے لگا مجھ کو ہول

    تجھے دیکھنا یوں، گوارا نہیں

    اس اندوہ کا مجھ کو یارا نہیں

    یہ کہہ، اس نے رو رو اتارا سنگار

    کیا اپنی پشواز کو تار تار

    گریبان کو مثل گل چاک کر

    دیا خاک پر پھینک ایدھر ادھر

    پھر آئے جو کچھ اس کو ہوش و حواس

    سجا تن پہ جوگن کا اس نے لباس

    پہن سیلی اور گیروا اوڑھ کھیس

    چلی بن کے صحرا کو جوگن کے بھیس

    کئی سیر موتی جلا راکھ کر

    بھبھوت اپنے تن پر ملا سر بہ سر

    ملی راکھ سارے بدن کے تئیں

    کیا ڈہڈہا اپنے تن کے تئیں

    پہن ایک لنہگا زری باف کا

    وہ پردہ سا کر اس تن صاف کا

    زری کے دوپٹے سے چھاتی کو باندھ

    بدن کو چھپا اور گاتی کو باندھ

    زمرد کے مندرے لگا کان میں

    کہ جوں سبزہ و گل گلستان میں

    گلے بیچ ڈال اپنے مالوں کے تئیں

    پریشان کر اپنے بالوں کے تئیں

    زری کا بنا حلقہ سر پر رکھا

    کیا سنبلستان کو جگمگا

    لٹیں، دے کے بل، دوش پر موڑ دیں

    وہ باگیں سی شبدیز کی چھوڑ دیں

    مے گم سے آنکھوں کو کر لال لال

    رکھا چشم میں خون دل کو نکال

    زمرد کی سمرن کو ہاتھوں میں ڈال

    اور اک بین کاندھے پر اپنے سنبھال

    جو منکے تھے من کے، انہیں کر درست

    پہن اپنے موقعے سے چالاک وچست

    چلی بن کے جوگن وہ باہر کے تئیں

    دکھاتی ہوئی حال ہر ہر کے تئیں

    تف سوز دل کا عیاں منہ سے حال

    اڑاتی چلی اپنی آہوں سے رال

    اس آئینہ رو کا کروں کیا بیاں

    صفا، راکھ سے اور چمکی وہاں

    کرے حسن کو کسی طرح کوئی ماند

    چھپے ہے کہیں خاک ڈالے سے چاند

    چھپانے کو، سانگ اس جو جو کیے

    غرض حسن نے اور جلوے دیے

    وہ موتی کی سیلی، وہ تن کی دمک

    شب تیرہ میں کہکشان فلک

    زری کا وہ حلقہ سر اوپر دھرے

    کہ جوں شب میں کوئی بنیٹی کرے

    زمانے کو بھائی جو اس کی ادا

    تو اس رات پر دن کو صدقے کیا

    کرے جو کہ تقویم دل سے حساب

    کہے: سنبلہ میں گیا آفتاب

    یہ برق و یہ ابر سیہ ہے اگر

    تو دامان عشاق ہوویں گے تر

    زمرد کے مندرے وہ اس آن پر

    کہوں کیا کہ جیسے کھلے کان پر

    وہ مندرے، وہ تن اس کا خاکستری

    ہوئی حسن کی اور کھیتی ہری

    اڑے سبزہ و گل کے، دیکھ اس کو، ہوش

    وے دونوں ہوئے اس کے حلقہ بہ گوش

    نظر کر صفائی کو اس گوش کی

    زمرد کو اس گوش کی لو لگی

    بڑھے کیوں نہ ہر دم زمرد کی شان

    جب ایسے کسی کے لگے جا کے کان

    وہ موتی کے مالے، وہ مونگے کے ہار

    گل و نسترن کی چمن میں بہار

    گلابی سی وہ نرگس شوخ رنگ

    بھرے جس میں لالہ نے لا لا کے رنگ

    وہ قشقہ کھنچا سرخ ماتھے پہ یوں

    پڑے نور پر لعل کا عکس جوں

    ادا اس کی دیکھے جو عاشق کبھو

    تو رویا کرے چشم سے وہ لہو

    ییہ بین اس کے کاندھے پہ تھی خوش نما

    چلے جوں کوئی مست شیشہ اٹھا

    دیار محبت میں منہگی تھی وہ

    نہ تھی بین، عشرت کی بنہگی تھی وہ

    نہ تھی بین، تھے قمقمے رنگ کے

    دیا تھے سبو بحر آہنگ کے

    سو وہ بین کاندھے پہ رکھ یوں چلی

    کہ لاوے کوئی جیسے گنگا جلی

    ہر اک تار تھا بین کا، رود نیل

    وہ تھی ہند کے راگ کی سلسبیل

    نہ عاشق ہوئے اس کے عالم پہ لوگ

    دوانہ ہوا جوگ، دیکھ اس کو جوگ

    بنی جب کہ جوگن وہ اس رنگ سے

    لگے پھوڑنے دوست سر سنگ سے

    وہ رخصت جو اس طرح ہونے لگی

    تو وہ صاحب خانہ رونے لگی

    وہ رو رو کے دو ابر غم یوں ملے

    کہ جس طرح ساون سے بھادوں ملے

    یہاں تک بندھا ان کے رونے کا تار

    بہے پھوٹ دیوار و در ایک بار

    کھڑے تھے وہ جوگن کے جو گرد کل

    وہ رو رو ہوئے شبنم آلودہ گل

    نہ دیکھا کسی نے جو کچھ اختیار

    کہا: حق کو سونپا تجھے، لے سدھار

    چلی جس طرح پیٹھ اپنی دکھا

    اسی طرح دکھلا ہمیں منہ پھر آ

    کسی نے کہا: بھولیو مت مجھے

    خدا کے تئیں میں نے سونپا تجھے

    کہا اس نے: خیر اب تو جاتی ہوں میں

    جو ملتا ہے، تو اس کو لاتی ہوں میں

    تمہیں بھی خدا کو میں سونپا، سنا!

    مر بخشیو تم کہا اور سنا

    جدا ہو کے القصہ، روتوں کو چھوڑ

    چلی اپنے گھر بار سے منہ کو موڑ

    نہ سدھ بدھ کی لی اور نہ منگل کی لی

    نکل شہر سے راہ جنگل کی لی

    لیے بین پھرتی تھی صحرا نورد

    تن خاک خاک اور رخ گرد گرد

    کہ شاید کوئی شخص ایسا ملے

    کہ جس سے وہ شیدا کا شیدا ملے

    جہاں بیٹھ کر وہ بجاتی تھی بین

    تو سننے کو آتے تھے آہوے چین

    بجاتی وہ جوگن جہاں جو گیا

    تو واں بیٹھتی خلق دھونی رما

    اسے سن کے، آتا تھا صحرا کو جوش

    صدا سے، درختوں کو کرنا خروش

    گل نغمہ جو اس سے گرتے ہزار

    تو لیتا انہیں دشت دامن پسار

    کہیں حلقہ حلقہ، کہیں لخت لخت

    کھڑے ہو کے گرد اس کے سنتے درخت

    بجاتی تھی جوں جوں وہ بن بن کے بین

    خس و خار سنتے تھے بن بن کے بین

    نظر جو کہ پڑتی تھی بونٹی جڑی

    ہر اک عالم شوق میں تھی کھڑی

    تماشا نہ دیکھا تھا جو یہ کبھی

    درودشت غش ہو پڑے تھے سبھی

    یہاں تک کہ رہ میں جو تھے نقش پا

    وہ بیٹھے تھے کان اپنے اودھر لگا

    گل نغمہ تر کی تھی یہ بہار

    کہ صحرا کے گل، اس کے آگے تھے خار

    سن آواز کی اس کی شان و شکوہ

    کچھ اک دب کے بیٹھے تھے سننے کو کوہ

    نہ پانی ہی سن شور اس کا چلے

    کنووں کے دلوں میں ہوئے ولولے

    نہ چشمے ہی کچھ آب دیدہ رہے

    گریبان کر چاک دریا بہے

    گئی جو صدا گوش میں راگ کے

    تو سننے کو سوتے اٹھے جاگ کے

    سمجھ بین کو اس کی انسان سار

    گریبان کرنے لگے تار تار

    فقط بلبل و گل کا تھا کب ہجوم

    کہ گرتی تھیں واں ڈالیاں جھوم جھوم

    تحیر کا تھا وہاں ہر اک کو مقام

    زباں کا نکلتا تھا ہاتھوں سے کام

    چمن کرتی پھرتی تھی جنگل کے تئیں

    بساتی تھی جنگل میں دنگل کے تئیں

    یہ ہر جا پہ تھا اس کے دم سے طلسم

    بندھا تھا اسی دم قدم سے طلسم

    شب و روز سرگشتہ مثل صبا

    اسی طرح پھرتی تھی وہ جا بہ جا

    داستان فیروز شاہ جنوں کے بادشاہ کے بیٹے کے عاشق ہونے میں جوگن پر۔

    کدھر ہے تو اے ساقی گل عذار!

    کہ صحرا سے اب دل ہوا خار خار

    کوئی پھول سی دے شتابی شراب

    کہ شہر مطالب کو پہنچوں شتاب

    وہ دارو پلا دل کو جو راس ہو

    کہ جینے کی بیمار کو آس ہو

    مسبب کے اسباب دیکھو ذرا

    کہ قدرت میں ہے اس کی کیا کیا دھرا

    سفید و سیہ اس کے ہے اختیار

    بنایا ہے اس نے یہ لیل و نہار

    جہاں ہے اندوہ و عشرت بہم

    کہیں صبح عیش و کہیں شام غم

    دو رنگی زمانے کی مشہور ہے

    کبھی سایہ ہے یاں، کبھی نور ہے

    قضارا، سہانا سا اک دشت تھا

    کہ اک شب ہوا اس کا وہاں بسترا

    وہ تھی اتفاقاً شب چار دہ

    ادا سے وہ بیٹھی تھی واں رشک مہ

    بچھی ہر طرف چادر نور تھی

    یہی چاندنی اس کو منظور تھی

    بچھا مرگ چھالے کو اور لے کے بین

    دو زانو سنبھل کر وہ زہرہ جبین

    کدارا بجانے لگی شوق میں

    لگی دست و پا مارنے ذوق میں

    کدارا لگا بجنے یہ اس جا سماں

    صبا بھی لگی رقص کرنے وہاں

    وہ سنسان جنگل، وہ نور قمر

    وہ براق سا ہر طرف دشت و در

    وہ اجلا سا میداں، چمکتی سی ریت

    اگا نور سے چاند تاروں کا کھیت

    درختوں کے پتے چمکتے ہوئے

    خس و خار سارے جھمکتے ہوئے

    درختوں کے سایے سے مہ کا ظہور

    گرے جیسے چھلنی سے چھن چھن کے نور

    دیا یہ کہ جوگن کا منہ دیکھ کر

    ہوا نور، سایے کا ٹکڑے جگر

    گیا ہاتھ سے بین سن کر جو دل

    گئے سایہ و نور آپس میں مل

    وہ صورت خوش آئی جواس نور کی

    دل اپنے پہ سایے نے منظور کی

    ہوا بندہ گئی اس گھڑی اس اصول

    بسیرا گئے جانور اپنا بھول

    درختوں سے لگ لگ کے بادصبا

    لگی وجد میں بولنے: واہ واہ!

    کدارے کا عالم یہ تھا اس گھڑی

    کہ تھی چاندنی ہر طرف غش پڑی

    یہاں تو یہ عالم تھا اور طور یہ

    تس اوپر، مزہ تم سنو اور یہ

    کہ تھا اک پری زاد فرخ سیر

    جنوں کے وہ تھا بادشہ کا پسر

    نہایت طرح دار، صاحب جمال

    برس بیس اکیس کا سن و سال

    ہوا پر اڑائے ہوئے اپنا تخت

    کسی طرف جاتا تھا فیروز بخت

    وہ جاتا تھا کرتا ہوا سیر ماہ

    اسے خلق کہتی تھی فیروز شاہ

    یکایک سنی بین کی جو صدا

    وہاں تخت لا اس نے اپنا رکھا

    جو دیکھے تو جوگن ہے اک رشک حور

    کہ چشم فلک نے نہ دیکھا یہ نور

    نظر کر کے حسن اس کا، عشق کر گیا

    تعشق کے عالم میں بس مر گیا

    کہا، کچھ بناوٹ کا یہ بھیس ہے

    لگا کہنے: جو گی جی! آدیس ہے

    پڑا تم پر اتنا کہو کیا بجوگ

    لیا واسطے کس کے تم نے یہ جوگ

    کدھر سے تم آئے، کہاں جاؤ گے

    دیا اپنی ہم پر بھی فرماؤ گے؟

    وہ سمجھی کہ اس کا دل آیا ادھر

    کہ دل بھی تو رکھتا ہے دل کی خبر

    خس و خار ہے عشق، حسن آگ ہے

    سدا عشق اور حسن میں لاگ ہے

    ولے راگ، ہے اور اس میں ہوا

    کہ دونوں طرف آگ دے ہے لگا

    کہا ہنس کے جوگن نے: ہر بول ہر

    جہاں سے تو آیا، چلا جا ادھر

    کہا تب پری زاد نے: واہ جی!

    بہت گرم ہیں آپ اللہ جی!

    نہ روکھے ہو اتنا، بھلا جاؤں گا

    ذرا بین سن کر چلا جاؤں گا

    کہا: ہوتے سوتوں سے اپنے کہو

    فقیروں کو چھیڑو نہ، بیٹھے رہو

    یے دو دو لطیفے جو باہم ہوئے

    اسی لطف میں یے تو بے دم ہوئے

    گیا بیٹھ آ سامنے ریت میں

    رہا کھیت یہ، تو اسی کھیت میں

    نظر حسن پر گاہ، گہ بین پر

    سراپا دل اس لعبت چین پر

    رہا تن بدن کا نہ کچھ اس کو ہوش

    بنا گل وہ جوں نقش پا چشم و گوش

    وہ جوگن جو تھی درد و غم کی اسیر

    ہوا غم میں جوگن کے یہ بھی فقیر

    نہ سدھ گھر کی لی اور نے راہ کی

    جب آئی ذرا سدھ، تو پھر آہ کی

    بجاتی رہی بین وہ صبح تک

    یہ رویا کیا سامنے بے دھڑک

    ادھر تان پر بین کی، تھی بہار

    بندھا تھا ادھر اس کے رونے کا تار

    دھری اپنے کاندھے سے جب اس نے بین

    اٹھی لے کے اانگڑائی زہرہ جبین

    پری زاد نے تب پکڑا اس کا ہاتھ

    شتابی بٹھا تخت پر اپنے ساتھ

    زمیں سے اڑا آسماں کے تئیں

    وہ کتنا کہا کی: نہیں رے نہیں!

    نہ مانا اور اس نے اڑایا اسے

    پرستان میں لا بٹھایا اسے

    یہ مژدہ گیا باپ پاس اپنے لے

    کہا: عرض رکھتا ہوں میں آپ سے

    یہ جوگن جو ہے ایک صاحب کمال

    ذرا بین سنیئے اور اس کے خیال

    بہت آپ اس سے اٹھاویں گے خط

    بہت بین سن اس کی، پاویں گے حظ

    کہا اس نے: بابا! بہت خوب ہے

    ہمیشہ سے راگ اپنا مرغوب ہے

    کہا: آؤ جوگی جی! بیٹھو ادھر

    کرو روشن اپنے قدم سے یہ گھر

    کھلے بخت بیٹے کے اور باپ کے

    سر اوپر ہمارے قدم آپ کے

    بہت اس کی تعظیم و تکریم کی

    جگہ ایک پاکیزہ رہنے کو دی

    پلا مجھ کو ساقی! محبت کا جام

    کہ مہمانیوں میں ہوا دن تمام

    داستان فیروز شاہ کی مجلس آرائی اور جوگن کے بلانے میں۔

    یہ جوگن جو بیٹھی بروگن ہوئی

    کہ اتنے میں رات آئی جوگن ہوئی

    بھبھوت اپنے منہ پر شتابی سے مل

    رکھ انڈوی کو مہ کی، شب آئی نکل

    دکھاتی ہوئی سوز دل دور سے

    اڑاتی ہوئی رال کو نور سے

    ستاروں کے مالے گلے بیچ ڈال

    وہ پہنچی پرستان میں حال حال

    ہوئی شب جو وہ بزم انجم فروز

    چھپا رشک سے اس کے، پردے میں روز

    ملک نے پرستاں میں مجلس بنا

    بلایا اسے، جس کی تھی یہ ثنا

    پری زاد سارے ہوئے جمع واں

    کہ دیکھیں تو جوگن کا چل کر سماں

    وہ جوگن جو سچ مچ تھی زہرہ جبین

    سو مجلس میں آئی، لیے اپنی بین

    بہت منتوں سے بلایا اسے

    بڑی عزتوں سے بٹھایا اسے

    کہا: ہم ہیں مشتاق، کچھ گائیے

    سماں بین کا ہم کو دکھلائیے

    کہا: کچھ بجاتا نہیں اپنا کام

    ہر اک طرح لینا ہمیں ہر کا نام

    ہیں بیزار فرامایشوں سے فقیر

    ولے کیا کریں، اب ہوئے ہیں اسیر

    کہا: جوگی صاحب! یہ کیا بات ہے

    کرم آپ کا ہم پہ دن رات ہے

    جو مرضی ہو، تو تم کو تکلیف دیں

    نہیں، جس میں راضی ہو تم، سو کریں

    کہا: اس طرح سے جو فرماؤ گے

    تو ہاں بندگی ہی میں کچھ پاؤ گے

    یہ کہہ اس نے اور بین کاندھے پر دھر

    یہاں تک بجائی کہ دیوار و در

    کھڑے رہ گئے ہوش کھوئے ہوئے

    نظر جو پڑے واں، سو روئے ہوئے

    گیا اہل مجلس کا دل جو پگھل

    تو جوں شمع اشک آئے سب کے نکل

    ہوئیں بین پر انگلیاں یوں دواں

    کہ ہاتھوں سے اس کے ہوا دل رواں

    روان و دواں کر دیا جان کو

    رلایا ہر اک جن و انسان کو

    ہو حال پر اس کا جو کچھ تباہ

    وہ عاشق جو تھا اس پہ فیروز شاہ

    کبھی سامنے آکے کرتا نظر

    کبھی دیکھتا چھپ کے ایدھر ادھر

    ستوں کی کبھی اوٹ میں ہو کے وو

    کھڑا دیکھتا اس کو رو رو کے وو

    کبھی ایدھر اودھر سے پھر پھر کے آ

    چھپے، اس کے مکھڑے کی لیتا بلا

    وہ گو کچھ نہ سنتی، نہ کہتی اسے

    کن انکھیوں سے پر دیکھ رہتی اسے

    نظر اس کی جب آن پڑتی ادھر

    تو یہ اور کی طرف کرتی نظر

    اس آن و ادا پر وہ فیروز شاہ

    دل و جاں سے کرتا تھا ہر لحظہ آہ

    اگر کوئی جوگن کی کرتا ثنا

    تو کھا رشک کہتا کہ پھر تم کو کیا!

    غرض تھی یہ صحبت کہ میں کیا کہوں

    یہی دل تھا اس کا کہ دیکھا کروں

    بجی پہلی صحبت میں وہاں ایسی بین

    کہ غش کر گئے وے، جو تھے نکتہ چین

    سراہا پری زاد کے باپ نے

    کہا: کی دیا جوگی جی! آپ نے

    اسی طرح ہر شب کرم کیجیے

    مری بزم، رشک ارم کیجیے

    مقدم ہمارا رجھانا کرو

    ہمیں اپنا مشتاق جانا کرو

    یہ گھر بار ہے آپ کا ہی تمام

    ہوئے آج سے ہم تمھارے غلام

    تکلف کو موقوف کر دیجیے

    جو کچھ تم کو درکار ہو، لیجیے

    کہا اس نے: مطلب نہیں کچھ ہمیں

    تمھارا مبارک رہے گھر تمہیں

    کہاں ہم، کہاں تم، ہوا جو یہ ساتھ

    یہ تھی بات سب آب و دانے کے ہاتھ

    یہ کہہ واں سے اٹھی وہ جوگن ادھر

    دیا تھا جہاں اس کے رہنے کو گھر

    لگی رہنے اس میں شب و روز وہ

    سمجھ جی میں کچھ کچھ دل افروز وہ

    کہا اپنے جی سے کہ سنتا ہے جی!

    نہ گھبرائیو اپنے دل میں کبھی

    بہ بینم کہ تا کردگار جہاں

    دریں آشکارا چہ دارد نہاں

    غرض اس طرح اس کا معمول تھا

    کہ اس شاہ پریوں کی خدمت میں جا

    پہر رات تک ہنستی اور بولتی

    ہر اک بات میں قند تھی گھولتی

    بجا بین، سب کو رجھاتی تھی وہ

    پہر کے بجے گھر میں آتی تھی وہ

    ولے کیا کہوں حال فیروز شاہ

    کہ تھی دن بہ دن اسکی حالت تباہ

    نہ دنیا کی اس کو، نہ دیں کی خبر

    اسی کے تصور میں شام و سحر

    اسی شمع کے گرد پھرنا اسے

    پتنگے کی مانند کرنا اسے

    بہانے سے ہر کام کے روز و شب

    وہیں کاٹنے آ کے اوقات سب

    اسی طرح اوقات کھونا اسے

    سدا بین سن سن کے رونا اسے

    وہ جوگن بھی سو سو طرح کر ادا

    ہر اک آن میں اس کو لیتی لبھا

    ولے کچھ بھی پاتی جو حسن طلب

    تو عاشق پہ غصہ وہ کرتی غضب

    کیا اس نے پردے میں جب کچھ سوال

    دوانہ کیا اس کو باتوں میں ڈال

    کبھی خوش کیا اور کیا گہ اداس

    کبھی دور بیٹھی، کبھی اس کے پاس

    کبھی تیکھی نظروں سے گھائل کیا

    کبھی میٹھی باتوں سے مائل کیا

    کبھی تیڑھی باتوں سے مارا اسے

    کبھی سیدھے دل سے پکارا اسے

    کبھی ہنس کے دیکھا ذرا، خوش کیا

    کبھی ہو کے غمگین، ناخوش کیا

    کبھی منہ دکھایا، چھپایا کبھی

    کبھی مار ڈالا، جلایا کبھی

    لٹو میں کبھی دل کو لٹکا دیا

    کبھی ساتھ بالوں کے جھٹکا دیا

    جو دیکھا چھپے، تو لیا منہ کو موڑ

    اسی طرح سے کرتی تھی توڑ جوڑ

    وہ ہر چند آنکھیں دکھاتی رہی

    پہ نظروں میں دل کو لبھاتی رہی

    بچارہ پری زاد وہ سادہ دل

    ادائیں یہ انسان کی متصل

    اسی طرح مدت گئی جب اسے

    چڑھی گرمی عشق کی تب اسے

    نہ منہ پر وہ عالم رہا اور نہ نور

    کئی دن میں دل ہو گیا چور چور

    جگر خوں ہو، آنکھوں سے آیا ابل

    گیا دل سے اندر ہی اندر پگھل

    یہ دی پردۂ دل سے جی نے صدا

    کہ ہے صبر کی اپنے اب انتہا

    جو کہنا ہے اس سے، تو کہہ حال دل

    کہ اب تنگ ہے اپنا احوال دل

    سنبھلتا ہے اب بھی تو ظالم سنبھل

    نہیں، کوئی دم میں چلا میں نکل

    ملا کر تو اب دست افسوس کو

    پڑا رہ لیے ننگ و ناموس کو

    یہ سن جی کا پیغام، مجبور ہو

    کہا: اپنے نزدیک کو دور ہو

    بلا سے اگر آن رہتی نہیں

    کہ اب بن کہے، جان رہتی نہیں

    غرض ایک دن بات یہ ٹھان کر

    لگا گھات پر اپنی وہ آن کر

    نہ تھا اس گھڑی کوئی ایدھر ادھر

    اکیلی پڑی جوگن اس کی نظر

    اکیلی اسے دیکھ، ہو بے قرار

    گرا اس کے پانوں پہ بے اختیار

    گرا اس طرح سے قدم پر جو وہ

    تو کہنے لگی مسکرا، اس کو وہ

    کہ ہے آج کیا یہ خلاف قیاس

    گرا اتنا تو ہو کے کیوں بے حواس

    کسی نے ترا دل ستایا کہیں

    دیا جی کو تیرے لبھایا کہیں

    مرے بیٹھنے سے اذیت ہوئی

    کہ مہمانیوں کی مصیبت ہوئی

    فقیروں سے اتنا نہ ہو تو خفا

    چلے ہم بھلا، جا ترا ہو بھلا

    اذیت مگر ہم سے پاتا ہے تو

    کہ اب پانو پڑ پڑ اٹھاتا ہے تو

    لگا کہنے رو رو کے فیروز شاہ

    کہ بس بس یہی تو کہو گی نا، واہ!

    تمہاری سمجھ نے تو مارا ہمیں

    یے باتیں نہیں اب گوارا ہمیں

    ستائے ہوئے کو ستاتے ہو کیا

    جلے دل کو ناحق جلاتے ہو کیا

    ہوئے تم نہ واقف مرے حال سے

    فدا میں رہا جان اور مال سے

    تم اپنا سا مجھ کو سمجھتے رہے

    بھلا تم کو اب یاں کوئی کیا کہے

    تم ایسے ہی بے رحم و بے درد ہو

    غرض اپنے عالم میں تم فرد ہو

    یہ سن، ہنس کے بولی وہ، کہ اپنا حال

    کہ تو کیوں گرا سر کو پانوں پہ ڈال

    کہا تب پری زاد نے میری جاں!

    کہاں تک کروں راز دل کو نہاں

    بھلا ہجر میں کب تلک ہوں ملول

    غلامی میں اپنی مجھے کر قبول

    لگی ہنس کے کہنے کہ اک طور سے

    جو میری کہانی سنے غور سے

    مطالب اگر میرے برلائے تو

    تو شاید مراد اپنی بھی پائے تو

    کہا اس نے: پھر جلد فرمائیے

    جو کچھ آپ سے ہو، بجا لائیے

    کہا اس نے: یہ ہے مری داستاں

    کہ شہر سر اندیپ ہے اک مکاں

    ملک اک وہاں کا ہے مسعود شاہ

    کہ بیٹی ہے ایک اس کی مانند ماہ

    جہاں میں ہے بدرر منیر اس کا نام

    میں رہتی تھی خدمت میں اس کی مدام

    بنایا تھا اس نے الگ ایک باغ

    کہ فردوس کا تھا وہ چشم و چراغ

    جدا باپ سے تھی وہ اس جا مقیم

    سدا سیر کرتی تھی بے خوف و بیم

    میں نجم النسا اس کی دخت وزیر

    ہمیشہ سے ہم راز تھی اور مشیر

    جدا ایک دن اس سے ہوتی نہ تھی

    سلائے بغیر اس کے، سوتی نہ تھی

    خوشی سے سروکار، غم سے فراغ

    بہ رنگ چمن رہتی تھی باغ باغ

    کسی طرح کا غم نہ تھا دھیان میں

    ترقی خوشی کی تھی ہر آن میں

    ہوئی ایک دن یہ عجب واردات

    کہ اک شخص وارد ہوا ایک رات

    کہاں تک کہوں اس کا قصہ ہے دور

    نہ تھا آدمی، تھا وہ اک شمع نور

    گیا اس یہ اس شاہ زادی کا دل

    ہوئے ایک، دونوں وہ آپس میں مل

    ولے عاشق اس پر کوئی تھی پری

    محبت میں تھی اس کی وہ بھی بھری

    وہاں اس کے آنے کی سن کر خبر

    خدا جانے پھینکا ہے اس کو کدھر

    دیا قید میں اس کو ڈالا کہیں

    کہ مدت سے اس کی خبر کچھ نہیں

    سو میں کھوج میں اس کے جوگن ہوئی

    یہاں تک تو پہنچی بروگن ہوئی

    پری زاد آپس میں تم ایک ہو

    اگر تم ذرا کھوج اس کا کرو

    تو شاید مدد سے تمہاری ملے

    تو پھر آرزو بھی ہماری ملے

    دل آباد ہو، جی کو آرام ہو

    تمہارا بھی اس کام میں کام ہو

    کہا تب پری زاد نے: ہاتھ لا

    انگوٹھا دکھایا کہ اترا نہ جا

    کہا؛ پھر یہی کچھ نہیں مہ جبیں!

    لگی ہنس کے کہنے: نہیں رے نہیں

    یہ سن، قوم کو اپنی اس نے بلا

    تقید سے سب کو سنا کر کہا

    کہ جاؤ تو ڈھونڈھو، کرو مت کمی

    کہ ہے اک پرستاں میں قید آدمی

    جو تم میں سے لاوے گا اس کی خبر

    جواہر کے دوں گا لگا اس کو پر

    یہ سن اپنے سردار کا سب کلام

    تجسس میں پھرنے لگے صبح و شام

    ہوا ناگہاں ایک واں گزر

    جہاں قید میں تھا وہ خستہ جگر

    وہ روتا تھا جو نالہ و آہ سے

    تو کچھ آئی اس کو صدا چاہ سے

    کہا: کچھ تو ملتا ہے یاں سے سراغ

    کہ آتی ہے یاں بوے گلزار داغ

    وے چوکی کے جو دیو تھے جا بہ جا

    لگا پوچھنے، کس کی ہے یہ صدا؟

    کہا: ماہ رخ کا ہے قیدی یہاں

    کنویں میں تڑپھتا ہے اک نوجواں

    وہ تحقیق کر اور لے واں کا بھید

    اڑا شہر کو اپنے دیو سفید

    کیا جا کے فیروز شہ کو سلام

    جو کچھ دیکھ آیا، سنایا تمام

    کہا: میرا مجرا ہے، اب لائیے

    جو دینے کہا تھا، سو دلوائیے

    جو معمول تھا واں کے انعام کا

    جواہر کے اس کو دیے پر لگا

    داستان پیغام بھیجنے میں فیروز شاہ کے ماہ رخ کو۔

    یہ بھیجا پھر اس ماہ رخ کو پیام

    کہ کیوں زیست کرتی ہے اپنی حرام

    بنی آدمی کو تو چوری سے لا

    بٹھاتی ہے گھر میں تعشق جتا

    ترے باپ کو گر لکھوں تیرا حال

    تو کیا حال تیرا ہو پھر اے چھنال!

    عزیز اپنی رکھتی نہیں جان کو

    ابھی ہے کہ پھونکوں پرستان کو!

    ترا رنگ غیرت سے اڑتا نہیں!

    تجھے کیا پری زاد جڑتا نہیں!

    ہمارا گئی بھول خوف و خطر

    لگی رکھنے انسان پر تو نظر

    بھلا چاہتی ہے تو اس کو نکال

    کنویں میں جسے تو نے رکھا ہے ڈال

    اور اس کی قسم کھا کہ پھر گر کہیں

    لیا نام اس کا، تو پھر تو نہیں

    گیا ماہ رخ کو یہ فرمان جب

    ہوئی خوف سے وہ پریشان تب

    کہا: مجھ سے تقصیر اب تو ہوئی

    کہو، اس کو لے جائے یاں سے کوئی

    اگر اب میں لاگو ہوں اس کی کبھی

    تو پھر پھونک دیجو پرستاں سبھی

    پر اتنا یہ احسان مجھ پر کرو

    کہ اس کا پرستاں میں چرچہ نہ ہو

    مرے باپ کو یہ نہ ہووے خبر

    کہ پھر میں نہ ایدھر کی ہوں، نے ادھر

    یہ سن کر جواب اس کا، فیروز شاہ

    چلا حب سے اپنی، جہاں تھا وہ چاہ

    سر چاہ پر جب وہ پہنچا شفیق

    کہا ان کو، تھے دے جو اس کے رفیق

    کہ یہ سنگ اکھڑے، یہاں سے بلے

    کسی طرح چھاتی سے پتھر ٹلے

    کھڑے تھے جووے دیو واں جوں پہاڑ

    انہوں نے دیا اپنے سینے کو گاڑ

    وہ پتھر، جو تھا کوہ سا سنگ راہ

    دیا پھینک واں سے اسے مثل کاہ

    وہ بادل سا سر کا جو اس چاہ سے

    تو اک نور چمکا شب ماہ سے

    اندھیرے سے اس چاہ کے اس کا تن

    نظر یوں پڑا، جیسے کالے کا من

    وہ من ڈالے اس میں پڑا تھا جو واں

    کہا اس پری زادے نےسب کو، ہاں!

    نکالو امانت اسے اس نمط

    کہ لیتے ہیں بو مشک سے جس نمط

    تمہیں احتیاط اس کی اب ہے ضرور

    سمجھیو اسے اپنی پتلی کا نور

    داستان کنویں سے نکلنے میں بے نظیر کے۔

    قدح بھر کے لا ساقی با تمیز

    کنویں سے نکلتا ہے یوسف عزیز

    گئے دن خزاں کے اور آئی بہار

    مے لعل گوں سے دکھا لالہ زار

    گلابی جھمکتی دلا دے مجھے

    سماں کوئی ایسا دکھا دے مجھے

    کہ وہ ماہ نخشب کنویں سے نکل

    منازل کو اپنی پھرے بر محل

    کوئی دیو تھا واں سکندر نژاد

    کنویں میں اتر کر بہ حسب مراد

    الگ یوں لے آیا کنویں سے نکال

    کہ فوارہ جوں آب کو دے اچھال

    لے آیا وہ جوں خضر سو گھات سے

    نکال آب حیواں کوظلمات سے

    ہوئے مست اس نازبو سے وہ گل

    کہ نکلا وہ سنبل سے مانند گل

    اندھیرے سے نکلا وہ روشن بیاں

    کہ حرفوں سے جوں ہوویں معنے عیاں

    ہو جیتا تو نکلا، ولے اس طرح

    کہ بیمار ہو نزع میں جس طرح

    زبس اوپر آنے کا تھا اس کو غم

    کہے تو کہ بھرتا تھا اوپر کا دم

    جمی خاک تن پر بہ رنگ زمیں

    گڑا جیسے نکلے ہے پتلا کہیں

    نہ آنکھوں میں طاقت نہ تن میں تواں

    کہ جوں خشک ہو نرگس بوستاں

    وہ تن سرخ جو تھا، سو پیلا ہوا

    وہ جوڑا جو تھا سبز، نیلا ہوا

    وہ سر میں جو تھے اس کے سنبل سے بال

    ہوئے لاغری سے بدن کی وبال

    فقط پوست باقی تھا یا استخواں

    نہ تھا خون کا رنگ بھی درمیاں

    بدن سے رگوں کی تھی اس ڈھب نمود

    کہ الجھا ہو جوں ریسمان کبود

    بدن خشک و زرد اس طرح تھا وہ گل

    خزاں دیدہ ہو جس طرح برگ گل

    وہ ناخن، جو تھے اس کے مثل ہلال

    سو وہ ہو گئے بڑھ کے بدر کمال

    یہ دیکھا جو احوال اس کا تباہ

    تو روتا ہوا جلد فیروز شاہ

    بٹھا تخت پر اپنے اس کو، وہاں

    لے آیا، وہ بیٹھی تھی جوگن جہاں

    رکھا تخت اک جا پر اس کا چھپا

    کہا پھر یہ جا کر کہ نجم النسا؟

    چل اب تو کہ میں اس کو لایا یہاں

    یہ سنتے ہی گھبرا کے بولی: کہاں؟

    دوانی تھی ازبس وہ اس نانو کی

    نہ سر کی رہی سدھ، نہ کچھ پانو کی

    کہا چل، کہاں ہے، بتا تو مجھے

    ذرا اس کی صورت دکھا تتو مجھے

    کہا: رہ کے چلیو، ذرا تم رہو

    کہ شادی بڑی ہے، کہیں غم نہ ہو

    یہ کہہ اور لے ہاتھ میں اس کا ہاتھ

    لے آیا وہ جوگن کو واں ساتھ ساتھ

    گیا آپ اس تخت پر بیٹھ، اور

    دکھایا اسے اور کہا: کر تو غور

    جسے ڈھونڈھتی تھی، سو یہ ہے وہی؟

    کہا: ہاے، ہاں یہ وہی ہے وہی!

    یہ کہہ اور اس تخت کے پاس آ

    کہا: اے پری زاد! تو اٹھ ذرا

    کہ اس تحت کے گرد اک دم پھروں

    بلائیں میں دل کھول کر اس کی لوں

    کہا اس نے ہنس کر، بھلا دیکھ تو

    تو اس بات پر میرے صدقے بھی ہو

    کہا اس نے تب اپنی جوتی دکھا

    ارے دیو، تو کیوں دوانہ ہوا!

    غرض وہ پری زاد نیچے اتر

    کھڑا ہو گیا تخت سے ہو ادھر

    یہ اس تخت کے گرد پھرنے لگی

    بلا اس کی لے لے کے گرنے لگی

    گلے لگ کے رونے لگی زار زار

    کیا اپنے تن من کو اس پر نثار

    وہ دیکھے جو ٹک آنکھ اٹھا بے نظیر

    تو نجم النسا ہے یہ دخت وزیر

    کہا: تو کہاں اور کس کا یہ جوگ

    کہاں یہ لباس اور کہاں تم یہ لوگ

    کہا: تیرے غم نے دوانہ کیا

    کہ عالم سے اپنے بگانہ کیا

    بغل کھول کر دونوں آپس میں مل

    وے رویا کیے دیر تک متصل

    بیاں دونوں اپنا جو کرنے لگے

    در اشک سے چشم بھرنے لگے

    کہی سر گذشت اس نے اس دم تلک

    کہ اس طرح پہنچے ہو تم ہم تلک

    یہ سن بے نظیر اپنی دل سوز سے

    لگا شاد ہونے اسی روز سے

    کیا ایک دن تو انہوں نے مقام

    چلے دوسرے دن وے نزدیک شام

    اڑے تخت پر بیٹھ کر وہ ادھر

    کہ تھا نقش مطلوب ان کا جدھر

    وہ جوگن، وہ فیروز شاہ اور وہ ماہ

    چلے تخت پر بیٹھ اوپر کی راہ

    پڑھے حرف مطلب زبس سوچ کر

    تو بے کسر بیٹھے مثلث کے گھر

    مربع نشیں تھی وہ بدر منیر

    وہاں اس کو لائی وہ دخت وزیر

    اتارا انہیں، لا درختوں میں تخت

    دوبارہ کھلے ان درختوں کے بخت

    اکیلی اتر، واں سے آئی ادھر

    لیے سوگ بیٹھی تھی وہ مہ جدھر

    یکایک جو آ وہ قدم پر گری

    تو جھجھکی وہ شہ زادی اور کچھ ڈری

    پھر آخر جو دیکھا تو جوگن ہے یہ

    مرے درد و غم کی بروگن ہے یہ

    کہا: ہاے نجم النسا تو ہے جان!

    اری تیرے صدقے مری مہربان!

    ہمیں تیرے ملنے کی کب آس تھی

    کہ جینے سے اپنے ہمیں یاس تھی

    بہت اس نے چاہا کہ ہووے کھڑی

    کھڑی ہوتے ہوتے دو نہیں گر پڑی

    کہا: بار غم سے افاقت نہیں

    اری کیا کروں، مجھ میں طاقت نہیں

    بلائیں لگی لینے نجم النسا

    لگی گرد پھرنے بہ رنگ صبا

    اسے شاہ زادے کا تھا حال یاد

    جو دیکھا تو یاں اس سے کچھ ہے زیاد

    نہ گھر کی وہ رونق، نہ اس کا وہ حال

    گلوں سے لگا دل تلک پاے مال

    پڑے سارے بے داشت دیوار و در

    محل کو جو دیکھا تو ٹوٹا سا گھر

    خواصیں جو تھیں پاس، وے نازنیں

    سو میلی کچیلی، کہیں کی کہیں

    نہ چوٹی گندھی اور نہ کنگھی درست

    جو چالاک تھی، بن گئی وہ بھی سست

    ہر اک اپنے عالم میں دیکھو تو دنگ

    اڑا رنگ چہرے کا مثل پتنگ

    نہ آپس کی چہلیں، نہ وہ چہچہے

    نہ گانا بجانا، نہ وہ قہقہے

    غم آلودہ ایک زار و نزار

    نہ آرام جی کو، نہ دل کو قرار

    جو بیٹھیں تو رونا، جو اٹھیں تو غم

    غرض بیٹھتے اٹھتے ان پر ستم

    چمن سارے ویران سے ہیں پڑے

    شجر گل کے، اک جھاڑ سے ہیں کھڑے

    جو خود ہے، تو حیران و بیمار سی

    کہ جوں زرد شیشے کی ہو آر سی

    نہ تاب و تواں اور نہ ہوش و حواس

    ضعیف و نحیف و پریشاں، اداس

    یہ دیکھ اس کا احوال نجم النسا

    جلی شمع کی طرح آنسو بہا

    ولیکن محل میں پڑی جب یہ دھوم

    .کیا مثل پروانہہ اس پر ہجوم

    سنی ایک سے ایک نے یہ خبر

    مبارک سلامت ہوئی یک دگر

    کوئی غنچے کی طرح کھلنے لگی

    کوئی دوڑ کر اس سے ملنے لگی

    ٹکے کوئی صدقے کے لانے لگی

    کوئی سر سے روٹی چھوانے لگی

    کوئی آئی باہر سے، گھر سے کوئی

    ادھر سے کوئی اور ادھر سے کوئی

    حقیقت لگی پوچھنے آ کوئی

    لگی کرنے آپس میں چرچا کوئی

    ہوا سر پر اس کے زبس ازدحام

    لگی کرنے گھبرا کے سب کو سلام

    کہا: بی بیو! کل کہوں گی میں حال

    کہ اب راہ کی ماندگی ہے کمال

    وہ انبوہ جب کچھ ہوا برطرف

    تو پھر دیکھ نجم النسا ہر طرف

    کہا: شاہ زادی! تو آتی نہیں

    ادھر اپنی تشریف لاتی نہیں

    چلو چل کے آرام ٹک کیجے

    کچھ اک تم سے کہنا ہے، سن لیجے

    گئی جب کہ خلوت میں بدر منیر

    کہا: میں لے آئی ترا بے نظیر

    تعجب سے پوچھا کہ سچ مچ ہے یہ

    ویا چھیڑ نے کو مرے کچھ ہے یہ

    یہ سنتے ہی، پہلے تو غش کر گئی

    کہے تو، کہ حیرت میں آ مر گئی

    کہا: مجھ کو سوگند اس جان کی

    غلط کہنے والی میں قربان کی

    نشاط و خوشی کی خبر یک بہ یک

    نہیں منہ پہ کہہ بیٹھتے بے دھڑک

    کہا: کیونکے لائی، کہا: اس طرح

    وہ سب کہ دیا، حال تھا جس طرح

    کہا: پھر وے دونوں کہاں ہیں، کہا

    درختوں میں ان کو رکھا ہے چھپا

    عجب وقت میں میں ہوئی تھی جدا

    کہ دل بر کو تیرے دیا لا ملا

    مگر ایک یہ آپڑی بے بسی

    کہ میں تیری خاطر بلا میں پھنسی

    سو اب ایک کو تولے آتی ہوں میں

    ہوا دوسرے کو بتاتی ہوں میں

    یہ سن، شاہ زادی ہنسی کھلکھلا

    کہا: کیوں اڑاتی ہے نجم النسا!

    اری ایک ہی تو بڑی قہر ہے

    کہیں تو ہے امرت کہیں زہر ہے

    چل اب چوچلے بس زیادہ نہ کر

    شتابی انہیں جا کے لے آ ادھر

    کہا: پھر پری زاد کے رو بہ رو

    بغیر از کسی کے کہے، ہو گی تو؟

    کہا: وہ تو ایسا دوانا نہیں

    وہ اس بات کو کیا کہے گا، نہیں؟

    اگر دل میں کچھ تیرے وسواس ہے

    نہیں دور، وہ بھی ترے پاس ہے

    ذرا پوچھ لیجو تو اس بات کو

    کہ وہ روبہ رو اس کے ہو یا نہ ہو؟

    یہ سن کر شتابی گئی وہ نگار

    لیا جا کے آہستہ ان کو پکار

    چھپائے ہوئے لا بٹھایا وہاں

    وہ خلوت کا جو تھا قدیمی مکاں

    پھر اس سے یہ پوچھا کہ اے بے نظیر!

    کہے تو چلی آوے بدر منیر

    کہا: خیر ہے تجھ کو رشک چمن!

    چھپے ہے کہیں بھائی سے بھی بہن

    مرا جان و مال اس پہ قربان ہے

    کہ اس کے سبب سے مری جان ہے

    مرا یہ تو ہمدم ہے دن رات کا

    مجھے اس سے پردہ ہے کس بات کا

    داستان بے نظیر و بدر منیر کے ملنے اور اس کے باپ کو بیاہ کا رقعہ لکھنے میں۔

    مرے منہ سے ساقی! ملا دے شراب

    کہ ملتے ہیں باہم مہ و آفتاب

    یہ سن سن کے باتیں، وہ پردہ نشیں

    چلی آئی اک ناز سے نازنیں

    حیا سے پھر آ کر جو بیٹھی وہ پاس

    پھر آئے گویا اس کے ہوش و حواس

    نظر سے نظر جو ملی ایک بار

    کیے چشم نے لعل و گوہر نثار

    ادھر اشک خونیں، ادھر چشم نم

    اسے اس کا غم، اور اسے اس کا غم

    نہ وہ رنگ اس کا، نہ وہ اس کا حال

    تن زرد زرد اور رخ لال لال

    بہم دو خزاں دیدہ گلزار سے

    ملے جیسے بیمار، بیمار سے

    عجب صحبت آپس میں اس دم ہوئی

    کہ ایسی بھی صحبت بہت کم ہوئی

    وہ نجم النسا اور فیروز شاہ

    حیا سے کیے اپنی نیچے نگاہ

    سر شک محبت بہانے لگے

    اس احوال پر حیف کھانے لگے

    اور اک طرف کو شاہ زادہ نڈھال

    لگا رونے آنکھوں پہ دھر کر رمال

    وہ مجروح دل تھی جو بدر منیر

    لگی کھینچنے اپنی آہوں کے تیر

    چھپا منہ کو اس طرف سے نازنیں

    لگی کرنے تر دامن و آستیں

    پڑیں غم کی باتیں جو آ درمیاں

    یہ روئے کہ لگ لگ گئیں ہچکیاں

    غرض دیر تک مل کے روتے رہے

    جدائی کے داغوں کو دھوتے رہے

    رخ زرد پر اشک گل گوں بہا

    بہار و خزاں کو کیا ایک جا

    کلیجوں پہ جو داغ تھے بے شمار

    سو آنکھوں نے ان کی دکھائی بہار

    پھر آخر کو نجم النسا وہ شریر

    لگی کہنے: سنتی ہے بدر منیر!

    کیا چاہتی ہے تو اب قہر کیا؟

    زیادہ نہ بس اپنی الفت جتا

    مگر تیری خاطر یہ رویا ہے کم

    کہ تو اور رو رو کے دیتی ہے غم

    ذرا تن میں آنے دے اس کے تواں

    ابھی اس کو رونے کی طاقت کہاں!

    یہ مردہ سالائی ہوں میں اس لیے

    کہ دیکھے سے تیرے شتابی جیے

    وہاں میں نے اس کی نہیں کی دوا

    کہ ہے خانۂ یار دارالشفا

    لے آئی ہے اس کو محبت کی دھن

    جیا ہے فقط تیرے ملنے کی سن

    اسے وصل کی اپنے دارو پلا

    کسی طرح اس نیم جاں کو جلا

    بس اب کچھ خوشی کی کرو گفتگو

    خدا پھر نہ تم کو رلاوے کبھو

    نہیں خوش نما، پاس آئے ہوئے

    رہیں دو جنے منہ پھلائے ہوئے

    یہ سن ہنس پڑے تب وے آپس میں مل

    پڑیں جس طرح پھول گلشن میں کھل

    بہم پھر تو ہونے لگے اختلاط

    اپجنے لگے دل سے عیش و نشاط

    شب آدھی گئی، تب تو خاصہ منگا

    تکف سے ہر اک کے آگے دھرا

    وہیں خوان نعمت کے آپس میں مل

    کیے نوش حسب تمناے دل

    پھر آخر کو دو دو جدا ہو گئے

    الگ خواب گاہوں میں جا سو گئے

    اٹھائے تھے جو جو کہ رنج و ملال

    ہوئے اس مزے میں وہ خواب و خیال

    الگ ہو کے لیٹے وے دو ماہ رو

    ہوئی لیٹے لیٹے عجب گفتگو

    وہ گزرا ہوا یاد کر کر کے حال

    لگے رونے، آنکھوں پہ دھر کر رمال

    کہا شاہ زادے نے احوال سب

    کنویں میں جو گزرا تھا رنج و تعب

    کہ یوں میں اندھیرے میں رویا کیا

    کنویں میں تن اپنا ڈبویا کیا

    نہ پہنچا کوئی میرا فریاد رس

    تڑپھتا رہا دل بہ رنگ جرس

    وہ تاریک خانہ، مرا گھر رہا

    سدا میری چھاتی پہ پتھر رہا

    محبت نہ یہ چاشنی زور دی

    کہ تن کے تئیں جیتے جی گور دی

    زمیں سے نکلنے کی کب آس تھی

    فلک کے مجھے ہاتھ سےیاس تھی

    عجب طرح سے زیست کرتا رہا

    تری جان سے دور مرتا رہا

    خدا ہی نے تجھ سے ملایا مجھے

    اٹھا قبر سے پھر جلایا مجھے

    دیا شاہ زادی نے رو رو جواب

    کہ میں نے بھی اک شب یہ دیکھا تھا خواب

    ترے داغ کی دل میں جو بو گئی

    میں اک رات روتی ہوئی سو گئی

    تو کیا دیکھتی ہوں کہ صحرا ہے ایک

    اور اس دشت ہو میں کنواں سا ہے ایک

    صدا واں سے آتی ہے: بدر منیر!

    ادھر آ، کہ یاں قید ہے بے نظیر

    میں ہر چند چاہا کروں تجھ سے بات

    ولے کی گئی واں نہ کچھ مجھ سے بات

    مری جان گو اس طرف ڈھل گئی

    اسی دم مری آنکھ پھر کھل گئی

    عجب اس گھڑی مجھ پہ گزرا قلق

    کہ دل اور جگر ہو گیا میرا شق

    اسی دن سے یہ حال پہنچا مرا

    کہ مرتی رہی نام لے لے ترا

    نہ دیتا تھا گو کوئی تیری خبر

    ولے تھا ترے غم سے دل کو اثر

    گزرتا تھا وہاں تجھ پہ جو صبح و شام

    وہ اندھیر، تھا مجھ پہ روشن تمام

    نہ کہتی تھی میں گرچہ درد نہاں

    شب و روز جلتی تھی میں شمع ساں

    عجب طرح سے زیست کرتی میں

    کہ اس زیست کرنے سے، مرتی تھی میں

    اسی غم میں رہتی تھی لیل و نہار

    کہ کیوں کر ملاوے گا پرور دگار!

    مری شکل پر رو کے، نجم النسا

    گئی اس طرح حال اپنا بنا

    پھر آگے تو معلوم ہے تم کو سب

    کہ ہم تم ملے پھر اسی کے سبب

    یہ آپس میں کہہ حال دل، رو اٹھے

    وہ کہنے کو سوئے تھے، بس سو اٹھے

    جو ملتے ہیں بچھڑے ہوئے ایک جا

    انہیں نیند باتوں میں آتی ہے کیا؟

    پری زاد، نجم النسا واں جدے

    الگ خواب گاہوں میں جا سو گئے

    گئی راحت حرف و حکایات میں

    سحر ہو گئی بات کی بات میں

    شب وصل کی جو سحر ہو گئی

    تو سو توں کو گویا خبر ہو گئی

    لیا ماہ نے اپنے منہ پر نقاب

    اٹھا بستر خواب سے آفتاب

    صبوحی کو اٹھتا ہے جیسے مدام

    شراب شفق سے بھرے اپنا جام

    لیے روز کو ساتھ آنے لگا

    وہ سوتوں کو شب کے جگانے لگا

    ہو چشم وا جب وہ مژگاں دراز

    سفید و سیہ میں ہوا امتیاز

    گیا عقدۂ صبح اس دم جو کھل

    نکل آئے ایدھر ادھر سے وہ گل

    اٹھے جب کہ آپس میں گل فام وو

    گئے باری باری سے حمام وو

    دوبارہ کیا اس نے اپنا سنگار

    چمن میں نئے سر سے آئی بہار

    وہ جوگن ہوئی تھی جو نجم النسا

    جمی گرد اپنے بدن سے چھڑا

    نہا دھو کے نکلی عجب آن سے

    کہ الماس نکلے ہے جوں کان سے

    نہانے سے نکلا عجب اس کا روپ

    نکل آئے بدلی سے جس طرح دھوپ

    ولے، آگ اس نے لگائی یہ اور

    کہ پوشاک، کی طرح لالے کے طور

    جلانے کو عاشق کے، دکھلا پھبن

    لیا سرخ لایہ کا جوڑا پہن

    تمامی کی سنجاف اس کو لگا

    طلا کی طرح سے دیا جگمگا

    اسی رنگ کے ساتھ کا سب لباس

    تصور میں ہو سرخ جس کے قیاس

    بھبھوکا سا تن اور وہ منہ کی دمک

    کہ جوں شعلہ، آتش سے اٹھے بھڑک

    نکیلی وہ اٹھی ہوئی چھاتیاں

    پھریں اپنے جوبن میں اتراتیاں

    گلے کی صفائی، وہ کرتی کا چاک

    تڑاقے کی انگیا کسی ٹھیک ٹھاک

    وہ کنچن سی اس میں کچیں لال لال

    بھرے رنگ کے قمقموں کی مثال

    نلاہٹ وہ بھٹنی کی اس سے نمود

    کہ جوں سرخ چہرے پہ خال کبود

    کہے تو، لیے اپنے منہ پر نقاب

    شفق میں چھپے جوں مہ و آفتاب

    بنت گرد کیوں کر نہ اس کے پھرے

    کہ واں گو کھر و لہر کھا کر گرے

    وہ پاجامہ سرخ کمخواب، اور

    دوپٹا بنارس کا سورج کے طور

    جواہر سجا اپنے موقع سے گل

    ترشح میں ہو جیسے نم دیدہ گل

    وہ کنگھی کھینچی اور وہ ابرو کھنچے

    ہر اک اینٹھ میں اپنی ہر سو کھنچے

    کھجوری وہ چوٹی، زری کا مباف

    کہ جوں دود کے بعد شعلہ ہو صاف

    عروسانہ اس نے کیا جو لباس

    تو آنے لگی خون کی اس میں باس

    بنی جب کہ اس رنگ وہ رشک حور

    چلی آئی فیروز شہ کے حضور

    پری زاد تو قتل ہی ہو گیا

    کہے تو، کوئی جان ہی کھو گیا

    حیا سے نہ کی بات، نے کچھ کہا

    ولے، جی سے قربان اس پر رہا

    وہ بن ٹھن کے آپس میں رہنے لگے

    بہم راز دل اپنے کہنے لگے

    خوشی سے ہوئے بس کہ سر سبز دل

    لگے سبزیاں پینے آپس میں مل

    ضیافت بہم مل کے کھانے لگے

    وہ غم کھانے ان کے ٹھکانے لگے

    چھپے عیش و عشرت وہ کرتے رہے

    پہ غیروں کے چرچے سے ڈرتے رہے

    اگرچہ ہر اک وصل سے شاد تھا

    ولے ہجر کا غم انہیں یاد تھا

    یہ ٹھہرا کے، نکلے وے دو ماہ رو

    کہ اس بات کو کیجیے ایک سو

    غضب ہے جو یوں ہی دوبارا رہیں

    چھپیں کب تلک، آشکارا رہیں

    سہی ہے یہ تکلیف، آرام کو

    یے ناکامیاں ورنہ کس کام کو؟

    نصیب اس طرح سے جو یاری کریں

    عیاں کیوں نہ ہم خواستگاری کریں

    جب آپس میں یہ مشورے ہو گئے

    ادھر اور ادھر مل کے وے دو گئے

    وہ نجم النسا اور وہ بدر منیر

    کچھ اک کر بہانہ، وے دونوں شریر

    رہیں گھر میں پھر جا کے ماں باپ کے

    کہ دیکھیں گے ہم اب قدم آپ کے

    نکل بے نظیر اور فیروز شاہ

    کسی شہر میں رکھ کے فوج و سپاہ

    کر اسباب سب سلطنت کا درست

    پھر آئے اسی جا پہ چالاک و چست

    وہاں کا تھا جوشاہ انجم سپاہ

    جسے لوگ کہتے تھے مسعود شاہ

    کیا نامہ یوں ایک اس کو رقم

    کہ اے شاہ شاہان واے فخر جم

    فریدوں مثال و سکندر نژاد

    مراد جہان و جہاں را مراد

    جہان شجاعت، زمان کرم

    دل رستم گرد، حاتم ہمم

    میں وارد ہوا اک مکاں سے غریب

    لے آئے ہیں مجھ کو مرے یاں نصیب

    نوازش سے اپنی کرم کیجیے

    غلامی میں اپنی مجھے لیجیے

    ہمیشہ سے ہے راہ و رسم شہاں

    کہ وابستہ یوں ہی ہے کار جہاں

    جہاں پر ہے روشن کہ میں ماہ ہوں

    ملک زادہ، ابن ملک شاہ ہوں

    ہر اک مجھ سے واقف ہے برناو پیر

    کہ ہے نام میرا شہ بے نظیر

    بیاں سب کیا ماضی و حال کا

    تجمل لکھا فوج و اموال کا

    جتا کر بہت عجز اور انکسار

    لکھا یہ بھی اک حرف آخر کی بار

    کہ جو ہووے برعکس شرع شریف

    وہ ہے اپنے مذہب میں اپنا حریف

    اگر مانیے، خیر تو مانیے

    نہیں، اب تو آیا ہمیں جانیے

    گیا یہ، جو مسعود شہ کو پیام

    سنا اور پڑھا خط کا مضموں تمام

    سمجھ اس کا مضمون مسعود شاہ

    کہ اتنی ہے فوج اور یہ کچھ ہے سپاہ

    اگر جنگ ہو، تو بڑی جنگ ہو

    پھر اس میں خدا جانے کیا رنگ ہو

    اور آخر یہی ہے زمانے کی چال

    کہ پیوند ہوتے ہیں باہم نہال

    نہ تازی یہ کچھ رسم پیوند ہے

    ہمیشہ سے عالم برومند ہے

    لکھا نامہ اس کو وو نہیں در جواب

    کہ عاقل کو نکتہ، لگے ہے کتاب

    لکھا بعد حمد و ثناے خدا

    پس از نعت احمد، شہ انبیا

    کہ نامہ تمہارا جو سر بستہ تھا

    وہ راز نہاں اپنے ہاتھوں کھلا

    شریعت کے عالم میں مجبور ہیں

    نہیں، اپنے نزدیک ہم دور ہیں

    اگر ہم کبھی اپنی بانی پر آئیں

    تمہارے فلک کو نہ خاطر میں لائیں

    ابھی گھر سے نکلے ہو لڑکوں کے طور

    نہیں نیک و بد پر تمہیں اپنے غور

    کسی پاس دولت یہ رہتی نہیں

    سدا ناو کاغذ کی بہتی نہیں

    ولے کیا کریں، رسم دنیا ہے یہ

    وگرنہ گھمنڈ آپ کا کیا ہے یہ

    زبس ہم کو ہے پاس شرع رسول

    سو اس واسطے کرتے ہیں ہم قبول

    خلاف پیمبر کسے رہ گزید

    کہ ہر گز بہ منزل نہ خواہد رسید

    اک اچھی سی تاریخ ٹھہرائیے

    دیا حکم ہم نے تمہیں، آئیے

    گیا ایلچی لے کے نامہ ادھر

    اڑی ہر طرف یہ خوشی کی خبر

    سنی یہ جو تھے غم سے تنگ

    اسی دن سے ہونے لگے راگ و رنگ

    ہوئیں بر طرف سب دل آزاریاں

    لگیں ہونے شادی کی تیاریاں

    بلا شگنیوں کو، بتا سال سن

    مقرر کیا نیک ساعت سے دن

    داستان بے نظیر اور بدر منیر کے بیاہ اور اس کے تجمل میں۔

    کدھر ہے تو اے ساقی گل بدن!

    دھری آج اس شمع رو کی لگن

    بلا مطربان خوش آواز کو

    کہ آویں، لیے اپنے سب ساز کو

    وہ اسباب شادی کا تیار ہو

    مکرر نہ پھر جس کی تکرار ہو

    بڑی خواہشوں سے جب آیا وہ روز

    چڑھا بیاہنے وہ مہ شب فروز

    محل سے نکل جب ہوا وہ سوار

    بجے شادیا نے بہم ایک بار

    کروں اس تجمل کا کیوں کر بیاں

    کہ باہر ہے تقریر سے وہ سماں

    وہ دولھا کے اٹھتے ہی اک غل پڑا

    لگا دیکھنے اٹھ کے چھوٹا بڑا

    کوئی دوڑ گھوڑوں کو لانے لگا

    کوئی ہاتھیوں کو بٹھانے لگا

    لگا کہنے کوئی: ادھر آئیو

    ارے رتھ شتابی مری لائیو

    کسی نے کسی کو پکارا کہیں

    نہ لانے پہ میانے کے مارا کہیں

    کوئی پالکی میں چلا ہو سوار

    پیادوں کی رکھ اپنے آگے قطار

    جو کثرت میں دیکھا کہ گاڑی نہیں

    کوئی مانگے تانگے پہ بیٹھا کہیں

    سپر اور قبضے کھڑکنے لگے

    سواروں کے گھوڑے بھڑکنے لگے

    ٹکورے وہ نوبت کے اور ان کے بعد

    گرجنا وہ دھونسوں کا مانند رعد

    وہ شہنائیوں کی شہانی دھنیں

    جسے گوش زہرہ مفصل سنیں

    ہزاروں تمامی کے تخت رواں

    اور اہل نشاط ان پہ جلوہ کناں

    وہ طبلوں کا بجنا اور ان کی صدا

    وہ گانا کہ: اچھا بنا لاڈلا

    وہ نوشہ کا گھوڑے پہ ہونا سوار

    وہ موتی کا سہرا، جواہر کا ہار

    ٹھہر کر وہ گھوڑے کا چلنا سنبھل

    ہما کے وے دونوں طرف مور چھل

    وہ فانوسیں آگے زمرد نگار

    کہ ہو سبز مینا جنھوں پر نثار

    دو رستہ جو روشن چراغاں ہوئے

    پتنگے خوشی سے غزل خواں ہوئے

    ہوا دل جو روشن چراغان سے

    پڑھے شعر نوریؔ کے دیوان سے

    چراغوں کے تر پو لیے جا بہ جا

    اور ان میں وہ بازاریوں کی صدا

    کوئی پان بیچے، کھلونے کوئی

    کوئی دال موٹھ اور سلونے کوئی

    تماشائیوں کا جدا اک ہجوم

    پتنگے گریں جوں چراغاں پہ جھوم

    کڑکنا وہ نوبت کا باجوں کے ساتھ

    گرجنا وہ باجوں کا ڈنکوں کے ہاتھ

    براتی ادھر اور ادھر جوق جوق

    وہ آواز سرنا اور آواز بوق

    وہ کالے پیادے اور ان کی نفیر

    کہ تا چرخ پہنچے صدا دل کو چیر

    وہ آرایش اور گل کئی رنگ کے

    وہ ہاتھی کہ دو دیو تھے جنگ کے

    وہ ابرک کے گنبد، وہ مینے کے جھاڑ

    کہے تو کہ تنکے کے اوجھل پہاڑ

    دو رستہ برابر برابر وہ تخت

    کسی پر کنول اور کسی پر درخت

    وہ رنگیں کنول اور وہ شمع و چراغ

    کھلے جس طرح لالہ نور باغ

    جہاں تک نظر آوے ان کی قطار

    طلسمات کی سی ہوا پر بہار

    اناروں کا دغنا، بھچمپے کا زور

    ستاروں کا چھٹنا، پٹاخوں کا شور

    اڑایا ستاروں کو جو آگ نے

    تو ہاتھی لگے بن کو پھر بھاگنے

    وہ مہتاب کا چھونٹا بار بار

    کہ ہر رنگ کی جس سے دونی بہار

    دھواں چھپ گیا نور میں نور ہو

    سیاہی اڑی شب کی کافور ہو

    سراسر وہ مشعل کے ہر طرف جھاڑ

    کہ جوں نور کے مشتعل ہوں پہاڑ

    زری پوش سردار سب یک دگر

    پھریں برق کی طرح ایدھر ادھر

    کہے تو کہ نزدیک اور دور سے

    زمین و زماں بھر گیا نور سے

    جب آئی وہ دلہن کے گھر پر برات

    کہوں واں کے عالم کی کیا تجھ سے بات

    ہوا واں کی صحبت کی رشک بہشت

    دھرے لخلخے گرد عنبر سرشت

    کھڑے بادلوں کے وہ خیمے بلند

    کریں عالم نور جس کو پسند

    عجب مسند اک جگمگی اور فرش

    تمامی کے عالم کا چوکور فرش

    بلوریں دھرے شمع داں بے شمار

    چڑھیں موم کی بتیاں چار چار

    نئے رنگ کے اور نئے طور کے

    دھرے ہر طرف جھاڑ بلور کے

    تماشائیوں کی یہ کثرت کہ بس

    ملے ایک سے ایک سب پیش و پس

    دوزانو زری پوش بیٹھے تمام

    شراب خوشی کے کیے نوش جام

    وہ دولھا کا مسند پہ جا بیٹھنا

    برابر رفیقوں کا آ بیٹھنا

    طوائف کا اٹھنا اک انداز سے

    دکھانی وہ آ صورتیں ناز سے

    کروں راگ اور ناچ کا کیا بیاں

    قدیمی کسی وقت کا سا سماں

    وہ ارباب عشرت کا آپس میں مل

    جمانا کھڑے راگ کا دے کے دل

    وہ ایمن کی لہریں ادھر اور ادھر

    ملے سر طنبوروں کے بایک دگر

    اور اس صف سے اک چھوکری کا نکل

    جتانا ہنر اپنا پہلے پہل

    الٹنا دوپٹے کا دے دے کے تال

    وہ بونٹا سا قد اور وہ گھنگرو کی چال

    کبھی پر ملو میں دکھانی ادا

    کہ جوں لوٹ کر ہوئے بجلی ہوا

    کبھی گت سر ناچنا ذوق سے

    کہ تیورا کے عاشق گرے شوق سے

    ادھر کی تو گت اور اس کا سبھاو

    ادھر اوٹ میں نائکا کا بناو

    کھڑی ہو کے، دو گھونٹ حقے کے لے

    چباپان اور رنگ ہونٹھوں پہ دے

    انگوٹھے کی لے سامنے آرسی

    وہ صورت کو دیکھ اپنی گلزار سی

    الٹ آستیں اور مہری کے چاک

    نئے سر سے انگیا کو کر ٹھیک ٹھاک

    بنا کنگھی اور کرکے ابرو درست

    جھٹک دامن اور ہو کے چالاک و چست

    دوپٹے کو سر پر الٹ اور سنبھل

    یکایک وہ صف چیر آنا نکل

    پکڑ کان اور گھنگروؤں کا اٹھا

    پہن پانو میں اپنے سر سے چھوا

    ادھر اور ادھر رکھ کے کاندھے پہ ہاتھ

    چلے ناچتے آنا سنگت کے ساتھ

    فتح چند کے ہاتھ کی مورت ایک

    لجائی ہوئی چاند سی صورت ایک

    کبھی ناچنا اور گانا کبھی

    رجھانا کبھی اور بتانا کبھی

    خوش آوازیاں اور گانا خیال

    دکھانا ہر اک دم میں اپنا کمال

    وہ شادی کی مجلس، وہ گانے کا رنگ

    وہ جی کی خوشی اور وہ دل کی ترنگ

    وہ پھولوں کے گہنے، کناری کے ہار

    وہ بیٹھی ہوئی رنڈیوں کی قطار

    وہ بیڑوں کے پتے پڑے ہر طرف

    غم دل جسے دیکھ ہو بر طرف

    ادھر کا یہ رنگ تھا اور یہ راگ

    محل میں ادھر گھوڑیاں اور سہاگ

    وہ گہرے سے شادی مبارک کے ڈھول

    وہ ٹونے سلونے، وہ میٹھے سے بول

    اترنے کی واں سمدھنوں کے پھبن

    کھلیں پھول جیسے چمن در چمن

    گلوں میں پہننا وہ ہنس ہنس کے ہار

    سٹاسٹ وہ پھولوں کی چھڑیوں کی مار

    دکھانا وہ بن بن کے اپنا بناو

    وہ آپس کی رسمیں، وہ آپس کے چاو

    قہاقے، ہنسی، شوروغل، تالیاں

    سہانی سہانی نئی گالیاں

    غرض کیا کہوں، تاب مجھ میں نہیں

    نہ دیکھے گا عالم کوئی یہ کہیں

    بے نظیر کے باراتیوں کے ہار پان کی تقسیم۔

    چھکا ہوں نشے میں بہت ساقیا!

    مجھے بدلے اب مے کے، شربت پلا

    کسی پر نہ ایسا ہو، جو بار ہوں

    کہ پھر میں گلے کا ترے ہار ہوں

    ہوا جب نکاح اور بٹے ہار پان

    پلا سب کو شربت، دیے پان دان

    اٹھا پھر تو نوشہ وہ بعد از نکاح

    محل میں بلانے کی ٹھہری صلاح

    چلا یوں وہ دولھا، دلھن کی طرف

    پھرے جیسے بلبل چمن کی طرف

    وہاں تک پہنچے ہوئے کیا کہوں!

    ہوئے ٹوٹکے لاکھ بہر شگوں

    ہوا لیکن اس وقت دگنا مزا

    کہ دولھا دلھن جب ہوئے ایک جا

    عروسی وہ گہنا، وہ سوہا لباس

    وہ منہدی شہانی، وہ پھولوں کی باس

    ملا سرخ جوڑے پہ عطر سہاگ

    کھلے مل کے آپس میں، دونوں کے بھاگ

    دکھا مصحف اور آرسی کو نکال

    دھرا بیچ میں، ہر پہ آنچل کو ڈال

    نہ تھا وصل اس طرح کا دھیان میں

    خدا نے کیا آن کی آن میں

    عجب قدرت حق نمایاں ہوئی

    جسے آرسی دیکھ حیراں ہوئی

    وہ جلوے کا ہونا، وہ شادی کی دھوم

    وہ آپس میں دولھا دلھن کی رسوم

    کسی نے پسائی سرونج آن کر

    کوئی گالی ہی دے گئی جان کر

    گئی کوئی واں گال سے کچھ لگا

    گئی کوئی دلھن کی چھوتی چھوا

    وہ شیریں، جو بیٹھی تھی شیریں بنی

    بنات اس کی چننی بنے کو بنی

    چنائی نبات اس کو اس گھات سے

    کہ ڈہکا دیا ہر گھڑی بات سے

    زبس دل تو تھا اس کا ہر جاپہ بند

    سبھی جا سے اس نے چنی، کر پسند

    اٹھائی ڈلی اس کی آنکھوں سے یوں

    کریں نوش بادام شیریں کو جوں

    ڈلی وہ جو ہونٹھوں کی تھی لب ملی

    وہ مصری کے منہ سے اٹھالی ڈلی

    کمر سے اٹھائی ڈلی اس طرح

    کہ ہاں ہوں، نہیں کی نہیں جس طرح

    ذرا پانو پر کی اٹھاتے اڑا

    نہیں اور ہاں کا عجب غل پڑا

    یہ ظاہر کی تکرار تھی بار بار

    وگرنہ دل اس پانو پر تھا نثار

    عجب طرح کی رینگ رلیاں ہوئیں

    کہ باتیں وہ، مصری کی ڈلیاں ہوئیں

    وہ سب ہو چکی جب کہ رسم و رسوم

    سواری کی ہونے لگی پھر تو دھوم

    سحر کا وہ ہونا، وہ ٹونے کا وقت

    وہ دلہن کی رخصت، وہ رونے کا وقت

    کھڑے سب کا لاچار منہ دیکھنا

    کہ یارب، یہ کیا ہے جہاں پیکھنا!

    وہ دلہن کا رو رو کے ہونا جدا

    وہ ماں باپ کا اور رونا جدا

    نکلتے وہ جانا محل سے جہیز

    کہ جوں چشم سے اشک ہو موج خیز

    یہاں موت ہے اہل عرفان کو

    کہ چلنا ہے اک دن یونہیں جان کو

    وے جو درد مندی سے ہیں آشنا

    وے شادی کا لیتے ہیں غم سے مزا

    وہ دولھا کا دلہن کو گودی اٹھا

    بٹھانا محافے میں آخر کو لا

    چلے لے کے چونڈول جس دم کہار

    کیا دو طرف سے زر اس پر نثار

    کھڑے تھے جو واں چشم کو تر کیے

    سو موتی انہوں نے نچھاور کیے

    ادھر اورادھر اپنے سہرے کو چیر

    وہ اک چاند سا منہ دکھا بے نظیر

    سوار اپنے گھوڑے پہ ہو کر شتاب

    کہ جوں صبح ہووے بلند آفتاب

    دکھاتا ہوا حشمت و عظم و شان

    لیے ساتھ ساتھ اپنے نوبت، نشان

    وہ پیچھے تو چونڈول میں رشک ماہ

    اور آگے وہ خورشید عالم پناہ

    پھرا گھر کو اپنے قدم با قدم

    سواری لگا گھر میں اترا صنم

    غرض اس طرح جب وہ دلہن بیاہ

    لے آیا، جہاں اس کی تھی عیش گاہ

    ہوئی وہ، جو ہونی تھی رسم ورسوم

    کہ ظاہر میں تھی یہ بھی در کار دھوم

    اٹھایا اسی دھوم میں لگتے ہاتھ

    پری زاد کا بیاہ چوتھی کے ساتھ

    وہ نجم النسا، تھی جو دخت وزیر

    گیا اس کے والد کنے بے نظیر

    کہا باپ کو اس کے، اے خیر خواہ!

    مرا بھائی ہے ایک فیروز شاہ

    سو میں تجھ سے رکھتا ہوں اک التجا

    کہ تو اس کو فرزندی میں اپنی لا

    غرض ہر طرح کر رضا مند اسے

    کیا جال میں اپنے پابند اسے

    پری زاد تھا وہ جو فیروز شاہ

    دیا اس کو نجم النسا سے بیاہ

    اسی دھوم سے اور اسی فوج سے

    اسی شان سے اور اسی اوج سے

    وہی سب تجمل، وہی سب رسوم

    ہوئی تھی جو کچھ بیاہ میں اس کے دھوم

    دقیقہ نہ چھوڑا کسی بات میں

    برابر رکھ چہل دن رات میں

    اسی طرح اس کو بیاہا غرض

    جو کچھ قول تھا، سو نباہا غرض

    خدا راست لایا انہوں کے جو کام

    برآئے دلوں کے مطالب تمام

    ہوئیں متصل یہ جو دو شادیاں

    بسیں ایک جا، چار آبادیاں

    پھرے دن، تو اپنے وطن کو پھرے

    وہ آشفتہ بلبل، چمن کو پھرے

    خوشی سے لیے حرمت و جان و مال

    چلے شہر کو اپنے وے حال حال

    وہ نجم النسا اور وہ فیروز شاہ

    فلک پر سے ہو مثل خورشید و ماہ

    رضا ان سے لے کر اسی آن میں

    گئے شادو خرم پرستان میں

    یہ اقرار چلتے ہوئے کر گئے

    کہ گوتم ادھر اور ہم ایدھر گئے

    تم اس غم سے مت ہو جیو سینہ ریش

    کہ ہم تم سے ملتے رہیں گے ہمیش

    تسلی دو یہ، دے کے اودھر چلے

    یے ایدھر لیے اپنا لشکر چلے

    داستان بے نظیر کے بدر منیر کو اپنے وطن لے جانے

    اور ماں باپ سے ملاقات کرنے اور کتاب کی تمامی میں۔

    پلا ساقیا! آخری ایک جام

    کہ ہوتی ہے بس یہ کہانی تمام

    دے نزدیک پہنچے جب اس شہر کے

    کیا پاس جا خیمہ اک نہر کے

    کیا جب کہ خلقت نے تفتیش حال

    اور آنکھوں سے دیکھا وہ بدر کمال

    پڑا شہر میں یک بہ یک پھر یہ غل

    کہ غائب ہوا تھا، سو آیا وہ گل

    خبر یہ ہوئی جب کہ ماں باپ کو

    کیا گم انہوں نے دو نہیں آپ کو

    زبس دل تھا تو یاس ہی سےبھرا

    یہ سن ہاتھ اور پانو گئے تھر تھرا

    لگے رونے آپس میں زار و نزار

    کہا: ہاے، ہم کو نہیں اعتبار!

    ملاویں گے ہم سے ہمارا حبیب

    یہ دشمن، نہیں اپنے ایسے نصیب

    یہ ہوگا کوئی دشمن ملک و مال

    سو میں آپ ہی ہوں گرفتار حال

    کوئی اس کا وارث تو آخر نہیں

    وہی لے کے جاوے یہ جھگڑا کہیں

    کہا سب سے: صاحب، چلو تو سہی!

    یہ بیٹا تمہارا وہی ہے وہی

    مکرر سنا جب کہ بیٹے کا نانو

    چلا پھر تو روتا ہوا ننگے پانو

    وہ آتا تھا جیسے کہ بیٹا ادھر

    پڑی باپ پر جو یکایک نظر

    جو نہیں اپنے کعبے کو دیکھا رواں

    چلا سر کے بھل بے نظیر جہاں

    گرا پانو پر، کہہ کے یہ، باپ کے

    خدا نے دکھائے قدم آپ کے

    سنی یہ صدا جو نہیں اس ماہ کی

    تو اس غم رسیدہ نے ایک آہ کی

    اٹھا سر قدم پر سے، چھاتی لگا

    لپٹ کے گھڑی دو تلک خوب سا

    یہ رویا، یہ رویا کہ غش کر چلا

    کہے تو کہ آنسو کا لشکر چلا

    ملے پھر تو آپس میں وے خوب سے

    کہ یوسف ملا جیسے یعقوب سے

    وہ گل گل شکستہ ہوا گل کی طرح

    یہ گل کی طرح اور وہ بلبل کی طرح

    ہوئے شاد و خرم صغیر و کبیر

    ملے لے کے نذریں امیر و وزیر

    مے عیش سے سب کو مستی ہوئی

    نئے سر سے آباد بستی ہوئی

    بڑی دھوم سے اور بڑی آن سے

    بجاتے ہوئے نوبتیں شان سے

    وہ بھولا جو تھا ہجر کے داغ میں

    ہوئے جا کے داخل اسی باغ میں

    زنانی سواری اتروا کے ساتھ

    پکڑ اس گل نو شگفتہ کا ہاتھ

    در آمد ہوا گھر میں سرو رواں

    لیے ساتھ اپنے وہ غنچہ وہاں

    کہ اتنے میں آگے نظر جو پڑی

    تو دیکھا کہ ماں راہ میں ہے کھڑی

    بہی چشم سے آنسوؤں کی قطار

    گرا ماں کے پانوں پہ بے اختیار

    وہ ماں خوب بیٹے کے لگ کر گلے

    یہ روئی کہ آنسو کے نالے چلے

    بہو اور بیٹے کو چھاتی لگا

    اور ان دونوں کے ہاتھ باہم ملا

    ہوئی جان اور جی سے ان پر نثار

    پیا پانی ان دونوں پر وار وار

    جگر پر جو تھے درد اور غم کے داغ

    بجھے وصل سے ہجر کے دے چراغ

    سب آپس میں رہنے لگے مل ملا

    پھر آئے چمن میں وہ گل کھل کھلا

    وہ آنکھیں جو اندھی تھیں، روشن ہوئیں

    زمینیں جو تھیں خشک، گلشن ہوئیں

    زبس باپ ماں کو تھی سہرے کی چاہ

    دوبارہ انہوں نے کیا اس کا بیاہ

    لکھوں میں گر اس بیاہ کی دھوم دھام

    تو پھر یہ کہانی نہ ہووے تمام

    بنا ان کی تقدیر کا جو بناو

    نکالے انہوں نے یہ سب دل کے چاو

    وہ جیسی کہ اس باغ میں تھی خزاں

    بسے آکے پھر اس میں سب گل رخاں

    محل مین عجائب ہوئے چہچہے

    وہ مرجھائے گل، پھر ہوئے لہلہے

    ہوا شہر پر فضل پروردگار

    وہی شاہ زادہ، وہی شہر یار

    وہی لوگ اور ووہی چرچے تمام

    وہی ناز و انداز کے اپنے کام

    وہی بلبلیں اور وہی بوستاں

    شگفتہ گل و مجمع دوستاں

    انہوں کے جہاں میں پھرے جیسے دن

    ہمارے تمہارے پھریں ویسے، دن

    ملیں سب کے بچھڑے الٰہی تمام

    بہ حق محمد علیہ السلام

    ہوئے جیسے وے شاد، ہوں شاد ہم

    رہیں شہر میں اپنے آباد ہم

    رہے شاد نواب عالی جناب

    کہ ہے آصف الدولہ جس کا خطاب

    خوشی اس کی، ہے سر و باغ مراد

    رہے روشن اس کا چراغ مراد

    بہ حق حسین و امام حسن

    رہوں شاد میں بھی غلام حسن

    ذرا منصفو! داد کی ہے یہ جا

    کہ دریا سخن کا دیا ہے بہا

    زبس عمر کی اس کہانی میں صرف

    تب ایسے یے نکلے ہیں موتی سے حرف

    جوانی میں جب بن گیا ہوں میں پیر

    تب ایسے ہوئے ہیں سخن بے نظیر

    نہیں مثنوی، ہے یہ اک پھل جھڑی

    مسلسل ہے موتی کی گویا لڑی

    نئی طرز ہے اور نئی ہے زباں

    نہیں مثنوی، ہے یہ سحرالبیاں

    رہے گا جہاں میں مرا اس سے نام

    کہ ہے یادگار جہاں یہ کلام

    ہر اک بات پر دل کو میں خوں کیا

    تب اس طرح رنگیں یہ مضموں کیا

    اگر واقعی غور ٹک کیجیے

    صلہ اس کا کم ہے، جو کچھ دیجیے

    غرض جس نے اس کو سنا یہ کہا

    حسنؔ ! آفریں، مرحبا، مرحبا!

    جو منصف سنیں گے، کہیں گے سبھی

    نہ ایسی ہوئی ہے، نہ ہوگی کبھی

    مرے ایک مشفق ہیں مرزا قتیلؔ

    کہ ہیں شاہ راہ سخن کے دلیل

    سنی مثنوی جب یہ مجھ سے تمام

    دیا اس کی تاریخ کو انتظام

    زبس شعر کہتے ہیں وے فارسی

    ہر اک شعر ان کا، ہے جوں آرسی

    انہوں نے شتابی اٹھا کر قلم

    یہ تاریخ کی فارسی میں رقم

    بہ تفنیش تاریخ ایں مثنوی

    کہ گفتش حسن شاعر دہلوی

    زدم غوطہ در بحر فکر رسا

    کہ آرم بکف گوہر مدعا

    بگوشم ز ہاتف رسید ایں ندا

    بریں مثنوی باد ہر دل فدا

    (۱۱۹۹ھ)

    میاں مصحفیؔ کو جو بھایا یہ طور

    انھوں نے بھی کرفکر از راہ غور

    کہی اس کی تاریخ یوں بر محل

    یہ بت خانئہ چین ہے بے بدل

    (۱۱۹۹ھ)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے