احمقوں کی کانفرنس
اک خبر ہم نے پڑھی تھی کل کسی اخبار میں
احمقوں کا ایک جلسہ تھا کہیں بازار میں
ہر نمونے کا چغد حاضر تھا اس دربار میں
جیسے ہر ٹائپ کا عاشق کوچۂ دل دار میں
تھا ہر اک مہماں یہاں نا خواندہ و خود ساختہ
کوئی ان میں صاحب دل تھا کوئی دل باختہ
سب سے پہلے اک بڑا احمق ہوا یوں شعلہ بار
جنٹلمین اینڈ لیڈیز آر وہاٹ ایور یو آر
آج اعصاب وطن پر عقل و دانش ہیں سوار
ختم ہوتا جا رہا ہے احمقوں کا اقتدار
احمقو جاگو تمہاری آبرو خطرے میں ہے
جس کے ساکن ہو وہ شہر آرزو خطرے میں ہے
ہر حماقت کا کوئی مفہوم ہونا چاہیئے
کیوں حماقت کی گئی معلوم ہونا چاہیئے
آدمی کو عقل سے محروم ہونا چاہیئے
کیا ضرورت ہے ہما کی بوم ہونا چاہیئے
اس لیے ہم نے بنایا ہے یہ مینی فیٹو
''من ترا احمق بگویم تو مرا احمق بگو''
بھولتی جاتی ہے دنیا اب یہ قول مستند
عقل چوں پختہ شود انسان احمق می شود
ًفطرتا احمق ہو جو انساں نہیں ہوتا وہ بد
وہ حماقت سب سے اچھی کچھ نہیں ہو جس کی حد
کچھ سہی اک خر محبت اس کا نسب العین ہے
وہ بھی اس انساں سے اچھا ہے جو بزنس مین ہے
اب رہا یہ مسئلہ کپڑے نہیں ہیں اپنے پاس
اس کے بارے میں رزولیوشن کیا جائے گا پاس
اطلس و کمخواب کو ہم نہیں آئیں گے راس
سب سے اچھا ہے کہ پہنیں لوگ پتوں کا لباس
ناریل اور کیلے کا پتہ ہو یا انجیر کا
قدرتی ہو پیرہن ہر پیکر تصویر کا
- کتاب : Kulliyat Dilawar Figar (Pg. 108)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.