علاء الدین کا توبوز
یقیں ہے جائے گی اک روز جان دلی میں
تلاش کرتے ہوئے اک مکان دلی میں
تمام دن کے سر راہ ہم تھکے ہارے
شکم میں چوہے اچھلتے تھے بھوک کے مارے
بڑا تھا میرا شکم دوستو میں کیا کرتا
رقم تھی جیب میں کم دوستو میں کیا کرتا
چلا خرید کے توبوز سوئے دشت حقیر
لگی جو پاؤں میں ٹھوکر سنور گئی تقدیر
غم حیات کی راتوں میں دن نکل آیا
گرا جو ہاتھ سے تربوز جن نکل آیا
ادب سے بولا کہ ادنیٰ غلام ہوں ساغرؔ
جو ہو سکے نہ کسی سے وہ کام ہوں ساغرؔ
اشارہ ہو تو میں رخ موڑ دوں زمانے کا
بنا دوں تم کو منیجر یتیم خانے کا
مرے سبب سے لطیفہ مشاعرہ ہو جائے
پلک جھپکنے میں شاعر بھی شاعرہ ہو جائے
گناہ و شرک کی راتوں میں آفتاب ملے
عبادتیں کریں ملا تمہیں ثواب ملے
اگر میں چاہوں ملٹھی سے رس بھری ہو جاؤ
بغیر تیر چلائے پدم شری ہو جاؤ
میں آدمی نہیں دشمن سے ساز باز کروں
اگر میں چاہوں تو احمق کو سرفراز کروں
جو حکم کیجے تو مردے میں جان ڈلوا دوں
میں عہد پیری میں بیوی جوان دلوا دوں
بجائیں سیٹیاں اب تلخیاں زمانے کی
یہ پکڑو کنجیاں قارون کے خزانے کی
نہیں ہے دل کی تمنا جہان دلوا دے
میں ہاتھ جوڑ کے بولا مکان دلوا دے
یہ کہہ کے گھس گیا تربوز میں وہ کالا جن
عجیب وقت ہے بگڑے ہوئے ہیں سب کے دن
یہ سرد سرد فضاؤں کا غم نہ سہتے ہم
مکاں جو ملتا تو تربوز میں نہ رہتے ہم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.