ڈاکوؤں کی کانفرنس
میں نے کل اک خواب دیکھا جو کبھی دیکھا نہ تھا
سچ اگر پوچھو تو یارو سو کے بھی سویا نہ تھا
اجنبی سے شہر میں پیہم رہا مصروف سیر
ایک اک ذرہ جہاں کا تھا مری نظروں میں غیر
رک گئے اک قصر نو کے سامنے میرے قدم
ایک بینر پر نظر آئی عبارت یہ رقم
اس جگہ پر طالبان امن کی ہے بزم عام
قوم کی اصلاح کی خاطر ہے سارا اہتمام
بانیان بزم ہیں چمبل کے سارے راہزن
ہر قدم جن کا ہوا کرتا تھا کل تک دل شکن
آج ہر رہزن کرے گا کھل کے دنیا سے خطاب
خود اٹھائیں گے سب اپنے کارناموں سے نقاب
پھر کریں گے زیب تن پہ رہنماؤں کا لباس
سب کے دل سے آج مٹ جائے گا ہر خوف و ہراس
پہلے صدر محترم نے خود ہی اک تقریر کی
اور فرمایا کہ جب تھا مجھ کو ذوق رہزنی
میری نظروں میں کوئی بھی جان کی قیمت نہ تھی
اک عروس نو کے بھی ارمان کی قیمت نہ تھی
میری گردن پر ہے جانے کتنے معصوموں کا خون
قتل اور غارتگری کا بھی رہا برسوں جنون
مجھ کو اپنے کارناموں پر ہمیشہ ناز تھا
کیا کہوں اپنے جنوں پر مجھ کو کتنا ناز تھا
جتنے ڈاکو تھے وہاں سب نے یوں ہی تقریر کی
اپنی گزری زندگی پر سب نے ڈالی روشنی
ایک نے یوں بھی کہا میں رہزنوں کا ہوں امام
میرے ہاتھوں سے ہوا ہے بستیوں میں قتل عام
تھا پولس کا ایک جتھا بھی برابر کا شریک
کوتوال شہر بھی کہتا تھا ہے یہ کام ٹھیک
سر پرستی لیڈروں کی بھی رہی حاصل مجھے
چہرہ دکھلاتا رہا ضو بار مستقبل مجھے
لوگ جن کو رہبران وقت کہتے تھے یہاں
در حقیقت وہ مرے اکثر رہے ہیں پاسباں
آخری ڈاکو نے آ کر اس طرح تقریر کی
عام رہزن سے الگ تھا میرا طرز رہزنی
میں بھی ڈاکو ہوں مگر میری ادا کچھ اور ہے
درحقیقت میرا انداز جفا کچھ اور ہے
روز اول سے مجھے ہے صرف سمگلنگ کا شوق
باعث شہرت رہا ہے میرا یہ مخصوص ذوق
مستقل ہوتا رہا میری تجارت کو فروغ
کہہ رہا ہوں جو خدا شامل نہیں اس میں دروغ
ہے پولس کی مخبری کرنا بھی میرا اک اصول
جانتے ہیں سب یہاں میں نے کھلائے ہیں جو پھول
میرے کاروبار کی سب کو خدا توفیق دے
یہ تمنا ہے کہ مجھ سے بھی سوا توفیق دے
اپنی اپنی طرز میں ہم کو برا کہتے ہیں لوگ
اس سے ہم اچھی طرح واقف ہیں کیا کہتے ہیں لوگ
ہم مبارک باد کے لائق ہیں اس کے باوجود
کیوں کہ پوشیدہ نقابوں میں نہیں اپنا وجود
رہبروں کا اب تو ہے ہر ظاہری عالم فریب
پارسا بن کر نہیں دیتے کسی کو ہم فریب
بھولے بھالے لوگ آ جاتے ہیں ان کی بات میں
لوٹتے ہیں دن میں یہ ہم لوٹتے ہیں رات میں
ان کے قول و فعل میں ہے رات اور دن کا تضاد
یہ نہیں کرتے خدا کی رحمتوں پر اعتماد
رات دن ان کی ریاکاری کے بنتے ہیں اصول
ان کا دعوا ہے غلط ان کی عبادت ہے فضول
رہزنوں سے مت ڈرو تم پارساؤں سے بچو
لیڈران قوم کی ظالم اداؤں سے ڈرو
- کتاب : Hans Kar Guzaar De (Pg. 138)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.