دعوتوں میں شاعری
دعوتوں میں شاعری اب ہو گئی ہے رسم عام
یوں بھی شاعر سے لیا جاتا ہے اکثر انتقام
پہلے کھانا اس کو کھلواتے ہیں بھوکے کی طرح
پھر اسے کرتے ہیں استعمال میٹھے کی طرح
سنیے اک صاحب کا قصہ جو بڑے فن کار ہیں
ہاں مگر تھوڑے سے دعوت خور و دنیا دار ہیں
ایک دعوت میں انہیں گانا بھی تھا کھانے کے بعد
''وہ ترے آنے سے پہلے یہ ترے جانے کے بعد''
شاعر موصوف تھے اس فیلڈ میں بالکل نئے
اس لیے وہ کچھ ضرورت سے زیادہ کھا گئے
قورمہ اسٹو، پسندہ، کوفتہ، شامی کباب
جانے کیا کیا کھا گیا یہ شاعر معدہ خراب
کچھ نہ پوچھو اس عمل سے ان کو کیا حاصل ہوا
ان کے ماضی سے جدا خود ان کا مستقبل ہوا
شعر پڑھنے کے لیے موصوف جب مسند پر آئے
زور تو پورا لگا ڈالا مگر کچھ پڑھ نہ پائے
چاہتے یہ تھے میں کچھ حال دل روداد غم
منہ سے صرف اتنا ہی نکلا مما مما مما مم
دیکھ کر ان کی یہ حالت اک ادیب زندہ دل
ان سے یہ کہنے لگا اے بے وقوف مستقل
آ کے بزم شعر میں شرط وفا پوری تو کر
جتنا کھانا کھا گیا ہے اتنی مزدوری تو کر
بعد شعر و شاعری کھانے کا رکھیے انتظام
یہ غلط دستور ہے پہلے طعام اور پھر کلام
یہ نہ ہوگا تو ادب زیر زمیں گڑ جائے گا
خوش گلو شاعر تو کھانا کھا کے ٹھس پڑ جائے گا
- کتاب : Kulliyat Dilawar Figar (Pg. 125)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.