دم دار نظم
ہم کہیں یا نہ کہیں
روز روشن کی طرح
دم کا افسانہ فروزاں ہی رہا ہے اب تک
کلبلاتی ہوئی سیماب صفت اور سبک رو وہ دم
کسی شاعر کے تخیل کی طرح بانکی سی
خوب سجتی ہے سگ لیلیٰ پر
ہائے افسوس وہ دم
جو کہ نلکی میں رہی قید پریشان و زبوں بارہ برس
پھر بھی نکلی تو وہ ٹیڑھی نکلی
کسی محبوب کے ابروئے خمیدہ کی طرح
کسی شہناز کے گیسوئے بریدہ کی طرح
بت طناز کے اوصاف حمیدہ کی طرح
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز ہے دم
دیکھ کر دم کی وہ سیماب صفت بانکی ادا
شاعر وقت مچل جاتا ہے
اور پہروں وہ خلاؤں میں کہیں
ایک بیگانہ تصور کی طرح آوارہ
سیکڑوں حسن و محبت کے حسیں نغموں کو
کاٹ کر چھانٹ کے محنت سے بناتا ہے سدا
ہو بہ ہو دم کی طرح
اور دم جب مرے اعصاب پہ چھا جاتی ہے
ہوش اڑ جاتے ہیں افکار بدل جاتے ہیں
سیکڑوں طرح کے ہنستے ہوئے دم دار خیال
پھر پریشان مجھے کرتے ہیں
میں تڑپ جاتا ہوں
بے ساختہ کہہ اٹھتا ہوں
تیری جنبش سے نمایاں ہے زمیں کی جنبش
اے دم
عالم غیظ میں دم جب بھی کھڑی ہوتی ہے
کیا قیامت کی گھڑی ہوتی ہے
کانپ جاتا ہے جہاں
ہوش رستم کے بھی اڑ جاتے ہیں
چار جانب سے صدا آتی ہے اے دم اے دم
اب تو نیچی ہو جا
اور دنیائے محبت پہ کر احسان اے دم
یعنی محبوب کے پیچھے لگ جا
تاکہ دم دار یہ صدیوں کا ستم گر ہو جائے
اور بھاگے جو چھڑا کر کبھی اپنا دامن
دم سے پکڑا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.