ہمیں ہماری بیویوں سے بچاؤ
یہ پل پڑتی ہیں ہم پر جب بھی ہم دفتر سے آتے ہیں
ہلاکو خاں سے یا چنگیز خاں سے ان کے ناطے ہیں
نہ اٹھ کر پنکھا جھلتی ہیں نہ دیتی ہیں ہمیں پانی
پسینہ اپنا ہم تو ٹھنڈی آہوں سے سکھاتے ہیں
انہیں لازم ہے جب ہم آئیں یہ جھک کر قدم چھو لیں
مجازی ہم خدا ہیں پھر بھی ان پر رحم کھاتے ہیں
اڑا لیتی ہیں سب نقدی تلاشی جیب کی لے کر
ہم اپنی ہی کمائی ان سے ڈر ڈر کے چھپاتے ہیں
کچھ انکم ٹیکس لے جاتا ہے کچھ بیوی اڑاتی ہے
قسم اللہ کی شوہر بہت دولت کماتے ہیں
سہیلی ان کی آ جائے تو سمجھو عید ہے ان کی
بگڑ جاتی ہیں جب ہم دوستوں کو گھر بلاتے ہیں
نہیں جاتیں کبھی باورچی خانے میں یہ بھولے سے
کماتا ہے بہت آقا مزے نوکر اڑاتے ہیں
بہانہ کر کے درد سر کا اکثر لیٹ جاتی ہیں
نہ ہو نوکر اگر گھر میں تو ہم چائے بناتے ہیں
ہے ان کا کام رونا پان کھانا یا بگڑ جانا
کریں کیا با دل نا خواستہ ان کو مناتے ہیں
خدایا آج کے شوہر ہیں یا معصوم بچے ہیں
ذرا سا گھور لے بیوی تو جھٹ یہ سہم جاتے ہیں
یہ جب روتی ہیں ہم اپنے کلیجے تھام لیتے ہیں
سیاہی چوس لے کر ان کے آنسو ہم سکھاتے ہیں
حجامت روز کر دیتی ہیں یہ غصے کی قینچی سے
غنیمت ہے کہ اپنی شیو تو ہم خود بناتے ہیں
اذاں جب مرغ دیتا ہے سمجھتی ہیں یہ لوری ہے
انہیں مرغے سلاتے ہیں، ہمیں مرغے جگاتے ہیں
چلے جاتے ہیں کھا کر روکھی سوکھی اپنے دفتر کو
بچارے مرد سب رو رو کے اپنے دن بتاتے ہیں
بروز حشر جیسے بھی ہیں شوہر بخشے جائیں گے
سدا جو بیویوں کے ظلم سہہ کر مسکراتے ہیں
کبھی آزاد تھے ہم ہائے اس قید غلامی سے
وہ دن کتنے تھے اچھے ہائے وہ دن یاد آتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.