اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں
اسی میں ملت بیضا سما جا کود جا بھر جا
تری قسمت میں لکھا جا چکا ہے تیسرا درجہ
نہ گنجائش کو دیکھ اس میں نہ تو مردم شماری کر
لنگوٹی کس خدا کا نام لے گھس جا سواری کر
وہ کھڑکی سے کسی نے مورچہ بندوں کو للکارا
پھر اپنے سر کا گٹھرا دوسروں کے سر پہ دے مارا
کسی نے دوسری کھڑکی سے جب دیکھا یہ نظارا
زمیں پر آ رہا دھم سے کوئی تاج سر دارا
اگر یہ ریلوے کا سلسلہ ایران جا پہنچے
تو سکھر پر اترتا شخص اصفہان جا پہنچے
یہ سارے کھیت کے گنے کٹا لایا ہے ڈبے میں
وہ گھر کی چارپائی تک اٹھا لایا ہے ڈبے میں
کھڑے حقے بمعہ مینار آتش دان تو دیکھو
یہ قوم بے سر و سامان کا سامان تو دیکھو
وہ اک رسی میں پورا لاؤ لشکر باندھ لائے ہیں
یہ بستر میں ہزاروں تیر نشتر باندھ لائے ہیں
صراحی سے گھڑا روٹی سے دسترخوان لڑتا ہے
مسافر خود نہیں لڑتا مگر سامان لڑتا ہے
وہ اک دانائے گل لوگوں میں یوں گھل مل کے بیٹھے ہیں
رضائی میں جو یوں بیٹھے ہیں گویا سل کے بیٹھے ہیں
عوام الناس کو درس فلاح عام دیتے ہیں
بہر سو تھوکنے کا فرض بھی انجام دیتے ہیں
ادھر کونے میں جو اک مجلس بیدار بیٹھی ہے
کرائے پر الیکشن کے لیے تیار بیٹھی ہے
سیاست میں دما دم اپنا چمچہ مارتے جائیں
اگرچہ ہارتے جائیں مگر للکارتے جائیں
بڑے لونڈے کو مولا بخش جی کتنا پڑھاؤ گے!
''اسے بی اے پہ روکو گے کہ ایل ایل بی کراؤ گے!''
وہ بی اے ہے مگر بی اے کی خو آئی نہیں اس کو
ابھی ماں باپ کے کپڑوں سے بو آئی نہیں اس کو
بہم یوں گفتگو میں آشنائی ہوتی جاتی ہے
لڑائی ہوتی جاتی ہے صفائی ہوتی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.