جوتے چور
ایک دن میں نے کہا یہ ایک جوتے چور سے
جوتیوں پر کیوں ہمیشہ تیری رہتی ہے نظر
اور بھی گر ہیں کئی روزی کمانے کے لئے
چھوڑ یہ چوری کے دھندے کوئی اچھا کام کر
سن کے میری بات یہ اس نے دیا ہنس کر جواب
تم تو بالکل چونچ ہو تم کو نہیں کچھ بھی خبر
اس سے بڑھ کر کون سا دھندا ہے انٹرنیشنل
شہرۂ آفاق عالمگیر ہے اپنا ہنر
چپہ چپہ چور بازاری کا ہے بازار گرم
چل رہا ہے ہر جگہ دھندا یہی شام و سحر
ہر جگہ چوری کا چرچا ہر جگہ ہے لوٹ مار
دن دہاڑے لٹ رہا ہے ہر طرف فرد بشر
پھر گرانی کی گرانباری سے پتلا حال ہے
شیونگ اسٹک کی وہ قیمت ہے کہ منڈھ جاتا ہے سر
یہ وہ دھندا ہے بری ہے قید انکم ٹیکس سے
یہ وہ پیشہ ہے نہیں جس پر گرانی کا اثر
اس میں فرقہ واریت ہے اور نہ صوبہ واریت
بین الاقوامی ہماری ہے مصفا رہ گزر
شرط اتنی ہے کہ ہو ایسی صفائی ہاتھ میں
ایک جنبش میں چلے جوتا ادھر پاؤں ادھر
جو صفایا قوم کا کر دے وہی لیڈر ہے آج
ہو صفائی ہاتھ میں جس کے وہ ہے اہل ہنر
اور بھی اس کے علاوہ سینکڑوں ایسے ہیں چور
ڈالتے رہتے ہیں جو ڈاکے پہ ڈاکے بے خطر
بعض ایسے ہیں چرا لیتے ہیں مضموں شعر کے
اور کہہ لیتے ہیں اپنا شعر ڈاکا ڈال کر
تم بھی تو چوری چھپے ان گنتی کرتے ہو گناہ
ڈالتے رہتے ہو ہر سو تم بھی دزدیدہ نظر
جوتیاں چٹخاتے تم پھرتے ہو روزی کے لئے
اپنی روزی ہم کما لیتے ہیں جوتے مار کر
- کتاب : Anwar-e-Tabassum (Pg. 85)
- Author : Mirza Asmatullah Bag Asmat
- مطبع : Dakan Studio Abid Circle Hyderabad (1956)
- اشاعت : 1956
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.