Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کراچی کی بس

دلاور فگار

کراچی کی بس

دلاور فگار

MORE BYدلاور فگار

    بس میں لٹک رہا تھا کوئی ہار کی طرح

    کوئی پڑا تھا سایۂ دیوار کی طرح

    سہما ہوا تھا کوئی گناہ گار کی طرح

    کوئی پھنسا تھا مرغ گرفتار کی طرح

    محروم ہو گیا تھا کوئی ایک پاؤں سے

    جوتا بدل گیا تھا کسی کا کھڑاؤں سے

    کوئی پکارتا تھا مری جیب کٹ گئی

    کہتا تھا کوئی میری نئی پینٹ پھٹ گئی

    بس میں تمام پردوں کی دیوار ہٹ گئی

    ریش سفید زلف سیہ سے لپٹ گئی

    ایک اچھا خاصا مرد زنانے میں گھس پڑا

    گویا کہ ایک چور خزانے میں گھس پڑا

    لیڈیز کی صفوں میں جو چہرے تھے کچھ حسین

    ان پر نظر جمائے ہوئے تھے میاں متین

    شامل مسافروں میں تھے ہر فن کے ماہرین

    کچھ ان میں ناظرین تھے باقی تماش بین

    ذوق نظر کی شرط تھی منظر برا نہ تھا

    دس پیسے کے ٹکٹ میں یہ پکچر برا نہ تھا

    گاڑی میں ایک شور تھا کنڈکٹر آگے چل

    کہہ دے خدا کے واسطے ہاں ٹھیک ہے ڈبل

    کب تک کھڑا رہے گا سر جادۂ عمل

    لڑنے کی آرزو ہے تو باہر ذرا نکل

    تجھ پر خدا کی مار ہو اسٹارٹ کر دے بس

    دو پیسے اور لے لے جو دولت کی ہے ہوس

    کنڈکٹر اب یہ کہتا تھا وہ بس چلائے کیوں

    جو بس میں آ گیا ہے کرے ہائے ہائے کیوں

    جس کو ہو جاں عزیز مری بس میں آئے کیوں

    ایسے ہی گل بدن تھے تو پیسے بچائے کیوں

    ٹھانی ہے دل میں اب نہ دبیں گے کسی سے ہم

    تنگ آ گئے ہیں روز کی کنڈکٹری سے ہم

    کہتا تھا وہ کسی سے بھی کم تر نہیں ہوں میں

    یعنی کسی کے باپ کا نوکر نہیں ہوں میں

    پبلک سے کیوں ڈروں کوئی لیڈر نہیں ہوں میں

    کیوں ریگولر چلوں مہ و اختر نہیں ہوں میں

    بس میں کھڑے رہو جو مرے خیر خواہ ہو

    دیکھو مجھے جو دور سے عبرت نگاہ ہو

    یہ بس جو واقعی تھی کئی سال سے علیل

    مشکل سے ایک گھنٹے میں چلتی تھی چار میل

    مالک نے بھی یہ سوچ کے دے دی تھی اس کو ڈھیل

    اب اس کی زندگی کے ہیں لمحے بہت قلیل

    اب تو کسی کلرک سے اچانک یہ جا ملے

    کچھ بیمہ کمپنی سے ہمیں بھی صلا ملے

    ممکن نہ تھا کہ بس سے ہمارا ملے مزاج

    جمہوریت ہے ہم کو پسند اور اسے نراج

    مشکل تو یہ ہے بس کا معاون ہے کل سماج

    ایسے میں کیا بلند ہو آواز احتجاج

    گھبرا کے ہم تو آرٹ کی دنیا میں کھو گئے

    جب تک ملیر آیا کئی شعر ہو گئے

    مأخذ :
    • کتاب : Kulliyat Dilawar Figar (Pg. 235)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے