کراچی کی بس
بس میں لٹک رہا تھا کوئی ہار کی طرح
کوئی پڑا تھا سایۂ دیوار کی طرح
سہما ہوا تھا کوئی گناہ گار کی طرح
کوئی پھنسا تھا مرغ گرفتار کی طرح
محروم ہو گیا تھا کوئی ایک پاؤں سے
جوتا بدل گیا تھا کسی کا کھڑاؤں سے
کوئی پکارتا تھا مری جیب کٹ گئی
کہتا تھا کوئی میری نئی پینٹ پھٹ گئی
بس میں تمام پردوں کی دیوار ہٹ گئی
ریش سفید زلف سیہ سے لپٹ گئی
ایک اچھا خاصا مرد زنانے میں گھس پڑا
گویا کہ ایک چور خزانے میں گھس پڑا
لیڈیز کی صفوں میں جو چہرے تھے کچھ حسین
ان پر نظر جمائے ہوئے تھے میاں متین
شامل مسافروں میں تھے ہر فن کے ماہرین
کچھ ان میں ناظرین تھے باقی تماش بین
ذوق نظر کی شرط تھی منظر برا نہ تھا
دس پیسے کے ٹکٹ میں یہ پکچر برا نہ تھا
گاڑی میں ایک شور تھا کنڈکٹر آگے چل
کہہ دے خدا کے واسطے ہاں ٹھیک ہے ڈبل
کب تک کھڑا رہے گا سر جادۂ عمل
لڑنے کی آرزو ہے تو باہر ذرا نکل
تجھ پر خدا کی مار ہو اسٹارٹ کر دے بس
دو پیسے اور لے لے جو دولت کی ہے ہوس
کنڈکٹر اب یہ کہتا تھا وہ بس چلائے کیوں
جو بس میں آ گیا ہے کرے ہائے ہائے کیوں
جس کو ہو جاں عزیز مری بس میں آئے کیوں
ایسے ہی گل بدن تھے تو پیسے بچائے کیوں
ٹھانی ہے دل میں اب نہ دبیں گے کسی سے ہم
تنگ آ گئے ہیں روز کی کنڈکٹری سے ہم
کہتا تھا وہ کسی سے بھی کم تر نہیں ہوں میں
یعنی کسی کے باپ کا نوکر نہیں ہوں میں
پبلک سے کیوں ڈروں کوئی لیڈر نہیں ہوں میں
کیوں ریگولر چلوں مہ و اختر نہیں ہوں میں
بس میں کھڑے رہو جو مرے خیر خواہ ہو
دیکھو مجھے جو دور سے عبرت نگاہ ہو
یہ بس جو واقعی تھی کئی سال سے علیل
مشکل سے ایک گھنٹے میں چلتی تھی چار میل
مالک نے بھی یہ سوچ کے دے دی تھی اس کو ڈھیل
اب اس کی زندگی کے ہیں لمحے بہت قلیل
اب تو کسی کلرک سے اچانک یہ جا ملے
کچھ بیمہ کمپنی سے ہمیں بھی صلا ملے
ممکن نہ تھا کہ بس سے ہمارا ملے مزاج
جمہوریت ہے ہم کو پسند اور اسے نراج
مشکل تو یہ ہے بس کا معاون ہے کل سماج
ایسے میں کیا بلند ہو آواز احتجاج
گھبرا کے ہم تو آرٹ کی دنیا میں کھو گئے
جب تک ملیر آیا کئی شعر ہو گئے
- کتاب : Kulliyat Dilawar Figar (Pg. 235)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.