کراچی کے مچھر
اے کراچی تیری رونق اور شہروں میں کہاں
مچھروں کی بین الاقوامی نمائش ہے یہاں
کس قدر آباد ہیں تیری نواحی بستیاں
ان میں مچھر میہماں ہیں اور مچھر میزباں
مچھروں کا شہر ہے حفظان صحت کا نظام
کر رہا ہے پوری پوری تندہی سے اپنا کام
اور شہروں کے بھی مچھر ہیں کراچی میں مقیم
کیونکہ اب چلتی نہیں اس شہر میں بحری نسیم
کر دیا کرتا تھا پسپا مچھروں کو یہ غنیم
ترک کر دی ہے ہواؤں نے بھی اب رسم قدیم
مچھروں نے باندھ رکھی ہے کراچی میں ہوا
ان کے اوپر کارگر ہوتی نہیں کوئی دوا
اے کراچی غیر ملکوں سے جو مچھر آئے ہیں
کیسے کیسے تو نے ان کے داد رے سنوائے ہیں
رات کو سوتے میں وہ کانوں پہ جب منڈلائے ہیں
اپنے ہی ہاتھوں سے تھپڑ اپنے منہ پر کھائے ہیں
ان کو رشوت بھی اگر دے دیں نہ باز آئیں گے وہ
کاٹ کر چپکے سے تاریکی میں اڑ جائیں گے وہ
چھوٹے مچھر موٹے مچھر اور بڑے ہیں اور کھرے
شہر کے بازار اور گھر مچھروں سے ہیں بھرے
رات دن منڈلا رہے ہیں ان کی فوجوں کے پرے
کان پر گاتے ہیں ٹکرا کر یہ بیجو باورے
مچھروں کو اے کراچی تو نے بخشا ہے وہ چین
خود کو ہر مچھر سمجھتا ہے وہی ہے تان سین
ہو چکا ہے مچھروں پر خون انسانی حلال
کون ان کو مار سکتا ہے کسی کی کیا مجال
مچھروں کی پرورش کا خاص رکھتے ہیں خیال
آدمی کی جان بچ جائے نہیں اس کا سوال
آدمی اپنی حفاظت کے اگر قابل نہیں
مچھروں کا خون سر لینے سے کچھ حاصل نہیں
نکلو مچھر دانیاں باندھے ہوئے جب گھر سے جاؤ
زخمی ہو جائے بدن اتنا زیادہ مت کھجاؤ
جب کوئی مچھر تمہیں کاٹے تو اس کا دل بڑھاؤ
بلکہ تالی بھی بجاؤ ساتھ اس کے مل کے گاؤ
مچھروں پر جاں نثاری کے لیے سچے بنو
ان کے کچھ مکھن لگاؤ ان کے تم چمچے بنو
مچھروں کے کاٹ لینے کا شرف حاصل ہو جب
تم اگر فریاد لائے لب پہ ہوگی بے سبب
اور لکھا جائے گا تھانے میں بھی نام و نسب
کچھ نہ بولو منہ سے کہلاؤ گے ورنہ بے ادب
مچھروں کے پالنے کو کھول رکھے ہیں گٹر
''مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر''
آدمی پر مچھروں کا یہ بڑا احسان ہے
خون پی لیتے ہیں جو سرچشمۂ ہیجان ہے
رات میں بچوں کا چہرہ ان کا دسترخوان ہے
اشرف مخلوق مچھر ہے کہ یہ انسان ہے
آدمی مرتے ہیں تو مر جائیں پر مچھر رہیں
شہر کے اندر رہیں اور شہر کے باہر رہیں
مچھروں کو پالنے والے کراچی اور سلام
استفادہ کر رہے ہیں مچھروں سے خاص و عام
لڑتے ہیں ناحق جنوبی اور شمالی ویتنام
اس سے تو بہتر ہے انساں مچھروں کے آئیں کام
زندگی انساں کی بے مقصد نہ ہونا چاہئے
یعنی قربانی کی کوئی حد نہ ہونا چاہئے
- کتاب : Teer-e-Neem Kash (Pg. 69)
- Author : Sayed Mohammad Jafri
- مطبع : Sang-e-Meel Publications, Lahore (P.k.) (2007)
- اشاعت : 2007
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.