کہ بس
اس نے تھانے میں رپٹ کچھ ایسی لکھوائی کہ بس
پھر پولس نے کی مری ایسی پذیرائی کہ بس
یہ پولس والے کسی کے بھی سگے ہوتے نہیں
ان کو رشوت سے ملے ہے وہ توانائی کہ بس
نوکری مل جائے چاہے سیلری تھوڑی ہو کم
ہاں مگر اوپر سے وہ انکم ہو بالائی کہ بس
میں نے بیگم سے کہا ہوں گے یہ بچے کب تلک
بولی جب تک اپنے منہ سے کہہ نہ دے دائی کہ بس
آج کل کردار کا معیار بھی دولت سے ہے
اتنی سستی ہو گئی دستار و دانائی کہ بس
ہیں بظاہر سب سیاست داں وطن کے خیر خواہ
اور بہ باطن اس قدر دولت کے شیدائی کہ بس
جسم پر نشترؔ کوئی بھی سوٹ فٹ آتا نہیں
ہو گئی ہے توند کی کچھ ایسی گولائی کہ بس
- کتاب : Post Martum (Pg. 112)
- Author : Nashtar Amrohvi
- مطبع : M.R. Publications (2012)
- اشاعت : 2012
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.