Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کیا سین چل رہا ہے

بدر منیر

کیا سین چل رہا ہے

بدر منیر

MORE BYبدر منیر

    آنکھوں سے نفرتوں کا لاوا ابل رہا ہے

    ہر شخص گفتگو میں شعلے اگل رہا ہے

    تہذیب کی حدوں سے باہر نکل رہا ہے

    لگتا ہے جیسے کوئی دل کو مسل رہا ہے

    کیا سین چل رہا ہے

    طوفان بد تمیزی جگتیں ہیں گالیاں ہیں

    وہ ڈیسک بج رہے ہیں نعرے ہیں تالیاں ہیں

    تھوک اڑ رہی ہے منہ سے چہروں پہ لالیاں ہیں

    دیکھو فضاؤں میں وہ جوتا اچھل رہا ہے

    کیا سین چل رہا ہے

    اک دوسرے پہ گھٹیا الزام دھر رہے ہیں

    پگڑی اچھالنے میں حد سے گزر رہے ہیں

    بدنام ہو کے اپنا کیا نام کر رہے ہیں

    جو ذی شعور ہے وہ بس ہاتھ مل رہا ہے

    کیا سین چل رہا ہے

    کرسی کسی نے پھینکی مارا کسی نے دھکا

    اس نے لگایا چوکا اس نے لگایا چھکا

    ایوان میں ہے جاری ہر سمت اٹ کھڑکا

    جمہوریت کا پودا یوں پھول پھل رہا ہے

    کیا سین چل رہا ہے

    ہوتی ہے پارٹی کے حکموں پہ جی حضوری

    قومی مفاد ان کو لگتا نہیں ضروری

    آ کر اسمبلیوں میں کرتے ہیں نیند پوری

    خوابوں کی چاشنی سے لیڈر مچل رہا ہے

    کیا سین چل رہا ہے

    مجروح گر ہو ان کا تھوڑا سا حق کہیں پہ

    بڑھتا ہے ان کا بی پی پڑتے ہیں بل جبیں پہ

    پاؤں پٹخ رہے ہیں نفرت سے یہ زمیں پہ

    زہریلی گفتگو سے ایوان جل رہا ہے

    کیا سین چل رہا ہے

    کانوں میں پڑ رہی ہیں باتیں تجارتوں کی

    امیدواریاں ہیں تگڑی وزارتوں کی

    بنیاد بس یہی ہے ساری شرارتوں کی

    آفر کا لفظ سن کر پتھر پگھل رہا ہے

    کیا سین چل رہا ہے

    جو عورتیں ہیں ان کی میچنگ بہت ہے پیاری

    آتی ہیں پارلر سے سج دھج کے روز ساری

    فیشن کا کمپیٹیشن ایوان میں ہے جاری

    دل کتنے ممبروں کا ان پر پھسل رہا ہے

    کیا سین چل رہا ہے

    اوروں کے واسطے وہ قانون کیا بنائیں

    جو خود ہی ضابطوں کی ہیں دھجیاں اڑائیں

    قومی مفاد ان کو ہم یاد کیا دلائیں

    جس کو کہیں اجالا ظلمت میں ڈھل رہا ہے

    کیا سین چل رہا ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے