آنکھوں سے نفرتوں کا لاوا ابل رہا ہے
ہر شخص گفتگو میں شعلے اگل رہا ہے
تہذیب کی حدوں سے باہر نکل رہا ہے
لگتا ہے جیسے کوئی دل کو مسل رہا ہے
کیا سین چل رہا ہے
طوفان بد تمیزی جگتیں ہیں گالیاں ہیں
وہ ڈیسک بج رہے ہیں نعرے ہیں تالیاں ہیں
تھوک اڑ رہی ہے منہ سے چہروں پہ لالیاں ہیں
دیکھو فضاؤں میں وہ جوتا اچھل رہا ہے
کیا سین چل رہا ہے
اک دوسرے پہ گھٹیا الزام دھر رہے ہیں
پگڑی اچھالنے میں حد سے گزر رہے ہیں
بدنام ہو کے اپنا کیا نام کر رہے ہیں
جو ذی شعور ہے وہ بس ہاتھ مل رہا ہے
کیا سین چل رہا ہے
کرسی کسی نے پھینکی مارا کسی نے دھکا
اس نے لگایا چوکا اس نے لگایا چھکا
ایوان میں ہے جاری ہر سمت اٹ کھڑکا
جمہوریت کا پودا یوں پھول پھل رہا ہے
کیا سین چل رہا ہے
ہوتی ہے پارٹی کے حکموں پہ جی حضوری
قومی مفاد ان کو لگتا نہیں ضروری
آ کر اسمبلیوں میں کرتے ہیں نیند پوری
خوابوں کی چاشنی سے لیڈر مچل رہا ہے
کیا سین چل رہا ہے
مجروح گر ہو ان کا تھوڑا سا حق کہیں پہ
بڑھتا ہے ان کا بی پی پڑتے ہیں بل جبیں پہ
پاؤں پٹخ رہے ہیں نفرت سے یہ زمیں پہ
زہریلی گفتگو سے ایوان جل رہا ہے
کیا سین چل رہا ہے
کانوں میں پڑ رہی ہیں باتیں تجارتوں کی
امیدواریاں ہیں تگڑی وزارتوں کی
بنیاد بس یہی ہے ساری شرارتوں کی
آفر کا لفظ سن کر پتھر پگھل رہا ہے
کیا سین چل رہا ہے
جو عورتیں ہیں ان کی میچنگ بہت ہے پیاری
آتی ہیں پارلر سے سج دھج کے روز ساری
فیشن کا کمپیٹیشن ایوان میں ہے جاری
دل کتنے ممبروں کا ان پر پھسل رہا ہے
کیا سین چل رہا ہے
اوروں کے واسطے وہ قانون کیا بنائیں
جو خود ہی ضابطوں کی ہیں دھجیاں اڑائیں
قومی مفاد ان کو ہم یاد کیا دلائیں
جس کو کہیں اجالا ظلمت میں ڈھل رہا ہے
کیا سین چل رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.