لیلائے کرپشن
آئی ہے مرے شہر میں اک شوخ حسینہ
سرشار جوانی ہے کہ ساون کا مہینہ
رعنائی کے تیور ہیں کہ طوفاں کا قرینہ
اک محشر جذبات ہے ظالم کی جوانی
مستانہ ادائیں ہیں کہ دریا کی روانی
ہر منہ میں بھر آتا ہے جسے دیکھ کے پانی
شوخی ہے کہ برسات کی گنگھور گھٹائیں
یا بزم خرابات کی مخمور ہوائیں
یا وادئ کشمیر کی مسحور فضائیں
ہر شخص کو جام مے دیدار پلا کر
ہر دل میں چراغ اپنی تمنا کا جلا کر
ہر روح میں وارفتگئ شوق بڑھا کر
یوں چھیڑ دیا اس نے محبت کا ترانہ
اک آن میں تسخیر ہوا سارا زمانہ
عشاق بھلا بیٹھے زلیخا کا فسانہ
ویسے تو پھنسانے میں وہ مشتاق بڑی ہے
ہر شخص پہ ہر دل پہ نظر اس کی گڑی ہے
جی جان سے لیکن وہ دفاتر پہ پڑی ہے
سرکار کے دفتر کا اسسٹنٹ بیچارہ
ٹکرا گیا اس شوخ کی نظروں سے قضا را
اور فرض کی بازی میں بری طرح سے ہارا
فائز ہیں مگر عہدۂ عالی پہ جو افسر
ظالم کی محبت میں ہوئے آپے سے باہر
حال ان کے دل زار کا ہر دل سے ہے ابتر
اس دشمن ایماں نے کسی کو بھی نہ چھوڑا
جو اس کے مقابل تھے غرور ان کا بھی توڑا
دل اپنی طرف قوم کے لیڈر کا بھی موڑا
جو دیش کے سیوک تھے اہنسا کے پجاری
خود ان سے حسینہ نے کہا میں ہوں تمہاری
اور ان پہ بھی الفت کا جنوں ہو گیا طاری
اب دیش کی سیوا کی بھلا کیا ہے ضرورت
اب وقت کہاں ہے جو کریں قوم کی خدمت
اب وہ ہیں اور اس شوخ کی آغوش محبت
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.