نظم
ایک صاحب اڑتی چڑیا کے گنا کرتے تھے پر
خط کا مضموں بھانپ لیتے تھے لفافہ دیکھ کر
ان کو قلمی دوستی کرنے کا چسکہ پڑ گیا
ہوتے ہوتے اک بڑی بی سے مقدر لڑ گیا
نامۂ محبوب کی تحریر تھی سہمی ہوئی
ان کو انداز نگارش سے غلط فہمی ہوئی
دوسرے مکتوب میں دے ڈالا شادی کا پیام
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
کر کے شادی گھر میں لے آئے اسے ذلت مآب
اور برے ارمان سے الٹا جو چہرے کا نقاب
ہائے کہہ کر لڑکھڑائے، وائے کہہ کر گر پڑے
پیٹ کر چھاتی نئی بیگم سے یوں کہنے لگے
عازم ملک عدم تجھ کو جواں سمجھا تھا میں
تیری جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
ہائے قسمت جنوری مانگی تو جولائی ملی
حال کا طالب ہوا ماضی تمنائی ملی
مجھ کو نانی جان مرحومہ کی یاد آ جائے ہے
میں تجھے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے
جان عزرائیل اب نخروں کا تیرے غم کروں
یا میں تجھ پر سورۂ یٰسین پڑھ کر دم کروں
کھل کے بولی وہ محبت کی پٹاری ہائے ہائے
کیسی کیسی دختران مادر ایام ہیں
قبر میں ہیں پاؤں لٹکائے مگر گلفام ہیں
کیا ہوا مجھ پر ہے گر انیس سو چودہ کی چھاپ
تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.