پرانے جوتے
گردش افلاک کے مارے ہوئے جوتے تمام
اک سڑک کے موڑ پر رکھے تھے با صد اہتمام
ان پہ ٹوٹے پڑ رہے تھے مفلسان خاص و عام
میں نے بھی گردن بڑھا کے پوچھے ان میں اک کے دام
بولا مدت بعد ان جوتوں کا اب اٹھا ہے پال
اور ان جوتوں میں ہر جوتا ہے آپ اپنی مثال
ایک جوتا ان میں تھا جو تجربوں کا شاہکار
اور کسی بھاگے ہوئے انگریز کی تھی یادگار
بولا میں اس دیس میں چلتا رہا ہوں بار بار
ہندو اور مسلم ہیں اب تک میرے افسوں کا شکار
پینٹ والوں میں ابھی تک میری وقعت ہے وہی
قدر گوہر شاہ داند یا بدانہ جوہری
ان میں اک تگڑا سا جوتا ایک ڈی ایس پی کا تھا
عمر بھر جو بے گناہوں کے سروں پر تھا چلا
کتنی کتنی رشوتیں صاحب کو تھا کھلوا چکا
جسم گو بے جان تھا لیکن تلے کا تھا کڑا
میں نے دس آنے لگائے اس پہ بولا او سخی
سات پشتوں نے تری پہنا تھا یہ جوتا کبھی
سینڈل اک برمی پڑی تھی اس جگہ مستانہ وار
اس طرح رکھی ہوئی تھی جیسے پتوں میں انار
یہ کسی کالج کی لڑکی کی رہی تھی غم گسار
نوجواں عشاق کے جذبے تھے اس کے زیر بار
بولا میں یہ آپ کی ٹھوکر میں ہیں کیا خال خال
بولی یہ ہیں نوجواں عشاق کی چندیا کے بال
شیخ گھیسو کرکے اک موچی سے پہلے ساز باز
عمر میں پہلے پہل مسجد گئے پڑھنے نماز
درمیاں میں توڑ کر یہ اپنی نیت حیلہ ساز
جھاڑ لائے ایک چپل جو تھی بے حد دل نواز
یہ جواں چپل تھی اپنے حال پر واں نوحہ خواں
اور میاں گھیسو کی تھی ایمان کی رطب اللساں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.