Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سیاحت ظریف

ظریف لکھنوی

سیاحت ظریف

ظریف لکھنوی

MORE BYظریف لکھنوی

    کچھ ریل گھر کا حال کروں مختصر بیاں

    وہ نو بجے کا وقت وہ ہنگامے کا سماں

    قلیوں کا لاد لاد کے لانا وہ پیٹیاں

    بجنا وہ گھنٹیوں کا وہ انجن کی سیٹیاں

    گڑ بڑ مسافروں کی بھی اک یادگار تھی

    عورت پہ مرد مرد پہ عورت سوار تھی

    القصہ ریل جب سوئے جھانسی رواں ہوئی

    اور شکل لکھنؤ کی نظر سے نہاں ہوئی

    جو تھرڈ میں تھے ان کے لیے بھی اماں ہوئی

    پنجوں پہ دھکے کھا کے جگہ کچھ عیاں ہوئی

    تھا تیسرا پہر نہ بخوبی ہوئی تھی شام

    چھوٹا جو ساتھ ریل کا ہم سب سے والسلام

    یعنی سواد بمبئی اس دم نظر پڑا

    ٹھہری ٹرین اک ایک مسافر اتر پڑا

    کچھ بمبئی کا حال کروں مختصر بیاں

    چوڑی سڑک دو رویہ کئی منزلے مکاں

    ہر سو ملوں کا شہر میں پھیلا ہوا دھواں

    ہر ایک مالے کے لیے دس بیس سیڑھیاں

    کمرہ ہر ایک کاٹھ کا پنجرہ سلا ہوا

    ہر اک مکیں پھندیت ہو جیسے پلا ہوا

    بیٹھے اٹھے وہیں پہ وہیں کھانا بھی پکائے

    منہ ہاتھ دھوئے چاہے وہیں بیٹھ کر نہائے

    سونے کے واسطے نہ مسہری اگر بچھائے

    پھیلیں نہ پیر گنڈلی جو مارے تو ہاں سمائے

    ایسی جگہ پہ گر کہیں رہنے کو جا ملے

    انساں کو زندگی میں لحد کا مزا ملے

    بائیس فروری کی سحر جب میاں ہوئی

    اٹھے سویرے جیسے ہی ظلمت نہاں ہوئی

    اسباب باندھ بوندھ کے ہشیار ہو گئے

    گاڑی بلائی چلنے کو تیار ہو گئے

    پہنچا ہر اک جہاز پر جس طرح ہو سکا

    لیکن کہیں پہ ملتی نہ تھی بیٹھنے کی جا

    اسباب چار سمت تھا پھیلا پڑا ہوا

    سنتا نہ تھا کوئی جو کوئی تھا پکارتا

    برقع میں عورتیں تھیں مگر غیر حال تھا

    ریلا وہ تھا قدم کا ٹھہرنا محال تھا

    کچھ کھنڈ میں بھرے گئے اسباب کی طرح

    کچھ بے قرار ہو گئے سیماب کی طرح

    اک جا پہ کچھ سما جو گئے آپ کی طرح

    کچھ گھومتے ہی رہ گئے گرداب کی طرح

    موجوں کا اٹھنا اور وہ تلاطم کہ الحذر

    بے خود ہوئے یہ سب کہ نہ اپنی رہی خبر

    قے سے مسافروں کا بہت غیر حال تھا

    چکر وہ تھا کہ سر کا اٹھانا محال تھا

    تھیں جن کے ساتھ عورتیں ان کا نہ پوچھو حال

    لے جانا اور لانا تھا اک جان کا وبال

    سیڑھی سے ان کو لے کے اترنا تھا اک محال

    بے پردگی کا دھیان نہ پردے کا تھا خیال

    یہ پردہ داری جان کے اوپر عذاب تھی

    ان عورتوں سے مردوں کی مٹی خراب تھی

    کہتی تھی کوئی لو مرا برقع اٹک گیا

    ہے ہے نیا تھا تین جگہ سے مسک گیا

    صاحب سنبھالو سر سے دوپٹہ کھسک گیا

    لو پائنچہ الجھ گیا مقنع سرک گیا

    لو بیوی پان دان کا ڈھکنا بھی گر گیا

    آفت پڑے جہاز پہ کتھا بھی گر گیا

    توبہ یہ میرے بچے کا بٹوہ بھی گر گیا

    پہنچوں گی اب کی گرچہ اصل خیر سے میں گھر

    بیوی امیٹھے کان کروں گی نہ پھر سفر

    وہ کون لوگ ہیں کہ جو آتے ہیں بار بار

    سچ ہے بوا کہ گھر ہے غنیمت ہزار بار

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے