کچھ ریل گھر کا حال کروں مختصر بیاں
وہ نو بجے کا وقت وہ ہنگامے کا سماں
قلیوں کا لاد لاد کے لانا وہ پیٹیاں
بجنا وہ گھنٹیوں کا وہ انجن کی سیٹیاں
گڑ بڑ مسافروں کی بھی اک یادگار تھی
عورت پہ مرد مرد پہ عورت سوار تھی
القصہ ریل جب سوئے جھانسی رواں ہوئی
اور شکل لکھنؤ کی نظر سے نہاں ہوئی
جو تھرڈ میں تھے ان کے لیے بھی اماں ہوئی
پنجوں پہ دھکے کھا کے جگہ کچھ عیاں ہوئی
تھا تیسرا پہر نہ بخوبی ہوئی تھی شام
چھوٹا جو ساتھ ریل کا ہم سب سے والسلام
یعنی سواد بمبئی اس دم نظر پڑا
ٹھہری ٹرین اک ایک مسافر اتر پڑا
کچھ بمبئی کا حال کروں مختصر بیاں
چوڑی سڑک دو رویہ کئی منزلے مکاں
ہر سو ملوں کا شہر میں پھیلا ہوا دھواں
ہر ایک مالے کے لیے دس بیس سیڑھیاں
کمرہ ہر ایک کاٹھ کا پنجرہ سلا ہوا
ہر اک مکیں پھندیت ہو جیسے پلا ہوا
بیٹھے اٹھے وہیں پہ وہیں کھانا بھی پکائے
منہ ہاتھ دھوئے چاہے وہیں بیٹھ کر نہائے
سونے کے واسطے نہ مسہری اگر بچھائے
پھیلیں نہ پیر گنڈلی جو مارے تو ہاں سمائے
ایسی جگہ پہ گر کہیں رہنے کو جا ملے
انساں کو زندگی میں لحد کا مزا ملے
بائیس فروری کی سحر جب میاں ہوئی
اٹھے سویرے جیسے ہی ظلمت نہاں ہوئی
اسباب باندھ بوندھ کے ہشیار ہو گئے
گاڑی بلائی چلنے کو تیار ہو گئے
پہنچا ہر اک جہاز پر جس طرح ہو سکا
لیکن کہیں پہ ملتی نہ تھی بیٹھنے کی جا
اسباب چار سمت تھا پھیلا پڑا ہوا
سنتا نہ تھا کوئی جو کوئی تھا پکارتا
برقع میں عورتیں تھیں مگر غیر حال تھا
ریلا وہ تھا قدم کا ٹھہرنا محال تھا
کچھ کھنڈ میں بھرے گئے اسباب کی طرح
کچھ بے قرار ہو گئے سیماب کی طرح
اک جا پہ کچھ سما جو گئے آپ کی طرح
کچھ گھومتے ہی رہ گئے گرداب کی طرح
موجوں کا اٹھنا اور وہ تلاطم کہ الحذر
بے خود ہوئے یہ سب کہ نہ اپنی رہی خبر
قے سے مسافروں کا بہت غیر حال تھا
چکر وہ تھا کہ سر کا اٹھانا محال تھا
تھیں جن کے ساتھ عورتیں ان کا نہ پوچھو حال
لے جانا اور لانا تھا اک جان کا وبال
سیڑھی سے ان کو لے کے اترنا تھا اک محال
بے پردگی کا دھیان نہ پردے کا تھا خیال
یہ پردہ داری جان کے اوپر عذاب تھی
ان عورتوں سے مردوں کی مٹی خراب تھی
کہتی تھی کوئی لو مرا برقع اٹک گیا
ہے ہے نیا تھا تین جگہ سے مسک گیا
صاحب سنبھالو سر سے دوپٹہ کھسک گیا
لو پائنچہ الجھ گیا مقنع سرک گیا
لو بیوی پان دان کا ڈھکنا بھی گر گیا
آفت پڑے جہاز پہ کتھا بھی گر گیا
توبہ یہ میرے بچے کا بٹوہ بھی گر گیا
پہنچوں گی اب کی گرچہ اصل خیر سے میں گھر
بیوی امیٹھے کان کروں گی نہ پھر سفر
وہ کون لوگ ہیں کہ جو آتے ہیں بار بار
سچ ہے بوا کہ گھر ہے غنیمت ہزار بار