پھنسے کچھ ایسے ہم آہ و فغاں کے دھوکے میں
پھنسے کچھ ایسے ہم آہ و فغاں کے دھوکے میں
دھواں سمیٹ لیا آسماں کے دھوکے میں
یہ کیا خبر تھی کہ خود کر رہے ہیں دربانی
لپٹ گیا میں انہیں پاسباں کے دھوکے میں
جو چھت کی تیلیاں گل سڑ کے گر پڑیں نیچے
قفس پہ برق گری آشیاں کے دھوکے میں
کھرنڈ نوچ دیے جب تمام زخموں کے
رہے وہ دل میں مرے گلستاں کے دھوکے میں
یہ کس کا در ہے کچھ اتنی خبر نہیں مجھ کو
جھکایا سر کو ترے آستاں کے دھوکے میں
شب وصال میں داڑھی منڈائی کام آئی
لپٹ گئے وہ مجھے نوجواں کے دھوکے میں
پھنسی سراب میں مجھ نا مراد کی کشتی
ہے ناخدا ابھی آب رواں کے دھوکے میں
سنائی یار کو شعروں میں عشق کی روداد
وہ آ گئے مرے طرز بیاں کے دھوکے میں
جو پوچھا غیر کے گھر کیوں گئے تو فرمایا
پہنچ گئے وہاں تیرے مکاں کے دھوکے میں
کیا وہ چرب زبانی سے کام قاصد نے
سنایا حال مرا داستاں کے دھوکے میں
نہ ہوگا بومؔ سا دنیا میں چوتیا کوئی
بہار میں بھی رہا یہ خزاں کے دھوکے میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.