ادھار
ہم کو ملازمت جو کھڑے گھاٹ مل گئی
باچھوں کی ناؤ کانوں کے ساحل سے جا لگی
چٹھی پھر ان کو ہم نے بصد شوق یوں لکھی
''آیا کرو ادھر بھی مری جاں کبھی کبھی''
دل نے کہا کہ جھوم کے نعرے لگائیے
تختی لگا کے پیٹھ سے اب گھوم جائیے
آ جائیے تو مل کے مہاجن کو لوٹ لیں
قرضہ وہ لیں کہ اصل کبھی دیں نہ سود دیں
وہ قرض پھر لیے ہیں کہ اللہ کی پناہ!
روپے اسی سے لیں مری جس پر پڑی نگاہ
پھر اس کے بھاگنے کی بھی چھوڑی نہ کوئی راہ
سب کے لنگوٹی بندھ گئی، حالت ہوئی تباہ
یارا نہ تھا فغاں کا، نہ موقع تھا آہ کا
پتا پھٹا ہوا تھا ہر ایک قرض خواہ کا
قرضے پہ ہم نے ایک مکان ایسا لے لیا
جس میں کہ دو طرف سے تھا جانے کا راستہ
جب سارے قرض خواہوں کو اس کا پتہ چلا
ہر فرد لے کے اپنا بہی کھاتا آ گیا
تھا ہر طرف سے شور کہ تشریف لائیے
سناٹا کہہ رہا تھا کہ ڈنڈے بجائیے
پہلی جو آئی ایک قیامت مچا گئی
بل لے کے قرض خواہوں کی اک فوج آ گئی
ہر قرض خواہ حد ادب لانگنے لگا
دل اپنی مغفرت کی دعا مانگنے لگا
ہر سمت لاد لاد کے گرنے لگے جو بم
گرمایا دل تو آیا طبیعت میں پیچ و خم
رہ رہ کے اپنی بوٹیاں ہم نوچنے لگے
اور خودکشی کی راہ نئی سوچنے لگے
ہے قرض کی یہ شان کہ لو اور کبھی نہ دو
دس بیس ہاتھ کھاؤ تو دو چار خود دھرو
مرنے پہ قرض خواہوں کے چندے سے یوں اٹھو
دمڑی نہ اپنی خرچ ہو اس ٹھاٹھ سے مرو
چھ سات سال قرض کے پیسے نہ جب دئیے
دس بیس سود خوار تو یونہی ڈھلک گئے
جو ادھ موئے تھے وہ بھی تھے کچھ ایسے کج روے
بے صبر ہو کے بولے حضرت ہم تو اب چلے
وہ ہم نے قرض خواہوں کی مٹی پلید کی
وہ خود تو مر گئے پہ رقم ان کی رہ گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.