ان کی اونچی ہو گئی دوکان اب کیا کیجئے
ان کی اونچی ہو گئی دوکان اب کیا کیجئے
رہ گیا پھیکا مگر پکوان اب کیا کیجیئے
واہ ہپی ازم نے نقشہ بدل کر رکھ دیا
بن گئیں رضوانہ بی رضوان اب کیا کیجئے
ان کو ایڑی دار سینڈل چاہیے اور اس طرف
سر کی آبادی نہیں گنجان اب کیا کیجئے
ماہ کی ہے آخری تاریخ آ دھمکے ہیں آج
ان کے میکے سے کئی مہمان اب کیا کیجئے
ردی اخباروں کو بیچوں یا کہ سر کو پھوڑ لوں
گھر میں کھانے کا نہیں سامان اب کیا کیجئے
شاعری کو چھوڑ کر قوال ہی بن جائیں کیا
شعر فہمی کا ہے اف فقدان اب کیا کیجئے
جب سے تینوں شو سنیما گھر کے فل رہنے لگے
مسجدیں ہیں شہر کی ویران اب کیا کیجئے
فرق کچھ باقی نہیں تذکیر اور تانیث کا
جنس کی دشوار ہے پہچان اب کیا کیجئے
میں نے تو رمضان رکھا تھا نویں لڑکے کا نام
آج دسواں آ گیا قربان اب کیا کیجئے
بیچ کر بیوی کے زیور قرض دینا تھا جنہیں
چل دئے وہ سوئے قبرستان اب کیا کیجئے
کرتے تھے اصلاح غزلوں کی مری پیتے تھے بھنگ
آج ان کا ہو گیا چالان اب کیا کیجئے
ایک درجن عاشقوں کو باندھنا ہے تھان پر
ان کا چھوٹا ہے مگر دالان اب کیا کیجئے
نظم بے معنی سی اک لکھ لی بانداز جدید
جس کا ملتا ہی نہیں عنوان اب کیا کیجئے
گھر میں شاعر کے ملا چوروں کو جب کچھ بھی نہیں
لے گئے جوہرؔ کا وہ دیوان اب کیا کیجئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.