آرام ہو چکا مرے جسم نزار کو
آرام ہو چکا مرے جسم نزار کو
رکھے خدا جہاں میں دل بے قرار کو
پانی پہ جیسے غنچہ لالا پھرے بہا
دیکھا میں آنسوؤں میں دل داغدار کو
برسا تو میرے دیدۂ خونبار کے حضور
پر اب تک انفعال ہے ابر بہار کو
ہنستا ہی میں پھروں جو مرا کچھ ہو اختیار
پر کیا کروں میں دیدۂ بے اختیار کو
آیا جہاں میں دوست بھی ہوتے ہیں یک دگر
مجھ سے تو دشمنی ہی رہی میرے یار کو
سو بار یوں تو غیروں سے کرتے ہو ہنس کے بات
کچھ منہ بنا رہو ہو ہماری ہی بار کو
سرگشتگی سوائے نہ دیکھا جہاں میں کچھ
اک عمر خضر سیر کیا اس دیار کو
کس کس کی خاک اب کی ملانی ہے خاک میں
جاتی ہے پھر نسیم اسی رہ گزار کو
اے وہ کوئی جو آج پیے ہے شراب عیش
خاطر میں رکھیو کل کے بھی رنج و خمار کو
خوباں کا کیا جگر جو کریں مجھ کو اپنا صید
پہچانتا ہے سب کوئی تیرے شکار کو
ق
جیتے جی فکر خوب ہے ورنہ یہ بد بلا
رکھے گا حشر تک تہ و بالا مزار کو
گر ساتھ لے گڑا تو دل مضطرب تو میرؔ
آرام ہو چکا ترے مشت غبار کو
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0385
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.