ایسی گلی اک شہر اسلام نہیں رکھتا
ایسی گلی اک شہر اسلام نہیں رکھتا
جس کوچے میں وہ بت صد بدنام نہیں رکھتا
آزار نہ دے اپنے کانوں کے تئیں اے گل
آغاز مرے غم کا انجام نہیں رکھتا
ناکامیٔ صد حسرت خوش لگتی نہیں ورنہ
اب جی سے گزر جانا کچھ کام نہیں رکھتا
ہو خشک تو بہتر ہے وہ ہاتھ بہاراں میں
مانند نئے نرگس جو جام نہیں رکھتا
بن اس کی ہم آغوشی بیتاب نہیں اب ہے
مدت سے بغل میں دل آرام نہیں رکھتا
میں داڑھی تری واعظ مسجد ہی میں منڈواتا
پر کیا کروں ساتھ اپنے حجام نہیں رکھتا
وہ مفلس ان آنکھوں سے کیونکر کے بسر آوے
جو اپنی گرہ میں اک بادام نہیں رکھتا
کیا بات کروں اس سے مل جائے جو وہ میں تو
اس ناکسی سے روئے دشنام نہیں رکھتا
یوں تو رہ و رسم اس کو اس شہر میں سب سے ہے
اک میرؔ ہی سے خط و پیغام نہیں رکھتا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0036
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.