فرہاد ہاتھ تیشے پہ ٹک رہ کے ڈالتا
فرہاد ہاتھ تیشے پہ ٹک رہ کے ڈالتا
پتھر تلے کا ہاتھ ہی اپنا نکالتا
بگڑا اگر وہ شوخ تو سنیو کہ رہ گیا
خورشید اپنی تیغ و سپر ہی سنبھالتا
یہ سر تبھی سے گوے ہے میدان عشق کا
پھرتا تھا جن دنوں میں تو گیندیں اچھالتا
بن سر کے پھوڑے بنتی نہ تھی کوہ کن کے تیں
خسرو سے سنگ سینہ کو کس طور ٹالتا
چھاتی سے ایک بار لگاتا جو وہ تو میرؔ
برسوں یہ زخم سینے کا ہم کو نہ سالتا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0019
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.