جوں غنچہ میرؔ اتنے نہ بیٹھے رہا کرو
جوں غنچہ میرؔ اتنے نہ بیٹھے رہا کرو
گل پھول دیکھنے کو بھی ٹک اٹھ چلا کرو
جوں نے نہ زار نالے سے ہم ایک دم رہیں
تم بند بند کیوں نہ ہمارا جدا کرو
سوتے کے سوتے یوں ہی نہ رہ جائیں ہم کبھو
آنکھیں ادھر سے موند نہ اپنی لیا کرو
سودے میں اس کے بک گئے ایسے کئی ہزار
یوسف کا شور دور ہی سے تم سنا کرو
ہوتے ہو بے دماغ تو دیکھو ہو ٹک ادھر
غصے ہی ہم پہ کاش کے اکثر رہا کرو
یہ اضطراب دیکھ کہ اب دشمنوں سے بھی
کہتا ہوں اس کے ملنے کی کچھ تم دعا کرو
دم رکتے ہیں سیاہیٔ مژگاں ہی دیکھ کر
سرمہ لگا کے اور ہمیں مت خفا کرو
پورا کریں ہیں وعدے کو اپنے ہم آج کل
وعدے کے تیں وصال کے تم بھی وفا کرو
دشمن ہیں اپنے جی کے تمہارے لیے ہوئے
تم بھی حقوق دوستی کے کچھ ادا کرو
اپنا چلے تو آپھی ستم سب اٹھائیے
تم کون چاہتا ہے کسو پر جفا کرو
ہر چند ساتھ جان کے ہے عشق میرؔ لیک
اس درد لا علاج کی کچھ تو دوا کرو
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0928
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.