کم فرصتیٔ گل جو کہیں کوئی نہ مانے
کم فرصتیٔ گل جو کہیں کوئی نہ مانے
ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے
تھے شہر میں اے رشک پری جتنے سیانے
سب ہو گئے ہیں شور ترا سن کے دوانے
ہمراہ جوانی گئے ہنگامے اٹھانے
اب ہم بھی نہیں وے رہے نے وے ہیں زمانے
پیری میں جو باقی نہیں جامے میں تو کیا دور
پھٹنے لگے ہیں کپڑے جو ہوتے ہیں پرانے
مرتے ہی سنے ہم نے کسل مند محبت
اس درد میں کس کس کو کیا نفع دوا نے
ہے کس کو میسر تری زلفوں کی اسیری
شانے کے نصیبوں میں تھے یوں ہاتھ بندھانے
ٹک آنکھ بھی کھولی نہ زخود رفتہ نے اس کے
ہرچند کیا شور قیامت نے سرہانے
لوہے کے توے ہیں جگر اہل محبت
رہتے ہیں ترے تیر ستم ہی کے نشانے
کاہے کو یہ انداز تھا اعراض بتاں کا
ظاہر ہے کہ منہ پھیر لیا ہم سے خدا نے
ان ہی چمنوں میں کہ جنہوں میں نہیں اب چھاؤں
کن کن روشوں ہم کو پھرایا ہے ہوا نے
کب کب مری عزت کے لیے بیٹھے ہو ٹک پاس
آئے بھی جو ہو تو مجھے مجلس سے اٹھانے
پایا ہے نہ ہم نے دل گم گشتہ کو اپنے
خاک اس کی سر راہ کی کوئی کب تئیں چھانے
کچھ تم کو ہمارے جگروں پر بھی نظر ہے
آتے جو ہو ہر شام و سحر تیر لگانے
مجروح بدن سنگ سے طفلاں کے نہ ہوتے
کم جاتے جو اس کوچے میں پر ہم تھے دوانے
آنے میں تعلل ہی کیا عاقبت کار
ہم جی سے گئے پر نہ گئے اس کے بہانے
گلیوں میں بہت ہم تو پریشاں سے پھرے ہیں
اوباش کسو روز لگا دیں گے ٹھکانے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0597
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.