کس کنے جاؤں الٰہی کیا دوا پیدا کروں
کس کنے جاؤں الٰہی کیا دوا پیدا کروں
دل تو کچھ دھنسکا ہی جاتا ہے کروں سو کیا کروں
لوہو روتا ہوں میں ہر اک حرف خط پر ہمدماں
اور اب رنگین جیسا تم کہو انشا کروں
چال اپنی چھوڑتا ہرگز نہیں وہ خوش خرام
شور سے کب تک قیامت ایک میں برپا کروں
مصلحت ہے میری خاموشی ہی میں اے ہم نفس
لوہو ٹپکے بات سے جو ہونٹ اپنے وا کروں
دل پریشانی مجھے دے ہے بکھیرے گل کے رنگ
آپ کو جوں غنچہ کیونکر آہ میں یکجا کروں
ایک چشمک ہی چلی جاتی ہے گل کی میری اور
یعنی بازار جنوں میں جاؤں کچھ سودا کروں
خوار تو آخر کیا ہے گلیوں میں تو نے مجھے
تو سہی اے عشق جو تجھ کو بھی میں رسوا کروں
خاک اڑاتا اشک افشاں آن نکلوں میں تو پھر
دشت کو دریا کروں بستی کے تیں صحرا کروں
کعبے جانے سے نہیں کچھ شیخ مجھ کو اتنا شوق
چال وہ بتلا کہ میں دل میں کسو کے جا کروں
اب کے ہمت صرف کر جو اس سے جی اچٹے مرا
پھر دعا اے میرؔ مت کریو اگر ایسا کروں
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0877
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.