کیا میں بھی پریشانیٔ خاطر سے قریں تھا
کیا میں بھی پریشانیٔ خاطر سے قریں تھا
آنکھیں تو کہیں تھیں دل غم دیدہ کہیں تھا
کس رات نظر کی ہے سوئی چشمک انجم
آنکھوں کے تلے اپنے تو وہ ماہ جبیں تھا
آیا تو سہی وہ کوئی دم کے لیے لیکن
ہونٹوں پہ مرے جب نفس باز پسیں تھا
اب کوفت سے ہجراں کی جہاں تن پہ رکھا ہاتھ
جو درد و الم تھا سو کہے تو کہ وہیں تھا
جانا نہیں کچھ جز غزل آ کر کے جہاں میں
کل میرے تصرف میں یہی قطعۂ زمیں تھا
نام آج کوئی یاں نہیں لیتا ہے انھوں کا
جن لوگوں کے کل ملک یہ سب زیر نگیں تھا
مسجد میں امام آج ہوا آ کے وہاں سے
کل تک تو یہی میرؔ خرابات نشیں تھا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0002
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.