مارا زمیں میں گاڑا تب اس کو صبر آیا
مارا زمیں میں گاڑا تب اس کو صبر آیا
اس دل نے ہم کو آخر یوں خاک میں ملایا
اس گل زمیں سے اب تک اگتے ہیں سرو مائل
مستی میں جھکتے جس پر تیرا پڑا ہے سایا
یکساں ہے قتل گہہ اور اس کی گلی تو مجھ کو
واں خاک میں میں لوٹا یاں لوہو میں نہایا
پوجے سے اور پتھر ہوتے ہیں یہ صنم تو
اب کس طرح اطاعت ان کی کروں خدایا
تا چرخ نالہ پہنچا لیکن اثر نہ دیکھا
کرنے سے اب دعا کے میں ہاتھ ہی اٹھایا
تیرا ہی منہ تکے ہے کیا جانیے کہ نو خط
کیا باغ سبز تو نے آئینے کو دکھایا
شادابی و لطافت ہرگز ہوئی نہ اس میں
تیری مسوں پہ گرچہ سبزے نے زہر کھایا
آخر کو مر گئے ہیں اس کی ہی جستجو میں
جی کے تئیں بھی کھویا لیکن اسے نہ پایا
لگتی نہیں ہے دارو ہیں سب طبیب حیراں
اک روگ میں بساہا جی کو کہاں لگایا
کہہ ہیچ اس کے منہ کو جی میں ڈرا یہاں تو
بارے وہ شوخ اپنی خاطر میں کچھ نہ لایا
ہونا تھا مجلس آرا گر غیر کا تجھے تو
مانند شمع مجھ کو کاہے کے تیں جلایا
تھی یہ کہاں کی یاری آئینہ رو کہ تو نے
دیکھا جو میرؔ کو تو بے ہیچ منہ بنایا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0024
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.