پڑا تھا شور جیسا ہر طرف اس لاابالی کا
پڑا تھا شور جیسا ہر طرف اس لاابالی کا
رہا ویسا ہی ہنگامہ مری بھی زار نالی کا
رہے بد حال صوفی حال کرتے دیر مجلس میں
مغنی سے سنا مصرع جو میرے شعر حالی کا
نظر بھر دیکھتا کوئی تو تم آنکھیں چھپا لیتے
سماں اب یاد ہوگا کب تمہیں وہ خوردسالی کا
چمک یاقوت کی چلتی ہے اتنی دور کاہے کو
اچنبھا ہے نظر بازوں کو ان ہونٹوں کی لالی کا
پھرے بستی میں رویت کچھ نہیں افلاس سے اپنی
الٰہی ہووے منہ کالا شتاب اس دست خالی کا
دماغ اپنا تو اپنی فکر ہی میں ہو چکا یکسر
خیال اب کس کو ہے اے ہم نشیں نازک خیالی کا
ذلیل و خوار ہیں ہم آگے خوباں کے ہمیشہ سے
پریکھا کچھ نہیں ہے ہم کو ان کی جھڑکی گالی کا
ڈرو چونکو جو چسپاں اختلاطی تم سے ہو مجھ کو
تشتت کیا ہے میری دور کی اس دیکھا بھالی کا
نہ پہنچی جو دعائے میرؔ واں تک تو عجب کیا ہے
علوئے مرتبہ ہے بسکہ اس درگاہ عالی کا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 6, Ghazal No- 1803
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.