قصہ کہیں تو کیا کہیں ملنے کی رات کا
قصہ کہیں تو کیا کہیں ملنے کی رات کا
پہروں چواؤ ان نے رکھا بات بات کا
جرأت سے گرچہ زرد ہوں پر مانتا ہے کون
منہ لال جب تلک نہ کروں پانچ سات کا
کیونکر بسر کرے غم و غصہ میں ہجر کے
خوگر جو ہو کسو کے کوئی التفات کا
جاگہ سے لے گیا ہمیں اس کا خرام ناز
ٹھہراؤ ہو سکا نہ قرار و ثبات کا
ڈرتا ہوں مالکان جزا چھاتی دیکھ کر
کہنے لگیں نہ واہ رے زخم اس کے ہاتھ کا
واعظ کہے سو سچ ہے ولے مے فروش سے
ہم ذکر بھی سنا نہیں صوم و صلٰوۃ کا
بھونکا کریں رقیب پڑے کوئے یار میں
کس کے تئیں دماغ عفف ہے سگات کا
ان ہونٹوں کا حریف ہو ظلمات میں گیا
پردے میں رو سیاہ ہے آب حیات کا
عالم کسو حکیم کا باندھا طلسم ہے
کچھ ہو تو اعتبار بھی ہو کائنات کا
گر یار میرؔ اہل ہے تو کام سہل ہے
اندیشہ تجھ کو یوں ہی ہے اپنی نجات کا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 4, Ghazal No- 1314
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.