سخت بے رحم آہ قاتل ہے
سخت بے رحم آہ قاتل ہے
میری خوں ریزی ہی کا مائل ہے
دور مجنوں کا ہو گیا آخر
یاں جنوں کا ابھی اوائل ہے
نکلے اس راہ کس طرح وہ ماہ
نہ تو طالع نہ جذب کامل ہے
مثل صورت ہیں جلوہ کے حیراں
ہائے کیا شکل کیا شمائل ہے
ہاتھ رکھ لیوے تو کہے کہ بس اب
کیا جئے گا بہت یہ گھائل ہے
حق میں اس بت کے بد کہیں کیونکر
وہ ہمارا خدائے باطل ہے
سچ ہے راحت تو بعد مرنے کے
پر بڑا واقعہ یہ حائل ہے
تیغ اگر درمیاں رہے تو رہے
یار میرا جوان جاہل ہے
رو نہیں چشم تر سے اب رکھیے
سیل اسی در کا کب سے سائل ہے
حال ہم ڈوبتوں کا کیا جانے
جس کو دریا پہ سیر ساحل ہے
میرؔ کب تک بہ حال مرگ جئیں
کچھ بھی اس زندگی کا حاصل ہے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 5, Ghazal No- 1772
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.