سر راہ چند انتظاری رہے
سر راہ چند انتظاری رہے
بھلا کب تلک بے قراری رہے
رہا ہی کئے آنسو پلکوں پہ شب
کہاں تک ستارہ شماری رہے
کہا بوسہ دے کر سفر جب چلا
کہ میری بھی یہ یادگاری رہے
کہیں خشک ہو چشمۂ چشم بھی
لہو منہ پہ تا چند جاری رہے
بس اب رہ چکی جان غم ناک بھی
جو ایسی ہی تن کی نزاری رہے
تسلی نہ ہو دل اگر یار سے
ہمیں سالہا ہم کناری رہے
ترے ہیں دعا گو سنا خوب ہی
فقیروں کی گر گوش داری رہے
شب وصل تھی یا شب تیغ تھی
کہ لڑتے ہی وے رات ساری رہے
کریں خواب ہمسائے کیونکر کہ یاں
بلا شور و فریاد و زاری رہے
پھرا کرتے ہیں خوار گلیوں میں ہم
کہاں تک یہ بے اعتباری رہے
کج ابرو ان اطفال میں ہے عجب
جو میرؔ آبرو بھی تمہاری رہے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 6, Ghazal No- 1892
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.