زمیں پر میں جو پھینکا خط کو کر بند
زمیں پر میں جو پھینکا خط کو کر بند
بہت تڑپا کیا جوں مرغ پر بند
گرفت دل سے ناچاری ہے یعنی
رہا ہوں بیٹھ میں بھی کر کے گھر بند
پھنسا دل زلف و کاکل میں نہ پوچھو
پڑا ہے ناگہ آکر بند پر بند
سب اس کی چشم پر نیرنگ کے محو
مگر کی ان نے عالم کی نظر بند
چمن میں کیونکے ہم پر بستہ جاویں
بلند از بس کہ ہے دیوار و در بند
بہت پیکان تیر یار ٹوٹے
تمام آہن ہے اب میرا جگر بند
ہوئیں رونے کی مانع میری پلکیں
بندھا خاشاک سے سیلاب پر بند
کہا کیا جائے ان ہونٹوں کے آگے
ہماری لب گزی ہے یہ شکر بند
کھلے بندوں نہ آیا یاں وہ اوباش
پھرا مونڈھے پہ ڈالے بیشتر بند
یہی اوقات ہے گی دید کی یاں
رکھ اپنی چشم کو شام و سحر بند
نچا رہتا تھا چہرہ جس سے سو اب
گریباں میں ہے وہ دست ہنر بند
فن اشعار میں ہوں پہلواں میرؔ
مجھے ہے یاد اس کشتی کا ہر بند
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 3, Ghazal No- 1126
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.