ہم اپنے کاندھوں پہ بار گراں اٹھاتے ہیں
ہم اپنے کاندھوں پہ بار گراں اٹھاتے ہیں
زمیں پہ رہتے ہیں اور آسماں اٹھاتے ہیں
اشارے نعت کے ایمان والا سمجھے گا
زباں کا لطف کہیں بے زباں اٹھاتے ہیں
کہاں چلی گئی بازار مصر کی گرمی
یہ کون آیا کہ آزر دکاں اٹھاتے ہیں
ہم اپنی ذات کا غم بھی اٹھا نہیں پاتے
مگر وہ ہیں کہ غم دو جہاں اٹھاتے ہیں
بھلائے بیٹھے ہیں مغرب کی بارشوں کا عذاب
عقیدتوں کا جو بے چھت مکاں اٹھاتے ہیں
جھمکنے لگتا ہے وہ آستاں نگاہوں میں
سوال سجدوں کا جب آستاں اٹھاتے ہیں
نبی کے عشق کا سرمایہ جن کے پاس نہیں
سنا لحد میں بڑی سختیاں اٹھاتے تھے
عجب نہیں وہ سر حشر سرفراز کرے
ہمارا ناز شہ انس و جاں اٹھاتے ہیں
رئیسؔ ہی سہی لیکن فقیر طیبہ ہوں
وہ جانتے نہیں جو انگلیاں اٹھاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.