میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں اپنے آقا کو میں نذر کیا دوں
میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں اپنے آقا کو میں نذر کیا دوں
اب تو آنکھوں میں کچھ بھی نہیں ہے ورنہ قدموں میں آنکھیں بچھا دوں
آنے والی ہے ان کی سواری پھول نعتوں کے گھر گھر سجا دوں
میرے گھر میں اندھیرا بہت ہے اپنی پلکوں پہ شمعیں جلا دوں
میری جھولی میں کچھ بھی نہیں ہے میرا سرمایہ ہے تو یہی ہے
اپنی آنکھوں کی چاندی بہا دوں اپنے ماتھے کا سونا لٹا دوں
بے نگاہی پہ میری نہ جائیں دیدہ ور میرے نزدیک آئیں
میں یہیں سے مدینہ دکھا دوں دیکھنے کا سلیقہ سکھا دوں
روضۂ پاک پیش نظر ہے سامنے میرے آقا کا در ہے
مجھ کو کیا کچھ نظر آ رہا ہے تم کو لفظوں میں کیسے بتا دوں
قافلے جا رہے ہیں مدینے اور حسرت سے میں تک رہا ہوں
یا لپٹ جاؤں قدموں سے ان کے یا قضا کو میں اپنی صدا دوں
میری بخشش کا ساماں یہی ہے اور دل کا بھی ارماں یہی ہے
ایک دن ان کی خدمت میں جا کر ان کی نعتیں انہی کو سنا دوں
میرے آنسو بہت قیمتی ہیں ان سے وابستہ ہیں ان کی یادیں
ان کی منزل ہے خاک مدینہ یہ گہر یوں ہی کیسے لٹا دوں
مجھ کو اقبالؔ نسبت ہے ان سے جن کا ہر لفظ جان سخن ہے
میں جہاں نعت اپنی سنا دوں ساری محفل کی محفل جگا دوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.