البترا
کتنے سمندر
کتنے صحرا
جنگل اور بارشیں
بے شمار آئینوں کا خالی پن
لمحے یا صدیاں
عبور کر کے
داخل ہوئی
میری تنہائی
تیری تنہائی میں
اے شہر گل سرخ
اے عظیم خوب صورت پتھر
مجھے خزانے سے
کوئی سروکار نہیں
جہاں کھونٹے سے بندھا
لال گھوڑا
تئیس سو برس
کی بے خوابی میں
ایستادہ ہے
مجھے فقط تیری اداس رات کا
ایک کونا درکار ہے
کہ میری خاموشی
تیری خاموشی سے کلام کرے
میرے پاس افسوس کی کہانی ہے
جسے سن کر قدیم چاند
ریت کے آنسو بہائے گا
کہ تیرے ماتمی گلاب سیراب ہوں
اڑتے زمانوں کی دھجیاں
گم شدہ عمروں کی رائگانی
تاریخ کی منافق الماریوں میں
لٹکتے استخواں
مجھے امانت دار پائیں گے
برباد دیواروں کی خراشوں سے
جھانکتا انہماک نہیں ٹوٹے گا
اے گلاب شہر
میں بے زبان قصہ گو
ایک شب بسری کا سوالی ہوں
تیرے سنگین دروازے پر
میں تجھے تیرے جیسا
اپنا دل ہدیہ کروں گا
پتھر کا گلاب
تجھے خاموش داستان سناؤں گا
کسی بہت قدیم زمانے کی
گناہ گار خداؤں سے دور
خالص عبادت گزار اندھیرے میں
صبح ابد کے آخری قہقہے سے بے نیاز
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.