چلنا اور سوچنا
شاید ایک ساتھ سیکھتا ہے آدمی
چلنا اور سوچنا
ایک صحن میں
ایک دن
میں سیکھ گیا
چلنا
اور سوچنا
چڑیوں
پودوں
اور رنگ برنگے کیڑوں کے درمیان
ماں کہتی
تم اتنا چلتے ہو
ایک سیدھ میں چلو
تو شام تک پہنچ جاؤ
کسی اور شہر میں
میں نے آوارگی کی
دوپہروں میں
اکیلے
تاروں بھری راتوں میں
اداس شاعروں
اور جگنوؤں کے ساتھ
میں چلتا رہا
گلیوں میں
شاہراہوں پر
جلوسوں میں
جنازوں کے ساتھ
سوچتے ہوئے
نا انصافی انقلاب
موت خدا اور جہنم
اور بہت سی فضولیات
میں چلتا رہا
بارشوں میں
برف باریوں میں
دھند میں
دھوپ اور آندھیوں میں
سوچتے ہوئے
جو میں بتا سکتا ہوں فخر سے
اور وہ بھی
جو میں خود سے بھی چھپاتا ہوں
میں اجنبی ملکوں میں گیا
تنہا چلنے کے لیے
تنہا سوچنے کے لیے
اب میں لوٹ آیا ہوں
ڈھلتی عمر میں
بغیر کہیں پہنچے ہوئے
اب میں کہیں نہیں جاتا
پر اب بھی چلتا ہوں
ہر روز
کم از کم
ایک گھنٹہ
تیز تیز
پاؤں چکی پر
یہ سوچتے ہوئے
کہ میں کب تک چلوں گا
میں کب تک سوچوں گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.