Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جنگل کے پاس ایک عورت

افضال احمد سید

جنگل کے پاس ایک عورت

افضال احمد سید

MORE BYافضال احمد سید

    نیند کے پاس ایک رات ہے

    میرے پاس ایک کہانی ہے

    جنگل کے پاس ایک عورت تھی

    عورت بچہ پیدا کرنے کے درد سے مر رہی تھی

    ایک شکاری وہاں پہنچ گیا

    اور بچے کی آنکھوں کے عوض

    عورت کی مدد کرنے پر آمادہ ہو گیا

    عورت نے جڑواں بچے جنے

    شکاری کے ہاتھ

    آنکھوں کی دو جوڑیاں آئیں

    اس وقت سکے ایجاد نہیں ہوئے تھے

    ایک جوڑی آنکھ کے بدلے

    زندگی بھر کا سامان خریدا جا سکتا تھا

    جو لوگ دوسروں کی آنکھیں حاصل نہیں کر سکتے

    اپنی آنکھوں کا سودا کر لیتے

    ہر سودے کی طرح

    بیچتے وقت

    آنکھوں کی صرف آدھی قیمت حاصل ہوتی تھی

    آنکھیں بیچنے والے

    صرف آدھی زندگی خرید سکتے تھے

    عورت نے شکاری سے جدا ہو کر

    اپنے بچوں کو جنگل میں چھوڑ دیا

    جیسا کہ اس نے اپنے شوہر کو

    سمندر میں چھوڑ دیا تھا

    بچے بھیڑیوں میں پل کر بڑے ہوئے

    ان میں سے ہر ایک

    دوسرے کو

    اپنی ماں کی کوکھ کا غاصب

    اور اپنی آنکھوں کے سودے کا باعث سمجھنے لگا

    جب

    بیلوں میں پاؤں ٹوٹنے کی بیماری پھیل جانے کی وجہ سے

    اندھے غلاموں کی مانگ بڑھ گئی

    ایک بردہ فروش

    انہیں بھیڑیوں کے غول سے چرا لے گیا

    زمین میں جتے ہوئے اندھے بھائی

    ہل لے کر اتنی مخالف سمت میں چلتے کہ

    ان کے آقا کو

    خدا سے درخواست کر کے

    ایک کھڑکھڑانے والا سانپ ان کے پیچھے لگانا پڑا

    میں بہت دنوں پہلے

    اس شہر کا محاصرہ کرنے آیا تھا

    میرے پرچم پر رہنے والا عقاب اڑ گیا

    میرے سپاہیوں نے

    اپنی تلوار ٹکسالوں میں بیچ دیں

    گھوڑے نے اپنی کھال

    مشکیزہ بنانے والے کو ہدیہ کر دی

    شہر کی دیواروں میں

    شگاف کہاں ہے

    یہ اس کے چرواہوں کو بھی معلوم ہے

    اور ان کی بھیڑوں کو بھی

    مگر یہ جنگ

    غداروں اور چوپایوں کو بھی خرید کر نہیں جیتنا چاہتا

    میں سمندروں کو کشتیوں سے

    اور تلوار کو تلوار سے ناپتا ہوں

    میں غلام عورت کا

    غلام مرد سے پیدا ہوئی اولاد نہیں

    جو ایک غلام شاخ سے کمان

    اور دوسری غلام شاخ سے تیر بناتا ہے

    میں اس کھڑکھڑانے والے سانپ کو کچل دوں گا

    اور جڑواں بھائیوں کے کندھے سے جو اتار کر

    اسے گہری کھائی میں پھینک دوں گا

    میں انہیں لے کر جنگل میں نکل آؤں گا

    اور اس شکاری کو تلاش کروں گا

    جو بچہ پیدا کرنے کے عوض اس کی آنکھیں طلب کرتا ہے

    اور اس ماں کو تلاش کروں گا

    جو بغیر آنکھوں کے بچے کو چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے

    ایک دن بیچی ہوئی آنکھیں

    شکاری سے سودا کر وہ شخص کو پہچان لیں گی

    اور اندھے بچے

    اس آدمی سے آہنی آنکھیں چھین کر

    اپنے شکاری کو ڈھونڈ نکالیں گے

    اور شکاری سے اس عورت کا پتا پوچھ کر رہیں گے

    جو انہیں جنگل میں چھوڑ کر چلی گئی تھی

    چاہے وہ عورت میری بیوی ہی کیوں نہ ہو

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے