موت میرے دروازے پر
دستک نہیں دیتی
حالانکہ اسے ہمارا گلی نمبر معلوم ہے
ابھی کل کی بات ہے
ہمسایوں کی نئی نویلی دلہن بھگا لے گئی
میں اس کی تاک میں رہتا ہوں
وہ آکر مجھے لے جائے
قرضے میں دی ہوئی روح
جو اب بغاوت پر اتر آئی ہے
میں کبھی کبھار موت کو کتا سمجھ کر
زندگی کا گوشت پھینکتا ہوں
وہ بھونکتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے
شاید میری موت پر
نوحہ پڑھنے والا کوئی نہیں
کئی سال بیت گئے
میں لفظوں کا انبار لگا چکا ہوں
مگر آج اس کے سامنے کیا پھینکوں
جسے دیکھ کر وہ جان سکے
میرے بعد یہ الفاظ
نوحہ پڑھیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.