نظم
دیمک چاٹ لیتی ہے
کبھی ہم بھی اپنے نرم لہجے میں
زبان پر اگتے لفظوں کو
کبھی نظموں کبھی غزلوں کی صورت گنگنایا کرتے تھے
کتابوں میں لکھے حرفوں سے
دلوں کو مسخر کرتے تھے
کہ یہاں آئے اداس لوگوں کو
اپنی اداسی بھول جاتی تھی
سماں بدلا اور رت بدلی
ہم اور وہ کتابیں نظموں کی
اب ڈھیر ہیں فقط کاغذ کے
پس زنداں
کسی طاقچے میں بند
زبان پر اب بھی لفظ اگتے ہیں
مگر طاقچے کی دیمک ان کو چاٹ لیتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.