Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شب و روز تماشہ

وحید اختر

شب و روز تماشہ

وحید اختر

MORE BYوحید اختر

    ذہن جب تک ہے

    خیالات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

    ہونٹ جب تک ہیں

    سوالات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

    بحث کرتے رہو لکھتے رہو نظمیں غزلیں

    ذہن پر صدیوں سے طاری ہے جو مجلس کی فضا

    اس خنک آنچ سے کیا پگھلے گی

    سوچ لینے ہی سے حالات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

    نیند میں ڈوبی ہوئی آنکھوں سے وابستہ خواب

    تیز کرنوں کی سنانوں پہ ہی رسوا سر عام

    یہ شہید اپنی صلیبوں سے پلٹ آتے ہیں دل میں ہر شام

    صبح ہوتی ہے مگر رات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

    دن گزر جاتا ہے بے فیض کد و کاوش میں

    ایک ان دیکھے جہنم کی تب و تابش میں

    جسم اور جاں کی تگ و تاز کی ہر پرسش میں

    درد و غم حسرت و محرومی کی ہر کاہش میں

    طلب و ترک طلب سلسلۂ بے پایاں

    مرگ ہی زیست کا عنوان ہے ہر خون شدہ خواہش میں

    غم سے بھاگیں بھی تو فریاد و شکایات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

    وقت وہ دولت نایاب ہے آتا نہیں ہاتھ

    ہم مشینوں کی طرح جیتے ہیں پابندئ اوقات کے ساتھ

    وقت بیکار گزرتا ہی چلا جاتا ہے

    کرسیوں میزوں سے بے معنی ملاقاتوں میں

    سینکڑوں بار کی اگلی ہوئی دہرائی ہوئی باتوں میں

    مندگی رہنے کی تمنا کی مداراتوں میں

    شکم و جاں کی عبادات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

    صبح سے شام تلک اتنے خدا ملتے ہیں ہر کافر کو

    سجدۂ شکر سے انکار کی مہلت نہیں ملنے پاتی

    سینکڑوں لاکھوں خداؤں کی نظر سے چھپ کر

    خود سے مل لینے کی رخصت نہیں ملنے پاتی

    خود پرستوں سے بھی طاعات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

    رات آتی ہے تو دل کہتا ہے ہم اپنے ہیں

    خلوت خواب میں دنیا سے کنارا کر لیں

    کل بھی دینا ہے لہو اپنا دل و دیدہ کی جھولی بھر لیں

    جسم کے شور سے اور روح کی فریاد سے دم گھٹتا ہے

    دن کے بیکار خیالات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

    بے نیازانہ بھی جینا ہے فقط ایک گماں

    فکر موجود کو چھوڑیں تو غم نا موجود

    ساتھ ہر سانس کے ہے سلسلۂ ہست و بود

    غم آفاق کو ٹھکرائیں کریں ترک جہاں

    پھر بھی یہ فکر کہ جینے کا ہو کوئی عنواں

    بے نیازی سے غم ذات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

    ذہن میں اندھے عقیدوں کی سیاہی بھر لو

    تاکہ اس نگری میں

    کبھی افکار کے شعلوں کا گزر ہو نہ سکے

    جبر کا حکم سنو

    ہونٹوں کو اپنے سی لو

    تاکہ ان راہوں سے

    کبھی لفظوں کا سفر ہو نہ سکے

    ذہن و لب پھر بھی نہیں چپ ہوتے

    ان کے خاموش سوالات کی

    پیچ در پیچ خیالات کی

    زنجیر کہاں کٹتی ہے

    مأخذ :
    • کتاب : azadi ke bad urdu nazm (Pg. 611)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے